ساس بہو کا ٹاکرا
بہو بڑے چاؤ سے گھر میں لائی جاتی ہے، لیکن کچھ ہی دنوں میں اس کی ہر بات بری لگنے لگتی ہے۔
میرے شوہر کہتے ہیں کہ جب سے میں نے بیٹے ارسلان کی شادی کی ہے اور فاکہہ دلہن بن کر اس گھر میں آئی ہے تمہارے تو تیور ہی بدل کر رہ گئے ہیں۔ چھوٹی سی بات ہوتی ہے تم ارسلان کے کان کھانا شروع کر دیتی ہو کہ فاکہہ کو اس کے گھر چھوڑ آؤ۔ فاکہہ اپنے گھر جاکر مزے کر آتی ہے، جب کہ گھر کا سارا لوڈ تمہارے یا تمہاری بیٹی رضیہ کے سر پر چلا جاتا ہے، تم بولائی بولائی پھرتی ہو، لیکن اپنی غلطی کا فہم و ادراک تمہیں نہیں ہوتا، اس لیے کہ تمہاری مطلق العنانی یا سادہ لفظوں میں یہ کہہ لو کہ حکمرانی کا سنگھاسن ڈانواڈول ہونے لگتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ تم سے شادی ہوئے 35 برس ہوچکے ہیں، چنانچہ میں عورتوں کی نفسیات سے آگاہ ہوچکا ہوں (پوری طرح سے تو نہیں البتہ جزوی طور پر ) تم عورتوں کی مثال مرغیوں جیسی ہے، جہاں کوئی نئی مرغی دڑبے میں داخل ہوئی پرانی اور گھاگ مرغیوں نے اسے ٹونگیں مارنا شروع کردیں۔ وہ بے چاری سہم کر ایک طرف بیٹھ جاتی ہے اور اپنے حصے کا دانہ دنکا بھی اچھی طرح سے نہیں کھا پاتی۔
بہو بڑے چاؤ سے گھر میں لائی جاتی ہے، لیکن کچھ ہی دنوں میں اس کی ہر بات بری لگنے لگتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہو بولائی بولائی پھرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ساس کی حکمرانی کو خدشات لاحق ہوجاتے ہیں۔ گھر کی چابیاں بہو کے ہاتھ میں نہ چلی جائیں۔ لڑکا اور اس کے چھوٹے بھائی اپنی کمائی لاکر بہو کے ہاتھ پر نہ رکھنا شروع کردیں۔ بہو کی پسند، ناپسند ساس کے سر پر مسلط نہ ہوجائے۔ گھر میں جو کام والی آتی ہے، اس سے کام کون لے گا؟ (سلیس اردو میں اس کا ترجمہ یہ ہوا کہ اس کے سر پر کھڑے ہوکر ڈانٹ ڈپٹ کون کرے گا؟) اس وقت کھانے میں کیا پکے گا؟ بریانی یا بھنا چٹپٹا گوشت؟ (جب کہ تمہارا معدہ بوڑھا ہوچکا ہے، چنانچہ تم سادہ لوکی گوشت یا آلو کے بھرتے کے حق میں ہوتی ہو) بہو نے شادی سے پہلے گھر سے قدم باہر نہیں نکالا ہوتا اس لیے وہ گھومنے پھرنے کی شوقین ہوتی ہے اور شوہر سے کلفٹن، سند باد، منوڑا یا ہل پارک چلنے کی فرمائش کرتی ہے۔ جب کہ تم ناک بھوں چڑھا کر بیٹے سے کہتی ہوکہ وہ گھر میں بیٹھے۔ سردی میں اتنی دور جاکر مرنے کی کیا ضرورت ہے (حقیقت یہ ہے کہ وہ کہیں بیوی کے چکر میں آکر ماں کو فراموش نہ کر بیٹھے، ماں اس کی آنکھوں کا تارہ بنی رہے)
٭٭٭
