باون اتوار
وقت کی ریت یوں ہماری مٹھیوں سے پھسل کر گری ہے کہ باون ہفتے باون دنوں سے بھی چھوٹے محسوس ہو رہے ہیں۔
NEW YORK:
یکم جنوری 2017 ، اتوارکو میرا اس سال کا پہلا کالم شائع ہوا تھا... آج 24 دسمبر، اتوار کو میرا اس برس کا آخری کالم آپ کے ہاتھوں میں ہے- سال کے باون ہفتے، میرے کالموں کے باون اتوار بنتے ہیں، وقت کی ریت یوں ہماری مٹھیوں سے پھسل کر گری ہے کہ باون ہفتے باون دنوں سے بھی چھوٹے محسوس ہو رہے ہیں- ہماری زندگیاں یونہی تیزی سے گزر رہی ہیں ، ہمیں احساس تک نہیں ہوتا اور چوبیس گھنٹوں کا ایک ایک دن یوں ٹپ ٹپ کر کے جا رہا ہے جیسے کسی خراب نل سے پانی کا قطرہ قطرہ ٹپک کر ضائع ہو رہا ہو- میں ہر سال کے اختتام پر اپنا اور اپنے ارد گرد کے حالات کا جائزہ لیتی ہوں، سوچتی ہوں اور نوٹ کرتی ہوں کہ اس برس سے ہم نے کیا سیکھا، کیا سکھایا، کیا کمایا، کیا سلجھایا، کیا الجھایا، کیا بگاڑا، کیا سنوارا، کیا پایا اور کیا گنوایا-
ہر برس کے اختتامی ہفتے کی طرح اس وقت بھی اختتامی ہفتہ چل رہا ہے اور میں اس احساس محرومی میں ہر بار کی طرح مبتلا ہوں کہ مذہبی، سیاسی، دینی ، دنیاوی اورذاتی طور پر بھی میں نے اس سال کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا- سال کے آغاز میں مضبوط ترین ارادوں کے باوجود بمشکل چند چھوٹے چھوٹے اچھے کاموں کی ایک چھوٹی سی گٹھڑی سمیٹی ہے- ( اس کار خیر میں میرے بہت پیارے احباب اورقارئین کی کاوشیںبھی شامل ہیں اس لیے اس کے بارے میں، اس کے پایہء تکمیل تک پہنچ کر کچھ بیان کروں گی) - نہ چاہتے ہوئے بھی غلطیوں، پچھتاؤں، خساروں اور گناہوں کا گٹھڑ اور بھی بھاری ہو گیا ہے- جتنی کوشش کرو کہ شیطان کا کوئی حربہ کامیاب نہ ہونے دیں گے، کچھ نہ کچھ ایسا نا دانستہ بھی ہو جاتا ہے جو دنوں تک ضمیر پر بوجھ رکھتا ہے، اس کا بوجھ اس وقت ہٹتا ہے جب کوئی اور غلطی سرزد ہو جاتی ہے اور تازہ بوجھ اس کی جگہ لینے کو آجاتا ہے-
جتنی کوشش ہم سال کے آخر میں، نئے سال کے لیے اپنے مقاصد کا تعین کرنےResolution بنانے میں لگاتے ہیں، اگلا پوراسال بھر ہم اسے مڑ کر دیکھتے تک نہیں- یونہی آنکھوں پر غفلت کی پٹی پڑی رہتی ہے اور برس بگٹٹ بھاگتا ہوا اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے- ہم لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں، ان کی اختتامی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں، انھیں قبر میں اترتا ہوا دیکھتے ہیں، مٹھی بھر مٹی بھی اپنے ہاتھ سے ڈالتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی سوچتے ہیں کہ موت صرف اسی کو آنا تھی، ہم تو شاید ہمیشہ اسی طرح اس زمین پر دندناتے رہیں گے-
