بدحال کراچی اور متحدہ

سندھ میں متحدہ کی پی پی سے بنی نہیں اور وفاق میں اس کی غلط سیاسی پالیسی کی وجہ سے کراچی کا نقصان ہی ہوا۔

سپریم کورٹ کے فاضل جج نے کہا ہے کہ کراچی شہر ہے یا جنگل، جہاں قانون کے خلاف کنکریٹ کے پہاڑ کھڑے کردیے گئے۔ رفاہی پلاٹوں پر کئی منزلہ غیر قانونی عمارتیں کھڑی کردی گئیں اور کسی نے ایسا کرنے والوں کو نہیں روکا اور متعلقہ ادارے یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھتے رہے اور شہر تجاوزات کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے۔

گزشتہ تین عشروں سے زائد عرصے سے متحدہ قومی موومنٹ کراچی کی نمایندگی کی دعویدار چلی آرہی ہے، جس کی جماعت اسلامی کی طرح تیسری بار بلدیہ عظمیٰ کراچی پر حکومت ابھی قائم ہے، مگر اس بار دیہی علاقوں میں اکثریت حاصل کرنے والی پیپلزپارٹی نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پر کاٹ کر اسے جتنا مفلوج اور بے اختیار کر رکھا ہے اتنی کمزور بلدیہ عظمیٰ کراچی ماضی میں کبھی نہیں رہی۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی ملک کی واحد اور سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ ہے، جس کا اقتدار بلدیاتی انتخابات میں کبھی پیپلزپارٹی کو نہیںملا اور جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے کرائے گئے تین تین بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے مرحوم عبدالستار افغانی دو بار میئر اور نعمت اللہ خان سٹی ناظم رہے، جب کہ متحدہ کے ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال سٹی ناظم رہے اور اب متحدہ کے وسیم اختر سوا سال سے کراچی کے میئر ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے دو بار کے سٹی حکومت کے انتخابات میں ان کی حکومت نے سٹی حکومت کو با اختیار بنایا تھا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل پرویز دور میں متحدہ کے سٹی ناظم کو جس طرح کھل کر فنڈز دیے گئے اتنے فنڈ اگر نعمت اللہ خان کو دیے جاتے تو کراچی کا نقشہ ہی اور ہوتا۔ کراچی اور متحدہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عشرت العباد 14 سال سندھ کے گورنر رہے، جنھیں وفاق کا مکمل اعتماد حاصل تھا، جب کہ نعمت اللہ خان کے دور میں موجودہ میئر وسیم اختر ممکنہ بلدیات کے مشیر تھے، جن سے نعمت اللہ خان کو ہمیشہ مداخلت کی شکایات رہیں۔

موجودہ بلدیہ عظمیٰ کے مقابلے میں ضلعی حکومتوں میں کراچی سٹی حکومت میں کے ڈی اے، ایم ڈی اے، ایل ڈی اے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کراچی کا ماسٹر پلان بھی شامل تھا، جب کہ موجودہ بلدیہ عظمیٰ سے یہ اہم اہم ادارے چھین لیے گئے ہیں اور متحدہ وزیراعلیٰ سندھ کو بلدیہ عظمیٰ کا دوسرا میئر قرار دیتی ہے، جنھوں نے کراچی میں متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کیے اور صدر میں جہانگیر پارک کا تعمیری کام بھی سندھ حکومت نے کرایا، جس کا افتتاح بلاول زرداری سے کرایا گیا اور میئر کراچی کو اس موقع پر مدعو بھی نہیں کیا گیا۔

سٹی حکومت کراچی کے جماعت اسلامی کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان اپنے دور میں ہمیشہ شکایت کرتے رہے کہ کراچی کو کوئی اون نہیں کرتا، جب کہ اس وقت متحدہ کے ڈاکٹر عشرت العباد گورنر تھے، مگر انھوں نے کبھی گورنر سے اپنے کسی بھی منصوبے کا افتتاح نہیں کرایا اور اب پیپلزپارٹی بھی گورنر سندھ کو کبھی مدعو نہیں کرتی، جب کہ ن لیگ کے موجودہ گورنر محمد زبیر کے پیپلزپارٹی کے مقابلے میں متحدہ اور میئر سے اچھے تعلقات ہیں۔


سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی ان چار سال میں سابق صدر آصف زرداری اور پیپلزپارٹی کی وفاقی و صوبائی حکومتوں کی طرح کراچی کو کوئی ترقیاتی پیکیج نہیں دیا تھا اور پی پی دور میں لیاری کو خصوصی پیکیج صرف اس لیے ملا تھا کہ لیاری پیپلزپارٹی کا اپنا علاقہ ہے جہاں سے ہمیشہ پیپلزپارٹی کامیاب ہوتی رہی ہے اور باقی کراچی کو پیپلزپارٹی اون نہیں کرتی اور پی پی کی طرح مسلم لیگ ن بھی کراچی کو اہمیت نہیں دیتی، کیونکہ کراچی کے لوگوں کی اکثریت تین دہائیوں سے متحدہ کو کامیاب کراتی آرہی ہے، جب کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو کراچی میں چند مخصوص علاقوں سے ہی کامیابی ملتی آئی ہے، جس کی وجہ سے گزشتہ سال 22 اگست سے قبل متحدہ کراچی کو اپنی جاگیر سمجھتی رہی اور 2013 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے متحدہ کے مضبوط علاقوں میں بھی شگاف ڈال دیے تھے اور پی ٹی آئی کو 8 لاکھ سے زائد ووٹ ملے تھے، مگر عمران خان نے ان ووٹوں کی قدر نہیں کی اور بلدیاتی انتخابات میں ناکامی حاصل کی تھی۔