جب سے اس گھر میں ارسلان کی بیوی بن کر کیا آئی ہوں، میرا درجہ کام والی عورتوں سے کمتر ہوگیا ہے۔ کتنا اچھا سے اچھا کام کر ڈالو، ساس صاحبہ ہیں کہ اس میں کیڑے نکال دیتی ہیں (کیڑے ڈال دیتی ہیں کہنا زیادہ مناسب ہوگا)، یوں نہیں یوں کرتیں تو زیادہ مناسب ہوتا۔ صبح اٹھ کر چولہے میں منہ گھسیڑ دیتی ہوں، ارسلان، ان کے والد اور دیور تو کچھ نہیں کہتے، لیکن میری نند اور ساس صاحبہ مطمئن ہی نہیں ہوتیں۔ روز انڈہ پراٹھا کیوں بنا کر رکھ دیتی ہو؟ تمہیں کچھ اور نہیں آتا؟ (تو کیا آلو چھولے کا سالن بناؤں) انھیں حلوہ پراٹھا پسند ہے، اس لیے ناک بھوں سکیڑتی ہیں۔ بچوں نے مجھے سمجھا دیا ہے کہ انھیں ذیابیطس ہے، اس لیے میٹھی چیزیں ان کے لیے تیار نہ کی جائیں۔
منّے کو دودھ پلانے کے اوقات مقرر ہیں۔ اسے دودھ نہ پلاؤ تو وہ رو رو کر آسمان سر پہ اٹھا لیتا ہے۔ مگر اسی وقت ساس صاحبہ کو اہم کام یاد آجاتے ہیں ''ارے بہو کہاں ہو؟ پاندان میں کتھا گرم کرکے ڈال دو، منہ کیسا پھیکا پھیکا سا ہورہا ہے۔ میں جواب نہ دوں تو قیامت ہی آجاتی ہے۔ ''کہاں منہ چھپائے بیٹھی ہو؟ کبھی کوئی کام بغیر کہے کردیا کرو۔'' (گویا میں چولہا ہانڈی کرنے کے علاوہ ان کے پاندان میں بھی جھانکتی رہوں)
میں ارسلان اور اپنے کپڑے واشنگ مشین میں ڈالتی ہوں تو اپنے کپڑے بھی لے آتی ہیں۔ معصومیت سے پوچھتی ہیں ''کیا کپڑے دھو رہی ہو؟''
جی تو چاہتا ہے کہ کہہ دوں نہیں، کیرم بورڈ کھیل رہی ہوں (ان کی صاحبزادیاں اس وقت یہ نیک فرائض انجام دے رہی ہوتی ہیں) اسپاٹ لہجے میں کہتی ہوں، جی۔ ہونٹوں پر ایک چکنی چپڑی مسکراہٹ سجا کر کہتی ہیں ''کوئی حرج نہ ہو تو یہ بھی مشین میں ڈال دو۔''
میں بھی چاپلوسی سے کہتی ہوں ''لائیے کوئی حرج نہیں ہے۔'' (اس لیے کہ شام کو مجھے شاپنگ کے لیے ارسلان کے ساتھ جانا ہے) شام کو جب کپڑے سوکھ جاتے ہیں تو میں انھیں استری کرکے جوڑا پیش کر دیتی ہوں، تب کہیں جاکر لائن کلیئر ہوجاتی ہے۔
سنا ہے کہ کسی زمانے میں زیب النساء جیسے رسالوں میں رومانی کہانیاں لکھتی تھیں۔ اب بھی طبیعت جولانی پر ہوتی ہے تو کاغذ قلم تلاش کرنے لگتی ہیں۔ الٹی سیدھی دو چار سطریں گھسیٹنے کے بعد جب دماغ کا سوتا خالی ہوجاتا ہے تو ٹیلی وژن دیکھنے بیٹھ جاتی ہیں۔ انھیں لتا منگیشکر کے گانے پسند ہیں۔ وہ نہ آرہے ہوں تو جھنجلا کر ٹیلی وژن آف کر دیتی اور ویکلی اخبار میگزین اٹھالیتی ہیں۔ (ٹھیک اس وقت جب کہ میرا دل چاہ رہا ہوتا ہے اور منا سو رہا ہوتا ہے) تب میں ڈائجسٹوں میں دماغ کھپانے لگتی ہوں۔ اس پر سرگوشیوں میں اپنے شوہر سے سرگوشیوں میں کہتی ہیں ''اے! دیکھتے ہو؟ فاکہہ لنگور ڈائجسٹ پڑھ رہی ہے۔'' (حالانکہ میں انگور پر مضمون پڑھ رہی تھی)۔
