2017 امریکا کی عالمی بدمعاشی کا اختتام
گرتی ہوئی معیشت، اندرونی اختلافات اور مسخرے صدر کی بے سروپا پالیسز کے باعث امریکا مسلسل تباہی کی جانب گامزن ہے۔
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی خارجہ پالیسی تقریر میں کہا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے، اس کےلیے پاکستان کو ہرسال لاکھوں ڈالر دیئے جاتے ہیں جس کےعوض پاکستان کو دہشت گروں کے خلاف کارروائیوں میں امریکا کی مدد کرنا ہی ہوگی۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ طویل مدتی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے بیان میں امریکی صدر نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مفاہمت کی خواہش کا اظہار کیا لیکن ان کی تقریر میں چھپے ہوئے درپردہ جنگجویانہ انتباہ سے ارباب اختیار کو اب اور بھی زیادہ محتاط رہنےکی ضرورت ہے۔
امریکا کی جانب سے پاکستان کو آنکھیں دکھائے جانے کا عمل اب پہلے سے تیز تر ہوگیا ہے۔ حال ہی میں امریکی سیکریٹری اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے اپنے جارحانہ بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان جن علاقوں میں کارروائی کےلیے امریکا مخالف طرزعمل رکھے گا، وہاں امریکا خودمختاری کے ساتھ کارروائی کرے گا جس کے نتیجے میں پاکستان اپنے بعض علاقوں سے بھی محروم ہوسکتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بیان نہیں، بلکہ اگر دیکھا جائے تو کسی بھی خودمختارملک کےلیے یہ اعلان جنگ سے کم نہیں۔
اس سے قبل بھی امریکی صدرنے پاکستان کو براہ راست دھمکیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکا کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو۔ بقول امریکی صدر، ''ہماری پوری کوشش ہے کہ جوہری ہتھیار یا ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگے۔'' امریکی صدرکے مطابق 20 غیرملکی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں کام کر رہی ہیں جو دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ ہیں۔ پاکستان کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکا سے شراکت داری پاکستان کےلیے بہت سود مندثابت ہوگی لیکن اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کےلیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ تھی ایک اور دھمکی جسے ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت نے سنجیدگی سے لیتے ہوئے متفقہ اور مضبوط جوابی بیان جاری کیا جس میں پاکستان نےامریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کے ساتھ تعاون یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ بنیادوں پر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے امریکی صدر کے بیان پرسخت ترین ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ پاکستان امریکی فوج کا قبرستان بنے، تو ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ سخت ترین مؤقف تھا جسے پاکستان نے امریکا کے خلاف استعمال کیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےاپنے دور صدارت میں جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا ''اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔''
