اے میرے قائد سالگرہ مبارک
25 دسمبر 1876 کو ایک گجراتی گھرانے پر اﷲ کی رحمت اتری، جسے اپنی قوم کو غلامی سے آزاد کروانا تھا۔
اس بار قائد اعظمؒ کی سالگرہ اس لحاظ سے دلگیر ہے کہ دنیا میں ان کی آخری نشانی دینا واڈیا بھی اب دنیا میں نہیں رہیں۔ آخری وقت میں پاکستان کے حالات دینا واڈیا کے سامنے تھے، وہ اب اپنے بابا کے پاس عالم بالا میں ہوں گی، لیکن جب حیات تھیں تو ہماری طرز حکومت اور عوامی مسائل ان سے کوئی چھپے تو نہ رہیں ہوں گے۔ وہ سوچتی تو ہوں گی کیا یہ وہی ملک ہے جس کے لیے ان کے والد نے اس قدر جدوجہد کی تھی؟ اور زندگی میں بیوی و بیٹی سے دوری کا کرب سہا تھا۔ ایک پاکستانی ہوکر سوچتی ہوں تو سخت شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ ہم نے قائد کے پاکستان کو کس نہج پر پہنچادیا ہے۔
کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے اور تعمیر محمد علی جناح نے کی۔ اس قائد نے اپنی تمام صلاحیت، وقت اور صحت گنوائی، دن رات کی محنت نے صحت سے بالکل غافل کردیا تھا، ٹی بی جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہوگئے، رپورٹ آنے پر اسے ایک خفیہ لاکر میں بند کردیا کہ کہیں دشمنوں کی نظر نہ پڑ جائے اور آزادی کے کاز کو نقصان نہ پہنچے۔ بے شک لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کی سب سے بڑی اور بنیادی ضرورت کو سمجھ لے، اسے راستے میں بھٹکنے نہ دے، منزل تک پہنچانے کے لیے اپنی متاع زندگی وقف کردے۔ قائد نے اپنی قوم کی آرزو کو جان لیا تھا کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم کو آزادی کی خواہش ہے، وہ بھلا کب پیچھے ہٹنے والے تھے۔ بے شک ایسے لوگ معاشرے میں قدرت کی جانب سے انعام ہوتے ہیں جنھیں صبح آزادی کا امین بننا ہو۔
25 دسمبر 1876 کو ایک گجراتی گھرانے پر اﷲ کی رحمت اتری، جسے اپنی قوم کو غلامی سے آزاد کروانا تھا۔ ماں باپ نے اس گوہر نایاب کا نام محمد علی رکھا۔ وہ اپنے والدین کی دوسری اولاد تھے۔ والدین نے ان کو تعلیم کے لیے بہترین درسگاہ بھیجا، صفائی و سلیقہ بچپن سے مزاج میں شامل تھا، بہت دل لگا کر رات دیر گئے پڑھنے پر جب گھر والے ٹوکتے تو فرماتے کہ ''میں اس لیے زیادہ پڑھتا ہوں کہ مجھ کو ایک دن بڑا آدمی بننا ہے۔ کیا آپ پسند نہیں کرتیں کہ میں بڑا آدمی بنوں؟'' دسویں جماعت امتیازی نمبروں سے پاس کی، جس کے بعد آپ کی شادی مٹھی بائی سے ہوگئی۔ والد کاروبار میں شریک کرنا چاہتے تھے لیکن بیٹے کے مزید تعلیمی شوق کی خاطر انگلستان بھیجنے پر راضی ہوگئے، لندن پہنچ کر لنکن انِ میں داخلہ لیا، جس کے صدر دروازے پر عظیم ترین قانون سازوں کے نام درج تھے، جن میں سرفہرست محمدﷺ کا نام مبارک تھا۔
