دہشت گردی کی تاریکی میں کرسمس روشنی ہے محبت کا پیغام عام کیا جائے

کرسمس کی تقریبات میں دیگر مذاہب کے پیروکار پاکستانیوں کی شرکت سے دنیاکو یکجہتی کا پیغام جاتا ہے۔

’’کرسمس اور سانحہ کوئٹہ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

دسمبر کا آغاز ہوتے ہی دنیا بھر میں مسیحی برادری کی جانب سے کرسمس کی سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں جن میں کرسمس ٹری کا سجانا، گرجا گھروں، بازاروں اور نجی و سرکاری رہائش گاہوں کی سجاوٹ، تحائف کا تبادلہ، کیک کاٹنے کی تقاریب و دیگر شامل ہیں۔رواں برس پاکستان میں کرسمس کی تقریبات خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات میں منعقد کی جارہی ہیں کیونکہ 17 دسمبر کو کوئٹہ میںچرچ پر دہشت گردی کاایک افسوسناک واقعہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں 9 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ اس خود کش دھماکے کی وجہ سے پوری قوم سوگوار ہے اور مسیحی برادری کے دکھ میں برابر کی شریک ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ایکسپریس فورم میں ''کرسمس اور سانحہ کوئٹہ'' کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مذہبی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد (خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)

دین اسلام ایک پر امن مذہب ہے جو سلامتی ، محبت اور اخوت کا درس دیتا ہے جبکہ دیگر مذاہب میں بھی ایسی تعلیمات ملتی ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو امن کا شہزادہ کہا گیا جبکہ حضرت محمدﷺ کی تعلیمات میں محبت کا پیغام ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہاں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے لہٰذا ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کرسمس کے موقع پر مسیحی برادری کی تمام عبادتگاہوں پر خصوصی سکیورٹی انتظامات کیے جائیں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچا جاسکے۔ کوئٹہ میں چرچ پر دہشت گردی کا حملہ انتہائی افسوسناک ہے، یہ حملہ چرچ پر نہیں بلکہ پاکستان پر حملہ ہے ۔ ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور پوری قوم متاثرین کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ دہشت گردوں نے تمام مذاہب کے لوگوں، بچوں، بڑوں، سکیورٹی اہلکاروں سمیت سب کو ٹارگٹ کیا اور کوئی بھی طبقہ ا ن سے محفوظ نہیں رہا تاہم افواج پاکستان نے آپریشن ضرب عضب اور بعدازاں آپریشن رد الفساد کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی اور ان کا قلع قمع کردیا تاہم بھارت کی پشت پناہی سے یہاں دہشت گردی ہورہی ہے لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ یہ لوگ کون ہیں اور کہاں سے آرہے ہیں؟ ہمیں اپنے لوگوں پر بھی نظر رکھنا ہوگی اوراس کے لیے ہمیں من حیث القوم کام کرنا ہوگا۔ ہم پاکستان کے اندر اور باہر امن کا پیغام پھیلا رہے ہیں اور ہم نے محبت اور رواداری کے فروغ کے ذریعے پاکستان کا صحیح امیج دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ 25 دسمبر کو کرسمس اور قائد اعظمؒ کی پیدائش جبکہ چند دن بعد نئے سال کا آغاز بھی ہورہا ہے لہٰذا ہمیں اسلامی تعلیمات اور قائد اعظمؒ کی فکر کے مطابق نئے سال میں داخل ہونا ہوگا۔ انسانیت کی خدمت اور مذہبی ہم آہنگی ہمارا مشن ہے، یہ مشن ہمارے بڑوں نے شروع کیا اور ہم اس تقلید کرتے ہوئے آج بھی ہم خوشی اور غم کے لمحات میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دہشت گردوں کی یہ کارروائیاں ہمیں آپس میں لڑانے اور انتشار پھیلانے کیلئے ہیں مگر دہشت گرد جو بھی کرلیں، تمام پاکستانی ہمیشہ متحد رہیں گے اور اسی طرح ہی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے آگے بڑھتے رہیں گے۔ میں تمام مسیحیوں کو حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کے موقع پر کرسمس کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

