دعوے اور مینجمنٹ میں اکھاڑ پچھاڑ بے کار رواں سال بھی ہاکی بدحال رہی

ہاکی وہ کھیل تھا جس نے اقوام عالم میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بار بار لہرایا۔

پاکستان کا آخری اولمپک ہاکی میں میڈل کانسی کا ہے۔ فوٹو:فائل

کھیل کسی بھی قوم کی شناخت اور ملکی نیک نامی کی علامت سمجھے جاتے ہیں، سپورٹس کی افادیت کوہی سمجھتے ہوئے امریکہ، روس، چین، برطانیہ ، آسٹریلیا سمیت دنیا بھر کے بیشتر ممالک اپنے کھلاڑیوں کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں،اولمپکس، کامن ویلتھ گیمز و دیگر انٹرنیشنل ایونٹس میں میڈلز کے حصول کیلئے ان ممالک کی سپورٹس تنظیمیں بھی حرکت میں رہتی ہیں تاہم پاکستان میں کھیلوں کی فیڈریشنز زیادہ تر کاغذی کاروائیوں سے فائلوں کا پیٹ بھرتی جبکہ عہدیدار اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔

دنیا بھر میں سیر سپاٹوں کے مواقع ہونے کی وجہ سے سپورٹس تنظیموں کے عہدوں میں ایسی کشش ہوتی ہے کہ سیاسی راہنما، سابق بیوروکریٹ، صنعتکار اور فوجی افسر اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی فیڈریشن کی باگ دوڑ ہاتھ میں آجائے اور اگر ایک بار موقع مل جائے تو پھر گرفت مضبوط رہے،اس کے لئے ہر جائز و ناجائز حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔

مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ ہماری کئی فیڈریشنوں پر ایسے افراد بھی سالہا سال سے قابض ہیں یا رہے ہیں جن کامتعلقہ فیڈریشن سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں رہا۔ وہ اختیارات کے مزے اڑاتے اور وسائل اپنے من پسند افراد میں بانٹتے ہیں جبکہ کھیل میں بنیادی سطح سے لے کر اوپر تک کوئی بہتری لانے میں کامیاب نہیں ہوتے، اکثر ہوتا یہ ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ کھیلوں کے کرتا دھرتا بھی تبدیل ہوتے ہیں، سارے قواعد وضوابط مرضی کے مطابق بنائے اور چلائے جاتے ہیں، کسی دوسرے کی مداخلت برداشت نہیں کی جاتی۔

پریس کانفرنسوں میں کھیل میں نمایاں بہتری لانے کے دعوے کئے جاتے ہیں، نت نئے پروگراموں کا اعلان بھی کیا جاتا ہے لیکن قومی ٹیموں اور کھلاڑیوں کی بین الاقوامی مقابلوں میں کارکردگی شاندار تو کیا اتنی بھی نہیں ہوتی کہ جس پر فخر کیا جا سکے۔ پاکستان میں کھیلوں کی مایوس کن کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ17 برس سے پاکستانی کھلاڑی اولمپکس میں کوئی بھی میڈلز حاصل نہیں کر سکے۔ اٹلانٹا (1996ء)، سڈنی (2000ء)، ایتھنز(2004ء)، بیجنگ (2008ء)، لندن اولمپکس(2012ء) اور ریو اولمپکس(2016ء) میں قومی دستے کو خالی ہاتھ وطن واپس لوٹنا پڑا۔

ہاکی وہ کھیل تھا جس نے اقوام عالم میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بار بار لہرایا، یہ سلسلہ پاکستان بننے کے فوری بعد شروع ہوا اور 1994 تک جاری رہا، پاکستان نے پہلی بار 1948 کے لندن اولمپکس میں شرکت کی اور چوتھی پوزیشن حاصل کی، 1960 کے روم اولمپکس میںگرین شرٹس نے روایتی حریف بھارت کو صفر کے مقابلے میں ایک گول سے شکست دے کر پہلی مرتبہ اولمپک چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

پاکستان اب تک 3 اولمپکس ، 4 عالمی کپ، 3 چیمپئنز ٹرافی، 7 ایشینز گیمز ، 3 ایشیا کپ اور بڑی تعداد میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس اور سیریز جیت چکا ہے تاہم ماضی کی ہاکی فیڈریشنوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے 1960ء، 1968ء اور 1984ء کے اولمپکس کی فاتح پاکستان کی ہاکی کا گراف نیچے چلا گیا۔ پاکستان کا آخری اولمپک ہاکی میں میڈل کانسی کا ہے، جو اس نے 1992 میں حاصل کیا تھا۔


قومی کھیل کو اس کے پاؤں پر دوبارہ کھڑا کرنے کے کھوکھلے دعوے لئے پی ایچ ایف میں میوزیکل چیئر کی گیم جاری رہی، عہدیدار آتے اورحکومت سے کروڑوں اربوں کے فنڈز لیتے رہے، جائیدادیں بناتے ، بینک بیلنس بڑھاتے اور اپنوں کو نوازتے رہے، نتیجہ یہ نکلا کہ ہاکی ٹیم کی کارکردگی بد سے بد تر ہوتی چلی گئی، ایک وقت وہ بھی آیا جب گرین شرٹس نہ صرف ورلڈ کپ 2014ء بلکہ اولمپکس2016ء کی دوڑ سے بھی باہر ہوئے بلکہ ایف آئی ایچ رینکنگ میںان کا نام ٹاپ ٹین میں بھی نہ رہا۔

