بلوچستان کابینہ کے17وزیر مستعفی متحدہ اپوزیشن کی تشکیل طارق مگسی کی قیادت پر اتفاق
پیپلزپارٹی،آزاد ارکان،ق لیگ اورن لیگ کے ارکان نے استعفے اپوزیشن لیڈر کےحوالے کر دیے،اسمبلی میں اکثریت ثابت کرینگے,زہری
بلوچستان اسمبلی میں پیپلزپارٹی ، آزاد ارکان ، مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے متحدہ اپوزیشن تشکیل دے دی گئی اور وزارتوں سے استعفے دے کر اپوزیشن لیڈر طارق مگسی کے حوالے کردیے گئے ہیں جو منظوری کے لیے گورنر نواب ذوالفقار مگسی کو پیش کریں گے ۔
یہ اعلان ہفتے کو پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر صادق عمرانی، اپوزیشن لیڈر طارق مگسی ، مسلم لیگ (ق) کے صوبائی صدر شیخ جعفرخان مندوخیل ، آزاد رکن سردار اسلم بزنجو ، محمد اسلم بھوتانی ، ریٹائرکیپٹن عبدالخالق نے کوئٹہ میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا ۔ اس موقع پرسلیم کھوسہ' حبیب الرحمن محمد حسنی' بیگم رقیہ ہاشمی' امان اللہ نوتیزئی'صوبیہ کرن ' بابو رحیم مینگل ' سردار مسعود لونی' بسنت لعل گلشن' طارق مسوری' میر شعیب نوشیروانی' جان علی چنگیزی بھی موجود تھے ۔
انھوں نے کہاکہ گورنر راج کی خاتمے کے بعد اب یہ معلوم نہیں کہ صوبے میں کس کی حکمرانی ہے گورنر اسلام آباد جبکہ چیف سیکریٹری کا تبادلہ ہوگیا ہے صوبے میں کوئی ذمے دار شخص موجود نہیں نگران سیٹ اپ کے لیے وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کا ہونا ضروری ہے، کچھ جماعتیں اپنی مرضی کا نگران سیٹ اپ اور مرضی ہی کا اپوزیشن لیڈر لانا چاہتی ہیں، اس وقت ہمیں 40 ارکان کی حمایت حاصل ہیں جن میں سے اکثریت وزراء کی تھی اور آج انھوں نے اپنے استعفے اپوزیشن لیڈر کے ذریعے گورنر کو بھجوادیے ہیں۔
جب 40 وزراء استعفے دیں گے تو قانونی طور پر حکومت ختم ہوجاتی ہے اور موجودہ حکومت کو اخلاقی طور پر مستعفی ہونا چاہیے ، ہم کسی صورت میں جانبدار نگران سیٹ اپ قبول نہیں کریں گے ۔ جبکہ مسلم لیگ(ن) نے بھی بلوچستان اسمبلی میںاپوزیشن میںبیٹھنے کااعلان کردیا ہے اوروزراء نے اپنے استعفیٰ قیادت کوپیش کردیے۔
ہفتے کومسلم لیگ (ن)کے صوبائی صدرسردار ثناء اللہ زہری ،نوابزادہ لشکری رئیسانی اور یگرنے پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیاکہ ایوان میں مسلم لیگ(ق)،آزاد ارکان ،پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے 30 سے 40 اراکین اسمبلی کیساتھ ہماری رابطے ہیںاورانشاء اللہ ہم اسمبلی کے اندراپنی اکثریت ثابت کرینگے جبکہ،جے یو آئی اورمسلم لیگ (ق)کے بعد(ن) لیگ کے بھی اپوزیشن میں بیٹھنے کے اعلان پرنگران سیٹ اپ کیلیے صوبے میںسیاست نے نیارخ اختیارکرلیا،اپوزیشن لیڈرکی سیٹ کیلیے ارکان اسمبلی اورسیاسی جماعتوں کے درمیان کھینچا تانی شروع ہوگئی ہے۔