پی ایس پی کے قیام سے قبل متحدہ کو پی پی اور ن لیگ چیلنج نہیں کرسکی تھیں، جب کہ 1992 میں حقیقی کو متحدہ کے مقابلے میں لانے والوں کو دیر سے عقل آئی اور انھوں نے پی ایس پی بنوائی، جس کی اہمیت 22 اگست 2016 کو متحدہ کے قائد نے اپنی غیر ذمے دارانہ تقریر سے ختم کرادی اور پی ایس پی متحدہ کو وہ نقصان نہ پہنچاسکی جو متحدہ کو اس کے قائد نے خود پہنچایا اور متحدہ کو بھی بہت کچھ سوچنے اور خود کو بدلنے پر مجبور کردیا، جس کے بعد متحدہ پاکستان کے سربراہ فخریہ کہہ رہے ہیں کہ ایک سال سے متحدہ کی جبری چندے، بھتہ خوری، کھالیں چھینے جانے اور دیگر جرائم کی کوئی شکایت منظر عام پر نہیں آئی۔

متحدہ پاکستان کے سربراہ کا یہ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے قائد کی غدارانہ تقریر سے قبل مذکورہ بالا تمام جرائم متحدہ اور اس کے رہنماؤں کی سرپرستی میں ہوتے تھے، جو اب نہیں ہورہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہے۔ متحدہ مسلم لیگ ق کی حکومت میں مکمل اختیارات کے ساتھ وفاقی اور سندھ حکومت میں شامل رہی۔ اطلاع کے مطابق متحدہ کی سٹی حکومت کو مشرف دور میں کراچی کے لیے دو سو ارب روپے کے فنڈ ملے جو واقعی کراچی کی ترقی پر خرچ ہوئے یا لندن بھی گئے اور متحدہ رہنماؤں نے کتنے لیے اس کا جواب سید مصطفیٰ کمال پر قرض ہے۔

دو سو ارب معمولی رقم نہیں تھی، پی پی کے برعکس متحدہ نے اپنے کارکنوں کو مفت میں سرکاری ملازمتیں ضرور دیں مگر اکثر نے سرکاری فرائض کے بجائے متحدہ کے احکامات پر عمل کرکے سیاسی وفاداریاں نبھائیں اور دوران آپریشن متحدہ سے تعلق رکھنے والے متعدد ملزمان گرفتار ہوئے ہیں، جو سرکاری محکموں خصوصاً سٹی حکومت کراچی کے ملازمین بتائے جارہے ہیں اور رینجرز زیادہ تر گرفتار ملزموں کا تعلق متحدہ لندن سے قرار دے رہی ہے۔

پی پی کی قائم علی شاہ کی سندھ حکومت میں بھی متحدہ چار سال سے زائد عرصہ شامل رہی مگر اختیارات نہ ملنے کی شکایات کرتی رہی، متحدہ کی سٹی حکومت کے بعد چائنا کٹنگ کے تحت پلاٹوں کی بندر بانٹ اور خرید و فروخت کی باتیں منظر عام پر آئیں اور چائنا کٹنگ میں تقریباً 25 ہزار پلاٹوں کا ذکر ہے جب کہ رفاحی پلاٹوں کے غیر قانونی فروخت اور قبضوں کی خبریں سپریم کورٹ تک پہنچ چکی ہے، جہاں ان کی منسوخی کے احکامات جاری ہوچکے ہیں۔ ناجائز تعمیر کیے گئے شادی ہالوں کی مسماری بھی اب جاری ہے، گھوسٹ ملازمین پر میئر بھی ایکشن لے چکے ہیں اور متحدہ نے اپنے اداروں میں سرکاری وسائل کا بھی بے دریغ استعمال کیا جن پر اب کنٹرول ہورہا ہے۔

سندھ میں متحدہ کی پی پی سے بنی نہیں اور وفاق میں اس کی غلط سیاسی پالیسی کی وجہ سے کراچی کا نقصان ہی ہوا اور مسلم لیگی وزیراعظم شاہد خاقان اعلان کردہ پچیس ارب کا پیکیج نہیں دے رہے، کیونکہ متحدہ نے برے وقت میں بھی حکومت کا ساتھ دیا نہ نواز شریف کی حمایت کی، جس کی سزا کراچی کو مل رہی ہے۔

باقی آگے متحدہ کی غلط پالیسی اور بروقت درست فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے کراچی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے لیے متروک رہا اور دونوں نے کراچی کی اپنی آمدنی سے کراچی کو محروم رکھا اور دونوں ہی نے کراچی کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا اور دونوں ہی غیر قانونی کوٹہ سسٹم اب تک برقرار رکھنے کی ذمے دار ہیں۔ دونوں بڑی پارٹیوں نے کراچی سے زیادتی کی جس پر متحدہ کی سیاست چلتی رہی اور تینوں کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔ سیاسی عقل سے عاری متحدہ کے رہنماؤں کو مولانا فضل الرحمن سے سیاست سیکھنی چاہیے، وگرنہ کراچی بدحال سے بدحال ہوتا رہے گا۔
Load Next Story