بشپ سباسٹین شاہ (آرچ بشپ آف لاہور)

میں سانحہ کوئٹہ کی پرزور مذمت کرتا ہوں اور میری تمام تر ہمدردیاں متاثرین کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔ اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی میں نے لوگوںسے درخواست کی کہ وہ گھبراہٹ کا شکار ہوکر خوف وہراس نہ پھیلائیں بلکہ عقلی دلیل استعمال کریں۔ آفات دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک قدرتی جبکہ دوسری انسان کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ دہشت گردی ان میں سے ہی ایک ہے جسے انسان نے بنایا اور اس کا خاتمہ بھی خود انسانوں نے ہی کرنا ہے۔ ہمارے بچے، بڑے، تمام مذاہب کے لوگ، فوجی جوان، پولیس اہلکار و دیگر افراد دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے ہیں، حال ہی میں جو فوجی جوان شہید ہوئے ہیں ہم ان کے ساتھ بھی اظہار ہمدردی رکھتے ہیں اور وطن عزیز کے تمام شہداء کیلئے دعا گو ہیں۔ دہشت گرد پہلے ہماری سرحدوں سے باہر تھے مگر اب وہ گلی محلوں میں پہنچ چکے ہیں جو تمام پاکستانیوں کو بلاتفریق نشانہ بنا رہے ہیں لہٰذا ہمیں برملا کہنا چاہیے کہ یہ پاکستان کے دشمن ہیں اور کوئٹہ چرچ پر حملہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہے۔ کوئٹہ کو سیف سٹی بنانے کیلئے بہت زیادہ کام ہوا مگر یہ سٹی آج بھی سیف نہیں ہے۔ اس ہائی رسک شہر پر مزید توجہ دینی چاہیے۔ دہشت گردی ایک ناسور ہے جس کا خاتمہ پوری قوم کیلئے چیلنج بن چکا ہے۔ لاہور میں چرچ و مسیحی برادری کے دیگر اداروں کی حفاظت کیلئے سکیورٹی ادارے کام کررہے ہیں اور اب مزید بہتر انتظامات کیے جارہے ہیں تاہم ہمارے بہت سارے سکول اور چرچ ایسے ہیں جو سکیورٹی انتظامات کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے مگر اداروں کی جانب سے ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ ان اداروں کو بند کرنے کے بجائے انہیں سرکاری سطح پر سکیورٹی فراہم کی جائے تاکہ مسیحی برادری متاثر نہ ہو اور کرسمس کی خوشیاں بھرپور طریقے سے منا سکے۔ ہم خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات میں کرسمس منانے جارہے ہیں مگر ہمارے حوصلے پست نہیں ہیں۔ آئیں سب مل کر امن قائم کرنے کیلئے تحریک چلائیں اوراس تحریک کا آغاز اپنے گھر سے کریں۔ اپنے بچوں کو محبت کا پیغام دیں کہ وہ مذہب، معاشی اور معاشرتی تفریق کی بنیاد پر کسی سے نفرت نہ کریں کیونکہ خدا سب کا ہے اور اس سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی مخلوق سے محبت کی جائے۔ دعا ہے کہ 2018ء کا سورج ملک میں امن و سلامتی کا پیغام لے کر طلوع ہو اور پھر یہاں ہمیشہ کے لیے امن قائم ہوجائے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے اس کرسمس کے موقع پر بھی ایسی تقریبات منعقد کی جارہی ہیں جن میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد اور قائدین شرکت کررہے ہیں۔ ہم نے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے خصوصی دعا کا اہتمام بھی کیا جس میں ہندو، مسلم اور عیسائی مذہب کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی جس سے دنیا کو یکجہتی کا پیغام گیا اور آپس میں انتشار پھیلانے کے دشمن کے عزائم خاک میں مل گئے۔

بشپ عرفان جمیل ( بشپ آف لاہور)