امریکا نے دنیا میں ہمیشہ ایک ایسے بگڑے ہوئے نواب کا کردار ادا کیا ہے جس کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو مانا گیا ہے لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ پاکستان اب وہ پاکستان نہیں جو ایک ڈانٹ پر دیوارسے لگ کر خاموش روتا تھا۔ امریکا کے ساتھ پاکستان کے اس دلیرانہ برتاؤ کی وجوہ کوئی ایک نہیں، اس بات کا تفصیلی تذکرہ پھر کروں گا لیکن یہاں اس دلیری کا ایک حصہ سامنے لانے کی کوشش کروں گا۔ وہ یہ کہ بین الاقوامی منظرنامے میں اب پاکستان انتہائی مضبوط پوزیشن پر کھڑا ہے۔ پاکستان کے ساتھ دنیا کی مخفی سپر پاور چین ہے جو پاکستان کے خلاف امریکی بیان کا پاکستان سے پہلے ردعمل دیتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چین پاکستان کا گہرا دوست ہے اور دوسرا یہ ہے کہ چین نے ''چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور''(سی پیک) میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کی ہے کہ جتنی اس نے پوری دنیا میں علیحدہ علیحدہ کی ہوئی ہے؛ اور یہ بات پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور امریکا بھی بہترین طریقے سے جانتے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے امریکا پاکستان میں دہشت گروں کی موجودگی کو ثابت کرنے کی بیہودہ کوششیں کررہا ہے تاکہ سی پیک کو ناکام بنایا جاسکے اور پاکستان کو، جو اسلامی ممالک میں واحد جوہری ملک ہے، تباہ کیا جاسکے۔
ان حالات کو مدنظررکھتے ہوئے اگر امریکا نئی پالیسی کے تحت پاکستان میں ڈرون حملے دوبارہ شروع کرتا ہے یا ان کا دائرہ کار بڑھاتا ہے، اور ازلی دشمن بھارت بھی اس کی شہ پر جارحانہ رویہ اختیار کرتا ہے، تو پاکستان کو بھی سخت اور واضح مؤقف اپناتے ہوئے طالبان کی سپورٹ کا آپشن استعمال کرنا چاہیے۔ (طالبان کو استعمال کرنا خالصتاً خارجہ پالیسی کا حصہ ہوسکتا ہے کیوںکہ کسی بھی ملک کو اپنی سلامتی کےلیے اپنے دفاع کا مکمل اختیارحاصل ہوتا ہے۔) اگر امریکا کی جانب سے ڈرون حملہ کیا جائے تو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ملک کی حدود میں اسے گرایا جائے تاکہ بین الاقوامی سطح پر ملکی سلامتی کے دفاع کے قانون کے تحت کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔ اگر دیکھا جائے تو امریکی ڈورن کو گرانا ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن پاکستان کو اپنی مستحکم پوزیشن کو سمجھنا چاہیے۔
امریکی دھمکیوں کے جواب میں وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ اور آرمی چیف کے سخت ترین مؤقف دنیا کے سامنے آئے ہیں جبکہ ایئرچیف مارشل نے اپنی تقریر میں پاکستان کے تمام دشمنوں بشول امریکا کو مخاطب کرتے ہوئے واضح انداز میں کہا تھا کہ پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اگر امریکی ڈرون طیاروں نے ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی کی تو انہیں مار گرائیں گے۔
امریکا دنیا بھر میں اپنی حکمرانی چاہتا ہے جس کےلیے وہ نہ اقوام متحدہ کو خاطرمیں لاتا ہے اور نہ تنقید اور احتجاج کو۔ افغانستان میں بدترین شکست کے باوجود امریکا خطے سے رخصت نہیں ہوناچاہتا۔ درحقیقت امریکا کا ہدف افغانستان نہیں بلکہ پاکستان تھا جسے تباہ کرنے کےلیے ابھی تک امریکا کو وجہ نہیں مل رہی۔ امریکا پاکستان کا وہ دشمن ہے جس کی بغل میں چھری اور منہ پر رام رام ہمیشہ رہا ہے، لیکن اب پاکستان کے ملکی مفاد میں بہترین پالیسیز سے امریکی شکست سامنے آتی جارہی ہے جس سے امریکا کے مزاج میں تلخی بڑھتی جارہی ہے اور وہ اب پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو، جو اسے کبھی قبول نہیں تھے، غیرمحفوظ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے تاکہ پاکستان کے جوہری اثاثوں پردہشت گروں کے قبضے کا بے بنیاد نعرہ لگاتے ہوئے اسے عراق اور افغانستان بناسکے۔
