کراچی ادب میلہ
ادب کے متوالوں اور کراچی کے شہریوں نے عملی طور پر اسے ثابت کر کے دکھایا ہے۔
21 تا 25 مارچ کراچی آرٹس کونسل میں دسویں عالمی اردو کانفرنس کے سلسلے میں اردو زبان اور ادب سے متعلقہ مباحث کے حوالے سے جو ادب میلہ برادرم احمد شاہ اور ان کے ساتھیوں نے مل کر سجایا ہے آج اس کا تیسرا دن ہے۔
پہلے روز کا افتتاحی اجلاس شام 5 بجے شروع ہوا اور رات گیارہ بجے امیرخسرو کے کلام پر بنی قوالی کی ایک روح پرور محفل پر ختم ہوا جب کہ بقیہ چاروں دنوں کے لیے پروگراموں کا دورانیہ صبح ساڑھے دس سے رات دس بجے تک رکھا گیا ہے یعنی چائے اور کھانوں کے وقفوں سے قطع نظر تقریباً دس گھنٹے زبان وادب اور دیگر فنون لطیفہ کی پھوار مسلسل پڑتی رہے گی۔
پاکستان کے مخلف شہروں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے زبان اور شعر وادب سے تعلق رکھنے والے نمائندہ خواتین وحضرات کو ایک چھت تلے جمع کرنا، ان کا خیال رکھنا اور پھر روزانہ لگاتار کئی کئی سیشنز کا انعقاد اور شعر ونغمہ اور اعضاء کی شاعری کا کامیابی سے اہتمام کرنا کس قدر مشکل اور نازک کام ہے اس کا اندازہ اہل حال کے علاوہ کم کم لوگوں کو ہی ہوتا ہے۔
بالخصوص آج کے دور میں جب کہ زندگی کی بھاگ دوڑ، سیاسی افراتفری، روٹی روزی کی تگ ودو اور دنیاوی طو رپر غیرمنفعت بخش روایات اور اقدار کے نچلے درجوں پر چلے جانے سے جو ایک تہذیبی خلاء سا مسلسل فروغ پذیر ہے لوگوں کو اتنی کثیرتعاد میں گھنٹوں ان تقریبات میں جوش و ولولے اور خوشدلی سے بیٹھنے پر آمادہ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جس میں جوش، لگن، وژن، قابلیت، وسائل، رابطے، کمٹمنٹ، انتظامی صلاحیت اور حسن اظہار سب کی ایک ساتھ ضرورت پڑتی ہے۔
کراچی آرٹس کونسل اور اس کی انتظامیہ اور اسٹاف کا کمال یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں انھوں نے نہ صرف اس سالانہ ادبی کانفرنس کو مثالی اور بھرپور ایونٹ کی شکل دے دی ہے بلکہ ہر آنے والے سال میں اس روایت کو مزید مستحکم اور پرکشش بناتے جا رہے ہیں اور اب یوں ہے کہ پورے ملک میں آرٹ کونسلز، اشاعتی اداروں، کتاب میلوں، یونیورسٹیوں اور عوامی سطح پر اس چراغ سے نئے چراغ روشن ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ دس برس قبل اس کا آغاز انتہائی نامساعد حالات میں بہت چھوٹے پیمانے پر ہوا تھا لیکن وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
تو ادب کے متوالوں اور کراچی کے شہریوں نے عملی طور پر اسے ثابت کر کے دکھایا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے زیادہ خوشی ان محکموں میں نوجوانوں کی تعداد اور ان کا جوش وخروش دیکھ کر ہوتی ہے کہ صرف ان افتتاحی خصوصی اجلاس اور رقص وموسقی کے پروگراموں میں ہی نہیں بلکہ انتہائی سنجیدہ اور فکرانگیز مسائل سے متعلق اجلاسوں میں بھی ان کی حاضری اور دلچسپی کا گراف تقریباً ایک جیسا رہتا ہے اور جس طرح سے وہ روشن خیالی اور تعمیری نوعیت کے مکالموں کی تاکید میں بھرپور اور زور دار انداز میں تالیاں بجا کر شرکت کرتے اور ظلم، جبر، فساد اور رجعت پسندی کے خلاف اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اس کے مناظر روح پرور بھی ہیں اور حوصلہ افزا بھی اور اس امر کی دلیل بھی کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔''