پارلیمنٹ سے باہراوراندربعض جماعتوں نے متوقع نگران وزیراعلیٰ سیداحسان شاہ کی شدیدطورپرمخالفت شروع کردی بلکہ نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے دھمکی دی ہے کہ اگرصوبے میں جانبدار وزیراعلیٰ اورکابینہ کومسلط کرنے کی کوشش کی گئی توعین ممکن ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لینے کے فیصلے پرنظرثانی کرے۔
یہ اعلان ہفتے کو پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر صادق عمرانی، اپوزیشن لیڈر طارق مگسی ، مسلم لیگ (ق) کے صوبائی صدر شیخ جعفرخان مندوخیل ، آزاد رکن سردار اسلم بزنجو ، محمد اسلم بھوتانی ، ریٹائرکیپٹن عبدالخالق نے کوئٹہ میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا ۔ اس موقع پرسلیم کھوسہ' حبیب الرحمن محمد حسنی' بیگم رقیہ ہاشمی' امان اللہ نوتیزئی'صوبیہ کرن ' بابو رحیم مینگل ' سردار مسعود لونی' بسنت لعل گلشن' طارق مسوری' میر شعیب نوشیروانی' جان علی چنگیزی بھی موجود تھے ۔
انھوں نے کہاکہ گورنر راج کی خاتمے کے بعد اب یہ معلوم نہیں کہ صوبے میں کس کی حکمرانی ہے گورنر اسلام آباد جبکہ چیف سیکریٹری کا تبادلہ ہوگیا ہے صوبے میں کوئی ذمے دار شخص موجود نہیں نگران سیٹ اپ کے لیے وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کا ہونا ضروری ہے، کچھ جماعتیں اپنی مرضی کا نگران سیٹ اپ اور مرضی ہی کا اپوزیشن لیڈر لانا چاہتی ہیں، اس وقت ہمیں 40 ارکان کی حمایت حاصل ہیں جن میں سے اکثریت وزراء کی تھی اور آج انھوں نے اپنے استعفے اپوزیشن لیڈر کے ذریعے گورنر کو بھجوادیے ہیں۔
جب 40 وزراء استعفے دیں گے تو قانونی طور پر حکومت ختم ہوجاتی ہے اور موجودہ حکومت کو اخلاقی طور پر مستعفی ہونا چاہیے ، ہم کسی صورت میں جانبدار نگران سیٹ اپ قبول نہیں کریں گے ۔ جبکہ مسلم لیگ(ن) نے بھی بلوچستان اسمبلی میںاپوزیشن میںبیٹھنے کااعلان کردیا ہے اوروزراء نے اپنے استعفیٰ قیادت کوپیش کردیے۔
ہفتے کومسلم لیگ (ن)کے صوبائی صدرسردار ثناء اللہ زہری ،نوابزادہ لشکری رئیسانی اور یگرنے پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیاکہ ایوان میں مسلم لیگ(ق)،آزاد ارکان ،پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے 30 سے 40 اراکین اسمبلی کیساتھ ہماری رابطے ہیںاورانشاء اللہ ہم اسمبلی کے اندراپنی اکثریت ثابت کرینگے جبکہ،جے یو آئی اورمسلم لیگ (ق)کے بعد(ن) لیگ کے بھی اپوزیشن میں بیٹھنے کے اعلان پرنگران سیٹ اپ کیلیے صوبے میںسیاست نے نیارخ اختیارکرلیا،اپوزیشن لیڈرکی سیٹ کیلیے ارکان اسمبلی اورسیاسی جماعتوں کے درمیان کھینچا تانی شروع ہوگئی ہے۔
پارلیمنٹ سے باہراوراندربعض جماعتوں نے متوقع نگران وزیراعلیٰ سیداحسان شاہ کی شدیدطورپرمخالفت شروع کردی بلکہ نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے دھمکی دی ہے کہ اگرصوبے میں جانبدار وزیراعلیٰ اورکابینہ کومسلط کرنے کی کوشش کی گئی توعین ممکن ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لینے کے فیصلے پرنظرثانی کرے۔