امریکی صدر نے اپنی حالیہ اپنی تقریر میں ایک بار پھر اسی فضول خدشے کا اظہار کیا ہے جس کی کوئی امید ہی نہیں کیونکہ پاکستان فوج دنیا کی وہ واحد فوج ہے جس نے 'ضرب عضب' کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا فوجی آپریشن کامیابی سے مکمل کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان مسلسل اس بات کا ثبوت دیتا رہے کہ وہ اپنے جوہری اثاثوں کا محافظ ہے۔
یہاں یہ بات بھی خارج ازامکان نہیں کہ امریکا اپنی شکست کو اتنی آسانی سے کبھی نہیں مانے گا اور پاکستان کے دیگر دشمنوں (اور اپنے اتحادیوں) کےساتھ مل کر ملک کے جوہری اثاثے کو لاحق خطرات کا خودساختہ نعرہ لگا کر گھسنے کی کوشش کرے گا۔ اس صورتحال میں امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے سوا پاکستان کے پاس دوسرا کوئی اورراستہ نہیں۔
یہ بات اب بالکل واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ چین کی علاقائی برتری کا مقابلہ کرنے اور اسے سپر پاور بننے سے روکنے کے لئے بھارت کو اپنا اتحادی بنا چکا ہے اور یہ دونوں ممالک چین کی علاقائی برتری کو روکنےکےلئے تمام وسائل بروئے کار لارہےہیں،
دوسری جانب خطے میں بھارت کی طاقت میں اضافہ پاکستان کے لئے ایک مسلسل خطرہ ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کو اس حوالے سے پاکستان کے خدشات سے کوئی سروکار نہیں یا پھر امریکہ اپنی اس پالیسی کے تحت پاکستان کی بھارت مخالفت میں کمی کرنا چاہتا ہے تاکہ بھارت پاکستان سے بے فکر ہوکر چین کے خلاف امریکہ کے لئے آلہ ِ کار کاکردار ادا کرسکے۔ امریکی ڈیفنس سیکرٹری کے حالیہ دورہِ بھارت سے اوپر بیان کئے گئے دلائل کو تقویت ملتی ہے کیونکہ اس دورے میں نہ صرف بھارت امریکہ تعلقات میں مزید بہتری کی بات کی گئی ہے بلکہ افغانستان میں بھارت کے کردار میں اضافے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا اور ایٹمی میزائل کی صلاحیت کا حامل ہونا وہ عوامل ہیں جو کہ پاکستان کو بھارت کو خطے کا سربراہ ماننے سے روکنے کے علاوہ امریکہ کی مکمل اطاعت سے بھی روکتی ہیں۔ اگر پاکستان جوہری طاقت نہ ہوتا تو اب تک پاکستان پر عراق کی طرح بمباری کی جاچکی ہوتی ، دنیا بھرمیں مسلمان ممالک جس طرح استحصال کا شکار ہیں یہ ایک الگ قصہ ہے لیکن یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ دنیا بھرمیں مسلمانوں کےخلاف کوئی بھی اقدام کرنے یا ہونے کے بعد عالم کفر سب سے پہلے پاکستان کا ردعمل دیکھتا ہے، حالانکہ سعودی عرب مذہبی اعتبار سے اسلامی ممالک میں سے قابل عزت اور معتبر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کے مؤقف کو اسلامی ممالک کا مؤقف سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم کفر سب سے زیادہ کوششیں پاکستان کو غیرمستحکم کرنے پر صرف کرتا ہے۔
امریکا اب کھلے عام دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف اقدامات کررہا ہے۔ شام، عراق، لیبیا، تیونس، یمن، ایران، اردن، مصر، میں داعش القاعدہ کا کردار اس کی حقیقت اور امریکا کا اس سے تعلق کے حوالے سے مغربی میڈیا بھی کھل کربات کررہا ہے جبکہ مسلمانوں کی شہ رگ کا درجہ رکھنے والے ملک فلسطین کے حوالے سے امریکا کا کردار دنیا دیکھ ہی رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے شہر بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے بعد سے دنیا بھر میں یکطرفہ امریکی فیصلے کی شدید مذمت دیکھنے میں آرہی ہے لیکن امریکا نے روایتی بدمعاشی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ جاری رکھا ہے۔
