مہمند ایجنسی میں دہشت گردی اور امریکا کا رویہ
افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے فاٹا کی مہمند ایجنسی میں پاکستانی ایف سی کے 3 نوجوانوں کو شہید کردیا
افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے فاٹا کی مہمند ایجنسی میں پاکستانی ایف سی کے تین نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق مہمند ایجنسی میں شنگرانی کے علاقے میں افغان سرحد کے قریب پاکستانی اہلکار نئی سرحدی چوکی بنانے میں مصروف تھے کہ سرحد پار سے ان پر فائرنگ کی گئی۔ جوابی فائرنگ سے متعدد دہشت گرد بھی ہلاک وزخمی ہوئے۔
عجیب بات یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان مخالف بیانات جاری کر رہے ہیں جب کہ حالت یہ ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک قائم ہے اور افغان حکومت اس حوالے سے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے الزامات پاکستان پر عائد کررہی ہے۔ افغانستان کے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔ وہ پاک افغان سرحد کو فول پروف بنانے میں بھی ناکام ہے بلکہ ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں کہ افغان سیکیورٹی اہلکار دہشت گردوں کے ساتھ ملے ہوتے ہیں اور ان کو پاکستان میں داخلے کے لیے باآسانی راستہ مل جاتا ہے۔
جمعہ کو جب پاکستانی ایف سی اہلکاروں پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اسی روز امریکا کے نائب صدر مائیک پینس نے افغانستان میں بگرام ایئربیس پر امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ اگر پاکستان نے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی جاری رکھی تو وہ بہت کچھ کھو دے گا۔ انھوں نے کہا کہ ٹرمپ حکومت نے امریکی فوج کو دہشت گردوں اور ان کے اڈوں کو کہیں بھی نشانہ بنانے کا اختیار دے دیا ہے، چاہے وہ کہیں بھی چھپے ہوں، انھوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کو نوٹس دے چکے ہیں کہ اسے پاکستان میں موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنی ہوں گی۔ مائیک پینس کے یہ بیانات میڈیا میں شائع ہوئے ہیں۔
امریکا کی جانب سے اس قسم کے ڈومور کی باتیں کوئی نئی نہیں ہیں، ہر دور میں ایسا ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ رہا ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کی یہی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اسی سوچ اور اپروچ کی بناء پر افغانستان میں اتحادی فوجیں طالبان کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کر سکیں۔
امریکا پاکستان سے تو ڈومور کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن اسے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ امریکا افغانستان کو بھی اربوں ڈالر دے چکا ہے جب کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے افغانستان کی حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں، امریکا کے حکام کو اس سوال کا جواب افغانستان سے ضرور طلب کرنا چاہیے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کو امداد دینے کی بات کرتے ہوئے طعنہ دیتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف اس طرح کارروائی نہیں کی جس طرح کرنی چاہیے تھی لیکن یہ سوال تو افغانستان سے پوچھا جانا چاہیے کہ سابق صدر کرزئی اور موجودہ صدارتی جوڑا اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے اس حوالے سے کیا اقدام کیا ہے یا کیا کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
اصل بات یہی ہے کہ افغانستان کے دامن میں سوائے ناکامیوں کے کچھ بھی نہیں ہے اور وہ اپنی ناکامیوں اور مایوسی کو چھپانے کے لیے امریکی حکام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ گزشتہ روز ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے دوٹوک انداز میں واضح کیا ہے کہ پاکستان امریکی امداد کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہا اور نہ ہی پاکستان برائے فروخت ہے، جس طرح پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی کسی اور ملک نے نہیں لڑی، پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اچھے رہنے چاہییں، اتحادی ایک دوسرے کو نوٹسز نہیں دیتے اور الزام تراشیاں نہیں کرتے، بات چیت چاہے فارن ڈپلومیسی کے ذریعے ہو یا ملٹری ڈپلومیسی کے ذریعے چلتی رہنی چاہیے اور یہ چلے گی، ہم افغانستان میں امریکا کی جنگ نہیں لڑ سکتے، ہم امریکا سے ہر طرح کا دفاعی تعاون کرنے کو تیار ہیں اور کر بھی رہے ہیں لیکن بلیم گیم سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ بالکل درست مؤقف ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ پاکستان آج جن مسائل سے دوچار ہے اس کی بنیادی وجہ افغانستان ہے۔ افغانستان میں دہشت گرد آزادانہ نقل وحرکت کر رہے ہیں۔ وہیں سے یہ لوگ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ اگر افغانستان کی سیکیورٹی ایجنسیاں اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں تو یہ لوگ کسی طرح بھی ڈیورنڈ لائن کراس کر کے پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان نے اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف زبردست کارروائی کی ہے۔ پہلے انھیں سوات سے بھگایا گیا، پھر جنوبی وزیرستان کو دہشت گردوں سے آزاد کرایا گیا اور پھر شمالی وزیرستان سے انھیں اکھاڑ پھینکا گیا۔ پاکستان آج بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ردالفساد کر رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس نے حقیقی معنوں میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ پاکستان کی افواج نے محض دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہی نہیں لڑی بلکہ انھیں شکست بھی دی ہے جب کہ اگر ہم دیگر ممالک کا جائزہ لیں تو اس حوالے سے ان کی کارکردگی صفر ہے۔ بھارت نے دہشت گردی کے خلاف خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہایا جب کہ افغانستان کی حالت یہ ہے کہ وہاں آج بھی طالبان کا بڑے علاقے پر قبضہ ہے جب کہ افغانستان کے اقتدار پر قابض گروہ امریکا اور مغربی ممالک سے اربوں ڈالر ہڑپ کر رہا ہے۔
اگر ہم امریکا اور اتحادی افواج کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیں تو وہ بھی افغانستان میں حتمی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے امریکا کو اپنے دیرینہ اتحادی کے ساتھ معاملات کرنے ہوں گے، امریکی پالیسی سازوں کو اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ امریکا افغانستان میں اسی صورت کامیاب ہو سکتا ہے جب اسے پاکستان کا ساتھ ملے اور اس ساتھ کو حاصل کرنے کے لیے الزام تراشی یا دھمکی کے طرزعمل کو ترک کر کے دوستانہ رویہ اختیار کرنا ہو گا۔
عجیب بات یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان مخالف بیانات جاری کر رہے ہیں جب کہ حالت یہ ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک قائم ہے اور افغان حکومت اس حوالے سے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے الزامات پاکستان پر عائد کررہی ہے۔ افغانستان کے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔ وہ پاک افغان سرحد کو فول پروف بنانے میں بھی ناکام ہے بلکہ ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں کہ افغان سیکیورٹی اہلکار دہشت گردوں کے ساتھ ملے ہوتے ہیں اور ان کو پاکستان میں داخلے کے لیے باآسانی راستہ مل جاتا ہے۔
جمعہ کو جب پاکستانی ایف سی اہلکاروں پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اسی روز امریکا کے نائب صدر مائیک پینس نے افغانستان میں بگرام ایئربیس پر امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ اگر پاکستان نے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی جاری رکھی تو وہ بہت کچھ کھو دے گا۔ انھوں نے کہا کہ ٹرمپ حکومت نے امریکی فوج کو دہشت گردوں اور ان کے اڈوں کو کہیں بھی نشانہ بنانے کا اختیار دے دیا ہے، چاہے وہ کہیں بھی چھپے ہوں، انھوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کو نوٹس دے چکے ہیں کہ اسے پاکستان میں موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنی ہوں گی۔ مائیک پینس کے یہ بیانات میڈیا میں شائع ہوئے ہیں۔
امریکا کی جانب سے اس قسم کے ڈومور کی باتیں کوئی نئی نہیں ہیں، ہر دور میں ایسا ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ رہا ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کی یہی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اسی سوچ اور اپروچ کی بناء پر افغانستان میں اتحادی فوجیں طالبان کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کر سکیں۔
