سندھ واسیوں کو سلام
سندھ میں ترقیاتی کاموں کی قلعی کھل گئی، سندھ سرکار کے دعوے ہوا ہوگئے۔
سیاسی طور پر مختلف صوبوں میں مختلف پارٹیوں کا قبضہ ہے۔ سندھ میں زرداری پارٹی اور پاکستانی ایم کیو ایم، بلوچستان میں (ن) لیگ اور حمایتی، جو ہر پارٹی کے ساتھ ہوتے ہیں، انھیں شہد سے غرض، چھتہ کوئی بنائے اور ان کا ہی سرحد میں اصل ڈیرہ اور حامی افغانستان کے۔ پنجاب گڑھ نااہل کی پارٹی کا ۔ ان کے دن گنے جاچکے ہیں، سپریم کورٹ نے گن دیے تھے چھ ماہ میں فیصلہ اور پوری سزا۔ مرکز میں جو تھا وہ نااہل ہوگیا، صوبے والا پریشان ہے، حالات یہ بتا رہے ہیں۔
آگے پتا نہیں۔ لوگ نااہل کو یوں رکھنا چاہتے ہیں کہ اس کے کام سے ثابت ہوا کہ پاکستان کا مطلب اپنا ایک مخصوص علاقہ۔ دوسرے صوبوں کو ان کا حصہ نہیں ملا پورا، اور اپنے علاقے پر سب سے زیادہ لگا۔ کیونکہ سیٹ اور ووٹ کا مسئلہ ہے۔ پنجاب ملک کا 60 فیصد ہے تو پندرہ فیصد حواری تو مل ہی جاتے ہیں۔ ''زر'' میں بہت زور ہے۔ ماڈل ٹاؤن کا مسئلہ جو نہایت غیر ضروری اور سیاسی خودکشی تھا، وہ بہا لے جائے گا سب کچھ، کچھ نہیں بچے گا۔ بلوچستان میں ہمیشہ بندربانٹ ہوتی ہے، اب بھی ہورہی ہے۔ افسوس ہے کہ دولت کے ہاتھوں، جو اقتدار سے ملتی ہے، کون کون بک گیا۔ کون کیا تھا کیا ہوگیا، نام والے نام کے رہ گئے۔
خبریں بھی کمال ہوتی ہیں کہ حیرت کی خبر پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اگر درسی کتابوں میں آج کے سیاستدان کی تعریف لکھنی ہو تو یوں ہوگی ''یہ اکثر جب پیدا ہوتا ہے تو زیادہ تر سونے کے چمچے کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، اور جو سونے کا چمچہ لے کر نہ پیدا ہو آگے چل کر اس کے چمچے اس کو سونا بنا کر لاکر دیتے ہیں، جو یہ غیر ملکی لاکر میں رکھتا ہے، کچھ بے وقوف سست ہوتے ہیں اور ملک میں سونا رکھ لیتے ہیں تو پریشانی ہوتی ہے۔ یہ عوام کو باتوں سے بہلا کر خوب لوٹتے ہیں، ان کا ووٹ بھی اور ان کے نوٹ (ٹیکس) بھی، یہ کوئی کام خود نہیں کرتے، قتل سے لے کر زمینوں پر قبضے تک کرائے کے آدمیوں یا سرکاری غلاموں (ملازمین) سے کرواتے ہیں۔
یوں یہ براہ راست ملوث نہیں ہوتے، لیکن اپنے ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کے پکڑے جانے پر دھمکیاں دے کر دبئی چلے جاتے ہیں، کبھی کبھی لندن بھی جاتے ہیں، ہر جگہ ان کے ''ہاؤس'' ہوتے ہیں، وہاں ہر ''چیز'' ہوتی ہے۔ یہ اندرون و بیرون ملک سفر کے دوران ہی بڑے ہوجاتے ہیں اور پہلے شریک اور آخر میں مکمل چیئرمین بن جاتے ہیں، اور باپ، نانا، دادا کا سیاسی کاروبار سنبھال لیتے ہیں۔ اس فیلڈ میں لڑکیاں بھی ہیں اور آتی رہتی ہیں، مگر چیئر ویمن صرف ایک خاتون بنیں، بے نظیر۔ جو ہم نام کی ایک خاتون انڈر ٹریننگ ہیں، مگر کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ اگلی کلاسوں میں آپ ان کے بارے میں بہت کچھ پڑھو گے، جو کورس میں نہیں ہوگا'' (نوٹ: سیاستدان کے گھر پیدا ہونے والا ہر بچہ سیاستدان نہیں ہوتا، وہ کوئی اور معقول قسم کا انسان بھی ہوسکتا ہے)۔