ہم اسپتالوں میں دوا اور علاج کے لیے تڑپتے ہوئے لوگوں کو دیکھتے ہیں، ان کے لیے دعائیں کرنے کے لیے درباروں اور مزاروں پر ان کے اقارب کو ماتھے ٹیکتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں، انھیں ڈاکٹروں کے آگے ہاتھ باندھتے، بچوں کو درد سے کرلاتے، عورتوں کو رکشوں ، سڑکوں اور اسپتالوں کے صحنوں میں بچے جنتے ہوئے دیکھتے ہیں... انھیں کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں اور دل ہی دل میں کہتے ہیں، ' یہ ان ہی کا مقدر ہے، ہم تو کبھی ان کی جگہ نہیں ہو سکتے! ' یہ نظر اندازی اور خاموشی بھی ایسی بے حسی ہے کہ جس کے لیے ہم اور ہمارے حکمران تک ایک دن ایک بڑے سے دربار میں جواب دہی کے لیے کھڑے ہوں گے ، مگر دنیا چار دنوں کا میلہ ہے سو ہم سب اس میلے میں مزے لوٹ رہے ہیں-
یاد رکھیں، وقت ایک ایسا پہلوان ہے جو انسان کو غفلت میں دیکھ کر پٹخنی دیتا ہے کہ کوئی اس سے سنبھل کر اٹھ نہیں پاتا- وقت بہت بڑا استاد ہے، اچھے اچھوں کو ایسے ایسے سبق سکھاتا ہے کہ جو کوئی اور استاد سکھا سکتا ہے اور نہ کوئی بڑے سے بڑا مکتب- وقت ان ہی کا دوست ہے جو اس کی قدر کرتے اور اسے اچھے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں- اگرچہ یہاں اس کی کوئی تک نہیں بنتی مگر کل ہی ایک ٹرک کے پیچھے لکھا ہوا ایک بے وزن سا شعر یاد آ گیا ہے-
میرے برے وقت کو دیکھ کر مجھے چھوڑ جانے والے!!
وقت آئے گا ایسا جب تم مجھ سے وقت مانگ کر ملو گے
اس وقت ہم نئے سال کے لیے Resolutions بنا رہے ہیں، نئی سوچیں، ارادے اور منصوبے، مگر ہو گا کیا کہ ادھر نیا سال شروع ہو گا ، ادھر وہی ہم ہوں گے اور وہی ہمارے کام - کیوں نہ اس بار ایسا کیا جائے کہ اپنے لیے کسی ایک مقصد کا تعین کریں اوراس پرپوری دلجمعی سے کاربند رہیں... وہ ایک مقصد کچھ بھی ایسا ہو سکتا ہے جو آپ نے اس سے پہلے کبھی نہ کیا ہو- مثلا آپ طے کرلیں کہ آپ نے اس سال کوئی نماز نہیں چھوڑنی، جہاں کہیںزمین پر کوئی کاغذ یا ریپر گرا ہوا دیکھیں گے تو اسے اٹھا لیں گے، کسی ایک بچے کو خود تعلیم دیں گے یا اس کی پڑھائی کا خرچہ اٹھائیں گے، ہر مہینے کسی ایک غریب گھرانے کا راشن کا خرچہ اٹھائیں گے، ایک ایسے مریض کے علاج کے لیے رقم دیں گے جو اپنا علاج کروانے کی سکت نہ رکھتا ہو، جس قدر مقدور ہوا اس سال آپ اپنا خون عطیہ کریں گے، جہاں ممکن ہوا آپ کچھ درخت لگوا دیں گے، کہیں کوئی ایسی کوشش کریں گے کہ پینے کا صاف پانی ان لوگوں کو میسر ہو جائے جو کہ اس نعمت سے محروم ہیں-
یا پھر ایسے کچھ مقاصد کہ جن میں آپ کا کچھ خرچ نہ ہو گا، مثلامہینے میں ایک بارکسی اسپتال میں ایسے مریضوں کی عیادت کر لیا کریں گے جن کا کوئی وارث ہے نہ ملاقاتی، تیز رفتاری سے گاڑی نہیں چلائیں گے جو کسی حادثے کا باعث بنے، ڈرائیونگ کے دوران فون استعمال نہیںکریں گے، بہتان نہیں لگائیں گے، غیبت نہیں کریں گے، شک نہیں کریں گے، دوسروں کے معاملات کی ٹوہ نہیں لیں گے، جھوٹ نہیں بولیں گے، وعدہ خلافی نہیں کریں گے، کسی کا حق نہیں ماریں گے، کسی سے خواہ مخواہ غصے سے بات نہیں کریں گے، اپنی غلطی تسلیم کر کے ہمیشہ معافی مانگیں گے خواہ کوئی آپ سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو- اسی سال پر ہی نظر غائر ڈال لیں، ہم کتنی ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیاں کرتے ہیں جو سال بھر میں پہاڑوں کے برابر ہو جاتی ہیں- سوچتا کیا ہے انسان اور ہوتا کیا ہے-
کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں... اس کا مطلب ہرگز سال کے مختلف دنوں اور راتوں کی طوالت اور اختصار سے نہیں ہے-
اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان پر کبھی نہ کبھی برا اور اچھا وقت آتا ہے اور یہی اچھے اور برے وقت ہیں جو ہمیں دوست اور دشمن کی پہچان کروا دیتے ہیں- برے وقت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور اچھے وقت میں پرائے بھی اپنے بن جاتے ہیں- وقت میں اب اتنی بے برکتی ہو گئی ہے کہ چوبیس گھنٹوں کا دن اور رات چھوٹے لگتے ہیں، ہمارے پاس اپنے علاوہ کسی اور کے لیے وقت نہیں ہے- کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے، وقت میں بے برکتی کے اسباب کیا ہیں ؟
ہمارے پاس اس وقت بے کار کام اتنے ہیں کہ جو ہمیں حقوق العباد سے غافل کر دیتے ہیں، وہ اپنے بزرگوں ، ماں باپ، رشتہ داروں، استادوں ، محلہ داروں اور دوستوں کے لیے وقت نہیں ہے- ہماری واحد مصروفیت ہمارا اپنا آپ رہ گیا ہے، خاندان کا مطلب ایک کنبے اور برادری سے سمٹ کراپنے ماں باپ اور سگے بہن بھائیوں تک رہ گیا ہے اور لفظ ہم کا نیاانگریزی ترجمہ Me and myself ہو گیا ہے- اس بظاہر سادہ مگر گھمبیرمسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنے اور اس کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم میں اور ریشم کے کیڑوں میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا جو اپنے ارد گرد اپنی ساری زندگی ریشم بنا بنا کر جمع کرتا رہتا ہے اور ایک دن اسی کوکون cocoon میں سمٹ کر مر جاتا ہے-
میری دعاہے کہ جو اچھے کام ہم اپنی اپنی حیثیت سے کر پاتے ہوں، اللہ تبارک و تعالی ہمیںان کی توفیق دیے رکھے اور اس سے بھی زیادہ کی سکت دے - آمین
میں نے جانا ہے کہ ہم سب کے پاس ایک ایسا آلہ ہے جو ہمیں اپنی کشش کی وجہ سے بہت سی برائیوں میں مبتلا کر کے بہت سی اچھائیوں سے دور کر دیتا ہے- اس سے چھٹکارا پانا تو ممکن نہیں مگر اس کے کم اور ضروری استعمال کے لیے ہم ضرور کاوش کر سکتے ہیں- میری آئندہ برس یعنی2018 کے لیے صرف ایک resolution ہے، انشااللہ!! موبائل ٹیلی فون کا کم سے کم استعمال، بالخصوص اس وقت جب میرے پاس اس سے زیادہ اہم کوئی کام ہو- جب میں کسی کے پاس بیٹھی ہوں تو اسے وقت دوں نہ کہ اپنے اپنے فون پر مصروف رہوں اور ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے اس سے کٹ کر اپنے فون کی دنیا میں گم رہوں - اللہ سے دعا ہے کہ وہ میری اس سلسلے میں مدد کرے-آمین
آپ سب کے لیے نیا سال بہت مبارک ثابت ہو، آپ جس نیک کام کا ارادہ کریں اس میں اللہ کی مدد اور تائید آپ کو حاصل ہو- آپ بتائیں کہ آپ کی آئندہ برس کے لیے کیا Resolution ہے؟؟