اسرائیل کی حمایت میں امریکا نے نہ صرف اس عالمی احتجاج کو یکسر نظرانداز کیا بلکہ اقوام متحدہ میں امریکی فیصلے کےخلاف منظور ہونے والی قرارداد کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی لیکن اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر میں اپنے یکطرفہ فیصلے کے باعث امریکا کو جس بے عزتی اور ہتک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ امریکا کی بدمعاشیاں، دھونس، دھمکیاں اور ہٹ دھرمی کا دور ختم ہونے والا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنے کی جرأت پاکستان نے کی ہے کہ بہت ہوگیا! اب تمھاری دھونس اور دھمکیاں مزید ہرگز نہیں سنیں گے۔
دہشت گردی کے عفریت میں 50 ہزار سے زیادہ شہریوں کی قربانی دینے والے ملک پاکستان کا جیسا ردِعمل سامنے آیا، وہ تمام مسلم ممالک کے مقابلے میں نمایاں ترین تھا۔ گرتی ہوئی معیشت، اندرونی اختلافات اور مسخرے صدر کی بے سروپا پالیسز کے باعث امریکا مسلسل تباہی کی جانب گامزن ہے لیکن امریکا دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ ختم کرنے پر آمادہ ہرگز نہیں۔ ان حالات کے پیش نظر امریکا اور اس کے حواری یقینی طور پر پاکستان کو ڈرا دھمکا کر، لالچ دے کر یا کسی بھی دوسری حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے کمزور اور اپنا دستِ نگر رکھنا چاہیں گے۔ تاہم پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو اس بات کا ادراک ہے کہ پہلے امریکا کی ہاں میں ہاں ملانا ہماری مجبوری تھی اور اب اس کی آنکھ سے آنکھ ملاکر اپنے مؤقف کا اظہار کرنا ہی ملکی سالیمت کےلیے ضروری ہے۔
یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صرف ایک سال کے عرصے میں پاکستان نے بڑی تیزی کے ساتھ ''تھینک یو امریکا'' سے ''نو تھینکس امریکا'' تک کا سفر طے کرلیا ہے۔ البتہ دوراندیش اور ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سخت فیصلے ہی پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کی ضمانت ہوں گے۔ آنے والا وقت اس فیصلے کی توثیق کرے گا کہ ملکی مفادات میں لیے گئے فیصلے ہی ملک و ملت کو دنیا کی امامت کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ ربّ کریم روزِ قیامت تک پاکستان کی حفاظت کرے (آمین)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
امریکا کی جانب سے پاکستان کو آنکھیں دکھائے جانے کا عمل اب پہلے سے تیز تر ہوگیا ہے۔ حال ہی میں امریکی سیکریٹری اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے اپنے جارحانہ بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان جن علاقوں میں کارروائی کےلیے امریکا مخالف طرزعمل رکھے گا، وہاں امریکا خودمختاری کے ساتھ کارروائی کرے گا جس کے نتیجے میں پاکستان اپنے بعض علاقوں سے بھی محروم ہوسکتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بیان نہیں، بلکہ اگر دیکھا جائے تو کسی بھی خودمختارملک کےلیے یہ اعلان جنگ سے کم نہیں۔
اس سے قبل بھی امریکی صدرنے پاکستان کو براہ راست دھمکیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکا کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو۔ بقول امریکی صدر، ''ہماری پوری کوشش ہے کہ جوہری ہتھیار یا ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگے۔'' امریکی صدرکے مطابق 20 غیرملکی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں کام کر رہی ہیں جو دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ ہیں۔ پاکستان کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکا سے شراکت داری پاکستان کےلیے بہت سود مندثابت ہوگی لیکن اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کےلیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ تھی ایک اور دھمکی جسے ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت نے سنجیدگی سے لیتے ہوئے متفقہ اور مضبوط جوابی بیان جاری کیا جس میں پاکستان نےامریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کے ساتھ تعاون یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ بنیادوں پر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے امریکی صدر کے بیان پرسخت ترین ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ پاکستان امریکی فوج کا قبرستان بنے، تو ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ سخت ترین مؤقف تھا جسے پاکستان نے امریکا کے خلاف استعمال کیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےاپنے دور صدارت میں جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا ''اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔''
امریکا نے دنیا میں ہمیشہ ایک ایسے بگڑے ہوئے نواب کا کردار ادا کیا ہے جس کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو مانا گیا ہے لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ پاکستان اب وہ پاکستان نہیں جو ایک ڈانٹ پر دیوارسے لگ کر خاموش روتا تھا۔ امریکا کے ساتھ پاکستان کے اس دلیرانہ برتاؤ کی وجوہ کوئی ایک نہیں، اس بات کا تفصیلی تذکرہ پھر کروں گا لیکن یہاں اس دلیری کا ایک حصہ سامنے لانے کی کوشش کروں گا۔ وہ یہ کہ بین الاقوامی منظرنامے میں اب پاکستان انتہائی مضبوط پوزیشن پر کھڑا ہے۔ پاکستان کے ساتھ دنیا کی مخفی سپر پاور چین ہے جو پاکستان کے خلاف امریکی بیان کا پاکستان سے پہلے ردعمل دیتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چین پاکستان کا گہرا دوست ہے اور دوسرا یہ ہے کہ چین نے ''چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور''(سی پیک) میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کی ہے کہ جتنی اس نے پوری دنیا میں علیحدہ علیحدہ کی ہوئی ہے؛ اور یہ بات پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور امریکا بھی بہترین طریقے سے جانتے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے امریکا پاکستان میں دہشت گروں کی موجودگی کو ثابت کرنے کی بیہودہ کوششیں کررہا ہے تاکہ سی پیک کو ناکام بنایا جاسکے اور پاکستان کو، جو اسلامی ممالک میں واحد جوہری ملک ہے، تباہ کیا جاسکے۔
ان حالات کو مدنظررکھتے ہوئے اگر امریکا نئی پالیسی کے تحت پاکستان میں ڈرون حملے دوبارہ شروع کرتا ہے یا ان کا دائرہ کار بڑھاتا ہے، اور ازلی دشمن بھارت بھی اس کی شہ پر جارحانہ رویہ اختیار کرتا ہے، تو پاکستان کو بھی سخت اور واضح مؤقف اپناتے ہوئے طالبان کی سپورٹ کا آپشن استعمال کرنا چاہیے۔ (طالبان کو استعمال کرنا خالصتاً خارجہ پالیسی کا حصہ ہوسکتا ہے کیوںکہ کسی بھی ملک کو اپنی سلامتی کےلیے اپنے دفاع کا مکمل اختیارحاصل ہوتا ہے۔) اگر امریکا کی جانب سے ڈرون حملہ کیا جائے تو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ملک کی حدود میں اسے گرایا جائے تاکہ بین الاقوامی سطح پر ملکی سلامتی کے دفاع کے قانون کے تحت کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔ اگر دیکھا جائے تو امریکی ڈورن کو گرانا ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن پاکستان کو اپنی مستحکم پوزیشن کو سمجھنا چاہیے۔