2 سال قبل پاکستان ہاکی فیڈریشن کی نئی انتظامیہ نے چارج سنبھالا،1994ء کے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان شہباز احمد سینئر کے سیکرٹری فیڈریشن بننے کے بعد بظاہر محسوس ہونے لگا کہ شاید اب قومی کھیل کی تقدیر بدلنے والی ہے لیکن ان کے دور میں بھی پاکستانی ٹیم کی شرمناک شکستوں کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے، ہر ایونٹ میں ٹیم کی ناکامی کا ذمہ دار ٹیم مینجمنٹ اور سلیکٹرز کو ٹھہرا کر فارغ کرنے کی پریکٹس جاری ہے۔

رواں برس پاکستان ٹیم کا سب سے اہم ایونٹ جون جولائی میں ہونے والے ورلڈ ہاکی لیگ کے سیمی فائنل مقابلے تھے، لیگ سے قبل قومی ٹیم کوآسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے بھی کروائے گئے جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے لیکن یہ خطیر رقم بھی پاکستان ہاکی ٹیم کی ناکامیوں کی تاریخ نہ بدل سکی اورایونٹ کے دوران گرین شرٹس کو شرمناک شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، ورلڈ کپ میں شریک ٹیموں کی تعداد 12 سے 16ہونے کی وجہ سے پاکستانی ٹیم آئندہ برس بھارت میں شیڈول ورلڈ کپ تک رسائی حاصل کرنے میں تو کامیاب ہو گئی لیکن یہ کامیابی بھی ٹیم مینجمنٹ کو فیڈریشن حکام کے قہر سے نہ بچا سکی، ہیڈ کوچ خواجہ محمد جنید، ٹیم منیجر حنیف خان اور کپتان عبدالحسیم خان کو گھروں کی راہ دیکھنا پڑی۔

قومی ٹیم کا اگلا ہدف بنگلہ دیش میں ہونے والا ایشیا کپ تھا، ایشیائی ایونٹ میں کھلاڑیوں کے انتخاب کیلئے رشید جونیئر کی جگہ حسن سردار پر مشتمل نئی سلیکشن کمیٹی تشکیل دی گئی جبکہ ہیڈ کوچ کی ذمہ داری سابق اولیمپئن فرحت خان کو سونپی گئی لیکن ٹیم منیجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی میں یہ تبدیلیاں بھی ٹیم میں انقلاب نہ لا سکیں اور حسب توقع ایشیا کپ میں بھی قومی ٹیم کو ذلت آمیز شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، کچھ ہی دنوں کے بعد قومی ٹیم نے آسٹریلیا میں ہونے والے 4 ملکی ٹورنامنٹ میں حصہ لیا۔

ایونٹ کے دوران گرین شرٹس کو نہ صرف آسٹریلیا کے ہاتھوں2کے مقابلے میں9گول سے تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا بلکہ جاپان جیسی کمزور ٹیم نے بھی شکست سے دو چار کر کے ٹورنامنٹ میں آخری پوزیشن پر دھکیل دیا، اس بڑی ناکامی کے 36روز بعد فرحت خان نے چیف کوچ کے عہدے سے استعفی دے دیا تاہم حیران کن طور پر اگلے ہی روز انہیں سلیکشن کمیٹی کا حصہ بنا دیا گیا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فرحت خان قومی ٹیم کے لئے اتنے ہی اہم تھے تو انہیں چیف کوچ کے عہدے سے مستعفی ہونے کے لئے دباؤ کیوں ڈالا گیا اور اگر وہ ٹیم کے لئے سود مند نہیں تھے تو انہیں سلیکٹرز کیوں لگایا گیا، ملین ڈالر کا سوال یہ بھی ہے کہ ایک ناکام کوچ کامیاب سلیکٹر کیسے بن سکتا ہے؟

قومی ٹیم کی ان ناکامیوں کے بعد منظور جونیئر، منظور الحسن، خواجہ جنید، میرظفراللہ خان جمالی سمیت سابق اولیمپئنز اور انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی بڑی تعداد نے فیڈریشن حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا، عہدے چھوڑنے کے مطالبے کئے، پی ایچ ایف حکام پر فنڈز میں خرد برد کے الزامات بھی لگے، خاتون کھلاڑی کر ہراساں کرنے کا سکینڈل بھی منظر عام پر آیا، ان تمام باتوں کے باوجود پی ایچ ایف کا ورلڈ الیون کو جنوری میں بلانا اور اپریل میں پاکستان ہاکی لیگ کروانے کا انعقاد خوش آئند ہے۔ ان مقابلوں کے کامیاب انعقاد کے بعد نہ صرف ملک میں انٹرنیشنل ہاکی کی بحالی کی راہیں ہموار ہوں گی بلکہ کھلاڑیوں کو بھی کھل کر اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا بھر پور موقع ملے گا۔
Load Next Story