انھیں میرے دوا کھانے پر بھی اعتراض ہے، چاہے کوئی بھی مرض ہو۔ میں ارسلان کے ساتھ جاکر ڈاکٹر توقیر کے ہاں سے دوا لے آتی ہوں، شفایاب ہوجاتی ہوں۔ انھیں ہومیوپیتھک سے فائدہ نہیں ہوتا (بات اعتقاد کی بھی ہے، کہتی ہیں یہ شکر کی ننھی منی گولیاں کیا کریں گی؟ گولیوں کا سائز تو بڑا ہونا چاہیے، تاکہ جراثیم ڈر کر بھاگ جائیں) حکمت کی دواؤں میں کوٹنا پیسنا پڑتا ہے، اس لیے ان کے دل کو نہیں لگتیں۔ اور دوا کڑوی کسیلی ہو تو نالی میں نظر آتی ہے یا گھر کے پچھواڑے کوڑے دان میں مل جاتی ہے۔ لامحالہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر تو وہ بھی ڈاکٹروں سے علاج کراتی ہوں گی؟ جی نہیں۔ وہ اپنے ٹوٹکوں پر بھروسہ کرتی ہیں اور پودینے میں ادرک اور شہد میں کلونجی پیس کر ملاتی رہتی ہیں۔ کبھی کبھار شفا پا جاتی ہیں ورنہ ہائے ہائے کرتی ہیں۔
ہر ایری غیری خواتین یعنی پڑوسن کو دوست بنا نے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتیں، چنانچہ گھر میں ان کی وجہ سے رونق رہتی ہے۔ ان کی پی آر کافی وسیع ہے، جب کہ میرے کالج کی سہیلیاں گھر آجائیں تو بڑی بی کا منہ بن جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح غیروں کو گھر میں بٹھانے سے بجٹ پر بھیانک اثر پڑتا ہے۔ چنانچہ بجٹ کو خسارے سے بچانے کے لیے ایسی خواتین سے بچنا چاہیے، جن سے ملے ہوئے طویل مدت گزر جائے، انھیں کم دودھ والی چائے کے ساتھ دو پاپے کھلا کر ٹرخا دینا چاہیے۔ میں اب انھی ہدایات کی روشنی میں کام کر رہی ہوں اور زندگی سکون و اطمینان سے گزر رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ تم سے شادی ہوئے 35 برس ہوچکے ہیں، چنانچہ میں عورتوں کی نفسیات سے آگاہ ہوچکا ہوں (پوری طرح سے تو نہیں البتہ جزوی طور پر ) تم عورتوں کی مثال مرغیوں جیسی ہے، جہاں کوئی نئی مرغی دڑبے میں داخل ہوئی پرانی اور گھاگ مرغیوں نے اسے ٹونگیں مارنا شروع کردیں۔ وہ بے چاری سہم کر ایک طرف بیٹھ جاتی ہے اور اپنے حصے کا دانہ دنکا بھی اچھی طرح سے نہیں کھا پاتی۔
بہو بڑے چاؤ سے گھر میں لائی جاتی ہے، لیکن کچھ ہی دنوں میں اس کی ہر بات بری لگنے لگتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہو بولائی بولائی پھرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ساس کی حکمرانی کو خدشات لاحق ہوجاتے ہیں۔ گھر کی چابیاں بہو کے ہاتھ میں نہ چلی جائیں۔ لڑکا اور اس کے چھوٹے بھائی اپنی کمائی لاکر بہو کے ہاتھ پر نہ رکھنا شروع کردیں۔ بہو کی پسند، ناپسند ساس کے سر پر مسلط نہ ہوجائے۔ گھر میں جو کام والی آتی ہے، اس سے کام کون لے گا؟ (سلیس اردو میں اس کا ترجمہ یہ ہوا کہ اس کے سر پر کھڑے ہوکر ڈانٹ ڈپٹ کون کرے گا؟) اس وقت کھانے میں کیا پکے گا؟ بریانی یا بھنا چٹپٹا گوشت؟ (جب کہ تمہارا معدہ بوڑھا ہوچکا ہے، چنانچہ تم سادہ لوکی گوشت یا آلو کے بھرتے کے حق میں ہوتی ہو) بہو نے شادی سے پہلے گھر سے قدم باہر نہیں نکالا ہوتا اس لیے وہ گھومنے پھرنے کی شوقین ہوتی ہے اور شوہر سے کلفٹن، سند باد، منوڑا یا ہل پارک چلنے کی فرمائش کرتی ہے۔ جب کہ تم ناک بھوں چڑھا کر بیٹے سے کہتی ہوکہ وہ گھر میں بیٹھے۔ سردی میں اتنی دور جاکر مرنے کی کیا ضرورت ہے (حقیقت یہ ہے کہ وہ کہیں بیوی کے چکر میں آکر ماں کو فراموش نہ کر بیٹھے، ماں اس کی آنکھوں کا تارہ بنی رہے)
٭٭٭
جب سے اس گھر میں ارسلان کی بیوی بن کر کیا آئی ہوں، میرا درجہ کام والی عورتوں سے کمتر ہوگیا ہے۔ کتنا اچھا سے اچھا کام کر ڈالو، ساس صاحبہ ہیں کہ اس میں کیڑے نکال دیتی ہیں (کیڑے ڈال دیتی ہیں کہنا زیادہ مناسب ہوگا)، یوں نہیں یوں کرتیں تو زیادہ مناسب ہوتا۔ صبح اٹھ کر چولہے میں منہ گھسیڑ دیتی ہوں، ارسلان، ان کے والد اور دیور تو کچھ نہیں کہتے، لیکن میری نند اور ساس صاحبہ مطمئن ہی نہیں ہوتیں۔ روز انڈہ پراٹھا کیوں بنا کر رکھ دیتی ہو؟ تمہیں کچھ اور نہیں آتا؟ (تو کیا آلو چھولے کا سالن بناؤں) انھیں حلوہ پراٹھا پسند ہے، اس لیے ناک بھوں سکیڑتی ہیں۔ بچوں نے مجھے سمجھا دیا ہے کہ انھیں ذیابیطس ہے، اس لیے میٹھی چیزیں ان کے لیے تیار نہ کی جائیں۔
منّے کو دودھ پلانے کے اوقات مقرر ہیں۔ اسے دودھ نہ پلاؤ تو وہ رو رو کر آسمان سر پہ اٹھا لیتا ہے۔ مگر اسی وقت ساس صاحبہ کو اہم کام یاد آجاتے ہیں ''ارے بہو کہاں ہو؟ پاندان میں کتھا گرم کرکے ڈال دو، منہ کیسا پھیکا پھیکا سا ہورہا ہے۔ میں جواب نہ دوں تو قیامت ہی آجاتی ہے۔ ''کہاں منہ چھپائے بیٹھی ہو؟ کبھی کوئی کام بغیر کہے کردیا کرو۔'' (گویا میں چولہا ہانڈی کرنے کے علاوہ ان کے پاندان میں بھی جھانکتی رہوں)
میں ارسلان اور اپنے کپڑے واشنگ مشین میں ڈالتی ہوں تو اپنے کپڑے بھی لے آتی ہیں۔ معصومیت سے پوچھتی ہیں ''کیا کپڑے دھو رہی ہو؟''
جی تو چاہتا ہے کہ کہہ دوں نہیں، کیرم بورڈ کھیل رہی ہوں (ان کی صاحبزادیاں اس وقت یہ نیک فرائض انجام دے رہی ہوتی ہیں) اسپاٹ لہجے میں کہتی ہوں، جی۔ ہونٹوں پر ایک چکنی چپڑی مسکراہٹ سجا کر کہتی ہیں ''کوئی حرج نہ ہو تو یہ بھی مشین میں ڈال دو۔''