لندن میں بڑی محنت سے قلیل مدت میں تعلیم حاصل کی، مگر لنکن انِ کی رسم پورا کرنے کے لیے انھیں مزید دو سال وہاں رکنا پڑا۔ آپ انگلستان بار میں شامل ہونے والوں میں سب سے کم عمر طالب علم تھے۔ قائداعظم 1896 کو لندن سے قانون کی اعلیٰ ڈگری لے کر واپس ہندوستان آئے۔ اس دوران آپ کی شفیق والدہ اور بیوی کا انتقال ہوچکا تھا، والد کی طویل علالت کے باعث علاج پر پیسہ پانی کی طرح بہایا، دوسری جانب کاروبار پر توجہ نہ دے سکے، جس کے باعث کاروبار بھی تباہ ہوگیا، گویا کراچی آتے ہی قائداعظمؒ کو گھریلو پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑا، مگر آپ ہمت ہارنا نہ جانتے تھے۔ تین سال انتہائی تنگ دستی اور عسرت میں گزارے، مگر اپنے کام کو انتہائی تندہی، محنت اور جرأت سے کرتے رہے۔
1900 میں پریزیڈنسی مجسٹریٹ کے انتخابات میں بڑے بڑے کامیاب وکیلوں کے مقابلے میں آپ کامیاب ہوئے، گرچہ یہ ملازمت تین ماہ کے لیے تھی، مگر محکمہ عدلیہ کے سربراہ سر چارلس اولیونٹ نے آپ کو مستقل اس عہدے کو قبول کرنے کی پیشکش کی، لیکن آپ نے انکار کردیا کہ اب مالی حالات پہلے سے بہت بہتر تھے، آپ اعلیٰ سوسائٹی میں جانے پہچانے جاتے تھے، آپ کی نشست وبرخاست اور گفتار اور خوش لباسی ضرب المثل بن چکی تھی۔ قائد کا فرمان تھا کہ 'زندگی ہر شعبے میں کردار کی بلندی ضروری چیز ہے'۔ قائداعظمؒ وقت کی پابندی کا بڑا خیال رکھتے تھے، جس طرح وہ اپنی رائے کا اظہار نہایت بے باکی اور جرأت سے کرتے تھے اسی طرح دوسروں سے بھی اس کی امید رکھتے تھے۔ جب کوئی فیصلہ ہوجاتا تو اس کے آگے سر تسلیم خم کردیتے تھے۔ کئی مخالفتوں کے باوجود قائداعظمؒنے اپنی زندگی میں رتن بائی کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 19 اپریل 1908 کو رتن بائی نے اسلام قبول کیا اور دونوں کی شادی ہوگئی۔
اگر دیکھا جائے تو ایک انسان زندگی سے کیا چاہتا ہے، ایک بہترین کیریئر، دولت، آسودگی اور ایک خوبصورت پڑھی لکھی شریک حیات۔ قائد کی زندگی میں یہ سب چیزیں شامل ہوچکی تھیں، وہ بھی چاہتے تو ایک پرسکون زندگی گزار کر اس دنیا سے چلے جاتے لیکن ان سب سے ہٹ کر بھی انھوں نے ایک خواب دیکھا تھا، آزادی کا خواب۔ جہاں آزادی رائے کا احترام ہو، اپنی ترجیحات اور عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی پوری آزادی ہو، وہ تعصب سے پاک تعمیری انداز فکر رکھنے والے ایک بے باک لیڈر تھے۔ اس کے لیے وہ دن رات جدوجہد میں مصروف رہے۔ قائداعظمؒ کی قیادت میں مسلمانوں کا کارواں حصول پاکستان کی جانب رواں دواں ہوا۔ 1940 میں قرارداد پاکستان کامیاب ہوئی اور صرف سات سال کے قلیل عرصے میں پاکستان معرض وجود میں آگیا۔
اسے معجزہ کہہ لیں یا اس مرد مجاہد کی شب و روز کی انتھک محنت کا نتیجہ، دنیا کے نقشے پر ایک بڑی اسلامی ریاست بن کر ابھرا۔ ہمارے سیاسی قائدین کے لیے ان کی سیاسی زندگی کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ سیاست میں شرکت آپ نے اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے قائد کی ساری زندگی شاہد ہے کہ انھوں نے کبھی ایک پیسہ بھی حکومت وقت سے نہیں لیا۔ بلکہ اس کے لیے انھوں نے اپنی صحت اور ذاتی زندگی بھی قربان کردی۔ گھر پر عدم توجہی سے رتی جناح گھر سے چلی گئیں، اکلوتی بیٹی دینا بھی ان سے دور ہوگئی۔ فاطمہ جناح ڈھارس بندھاتی رہیں، بڑے راستوں کے مسافر اکثر اکیلے رہ جاتے ہیں، دشوار راستوں کی مسافت ہر ایک کے بس میں کہاں؟ قائد ایک بڑے مشن کی جنگ میں مصروف تھے، مختصر سے عرصے میں دنیا کا جغرافیہ تبدیل کرنا پرعزم لوگوں کا شیوہ ہے، آزادی کا تصور صاف نیلے آسمان پر پرواز کرتے پنچھی کی اڑان جیسی مسرت بخشتا ہے، اس خوشی سے بڑھ کر دنیا کی کوئی چیز قیمتی نہیں۔ لیکن، ان ستر سال کے بعد اب جو کسک بے چین کرتی ہے، کیا اسے دینا واڈیا بھی محسوس کرکے باپ سے ملی ہوں گی؟
کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے اور تعمیر محمد علی جناح نے کی۔ اس قائد نے اپنی تمام صلاحیت، وقت اور صحت گنوائی، دن رات کی محنت نے صحت سے بالکل غافل کردیا تھا، ٹی بی جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہوگئے، رپورٹ آنے پر اسے ایک خفیہ لاکر میں بند کردیا کہ کہیں دشمنوں کی نظر نہ پڑ جائے اور آزادی کے کاز کو نقصان نہ پہنچے۔ بے شک لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کی سب سے بڑی اور بنیادی ضرورت کو سمجھ لے، اسے راستے میں بھٹکنے نہ دے، منزل تک پہنچانے کے لیے اپنی متاع زندگی وقف کردے۔ قائد نے اپنی قوم کی آرزو کو جان لیا تھا کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم کو آزادی کی خواہش ہے، وہ بھلا کب پیچھے ہٹنے والے تھے۔ بے شک ایسے لوگ معاشرے میں قدرت کی جانب سے انعام ہوتے ہیں جنھیں صبح آزادی کا امین بننا ہو۔
25 دسمبر 1876 کو ایک گجراتی گھرانے پر اﷲ کی رحمت اتری، جسے اپنی قوم کو غلامی سے آزاد کروانا تھا۔ ماں باپ نے اس گوہر نایاب کا نام محمد علی رکھا۔ وہ اپنے والدین کی دوسری اولاد تھے۔ والدین نے ان کو تعلیم کے لیے بہترین درسگاہ بھیجا، صفائی و سلیقہ بچپن سے مزاج میں شامل تھا، بہت دل لگا کر رات دیر گئے پڑھنے پر جب گھر والے ٹوکتے تو فرماتے کہ ''میں اس لیے زیادہ پڑھتا ہوں کہ مجھ کو ایک دن بڑا آدمی بننا ہے۔ کیا آپ پسند نہیں کرتیں کہ میں بڑا آدمی بنوں؟'' دسویں جماعت امتیازی نمبروں سے پاس کی، جس کے بعد آپ کی شادی مٹھی بائی سے ہوگئی۔ والد کاروبار میں شریک کرنا چاہتے تھے لیکن بیٹے کے مزید تعلیمی شوق کی خاطر انگلستان بھیجنے پر راضی ہوگئے، لندن پہنچ کر لنکن انِ میں داخلہ لیا، جس کے صدر دروازے پر عظیم ترین قانون سازوں کے نام درج تھے، جن میں سرفہرست محمدﷺ کا نام مبارک تھا۔
لندن میں بڑی محنت سے قلیل مدت میں تعلیم حاصل کی، مگر لنکن انِ کی رسم پورا کرنے کے لیے انھیں مزید دو سال وہاں رکنا پڑا۔ آپ انگلستان بار میں شامل ہونے والوں میں سب سے کم عمر طالب علم تھے۔ قائداعظم 1896 کو لندن سے قانون کی اعلیٰ ڈگری لے کر واپس ہندوستان آئے۔ اس دوران آپ کی شفیق والدہ اور بیوی کا انتقال ہوچکا تھا، والد کی طویل علالت کے باعث علاج پر پیسہ پانی کی طرح بہایا، دوسری جانب کاروبار پر توجہ نہ دے سکے، جس کے باعث کاروبار بھی تباہ ہوگیا، گویا کراچی آتے ہی قائداعظمؒ کو گھریلو پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑا، مگر آپ ہمت ہارنا نہ جانتے تھے۔ تین سال انتہائی تنگ دستی اور عسرت میں گزارے، مگر اپنے کام کو انتہائی تندہی، محنت اور جرأت سے کرتے رہے۔
