پاکستان ایک آزاد ملک ہے
پاکستان اور امریکا کے درمیان بہتر تعلقات اس بات سے مشروط ہوں گے کہ وہ امریکا کی پالیسیوں کی من و عن تعمیل کر تا رہے۔
BEIJING:
چند روز قبل ایک مختصر مگر ہلا دینے والی خبر اخبار کے ایک کونے میں شائع ہوئی جس میں امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے مطالبات کی ایک فہرست ہے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بنائی جانے والی نئی قومی سلامتی کے خدوخال کو واضح کرتی نظر آتی ہے۔ پاکستان کے لیے مشروط پالیسی میں اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان بہتر تعلقات اس بات سے مشروط ہوں گے کہ وہ امریکا کی پالیسیوں کی من و عن تعمیل کر تا رہے۔
امریکا کی نئی حکمت عملی میں پاکستان سے یہ ثبوت بھی طلب کیے جا رہے ہیں کہ اس کا جوہری اثاثہ محفوظ ہے اس کے علاوہ پاکستان پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں میں مزید تیزی لانے کے لیے بھی دباؤ ڈالا جائے گا۔ اس کے علاوہ امریکا ایک خود مختار افغانستان بھی چا ہتا ہے جس میں پاکستان کی کوئی مداخلت نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان پر اس الزام کو تقویت دینا ہے کہ وہ افغانستان میں مسلح مداخلت کر رہا ہے۔
امریکا کی نئی سلامتی پالیسی میں اس بات کا بھی خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستان کے اندر کام کرنے والے شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے امریکا کو خطرات لاحق ہیں، ان تما م مسائل کے لیے اگر پاکستان امریکا کی مدد کر تا رہے گا تو امریکا پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دے گا۔ پاکستان کے حوالے سے آخری اور اہم ترین بات اس نئی امریکی حکمت عملی میں کہی گئی ہے کہ امریکا بھارت کے ساتھ اپنی سٹریجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرے گا اور سرحدی علاقوں اور انڈین سمندروں میں سیکیورٹی کے لیے اس کے قائدانہ کردار کی حمایت کرے گا۔
یہ لب لباب ہے نئی نام نہاد امریکی سیکیورٹی حکمت کا جس میں سارا زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ پاکستان کو کس طرح اپنے دباؤ میں رکھنا ہے اور اس کے ازلی دشمن بھارت کو بالا دست بنانا ہے۔ ایک بات تو روز اول سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عالمی طاقتوں نے ہمارے جوہری پروگرام کو تسلیم نہیں کیا اور مسلسل اس تاک میں ہیں کہ کوئی صورت ایسی بن جائے کہ پاکستان کی اس صلاحیت کو کسی بھی بہانے سے سلب کر لیا جائے تا کہ پاکستان کو اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ اس کی سر زمین پر یہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی جنگ اپنی مرضی سے لڑ سکیں جس میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی یہی دفاعی صلاحیت ہے جس کی وجہ سے یہ طاقتیں کوئی بھی ایڈ وینچر کرنے سے باز رہنے پر مجبور ہیں۔
کیونکہ ایک بات واضح ہے کہ پاکستان عددی فوجی برتری یا ہتھیاروں سے اپنا دفاع نہیں کر سکتا یہی ایک ایٹمی طاقت اسے دنیا میں دفاعی طور پر ممتاز بناتی ہے اور اسے اپنے ہمسایہ دشمنوں اور سپر پاور سے محفوظ رکھے ہوئے ہے ورنہ یہ عالمی عفریتیں ہمیں کب کا کھا پی کر ہضم بھی کر چکی ہوتیں۔ لیکن یہ مملکت خداداد ان دیکھی طاقتوں کے سہارے اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے حالانکہ اس کی سالمیت کو خطرہ میں ڈالنے کے لیے اس پر بار بار حملے کیے جاتے ہیں اور ان طاقتوں کی یہ بہت پرانی خواہش ہے کہ بھارت اس خطے میں ان کے لیے ایک تابعدار بدمعاش کا کردار ادا کرے جس میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان اور اس کا جوہری پروگرام ہے جس کو اپنے قبضے میں کرنے کے لیے ہر دور کے شکاری نئے جال کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں لیکن ناکام و نامراد رہتے ہیں۔
پاکستان نے جب سے امریکی ڈومور کے مطالبے کو اپنی ٹھوکر پر رکھا ہے اس کے بعد سے امریکا کی جانب سے نئی حکمت عملی سامنے آئی ہے کہ کس طرح پاکستان پر دباؤ ڈال کر اس اہم ترین خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ چند روز پہلے ہی پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر نے بڑے دبنگ الفاظ میں امریکا کو کھری کھری سنائی ہیں اور ان کے مطالبات کو پرے پھینک کر ان سے ایک بار پھر اپنی قربانیوںکے اعتراف کرنے کو کہا ہے۔
پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ملک ہے اور اس دہشت گردی کی جڑیں خود امریکا نے افغان سوویت یونین جنگ میں بوئی تھیں۔ تین دہائیوں سے زائد عرصے میں دہشت گردی کے لیے بوئی گئیں یہ جڑیں اب تناور درخت بن چکی ہیں اور یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے اس لیے اب امریکا اپنے ہاتھ سے بویا گیا یہ بیج کاٹنے پر مجبور ہے۔ امریکا کا یہ تحفہ اس خطے میں اس حد تک پنپ چکا ہے کہ اپنے پرائے سب اس کا شکار ہو رہے ہیں اور سب سے زیادہ شکار پاکستان ہے جس کے قرب و جوار میں دہشت گردی کی یہ نرسریاں موجود ہیں جس کی آبیاری اب بھی درپردہ امریکا کر رہا ہے اور پاکستان دشمنی میں بھارت اس کا معاون بنا ہوا ہے۔
امریکا کی نئی سیکیورٹی پالیسی پر ہمارے دفتر خارجہ نے سخت موقف اپنایا اور امریکی صدر کے الزامات کو مسترد کر تے ہوئے امریکا کو یہ بتایا ہے کہ ہمارے جوہری پروگرام کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم عالمی معیار اور ان کی گائیڈ لائن کے مطابق ہے۔ امریکا نے پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف کردار کی نفی کرنے کی کوشش کی ہے۔
شکر ہے ہماری خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئی اور ہم نے طفیلی کردارسے نکل کر اگلی صفوں میں کھل کر کھیلنے کو ترجیح دی جس کا مقصد پاکستان کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ کو رد کرنا ہے جس کے مثبت نتائج آ رہے ہیں، پاکستان پر دباؤ میں کمی آرہی ہے، خطے میں پاکستان کے ساتھ مفادات کے حامل ملک پاکستان کی وکالت کرتے نظر آرہے ہیں۔ چین جس کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں تیزی سے ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے پاکستان اور چین کے درمیان ایک طویل راہداری منصوبہ دشمنوں کی نظر میں کھٹک رہا ہے اور اس کے بارے بھارت نے اپنے عزائم کا واضح طور پر اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ اسے کسی طور پر قبول نہیں ہے۔
امریکا نئی سیکیورٹی پالیسی کے نام پر نئے پینترے بدل رہا ہے جو کہ اس خطے کی حقیقی صورتحال کے بر عکس ہے اور پاکستان اس کا نشانہ ہے۔ دیکھتے ہیںدنیا کیا نئے گل کھلاتی ہے اور پاکستان اپنے عزائم پر کس حد تک قائم رہتا ہے۔ پاکستان کی ایٹمی قوت دنیا کی نظروں میں ہے اور اب یہ پاکستان کا دوسرا نام بھی بن چکی ہے جو پاکستانی عوام کی قوت اور عزائم کا دوسرا نام ہے۔
چند روز قبل ایک مختصر مگر ہلا دینے والی خبر اخبار کے ایک کونے میں شائع ہوئی جس میں امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے مطالبات کی ایک فہرست ہے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بنائی جانے والی نئی قومی سلامتی کے خدوخال کو واضح کرتی نظر آتی ہے۔ پاکستان کے لیے مشروط پالیسی میں اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان بہتر تعلقات اس بات سے مشروط ہوں گے کہ وہ امریکا کی پالیسیوں کی من و عن تعمیل کر تا رہے۔
امریکا کی نئی حکمت عملی میں پاکستان سے یہ ثبوت بھی طلب کیے جا رہے ہیں کہ اس کا جوہری اثاثہ محفوظ ہے اس کے علاوہ پاکستان پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں میں مزید تیزی لانے کے لیے بھی دباؤ ڈالا جائے گا۔ اس کے علاوہ امریکا ایک خود مختار افغانستان بھی چا ہتا ہے جس میں پاکستان کی کوئی مداخلت نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان پر اس الزام کو تقویت دینا ہے کہ وہ افغانستان میں مسلح مداخلت کر رہا ہے۔
امریکا کی نئی سلامتی پالیسی میں اس بات کا بھی خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستان کے اندر کام کرنے والے شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے امریکا کو خطرات لاحق ہیں، ان تما م مسائل کے لیے اگر پاکستان امریکا کی مدد کر تا رہے گا تو امریکا پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دے گا۔ پاکستان کے حوالے سے آخری اور اہم ترین بات اس نئی امریکی حکمت عملی میں کہی گئی ہے کہ امریکا بھارت کے ساتھ اپنی سٹریجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرے گا اور سرحدی علاقوں اور انڈین سمندروں میں سیکیورٹی کے لیے اس کے قائدانہ کردار کی حمایت کرے گا۔