اس بار قائداعظم کے یوم پیدائش اور ملکی تاریخ کے ستر سال مکمل ہونے کے حوالے سے کانفرنس کے دورانیے میں ایک دن کا اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے زبان وادب سے زندگی اور ہماری قومی پہچان کے رشتے مزید واضح ہوں گے کہ نئی نسل کی ان رشتوں سے شفاف اور موثر آگاہی وقت کی ایک اہم ضرورت بھی ہے۔
کانفرنس کا آغاز ایک دستاویزی فلم سے ہوا جس میں پہلی سے نویں کانفرنسوں کی مختصر تاریخ کو ''رودادِ سفر'' کے عنوان سے کچھ تو جوانوں نے بہت خوبصورتی سے ایڈٹ کیا تھا اس کے بعد حسب معمول و روایت افتتاحی اجلاس کا اسٹیج سجایا گیا، کلیدی مکالے پاکستان کی طرف سے مبین مرزا اور بھارت سے آئے ہوئے محترم دوست شمیم حنفی نے پڑھے جو مختصر ہونے کے باوجود بہت پرمغز اور خیال افروز تھے۔ اس کے بعد اسٹیج پر موجود احباب نے کانفرنس کے حوالے سے اپنے احساسات کا مختصر اظہار کیا۔
صدارت ہم سب کی محترم زہرہ نگاہ کی تھی جب کہ اظہار کنندگان میں قاضی افضال حسین، نعیم طاہر، مبین طاہر، امینہ سید، اسد محمد خان، رضا علی عابدی، مسعود اشعر، ہیرو جی کتاوکا، کشور ناہید، شمیم حنفی، افتخار عارف، عارف نقوی اور پیرزادہ قاسم کے علاوہ راقم الحروف اور خود احمد شاہ بھی شامل تھے جب کہ اگلی صفوں میں تشریف فرما مندوبین میں بھارت، جرمنی، برطانیہ، فرانس، مصر، ڈنمارک، جاپان، فن لینڈ اور امریکا کے علاوہ کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں کے نمائندہ لکھاری ہمہ تن گوش تھے اور سامعین کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ ہال میں سیڑھیوں تک بیٹھنے کے لیے بھی خالی جگہ موجود نہیں رہی۔ جگہ جگہ اسکرینیں لگا کر ان سیکڑوں محبان ادب کے لیے اس محفل میں بالواسطہ شمولیت کا اتنظام کر دیا گیا ہے جن کو اندر جگہ نہیں مل سکی مگر اب وہاں بھی جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔ میڈیا کوریج، انٹرویوز اور سیلفیوں کا یہ عالم تھا کہ ہال کا ہر گوشہ ایک لائیو اسٹوڈیو بنا ہوا تھا۔
افتتاحی اجلاس کے بعد ضیا محی الدین نے اپنے مخصوص خوب صورت انداز میں مشتاق احمد یوسفی صاحب کی منتخب تحریروں کے کچھ اقتباسات پڑھ کر سنائے۔ یوسفی صاحب علالت کی وجہ سے خود تشریف نہ لا سکے مگر ان کی فیملی کے کچھ لوگ خاص طور پر اس محفل کے سامعین بنے۔ آخر میں سب نے مل کر یوسفی صاحب کی صحت وسلامتی کے لیے دعا بھی کی اور بلاشبہ وہ اس وقت اردو زبان کے زندہ ادیبوں میں سب سے محترم نام اور شخصیت کا درجہ رکھتے ہیں۔
اس پروگرام کا آخری حصہ ''آہنگ خسروی'' جس میں ایاز فرید، بابو محمد قوال اور ان کے ہم نواؤں نے امیرخسرو کا کلام انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا اور یوں بہت دن بعد اچھی قوالی سننے کو ملی۔ کانفرنس میں نئی چھپنے والی منتخب کتابوں کی رونمائی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے اور ہال کے باہر والے کھلے حصے میں کچھ اشاعتی اداروں نے اپنے اسٹالز بھی لگا رکھے ہیں جہاں قارئین کو اپنی پسند کی کتابیں خصوصی رعایتی قیمت پر دستیاب ہیں۔ جن میں عرفان صدیقی اور محسن بھوپالی کے حال ہی میں شائع ہونے والے کلیات بھی شامل ہیں۔