یکم جنوری 2017 ، اتوارکو میرا اس سال کا پہلا کالم شائع ہوا تھا... آج 24 دسمبر، اتوار کو میرا اس برس کا آخری کالم آپ کے ہاتھوں میں ہے- سال کے باون ہفتے، میرے کالموں کے باون اتوار بنتے ہیں، وقت کی ریت یوں ہماری مٹھیوں سے پھسل کر گری ہے کہ باون ہفتے باون دنوں سے بھی چھوٹے محسوس ہو رہے ہیں- ہماری زندگیاں یونہی تیزی سے گزر رہی ہیں ، ہمیں احساس تک نہیں ہوتا اور چوبیس گھنٹوں کا ایک ایک دن یوں ٹپ ٹپ کر کے جا رہا ہے جیسے کسی خراب نل سے پانی کا قطرہ قطرہ ٹپک کر ضائع ہو رہا ہو- میں ہر سال کے اختتام پر اپنا اور اپنے ارد گرد کے حالات کا جائزہ لیتی ہوں، سوچتی ہوں اور نوٹ کرتی ہوں کہ اس برس سے ہم نے کیا سیکھا، کیا سکھایا، کیا کمایا، کیا سلجھایا، کیا الجھایا، کیا بگاڑا، کیا سنوارا، کیا پایا اور کیا گنوایا-
ہر برس کے اختتامی ہفتے کی طرح اس وقت بھی اختتامی ہفتہ چل رہا ہے اور میں اس احساس محرومی میں ہر بار کی طرح مبتلا ہوں کہ مذہبی، سیاسی، دینی ، دنیاوی اورذاتی طور پر بھی میں نے اس سال کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا- سال کے آغاز میں مضبوط ترین ارادوں کے باوجود بمشکل چند چھوٹے چھوٹے اچھے کاموں کی ایک چھوٹی سی گٹھڑی سمیٹی ہے- ( اس کار خیر میں میرے بہت پیارے احباب اورقارئین کی کاوشیںبھی شامل ہیں اس لیے اس کے بارے میں، اس کے پایہء تکمیل تک پہنچ کر کچھ بیان کروں گی) - نہ چاہتے ہوئے بھی غلطیوں، پچھتاؤں، خساروں اور گناہوں کا گٹھڑ اور بھی بھاری ہو گیا ہے- جتنی کوشش کرو کہ شیطان کا کوئی حربہ کامیاب نہ ہونے دیں گے، کچھ نہ کچھ ایسا نا دانستہ بھی ہو جاتا ہے جو دنوں تک ضمیر پر بوجھ رکھتا ہے، اس کا بوجھ اس وقت ہٹتا ہے جب کوئی اور غلطی سرزد ہو جاتی ہے اور تازہ بوجھ اس کی جگہ لینے کو آجاتا ہے-
جتنی کوشش ہم سال کے آخر میں، نئے سال کے لیے اپنے مقاصد کا تعین کرنےResolution بنانے میں لگاتے ہیں، اگلا پوراسال بھر ہم اسے مڑ کر دیکھتے تک نہیں- یونہی آنکھوں پر غفلت کی پٹی پڑی رہتی ہے اور برس بگٹٹ بھاگتا ہوا اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے- ہم لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں، ان کی اختتامی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں، انھیں قبر میں اترتا ہوا دیکھتے ہیں، مٹھی بھر مٹی بھی اپنے ہاتھ سے ڈالتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی سوچتے ہیں کہ موت صرف اسی کو آنا تھی، ہم تو شاید ہمیشہ اسی طرح اس زمین پر دندناتے رہیں گے-