یہ لب لباب ہے نئی نام نہاد امریکی سیکیورٹی حکمت کا جس میں سارا زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ پاکستان کو کس طرح اپنے دباؤ میں رکھنا ہے اور اس کے ازلی دشمن بھارت کو بالا دست بنانا ہے۔ ایک بات تو روز اول سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عالمی طاقتوں نے ہمارے جوہری پروگرام کو تسلیم نہیں کیا اور مسلسل اس تاک میں ہیں کہ کوئی صورت ایسی بن جائے کہ پاکستان کی اس صلاحیت کو کسی بھی بہانے سے سلب کر لیا جائے تا کہ پاکستان کو اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ اس کی سر زمین پر یہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی جنگ اپنی مرضی سے لڑ سکیں جس میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی یہی دفاعی صلاحیت ہے جس کی وجہ سے یہ طاقتیں کوئی بھی ایڈ وینچر کرنے سے باز رہنے پر مجبور ہیں۔
کیونکہ ایک بات واضح ہے کہ پاکستان عددی فوجی برتری یا ہتھیاروں سے اپنا دفاع نہیں کر سکتا یہی ایک ایٹمی طاقت اسے دنیا میں دفاعی طور پر ممتاز بناتی ہے اور اسے اپنے ہمسایہ دشمنوں اور سپر پاور سے محفوظ رکھے ہوئے ہے ورنہ یہ عالمی عفریتیں ہمیں کب کا کھا پی کر ہضم بھی کر چکی ہوتیں۔ لیکن یہ مملکت خداداد ان دیکھی طاقتوں کے سہارے اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے حالانکہ اس کی سالمیت کو خطرہ میں ڈالنے کے لیے اس پر بار بار حملے کیے جاتے ہیں اور ان طاقتوں کی یہ بہت پرانی خواہش ہے کہ بھارت اس خطے میں ان کے لیے ایک تابعدار بدمعاش کا کردار ادا کرے جس میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان اور اس کا جوہری پروگرام ہے جس کو اپنے قبضے میں کرنے کے لیے ہر دور کے شکاری نئے جال کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں لیکن ناکام و نامراد رہتے ہیں۔
پاکستان نے جب سے امریکی ڈومور کے مطالبے کو اپنی ٹھوکر پر رکھا ہے اس کے بعد سے امریکا کی جانب سے نئی حکمت عملی سامنے آئی ہے کہ کس طرح پاکستان پر دباؤ ڈال کر اس اہم ترین خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ چند روز پہلے ہی پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر نے بڑے دبنگ الفاظ میں امریکا کو کھری کھری سنائی ہیں اور ان کے مطالبات کو پرے پھینک کر ان سے ایک بار پھر اپنی قربانیوںکے اعتراف کرنے کو کہا ہے۔
پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ملک ہے اور اس دہشت گردی کی جڑیں خود امریکا نے افغان سوویت یونین جنگ میں بوئی تھیں۔ تین دہائیوں سے زائد عرصے میں دہشت گردی کے لیے بوئی گئیں یہ جڑیں اب تناور درخت بن چکی ہیں اور یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے اس لیے اب امریکا اپنے ہاتھ سے بویا گیا یہ بیج کاٹنے پر مجبور ہے۔ امریکا کا یہ تحفہ اس خطے میں اس حد تک پنپ چکا ہے کہ اپنے پرائے سب اس کا شکار ہو رہے ہیں اور سب سے زیادہ شکار پاکستان ہے جس کے قرب و جوار میں دہشت گردی کی یہ نرسریاں موجود ہیں جس کی آبیاری اب بھی درپردہ امریکا کر رہا ہے اور پاکستان دشمنی میں بھارت اس کا معاون بنا ہوا ہے۔
امریکا کی نئی سیکیورٹی پالیسی پر ہمارے دفتر خارجہ نے سخت موقف اپنایا اور امریکی صدر کے الزامات کو مسترد کر تے ہوئے امریکا کو یہ بتایا ہے کہ ہمارے جوہری پروگرام کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم عالمی معیار اور ان کی گائیڈ لائن کے مطابق ہے۔ امریکا نے پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف کردار کی نفی کرنے کی کوشش کی ہے۔
شکر ہے ہماری خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئی اور ہم نے طفیلی کردارسے نکل کر اگلی صفوں میں کھل کر کھیلنے کو ترجیح دی جس کا مقصد پاکستان کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ کو رد کرنا ہے جس کے مثبت نتائج آ رہے ہیں، پاکستان پر دباؤ میں کمی آرہی ہے، خطے میں پاکستان کے ساتھ مفادات کے حامل ملک پاکستان کی وکالت کرتے نظر آرہے ہیں۔ چین جس کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں تیزی سے ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے پاکستان اور چین کے درمیان ایک طویل راہداری منصوبہ دشمنوں کی نظر میں کھٹک رہا ہے اور اس کے بارے بھارت نے اپنے عزائم کا واضح طور پر اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ اسے کسی طور پر قبول نہیں ہے۔
امریکا نئی سیکیورٹی پالیسی کے نام پر نئے پینترے بدل رہا ہے جو کہ اس خطے کی حقیقی صورتحال کے بر عکس ہے اور پاکستان اس کا نشانہ ہے۔ دیکھتے ہیںدنیا کیا نئے گل کھلاتی ہے اور پاکستان اپنے عزائم پر کس حد تک قائم رہتا ہے۔ پاکستان کی ایٹمی قوت دنیا کی نظروں میں ہے اور اب یہ پاکستان کا دوسرا نام بھی بن چکی ہے جو پاکستانی عوام کی قوت اور عزائم کا دوسرا نام ہے۔