سانحہ کوئٹہ پر پورا ملک سوگوار ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور شہداء و زخمیوں کے خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی اور یکجہتی کرتے ہیں۔ دہشت گردی کسی ایک مذہب یا فرقے نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے اور یہ واقعات ہر جگہ رونما ہو رہے ہیں جس میں تمام مذاہب کی عباتگاہیں، سکول، بازار و دیگر جگہیں متاثر ہوئی ہیں۔ یسوع مسیحؑ کی پیدائش سے قبل بھی تاریکی تھی اور وہ نجات دہندہ بن کر آئے جس سے لوگوں کو خوشخبری ملی۔ اب دہشت گردی کی صورت میں پیدا ہونے والی اس تاریکی میں کرسمس ایک خوشخبری ہے لہٰذا اب ہمیں ذہنی، دینی، معاشی اور معاشرتی تاریکی کو دور کرنا ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ خدا کے پیچھے چلیں کیونکہ یہی نور کا راستہ ہے۔ ہمیں اپنی سوچ تبدیل کرنی چاہیے اور اس کا آغاز اپنے گھر سے کریں۔ اپنے بچوں کو کھلونے میں پستول کی جگہ کوئی دوسرا کھلونا دیں اور انہیں کسی کو گزند پہنچنانے اور نفرت کرنے سے روکیں۔ انسانیت کے ساتھ محبت کا پیغام عام کریں تاکہ مل جل کر مسائل کا مقابلہ کیا جاسکے۔ کرسمس امن کا پیغام نہیں بلکہ امن ہے کیونکہ یسوع مسیحؑ امن کے شہزادے ہیں لہٰذا ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانا ہوگا اور دنیا میں امن قائم کرنا ہوگا۔ یسوع مسیحؑ نے خود قربانی دیکر ہمیں قربانی دینے کا درس دیا ۔ ان کی یہ قربانی پوری امت کے لیے تھی لہٰذا ہمیں ان کی تقلید کرتے ہوئے قربانیاں دینے اوردنیا سے برائیوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

پادری شاہد معراج

گزشتہ دنوں کوئٹہ چرچ پر ہونے والے حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ پوری قوم اس واقعہ پر غمگین ہے کیونکہ کرسمس کے ایام میں اس سے غم اور افسردگی پیدا ہوئی ہے۔ دہشت گردوں کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے بلکہ وہ تمام لوگوں کو بلاتفریق رنگ، نسل، قومیت، مذہب اور عقیدہ نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستانی قوم، مسلح افواج، پولیس و دیگر سکیورٹی اداروں ، بچوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور یہ ساری قربانیاں وطن عزیز کی سالمیت کیلئے ہیں کیونکہ پاکستان ہمارا گھر ہے اور اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ شہداء کی قربانیوں سے جو شمع روشن ہوئی ہے،یہ وہی شمع ہے جو خداوند یسوع مسیحؑ کی آمد کے وقت روشن ہوئی تھی جس نے ہمیں قربانی کا درس دیا۔ میرے نزدیک جو قوم قربانی دینا جانتی ہے اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ 2013ء میںسانحہ پشاور چرچ کے بعد سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور اقلیتوں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے موجود مختلف درخواستوں پر 2014ء میںفیصلہ سنایا ۔ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میںسپریم کورٹ کے بینچ نے اقلیتوں کے حوالے سے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کیلئے حکومت کو خصوصی ٹاسک فورس بنانے کا حکم دیا جس پر تاحال عمل نہیں ہوسکا۔ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان بہترین تھا مگر سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اس پر صحیح معنوں میں عمل نہیں ہوسکا جس کا ہمیں نقصان ہورہا ہے لہٰذا دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے اس پر صحیح معنوں میں کام کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ قائد اعظمؒ کی قیادت میں تمام لوگوں نے بلاتفریق مذہب، رنگ اور نسل پاکستان کے قیام کیلئے جدوجہد کی۔ مسیحی برادری قیام پاکستان سے لے کر تعمیر پاکستان تک قربانیاں دیں اور اب پاکستان کی سالمیت کے لیے بھی قربانی دینے کیلئے تیار ہے اور دے بھی رہی ہے۔ یسوح مسیح ؑ سلامتی اور امن کے شہزادے ہیں اوران کی تعلیمات یہی ہیں کہ ایک دوسرے کا احترام کریں تاکہ امن قائم ہوسکے۔ اقوام متحدہ امن اور سلامتی کا ادارہ ہے مگر وہاں سے لوگوں کو امن نہیں مل رہا کیونکہ ادھر موجود بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں جبکہ کشمیری، قرار دادیں پاس ہونے کے باوجود بھی ان پر عملدرآمد کے طلب گار ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال خراب ہے جبکہ امریکا دھمکیاں دے رہا ہے جس سے دنیا مزید انتشار کی طرف جائے گی لہٰذا ہم اس فساد کی مذمت کرتے ہیں۔بدقسمتی سے آج ہم نے خدا کو عبادتگاہوں میں محدود رکھا ہے اور خدا کے نام پر قتل و غارت کررہے ہیں حالانکہ خدا سب کا ہے۔ خدا سے لازوال محبت کو صرف عبادت گاہوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس محبت کو اُس کی مخلوق میں بھی عام کریں۔ کرسمس انسانیت سے پیار، احترام اور عزت کا پیغام دیتا ہے۔ یہ محبت کا تہوار ہے جو کسی ایک مذہب یا گروہ کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے ۔اس کرسمس کے موقع پر ہماری دعا یہی ہے کہ پاکستان کے لوگ امن اور سلامتی کے ساتھ نہ صرف خود زندگی بسر کریں بلکہ محبت اور رواداری کو مزید فروغ دیکر دشمن کے عزائم خاک میں ملادیں۔