ہم اسپتالوں میں دوا اور علاج کے لیے تڑپتے ہوئے لوگوں کو دیکھتے ہیں، ان کے لیے دعائیں کرنے کے لیے درباروں اور مزاروں پر ان کے اقارب کو ماتھے ٹیکتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں، انھیں ڈاکٹروں کے آگے ہاتھ باندھتے، بچوں کو درد سے کرلاتے، عورتوں کو رکشوں ، سڑکوں اور اسپتالوں کے صحنوں میں بچے جنتے ہوئے دیکھتے ہیں... انھیں کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں اور دل ہی دل میں کہتے ہیں، ' یہ ان ہی کا مقدر ہے، ہم تو کبھی ان کی جگہ نہیں ہو سکتے! ' یہ نظر اندازی اور خاموشی بھی ایسی بے حسی ہے کہ جس کے لیے ہم اور ہمارے حکمران تک ایک دن ایک بڑے سے دربار میں جواب دہی کے لیے کھڑے ہوں گے ، مگر دنیا چار دنوں کا میلہ ہے سو ہم سب اس میلے میں مزے لوٹ رہے ہیں-
یاد رکھیں، وقت ایک ایسا پہلوان ہے جو انسان کو غفلت میں دیکھ کر پٹخنی دیتا ہے کہ کوئی اس سے سنبھل کر اٹھ نہیں پاتا- وقت بہت بڑا استاد ہے، اچھے اچھوں کو ایسے ایسے سبق سکھاتا ہے کہ جو کوئی اور استاد سکھا سکتا ہے اور نہ کوئی بڑے سے بڑا مکتب- وقت ان ہی کا دوست ہے جو اس کی قدر کرتے اور اسے اچھے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں- اگرچہ یہاں اس کی کوئی تک نہیں بنتی مگر کل ہی ایک ٹرک کے پیچھے لکھا ہوا ایک بے وزن سا شعر یاد آ گیا ہے-
میرے برے وقت کو دیکھ کر مجھے چھوڑ جانے والے!!
وقت آئے گا ایسا جب تم مجھ سے وقت مانگ کر ملو گے
اس وقت ہم نئے سال کے لیے Resolutions بنا رہے ہیں، نئی سوچیں، ارادے اور منصوبے، مگر ہو گا کیا کہ ادھر نیا سال شروع ہو گا ، ادھر وہی ہم ہوں گے اور وہی ہمارے کام - کیوں نہ اس بار ایسا کیا جائے کہ اپنے لیے کسی ایک مقصد کا تعین کریں اوراس پرپوری دلجمعی سے کاربند رہیں... وہ ایک مقصد کچھ بھی ایسا ہو سکتا ہے جو آپ نے اس سے پہلے کبھی نہ کیا ہو- مثلا آپ طے کرلیں کہ آپ نے اس سال کوئی نماز نہیں چھوڑنی، جہاں کہیںزمین پر کوئی کاغذ یا ریپر گرا ہوا دیکھیں گے تو اسے اٹھا لیں گے، کسی ایک بچے کو خود تعلیم دیں گے یا اس کی پڑھائی کا خرچہ اٹھائیں گے، ہر مہینے کسی ایک غریب گھرانے کا راشن کا خرچہ اٹھائیں گے، ایک ایسے مریض کے علاج کے لیے رقم دیں گے جو اپنا علاج کروانے کی سکت نہ رکھتا ہو، جس قدر مقدور ہوا اس سال آپ اپنا خون عطیہ کریں گے، جہاں ممکن ہوا آپ کچھ درخت لگوا دیں گے، کہیں کوئی ایسی کوشش کریں گے کہ پینے کا صاف پانی ان لوگوں کو میسر ہو جائے جو کہ اس نعمت سے محروم ہیں-
یا پھر ایسے کچھ مقاصد کہ جن میں آپ کا کچھ خرچ نہ ہو گا، مثلامہینے میں ایک بارکسی اسپتال میں ایسے مریضوں کی عیادت کر لیا کریں گے جن کا کوئی وارث ہے نہ ملاقاتی، تیز رفتاری سے گاڑی نہیں چلائیں گے جو کسی حادثے کا باعث بنے، ڈرائیونگ کے دوران فون استعمال نہیںکریں گے، بہتان نہیں لگائیں گے، غیبت نہیں کریں گے، شک نہیں کریں گے، دوسروں کے معاملات کی ٹوہ نہیں لیں گے، جھوٹ نہیں بولیں گے، وعدہ خلافی نہیں کریں گے، کسی کا حق نہیں ماریں گے، کسی سے خواہ مخواہ غصے سے بات نہیں کریں گے، اپنی غلطی تسلیم کر کے ہمیشہ معافی مانگیں گے خواہ کوئی آپ سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو- اسی سال پر ہی نظر غائر ڈال لیں، ہم کتنی ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیاں کرتے ہیں جو سال بھر میں پہاڑوں کے برابر ہو جاتی ہیں- سوچتا کیا ہے انسان اور ہوتا کیا ہے-
کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں... اس کا مطلب ہرگز سال کے مختلف دنوں اور راتوں کی طوالت اور اختصار سے نہیں ہے-
اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان پر کبھی نہ کبھی برا اور اچھا وقت آتا ہے اور یہی اچھے اور برے وقت ہیں جو ہمیں دوست اور دشمن کی پہچان کروا دیتے ہیں- برے وقت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور اچھے وقت میں پرائے بھی اپنے بن جاتے ہیں- وقت میں اب اتنی بے برکتی ہو گئی ہے کہ چوبیس گھنٹوں کا دن اور رات چھوٹے لگتے ہیں، ہمارے پاس اپنے علاوہ کسی اور کے لیے وقت نہیں ہے- کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے، وقت میں بے برکتی کے اسباب کیا ہیں ؟
ہمارے پاس اس وقت بے کار کام اتنے ہیں کہ جو ہمیں حقوق العباد سے غافل کر دیتے ہیں، وہ اپنے بزرگوں ، ماں باپ، رشتہ داروں، استادوں ، محلہ داروں اور دوستوں کے لیے وقت نہیں ہے- ہماری واحد مصروفیت ہمارا اپنا آپ رہ گیا ہے، خاندان کا مطلب ایک کنبے اور برادری سے سمٹ کراپنے ماں باپ اور سگے بہن بھائیوں تک رہ گیا ہے اور لفظ ہم کا نیاانگریزی ترجمہ Me and myself ہو گیا ہے- اس بظاہر سادہ مگر گھمبیرمسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنے اور اس کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم میں اور ریشم کے کیڑوں میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا جو اپنے ارد گرد اپنی ساری زندگی ریشم بنا بنا کر جمع کرتا رہتا ہے اور ایک دن اسی کوکون cocoon میں سمٹ کر مر جاتا ہے-
میری دعاہے کہ جو اچھے کام ہم اپنی اپنی حیثیت سے کر پاتے ہوں، اللہ تبارک و تعالی ہمیںان کی توفیق دیے رکھے اور اس سے بھی زیادہ کی سکت دے - آمین
میں نے جانا ہے کہ ہم سب کے پاس ایک ایسا آلہ ہے جو ہمیں اپنی کشش کی وجہ سے بہت سی برائیوں میں مبتلا کر کے بہت سی اچھائیوں سے دور کر دیتا ہے- اس سے چھٹکارا پانا تو ممکن نہیں مگر اس کے کم اور ضروری استعمال کے لیے ہم ضرور کاوش کر سکتے ہیں- میری آئندہ برس یعنی2018 کے لیے صرف ایک resolution ہے، انشااللہ!! موبائل ٹیلی فون کا کم سے کم استعمال، بالخصوص اس وقت جب میرے پاس اس سے زیادہ اہم کوئی کام ہو- جب میں کسی کے پاس بیٹھی ہوں تو اسے وقت دوں نہ کہ اپنے اپنے فون پر مصروف رہوں اور ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے اس سے کٹ کر اپنے فون کی دنیا میں گم رہوں - اللہ سے دعا ہے کہ وہ میری اس سلسلے میں مدد کرے-آمین
آپ سب کے لیے نیا سال بہت مبارک ثابت ہو، آپ جس نیک کام کا ارادہ کریں اس میں اللہ کی مدد اور تائید آپ کو حاصل ہو- آپ بتائیں کہ آپ کی آئندہ برس کے لیے کیا Resolution ہے؟؟