ناکام تجربات کا سلسلہ طول پکڑ گیا ڈومیسٹک کرکٹ کی قسمت کب بدلے گی

صرف ڈومیسٹک ریجنل ٹیموں میں ڈرافٹ سسٹم لانے پر کراچی کا شدید اعتراض سامنے آیا۔

مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ڈومیسٹک کرکٹ آخری ترجیح نظر آئی۔ فوٹو: فائل

ڈومیسٹک مقابلوں کو کرکٹ کی نرسری کہا جاتاہے،مستقبل کیلئے کرکٹرز کی کھیپ ملکی سطح کے مقابلوں سے ہی حاصل ہوتی ہے،پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ایک عرصہ سے کوئی مربوط سسٹم ہی نہیں بنایا جاسکا۔

کئی عہدیدار برسوں سے پی سی بی کیساتھ چمٹے ہوئے ہیں،ایک چیئرمین جائے تو دوسرے کی ہمنوائی کرتے ہوئے مسند سنبھال لیتے ہیں،سابق رکن گورننگ بورڈ شکیل شیخ اور موجودہ ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید اس کی بڑی مثالیں ہیں، بدقسمتی سے ڈومیسٹک کرکٹ میں ''انقلابی'' تبدیلیوں کے نعرے لگانے اور اگلے سیزن میں اپنے ہی کئے فیصلوں کو ناکام قرار دیتے ہوئے نئے تجربے کرنے کا ''فریضہ'' یہی دونوں ادا کرتے رہے ہیں۔

رواں سال جولائی میں ہونے والے گورننگ بورڈ اجلاس میں ارکان نے بیشتر امور پر ربڑ سٹمپ کا کردار ادا کیا،صرف ڈومیسٹک ریجنل ٹیموں میں ڈرافٹ سسٹم لانے پر کراچی کا شدید اعتراض سامنے آیا، ریجن کے نمائندہ اعجاز فاروقی موقف نظر انداز کرنے پر اجلاس سے بائیکاٹ کرکے چلے گئے، پہلے تجویز تھی کہ 12کرکٹر ڈرافٹ اور 8براہ راست ریجن سے آئیں گے، بات چیت میں طے پایا کہ 10ڈرافٹ اور اتنے ہی براہ راست لئے جائیں گے، ساتھ 2انڈر 19کھلاڑی بھی لازمی شامل ہوں گے۔

اس وقت چیئرمین پی سی بی شہریار خان کا کہنا تھا کہ ڈرافٹ سسٹم سے ریجنز میں سفارشی اور کرپشن کلچر ختم کرنے میں مدد ملے گی،کرکٹ کمیٹی کے سربراہ شکیل شیخ نے کرکٹرز کو 6ماہ کی بجائے پورے سال کا کنٹریکٹ دینے،کوچز کا معاوضہ بڑھانے، فرسٹ کلاس کرکٹ کیلئے مختص میدانوں کی حالت اور پچز کی کوالٹی بہتر بناکر زیادہ مسابقتی کھیل کے ذریعے نیا ٹیلنٹ نکھارنے کے دعوے کئے لیکن مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ڈومیسٹک کرکٹ آخری ترجیح نظر آئی۔

قومی کرکٹرز کی بین الاقوامی مصروفیات کو ذہن میں رکھے بغیر جلد بازی میں بنائے جانے والے شیڈول بار بار تبدیل ہوئے، ملکی مقابلوں کے دوران غیر ملکی لیگز کیلئے این او سی جاری کرنے میں بھی کسی توقف سے کام نہیں لیا گیا،انٹرنیشنل معیار کی کنڈیشنز میں مسابقتی کرکٹ فروغ دینے کے دعویدیدار پی سی بی حکام نے جلد بازی میں ناقص پچز تیار کیں جن پر بولرز چھائے رہے اور بیٹسمین بھیگی بلی بنے نظر آئے، انگلینڈ میں بنائی گئی ڈیوک گیندوں نے بھی پریشانیوں میں اضافہ کیا۔

سابق کپتان مصباح الحق نے بھی پچز کی صورتحال کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دیگر ٹیموں کے ہم پلہ ہونے کیلئے ڈومیسٹک کرکٹ کا معیار بہتر بنانا ہوگا، قائد ٹرافی سپر ایٹ مرحلے کے ایک میچ میں دونوں ٹیمیں 4اننگز میں ایک بار بھی 100کا ہندسہ پار نہ کرپائیں جس پر اظہر علی اور کئی سابق کرکٹرز نے مایوسی کا اظہار کیا۔


اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید اپنا انٹرویو سوشل میڈیا پر ڈال کر جو وضاحتیں پیش کیں، وہ بھی ان کی ناکامیوں کی چغلی کھارہی ہیں، سابق ٹیسٹ کرکٹر نے کہا کہ ڈرافٹ سسٹم کا مقصد تھا کہ کراچی یا لاہور جیسے بڑے شہروں میں زیادہ کرکٹ ہوتی ہے، ایبٹ آباد و دیگر کے سکواڈ کمزور اور غیر متوازن رہ جاتے ہیں،کئی ٹیمیں سہولت میسر ہونے کے باوجود بہتر کمبی نیشن تشکیل دینے میں ناکام رہیں، ہارون رشید کی بات اس لئے بے وزن معلوم ہوئی کہ ریجنز کے پاس ایسی پیشہ ورانہ سوچ رکھنے والے کوچز اور سٹاف ہوتا تو وہ اپنی اچھی کھیپ کیوں نہ تیار کرلیتے،انہیں دیگر شہروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز نے گیندوں کے حوالے سے بھی عجیب وضاحت پیش کی،انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10سال سے شکایات سامنے آرہی تھیں، انگلینڈ میں ڈیوک بال بنانے والے کمپنی نے ہماری خواہش پر پاکستانی کنڈیشنز کیلئے موزوں گیندیں فراہم کریں جو اننگز کے دوران تبدیل نہیں کرنا پڑیں، آخر تک چمک برقرار رہی، نرم بھی نہیں پڑیں، رپورٹس میں کپتان، منیجرز اور امپائرز نے ان اطمینان کا اظہار کیا ہے،ان کی وجہ سے بال ٹمپرنگ بھی ختم ہوگئی،اس سے قبل 10یا 15اوورز کے بعد گیند ریورس سوئنگ ہونا شروع ہوجاتی تھی،اب ایسا نہیں ہورہا۔

دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ کپتانوں اور کوچز کی اکثریت کی جانب سے ہی ان گیندوں کے حوالے سے شکایات سامنے آئی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ انگلش گیندیں پاکستانی موسم میں بننے والی سخت جان پچز کیلئے موزوں نہیں،اسی لئے بیٹسمینوں کو مشکلات ہوئیں،جہاں تک بال ٹمپرنگ کا معاملہ ہے تو کوئی بھی گیند ہو،اگر بولنگ سائیڈ اس کا حلیہ بگاڑنا چاہے تو اس کے سوطریقے ہوسکتے ہیں،انگلش بال پر کونسا ایسا کور چڑھا ہوتا ہے کہ اس کو کھرچنا یا خراب کرنا ممکن نہ ہو۔

ہارون رشید نے لوسکورنگ میچز کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیریبئن پریمیئر لیگ اور ورلڈ الیون کے خلاف سیریز کی وجہ سے شیڈول میں ردوبدل کرنا پڑا، پچز نئی بنی تھیں، ان کو سیٹ ہونے کیلئے مناسب وقت نہیں مل سکا، حیدرآباد سمیت چند سنٹرز پر طویل فارمیٹ کے زیادہ میچ نہیں ہوتے، موسم سرد رہنے کی وجہ سے ٹرف خشک نہیں ہوئی اور بیٹسمین مشکل میں رہے،سوال یہ ہے کہ اگر پچز بروقت اور مناسب تیار نہیں تھیںتو اس کا ذمہ دار کون ہے،پلاننگ تو پی سی بی نے ہی کرنا ہوتی ہے جس کی لاکھوں میں تنخواہیں بھی ملتی ہیں، سابق ٹیسٹ کرکٹر نے ناقص حکمت عملی کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے یہ عذر بھی پیش کیا کہ بیٹسمین بھی تکنیکی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے کریز پر قیام نہیں کرسکے،گیند پر چمک اور سیم کی وجہ سے پریشان ہونے والے بڑا سکور کرنے میں ناکام رہے، انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی ہمیشہ آسان یا مشکل پچز نہیں ملتیں،قائد اعظم ٹرافی میں بھی پلیئرز کو ہر طرح کی کنڈیشنز کیلئے تیار ہونا چاہیے،ہارون رشید کی اس بات کو درست مان لیا جائے تو ڈومیسٹک کرکٹ میں شعوری طور پر مشکل ترین پچز بنانے کا تجربہ کرنا چاہیے تاکہ بیٹسمین جی بھر کر غلطیاں کریں اور سیکھیں۔

پی سی بی نے مشکل کنڈیشنز نہیں بلکہ مسابقتی کرکٹ کو فروغ دینے کا دعویٰ کیا تھا جو حالیہ سیزن میں تو کہیں نظر نہیں آئی، پہلے ہی نوجوان نسل میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا شوق پروان چڑھایا جارہا ہے، دلچسپی سے عاری فرسٹ کلاس مقابلے ہوتے رہے تو صرف لیگز کھیلنے والے کرکٹرز ہی رہ جائیں گے،مستقبل کی ضروریات کو دیکھا جائے تو صرف 4اوورز کے کامیاب بولرز اور 20اوورز کے بیٹسمین تیار کرنے کے بجائے لمبی ریس کتے گھوڑے تیار کرنے کی ضرورت ہے،طویل فارمیٹ میں یونس خان اورمصباح الحق کے بعد پہلے ہی بڑا خلا نظر آرہا ہے،درست اقدامات اٹھانے سے ہی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا۔

دونوں سابق کپتانوں کی مشاورت سے ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ تیار کرتے ہوئے بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔،پچز کے مسئلے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ کم تعلیم یافتہ کیوریٹرز سے کام چلانے کے بجائے سابق کرکٹرز کو خصوصی کورسز کروائے جائیں،تجربہ کار کھلاڑی جدید کرکٹ کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ٹرف تیار کریں تو شکایات میں کمی ہوگی۔

 
Load Next Story