فادر جیمز چنن (ڈائریکٹر پیس سینٹر)

کرسمس محبت، رواداری اور ہم آہنگی کا پیغام دیتا ہے اور اپنے ساتھ خوشیاں لاتا ہے۔ پاکستانی قوم بلاتفریق مذہب ہماری خوشیوں میں شامل ہوتی ہے جس سے دنیا کو یکجہتی کا پیغام جاتا ہے۔ کرسمس خاندانی تہوار ہے جس میں تمام مسیحی اپنی ناراضگیاں بھلا کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں لہٰذا ہمیں امن اور سلامتی کا یہ پیغام پوری دنیا میں عام کرنا چاہیے۔ کرسمس سے چند روز قبل دہشت گردوں نے کوئٹہ میں چرچ پر حملہ کیا جو قابل مذمت ہے۔ اس میں 9 افراد جاں بحق اور 50 کے قریب لوگ زخمی ہوئے ۔ یہ مسیحی برادری کی خوشیوں میں خلل ڈالنے کی کوشش کی گئی مگر پاکستانی ایک بہادر قوم ہیں جنہیں ڈرایا نہیں جاسکتا۔ ہم حکومت اور افواج پاکستان کے مشکور ہیںجنہوں نے سکیورٹی کو پہلے سے بہتر کیا ہے جس کے بعد دہشت گردی کی کارروائیوں میں واضح کمی آئی ہے تاہم دہشت گرد اب اس طرح کی کارروائیوں سے قوم کو ڈرانا چاہتے ہیں۔ دہشت گردوں کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے بلکہ وہ ہر جگہ حملہ کررہے ہیں۔ ہمارے سکول، عبادت گاہیں، بازار و دیگر مقامات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ دہشت گرد ملکی سلامتی اور تمام مذاہب کے دشمن ہیں لہٰذا ہم سب کو مل کر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ معلوم کرنا چاہیے کہ یہ کون لوگ ہیں، ان کے پیچھے کون ہے اور اگر انہیں کسی بیرونی قوت کی پشت پناہی حاصل ہے تو اسے بھی بے نقاب کیا جائے۔ ہم بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے بھی کام کررہے ہیں اور اس کے لیے ایسی تقاریب منعقد کی جارہی ہیں جس میں تمام مذاہب کے قائدین شرکت کرتے ہیں تاکہ دنیا میں یکجہتی، امن اور رواداری کے پیغام کو عام کیا جاسکے۔

 
Load Next Story