پہلے روز کا افتتاحی اجلاس شام 5 بجے شروع ہوا اور رات گیارہ بجے امیرخسرو کے کلام پر بنی قوالی کی ایک روح پرور محفل پر ختم ہوا جب کہ بقیہ چاروں دنوں کے لیے پروگراموں کا دورانیہ صبح ساڑھے دس سے رات دس بجے تک رکھا گیا ہے یعنی چائے اور کھانوں کے وقفوں سے قطع نظر تقریباً دس گھنٹے زبان وادب اور دیگر فنون لطیفہ کی پھوار مسلسل پڑتی رہے گی۔
پاکستان کے مخلف شہروں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے زبان اور شعر وادب سے تعلق رکھنے والے نمائندہ خواتین وحضرات کو ایک چھت تلے جمع کرنا، ان کا خیال رکھنا اور پھر روزانہ لگاتار کئی کئی سیشنز کا انعقاد اور شعر ونغمہ اور اعضاء کی شاعری کا کامیابی سے اہتمام کرنا کس قدر مشکل اور نازک کام ہے اس کا اندازہ اہل حال کے علاوہ کم کم لوگوں کو ہی ہوتا ہے۔
بالخصوص آج کے دور میں جب کہ زندگی کی بھاگ دوڑ، سیاسی افراتفری، روٹی روزی کی تگ ودو اور دنیاوی طو رپر غیرمنفعت بخش روایات اور اقدار کے نچلے درجوں پر چلے جانے سے جو ایک تہذیبی خلاء سا مسلسل فروغ پذیر ہے لوگوں کو اتنی کثیرتعاد میں گھنٹوں ان تقریبات میں جوش و ولولے اور خوشدلی سے بیٹھنے پر آمادہ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جس میں جوش، لگن، وژن، قابلیت، وسائل، رابطے، کمٹمنٹ، انتظامی صلاحیت اور حسن اظہار سب کی ایک ساتھ ضرورت پڑتی ہے۔
کراچی آرٹس کونسل اور اس کی انتظامیہ اور اسٹاف کا کمال یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں انھوں نے نہ صرف اس سالانہ ادبی کانفرنس کو مثالی اور بھرپور ایونٹ کی شکل دے دی ہے بلکہ ہر آنے والے سال میں اس روایت کو مزید مستحکم اور پرکشش بناتے جا رہے ہیں اور اب یوں ہے کہ پورے ملک میں آرٹ کونسلز، اشاعتی اداروں، کتاب میلوں، یونیورسٹیوں اور عوامی سطح پر اس چراغ سے نئے چراغ روشن ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ دس برس قبل اس کا آغاز انتہائی نامساعد حالات میں بہت چھوٹے پیمانے پر ہوا تھا لیکن وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
تو ادب کے متوالوں اور کراچی کے شہریوں نے عملی طور پر اسے ثابت کر کے دکھایا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے زیادہ خوشی ان محکموں میں نوجوانوں کی تعداد اور ان کا جوش وخروش دیکھ کر ہوتی ہے کہ صرف ان افتتاحی خصوصی اجلاس اور رقص وموسقی کے پروگراموں میں ہی نہیں بلکہ انتہائی سنجیدہ اور فکرانگیز مسائل سے متعلق اجلاسوں میں بھی ان کی حاضری اور دلچسپی کا گراف تقریباً ایک جیسا رہتا ہے اور جس طرح سے وہ روشن خیالی اور تعمیری نوعیت کے مکالموں کی تاکید میں بھرپور اور زور دار انداز میں تالیاں بجا کر شرکت کرتے اور ظلم، جبر، فساد اور رجعت پسندی کے خلاف اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اس کے مناظر روح پرور بھی ہیں اور حوصلہ افزا بھی اور اس امر کی دلیل بھی کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔''