امریکی دھمکیوں کے جواب میں وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ اور آرمی چیف کے سخت ترین مؤقف دنیا کے سامنے آئے ہیں جبکہ ایئرچیف مارشل نے اپنی تقریر میں پاکستان کے تمام دشمنوں بشول امریکا کو مخاطب کرتے ہوئے واضح انداز میں کہا تھا کہ پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اگر امریکی ڈرون طیاروں نے ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی کی تو انہیں مار گرائیں گے۔
امریکا دنیا بھر میں اپنی حکمرانی چاہتا ہے جس کےلیے وہ نہ اقوام متحدہ کو خاطرمیں لاتا ہے اور نہ تنقید اور احتجاج کو۔ افغانستان میں بدترین شکست کے باوجود امریکا خطے سے رخصت نہیں ہوناچاہتا۔ درحقیقت امریکا کا ہدف افغانستان نہیں بلکہ پاکستان تھا جسے تباہ کرنے کےلیے ابھی تک امریکا کو وجہ نہیں مل رہی۔ امریکا پاکستان کا وہ دشمن ہے جس کی بغل میں چھری اور منہ پر رام رام ہمیشہ رہا ہے، لیکن اب پاکستان کے ملکی مفاد میں بہترین پالیسیز سے امریکی شکست سامنے آتی جارہی ہے جس سے امریکا کے مزاج میں تلخی بڑھتی جارہی ہے اور وہ اب پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو، جو اسے کبھی قبول نہیں تھے، غیرمحفوظ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے تاکہ پاکستان کے جوہری اثاثوں پردہشت گروں کے قبضے کا بے بنیاد نعرہ لگاتے ہوئے اسے عراق اور افغانستان بناسکے۔
امریکی صدر نے اپنی حالیہ اپنی تقریر میں ایک بار پھر اسی فضول خدشے کا اظہار کیا ہے جس کی کوئی امید ہی نہیں کیونکہ پاکستان فوج دنیا کی وہ واحد فوج ہے جس نے 'ضرب عضب' کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا فوجی آپریشن کامیابی سے مکمل کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان مسلسل اس بات کا ثبوت دیتا رہے کہ وہ اپنے جوہری اثاثوں کا محافظ ہے۔
یہاں یہ بات بھی خارج ازامکان نہیں کہ امریکا اپنی شکست کو اتنی آسانی سے کبھی نہیں مانے گا اور پاکستان کے دیگر دشمنوں (اور اپنے اتحادیوں) کےساتھ مل کر ملک کے جوہری اثاثے کو لاحق خطرات کا خودساختہ نعرہ لگا کر گھسنے کی کوشش کرے گا۔ اس صورتحال میں امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے سوا پاکستان کے پاس دوسرا کوئی اورراستہ نہیں۔
یہ بات اب بالکل واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ چین کی علاقائی برتری کا مقابلہ کرنے اور اسے سپر پاور بننے سے روکنے کے لئے بھارت کو اپنا اتحادی بنا چکا ہے اور یہ دونوں ممالک چین کی علاقائی برتری کو روکنےکےلئے تمام وسائل بروئے کار لارہےہیں،
دوسری جانب خطے میں بھارت کی طاقت میں اضافہ پاکستان کے لئے ایک مسلسل خطرہ ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کو اس حوالے سے پاکستان کے خدشات سے کوئی سروکار نہیں یا پھر امریکہ اپنی اس پالیسی کے تحت پاکستان کی بھارت مخالفت میں کمی کرنا چاہتا ہے تاکہ بھارت پاکستان سے بے فکر ہوکر چین کے خلاف امریکہ کے لئے آلہ ِ کار کاکردار ادا کرسکے۔ امریکی ڈیفنس سیکرٹری کے حالیہ دورہِ بھارت سے اوپر بیان کئے گئے دلائل کو تقویت ملتی ہے کیونکہ اس دورے میں نہ صرف بھارت امریکہ تعلقات میں مزید بہتری کی بات کی گئی ہے بلکہ افغانستان میں بھارت کے کردار میں اضافے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا اور ایٹمی میزائل کی صلاحیت کا حامل ہونا وہ عوامل ہیں جو کہ پاکستان کو بھارت کو خطے کا سربراہ ماننے سے روکنے کے علاوہ امریکہ کی مکمل اطاعت سے بھی روکتی ہیں۔ اگر پاکستان جوہری طاقت نہ ہوتا تو اب تک پاکستان پر عراق کی طرح بمباری کی جاچکی ہوتی ، دنیا بھرمیں مسلمان ممالک جس طرح استحصال کا شکار ہیں یہ ایک الگ قصہ ہے لیکن یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ دنیا بھرمیں مسلمانوں کےخلاف کوئی بھی اقدام کرنے یا ہونے کے بعد عالم کفر سب سے پہلے پاکستان کا ردعمل دیکھتا ہے، حالانکہ سعودی عرب مذہبی اعتبار سے اسلامی ممالک میں سے قابل عزت اور معتبر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کے مؤقف کو اسلامی ممالک کا مؤقف سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم کفر سب سے زیادہ کوششیں پاکستان کو غیرمستحکم کرنے پر صرف کرتا ہے۔