امریکا پاکستان سے تو ڈومور کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن اسے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ امریکا افغانستان کو بھی اربوں ڈالر دے چکا ہے جب کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے افغانستان کی حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں، امریکا کے حکام کو اس سوال کا جواب افغانستان سے ضرور طلب کرنا چاہیے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کو امداد دینے کی بات کرتے ہوئے طعنہ دیتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف اس طرح کارروائی نہیں کی جس طرح کرنی چاہیے تھی لیکن یہ سوال تو افغانستان سے پوچھا جانا چاہیے کہ سابق صدر کرزئی اور موجودہ صدارتی جوڑا اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے اس حوالے سے کیا اقدام کیا ہے یا کیا کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
اصل بات یہی ہے کہ افغانستان کے دامن میں سوائے ناکامیوں کے کچھ بھی نہیں ہے اور وہ اپنی ناکامیوں اور مایوسی کو چھپانے کے لیے امریکی حکام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ گزشتہ روز ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے دوٹوک انداز میں واضح کیا ہے کہ پاکستان امریکی امداد کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہا اور نہ ہی پاکستان برائے فروخت ہے، جس طرح پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی کسی اور ملک نے نہیں لڑی، پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اچھے رہنے چاہییں، اتحادی ایک دوسرے کو نوٹسز نہیں دیتے اور الزام تراشیاں نہیں کرتے، بات چیت چاہے فارن ڈپلومیسی کے ذریعے ہو یا ملٹری ڈپلومیسی کے ذریعے چلتی رہنی چاہیے اور یہ چلے گی، ہم افغانستان میں امریکا کی جنگ نہیں لڑ سکتے، ہم امریکا سے ہر طرح کا دفاعی تعاون کرنے کو تیار ہیں اور کر بھی رہے ہیں لیکن بلیم گیم سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ بالکل درست مؤقف ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ پاکستان آج جن مسائل سے دوچار ہے اس کی بنیادی وجہ افغانستان ہے۔ افغانستان میں دہشت گرد آزادانہ نقل وحرکت کر رہے ہیں۔ وہیں سے یہ لوگ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ اگر افغانستان کی سیکیورٹی ایجنسیاں اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں تو یہ لوگ کسی طرح بھی ڈیورنڈ لائن کراس کر کے پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان نے اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف زبردست کارروائی کی ہے۔ پہلے انھیں سوات سے بھگایا گیا، پھر جنوبی وزیرستان کو دہشت گردوں سے آزاد کرایا گیا اور پھر شمالی وزیرستان سے انھیں اکھاڑ پھینکا گیا۔ پاکستان آج بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ردالفساد کر رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس نے حقیقی معنوں میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ پاکستان کی افواج نے محض دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہی نہیں لڑی بلکہ انھیں شکست بھی دی ہے جب کہ اگر ہم دیگر ممالک کا جائزہ لیں تو اس حوالے سے ان کی کارکردگی صفر ہے۔ بھارت نے دہشت گردی کے خلاف خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہایا جب کہ افغانستان کی حالت یہ ہے کہ وہاں آج بھی طالبان کا بڑے علاقے پر قبضہ ہے جب کہ افغانستان کے اقتدار پر قابض گروہ امریکا اور مغربی ممالک سے اربوں ڈالر ہڑپ کر رہا ہے۔
اگر ہم امریکا اور اتحادی افواج کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیں تو وہ بھی افغانستان میں حتمی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے امریکا کو اپنے دیرینہ اتحادی کے ساتھ معاملات کرنے ہوں گے، امریکی پالیسی سازوں کو اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ امریکا افغانستان میں اسی صورت کامیاب ہو سکتا ہے جب اسے پاکستان کا ساتھ ملے اور اس ساتھ کو حاصل کرنے کے لیے الزام تراشی یا دھمکی کے طرزعمل کو ترک کر کے دوستانہ رویہ اختیار کرنا ہو گا۔