اس بار قائداعظم کے یوم پیدائش اور ملکی تاریخ کے ستر سال مکمل ہونے کے حوالے سے کانفرنس کے دورانیے میں ایک دن کا اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے زبان وادب سے زندگی اور ہماری قومی پہچان کے رشتے مزید واضح ہوں گے کہ نئی نسل کی ان رشتوں سے شفاف اور موثر آگاہی وقت کی ایک اہم ضرورت بھی ہے۔
کانفرنس کا آغاز ایک دستاویزی فلم سے ہوا جس میں پہلی سے نویں کانفرنسوں کی مختصر تاریخ کو ''رودادِ سفر'' کے عنوان سے کچھ تو جوانوں نے بہت خوبصورتی سے ایڈٹ کیا تھا اس کے بعد حسب معمول و روایت افتتاحی اجلاس کا اسٹیج سجایا گیا، کلیدی مکالے پاکستان کی طرف سے مبین مرزا اور بھارت سے آئے ہوئے محترم دوست شمیم حنفی نے پڑھے جو مختصر ہونے کے باوجود بہت پرمغز اور خیال افروز تھے۔ اس کے بعد اسٹیج پر موجود احباب نے کانفرنس کے حوالے سے اپنے احساسات کا مختصر اظہار کیا۔
صدارت ہم سب کی محترم زہرہ نگاہ کی تھی جب کہ اظہار کنندگان میں قاضی افضال حسین، نعیم طاہر، مبین طاہر، امینہ سید، اسد محمد خان، رضا علی عابدی، مسعود اشعر، ہیرو جی کتاوکا، کشور ناہید، شمیم حنفی، افتخار عارف، عارف نقوی اور پیرزادہ قاسم کے علاوہ راقم الحروف اور خود احمد شاہ بھی شامل تھے جب کہ اگلی صفوں میں تشریف فرما مندوبین میں بھارت، جرمنی، برطانیہ، فرانس، مصر، ڈنمارک، جاپان، فن لینڈ اور امریکا کے علاوہ کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں کے نمائندہ لکھاری ہمہ تن گوش تھے اور سامعین کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ ہال میں سیڑھیوں تک بیٹھنے کے لیے بھی خالی جگہ موجود نہیں رہی۔ جگہ جگہ اسکرینیں لگا کر ان سیکڑوں محبان ادب کے لیے اس محفل میں بالواسطہ شمولیت کا اتنظام کر دیا گیا ہے جن کو اندر جگہ نہیں مل سکی مگر اب وہاں بھی جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔ میڈیا کوریج، انٹرویوز اور سیلفیوں کا یہ عالم تھا کہ ہال کا ہر گوشہ ایک لائیو اسٹوڈیو بنا ہوا تھا۔
افتتاحی اجلاس کے بعد ضیا محی الدین نے اپنے مخصوص خوب صورت انداز میں مشتاق احمد یوسفی صاحب کی منتخب تحریروں کے کچھ اقتباسات پڑھ کر سنائے۔ یوسفی صاحب علالت کی وجہ سے خود تشریف نہ لا سکے مگر ان کی فیملی کے کچھ لوگ خاص طور پر اس محفل کے سامعین بنے۔ آخر میں سب نے مل کر یوسفی صاحب کی صحت وسلامتی کے لیے دعا بھی کی اور بلاشبہ وہ اس وقت اردو زبان کے زندہ ادیبوں میں سب سے محترم نام اور شخصیت کا درجہ رکھتے ہیں۔
اس پروگرام کا آخری حصہ ''آہنگ خسروی'' جس میں ایاز فرید، بابو محمد قوال اور ان کے ہم نواؤں نے امیرخسرو کا کلام انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا اور یوں بہت دن بعد اچھی قوالی سننے کو ملی۔ کانفرنس میں نئی چھپنے والی منتخب کتابوں کی رونمائی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے اور ہال کے باہر والے کھلے حصے میں کچھ اشاعتی اداروں نے اپنے اسٹالز بھی لگا رکھے ہیں جہاں قارئین کو اپنی پسند کی کتابیں خصوصی رعایتی قیمت پر دستیاب ہیں۔ جن میں عرفان صدیقی اور محسن بھوپالی کے حال ہی میں شائع ہونے والے کلیات بھی شامل ہیں۔