میں بھی چاپلوسی سے کہتی ہوں ''لائیے کوئی حرج نہیں ہے۔'' (اس لیے کہ شام کو مجھے شاپنگ کے لیے ارسلان کے ساتھ جانا ہے) شام کو جب کپڑے سوکھ جاتے ہیں تو میں انھیں استری کرکے جوڑا پیش کر دیتی ہوں، تب کہیں جاکر لائن کلیئر ہوجاتی ہے۔
سنا ہے کہ کسی زمانے میں زیب النساء جیسے رسالوں میں رومانی کہانیاں لکھتی تھیں۔ اب بھی طبیعت جولانی پر ہوتی ہے تو کاغذ قلم تلاش کرنے لگتی ہیں۔ الٹی سیدھی دو چار سطریں گھسیٹنے کے بعد جب دماغ کا سوتا خالی ہوجاتا ہے تو ٹیلی وژن دیکھنے بیٹھ جاتی ہیں۔ انھیں لتا منگیشکر کے گانے پسند ہیں۔ وہ نہ آرہے ہوں تو جھنجلا کر ٹیلی وژن آف کر دیتی اور ویکلی اخبار میگزین اٹھالیتی ہیں۔ (ٹھیک اس وقت جب کہ میرا دل چاہ رہا ہوتا ہے اور منا سو رہا ہوتا ہے) تب میں ڈائجسٹوں میں دماغ کھپانے لگتی ہوں۔ اس پر سرگوشیوں میں اپنے شوہر سے سرگوشیوں میں کہتی ہیں ''اے! دیکھتے ہو؟ فاکہہ لنگور ڈائجسٹ پڑھ رہی ہے۔'' (حالانکہ میں انگور پر مضمون پڑھ رہی تھی)۔
انھیں میرے دوا کھانے پر بھی اعتراض ہے، چاہے کوئی بھی مرض ہو۔ میں ارسلان کے ساتھ جاکر ڈاکٹر توقیر کے ہاں سے دوا لے آتی ہوں، شفایاب ہوجاتی ہوں۔ انھیں ہومیوپیتھک سے فائدہ نہیں ہوتا (بات اعتقاد کی بھی ہے، کہتی ہیں یہ شکر کی ننھی منی گولیاں کیا کریں گی؟ گولیوں کا سائز تو بڑا ہونا چاہیے، تاکہ جراثیم ڈر کر بھاگ جائیں) حکمت کی دواؤں میں کوٹنا پیسنا پڑتا ہے، اس لیے ان کے دل کو نہیں لگتیں۔ اور دوا کڑوی کسیلی ہو تو نالی میں نظر آتی ہے یا گھر کے پچھواڑے کوڑے دان میں مل جاتی ہے۔ لامحالہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر تو وہ بھی ڈاکٹروں سے علاج کراتی ہوں گی؟ جی نہیں۔ وہ اپنے ٹوٹکوں پر بھروسہ کرتی ہیں اور پودینے میں ادرک اور شہد میں کلونجی پیس کر ملاتی رہتی ہیں۔ کبھی کبھار شفا پا جاتی ہیں ورنہ ہائے ہائے کرتی ہیں۔
ہر ایری غیری خواتین یعنی پڑوسن کو دوست بنا نے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتیں، چنانچہ گھر میں ان کی وجہ سے رونق رہتی ہے۔ ان کی پی آر کافی وسیع ہے، جب کہ میرے کالج کی سہیلیاں گھر آجائیں تو بڑی بی کا منہ بن جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح غیروں کو گھر میں بٹھانے سے بجٹ پر بھیانک اثر پڑتا ہے۔ چنانچہ بجٹ کو خسارے سے بچانے کے لیے ایسی خواتین سے بچنا چاہیے، جن سے ملے ہوئے طویل مدت گزر جائے، انھیں کم دودھ والی چائے کے ساتھ دو پاپے کھلا کر ٹرخا دینا چاہیے۔ میں اب انھی ہدایات کی روشنی میں کام کر رہی ہوں اور زندگی سکون و اطمینان سے گزر رہی ہے۔