اب اس خبر کی طرف آتے ہیں جس نے ہمیں اس قدر حیرت میں مبتلا کیا کہ چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ بمشکل اپنے ہوش سنبھالے، پانی پیا دو گلاس، ایک کلو میٹر کے قریب واک کی اور پھر واپس آکر آہستہ آہستہ سانس کو قابو کیا، حالانکہ ناہمواری سانسوں کی اس خبر کے پولوشن سے پیدا ہوئی تھی۔ اچانک ایسی خبر کے یہی اثرات ہوتے ہیں۔ پنجاب سے ایسی خبر نہیں آسکتی، اس کا اندازہ آپ کو اس خبر سے ہوجائے گا، خبر ہے ''ترقیاتی منصوبوں سے متعلق انکشافات پر اراکین سندھ اسمبلی حیرت زدہ۔''
ایک ہزار سے زیادہ اسکیمیں پانچ سال بعد بھی ادھوری۔ 157 اسکیموں کا آغاز ہی نہ ہوسکا۔ ڈھائی ہزار میں سے صرف 168 اسکیموں کو مکمل کیا جاسکا۔ وقفہ سوالات میں جوابات۔ اور تفصیل یہ ہے کہ سندھ میں ترقیاتی کاموں کی قلعی کھل گئی، سندھ سرکار کے دعوے ہوا ہوگئے۔ ترقیاتی منصوبوں سے متعلق انکشافات سے حزب اختلاف ہی نہیں حزب اقتدار کے اراکین بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ تحریری اور ضمنی جوابات میں بتایا گیا کہ 2011-12 کی ایک رپورٹ میں 2011-12 میں محکمہ تعلیم کی 969 اسکیمیں شروع نہیں ہوئیں۔ سکھر میں 908 اسکیمیں شروع نہ ہوسکیں، محکمہ تعلیم کی خیرپور میں 134، ٹنڈو محمد خان میں تعلیم کے 96 منصوبے، لاڑکانہ میں 66 منصوبے شروع نہیں ہوئے۔
وزیر منصوبہ بندی اور ترقیات میر ہزار خان بجارانی نے کہا کہ صوبائی محکمہ خزانہ کی طرف سے ترقیاتی اسکیموں کے لیے بروقت فنڈ جاری نہ ہونے کی وجہ سے ان اسکیموں کی تکمیل میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ متعدد ارکان نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پانچ اور چھ سال پرانی اسکیمیں بھی ابھی تک مکمل نہ ہوسکیں۔ متعدد ارکان نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ اسمبلی میں سوالوں کے جواب تین چار سال کے بعد دیے جاتے ہیں اور سوال پوچھنے کا مقصد ختم ہوجاتا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا میر ہزار خان کو Rescue کرتی رہیں اور ارکان سے کہتی رہیں کہ ان کے سوال غیر متعلق ہیں۔ انھیں تازہ سوال جمع کرانا چاہئیں۔''
لیجیے، کرلیجیے بات۔ بجائے اس کے کہ وزیر سے پوچھتیں کہ آپ اتنے سال کیا کرتے رہے اور ایسا کیوں ہوا؟ آپ نے وزیراعلیٰ کو کیوں نہیں بتایا؟ وہ ان کو بچاتی رہیں، کیوں؟ کیونکہ اس وقت موجودہ وزیراعلیٰ ہی وزیر خزانہ تھے اور ان کو بچانا ڈپٹی اسپیکر کے لیے ضروری تھا۔ ساری اسکیموں کا ہم نے ذکر نہیں کیا ہے، تعداد بتا دی ہے۔