امریکا اب کھلے عام دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف اقدامات کررہا ہے۔ شام، عراق، لیبیا، تیونس، یمن، ایران، اردن، مصر، میں داعش القاعدہ کا کردار اس کی حقیقت اور امریکا کا اس سے تعلق کے حوالے سے مغربی میڈیا بھی کھل کربات کررہا ہے جبکہ مسلمانوں کی شہ رگ کا درجہ رکھنے والے ملک فلسطین کے حوالے سے امریکا کا کردار دنیا دیکھ ہی رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے شہر بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے بعد سے دنیا بھر میں یکطرفہ امریکی فیصلے کی شدید مذمت دیکھنے میں آرہی ہے لیکن امریکا نے روایتی بدمعاشی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ جاری رکھا ہے۔
اسرائیل کی حمایت میں امریکا نے نہ صرف اس عالمی احتجاج کو یکسر نظرانداز کیا بلکہ اقوام متحدہ میں امریکی فیصلے کےخلاف منظور ہونے والی قرارداد کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی لیکن اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر میں اپنے یکطرفہ فیصلے کے باعث امریکا کو جس بے عزتی اور ہتک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ امریکا کی بدمعاشیاں، دھونس، دھمکیاں اور ہٹ دھرمی کا دور ختم ہونے والا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنے کی جرأت پاکستان نے کی ہے کہ بہت ہوگیا! اب تمھاری دھونس اور دھمکیاں مزید ہرگز نہیں سنیں گے۔
دہشت گردی کے عفریت میں 50 ہزار سے زیادہ شہریوں کی قربانی دینے والے ملک پاکستان کا جیسا ردِعمل سامنے آیا، وہ تمام مسلم ممالک کے مقابلے میں نمایاں ترین تھا۔ گرتی ہوئی معیشت، اندرونی اختلافات اور مسخرے صدر کی بے سروپا پالیسز کے باعث امریکا مسلسل تباہی کی جانب گامزن ہے لیکن امریکا دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ ختم کرنے پر آمادہ ہرگز نہیں۔ ان حالات کے پیش نظر امریکا اور اس کے حواری یقینی طور پر پاکستان کو ڈرا دھمکا کر، لالچ دے کر یا کسی بھی دوسری حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے کمزور اور اپنا دستِ نگر رکھنا چاہیں گے۔ تاہم پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو اس بات کا ادراک ہے کہ پہلے امریکا کی ہاں میں ہاں ملانا ہماری مجبوری تھی اور اب اس کی آنکھ سے آنکھ ملاکر اپنے مؤقف کا اظہار کرنا ہی ملکی سالیمت کےلیے ضروری ہے۔
یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صرف ایک سال کے عرصے میں پاکستان نے بڑی تیزی کے ساتھ ''تھینک یو امریکا'' سے ''نو تھینکس امریکا'' تک کا سفر طے کرلیا ہے۔ البتہ دوراندیش اور ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سخت فیصلے ہی پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کی ضمانت ہوں گے۔ آنے والا وقت اس فیصلے کی توثیق کرے گا کہ ملکی مفادات میں لیے گئے فیصلے ہی ملک و ملت کو دنیا کی امامت کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ ربّ کریم روزِ قیامت تک پاکستان کی حفاظت کرے (آمین)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