1900 میں پریزیڈنسی مجسٹریٹ کے انتخابات میں بڑے بڑے کامیاب وکیلوں کے مقابلے میں آپ کامیاب ہوئے، گرچہ یہ ملازمت تین ماہ کے لیے تھی، مگر محکمہ عدلیہ کے سربراہ سر چارلس اولیونٹ نے آپ کو مستقل اس عہدے کو قبول کرنے کی پیشکش کی، لیکن آپ نے انکار کردیا کہ اب مالی حالات پہلے سے بہت بہتر تھے، آپ اعلیٰ سوسائٹی میں جانے پہچانے جاتے تھے، آپ کی نشست وبرخاست اور گفتار اور خوش لباسی ضرب المثل بن چکی تھی۔ قائد کا فرمان تھا کہ 'زندگی ہر شعبے میں کردار کی بلندی ضروری چیز ہے'۔ قائداعظمؒ وقت کی پابندی کا بڑا خیال رکھتے تھے، جس طرح وہ اپنی رائے کا اظہار نہایت بے باکی اور جرأت سے کرتے تھے اسی طرح دوسروں سے بھی اس کی امید رکھتے تھے۔ جب کوئی فیصلہ ہوجاتا تو اس کے آگے سر تسلیم خم کردیتے تھے۔ کئی مخالفتوں کے باوجود قائداعظمؒنے اپنی زندگی میں رتن بائی کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 19 اپریل 1908 کو رتن بائی نے اسلام قبول کیا اور دونوں کی شادی ہوگئی۔
اگر دیکھا جائے تو ایک انسان زندگی سے کیا چاہتا ہے، ایک بہترین کیریئر، دولت، آسودگی اور ایک خوبصورت پڑھی لکھی شریک حیات۔ قائد کی زندگی میں یہ سب چیزیں شامل ہوچکی تھیں، وہ بھی چاہتے تو ایک پرسکون زندگی گزار کر اس دنیا سے چلے جاتے لیکن ان سب سے ہٹ کر بھی انھوں نے ایک خواب دیکھا تھا، آزادی کا خواب۔ جہاں آزادی رائے کا احترام ہو، اپنی ترجیحات اور عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی پوری آزادی ہو، وہ تعصب سے پاک تعمیری انداز فکر رکھنے والے ایک بے باک لیڈر تھے۔ اس کے لیے وہ دن رات جدوجہد میں مصروف رہے۔ قائداعظمؒ کی قیادت میں مسلمانوں کا کارواں حصول پاکستان کی جانب رواں دواں ہوا۔ 1940 میں قرارداد پاکستان کامیاب ہوئی اور صرف سات سال کے قلیل عرصے میں پاکستان معرض وجود میں آگیا۔
اسے معجزہ کہہ لیں یا اس مرد مجاہد کی شب و روز کی انتھک محنت کا نتیجہ، دنیا کے نقشے پر ایک بڑی اسلامی ریاست بن کر ابھرا۔ ہمارے سیاسی قائدین کے لیے ان کی سیاسی زندگی کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ سیاست میں شرکت آپ نے اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے قائد کی ساری زندگی شاہد ہے کہ انھوں نے کبھی ایک پیسہ بھی حکومت وقت سے نہیں لیا۔ بلکہ اس کے لیے انھوں نے اپنی صحت اور ذاتی زندگی بھی قربان کردی۔ گھر پر عدم توجہی سے رتی جناح گھر سے چلی گئیں، اکلوتی بیٹی دینا بھی ان سے دور ہوگئی۔ فاطمہ جناح ڈھارس بندھاتی رہیں، بڑے راستوں کے مسافر اکثر اکیلے رہ جاتے ہیں، دشوار راستوں کی مسافت ہر ایک کے بس میں کہاں؟ قائد ایک بڑے مشن کی جنگ میں مصروف تھے، مختصر سے عرصے میں دنیا کا جغرافیہ تبدیل کرنا پرعزم لوگوں کا شیوہ ہے، آزادی کا تصور صاف نیلے آسمان پر پرواز کرتے پنچھی کی اڑان جیسی مسرت بخشتا ہے، اس خوشی سے بڑھ کر دنیا کی کوئی چیز قیمتی نہیں۔ لیکن، ان ستر سال کے بعد اب جو کسک بے چین کرتی ہے، کیا اسے دینا واڈیا بھی محسوس کرکے باپ سے ملی ہوں گی؟