اب آپ خود فیصلہ کریں، جہاں سے رقم جاری کی جاتی ہے شاید وہاں کچھ بندوبست نہیں ہوسکا، تو انھوں نے رقم جاری نہیں کی یا رقم جاری ہوکر کہیں اور جاچکی ہے۔ یہ دو سوال ہیں۔ دوسرا کمپلسری ہے، تو ساری بات سمجھ میں آجائے گی۔ غالباً جلسوں کا دھوم دھڑکا بھی سمجھ میں آجائے گا، زرداری تو ایک روپیہ بھی خرچ کرنے سے رہے۔ وہاں صرف لینے والا ہاتھ کام کرتا ہے، جہاں تک ہمیں معلوم ہے۔ سرکاری لفافے ہم نے انھیں تقسیم کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کئی پروگراموں میں ہم اسٹیج سیکریٹری تھے۔ صوبہ کیسے ترقی کرے، صوبے کے کرتا دھرتاؤں کا یہ حال ہے۔ کراچی، حیدرآباد کی اسکیموں کا کیا حشر ہوا، یہ بھی پتا نہیں چلا۔ یہ شہر غلاظت کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں اور دونوں پارٹیاں عیش کر رہی ہیں۔
ڈپٹی اسپیکر اسمبلی کو باورچی خانے کی طرح چلاتی ہیں اور خصوصاً حزب اختلاف کے ارکان کو برتن سمجھتی ہیں اور اکثر بجاتی رہتی ہیں۔ ٹھیک کپڑے پہن کر نہ آنے والے بچوں کی طرح ان کی ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی ہیں۔ اسپیکر زیادہ تر ان نہیں ہوتے، لہٰذا ہاؤس انھیں ہی سنبھالنا پڑتا ہے اور ان کی پارٹی بھی اس پر خوش ہے کہ وزیر سے کچھ نہیں پوچھا گیا اور وزارت خزانہ بھی خوش کہ ان پر کوئی الزام نہ آیا۔
کس قدر افسوس کی بات ہے۔ ایک منظم اور عوامی پارٹی کی یہ کارکردگی اور اس کا یہ حشر سوالیہ نشان نہیں ہے۔ پارٹی سربراہ کون ہے۔ ایک بار بھی تھر جا کر لوگوں کا حال نہ پوچھا، وہاں جو اسکول سرکاری اور غیر سرکاری تھے، بند ہوگئے۔ اسکول کی عمارتیں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ خوشحال تھر میں بدحالی کا راج ہے، مگر وہ راج سنگھاسن سے نہیں اترے۔ سب معلوم ہے مگر سندھ کے عوام کو بھیڑ بکری سے زیادہ اہم نہیں سمجھتے۔ ان کے لیے ڈالر گرل اور ڈاکٹر عاصم اہم ہیں، شرجیل میمن اہم ہیں، کیونکہ یہ دودھ دینے والی گائے ہیں اور وزارت خزانہ ڈیری شاپ۔ 3 دسمبر کے اخبار نے وضاحت سے بتادیا ہے کہ سندھ حکومت کے منصوبوں میں کرپشن، 50 فیصد سے زائد رقم کمیشن کی نذر، 20 فیصد ٹھیکیدار کا منافع، اصل کام پر بہت کم 30 سے 35 فیصد رقم خرچ ہوتی ہے۔ بعض اوقات پچانوے فیصد رقم کمیشن اور ٹھیکیدار کے منافع کی نذر ہوجاتی ہے۔
کمیشن کا علم برسر اقتدار سیاسی جماعت کے رہنماؤں، ہر وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری کو بخوبی ہوتا ہے، لیکن وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ محکمہ آبپاشی سے متعلق تحریری شکایت چیف سیکریٹری سندھ کو ارسال کی گئی ہے، جس میں سرکاری اسکیموں پر کمیشن کی تفصیل شامل ہے۔ بھلا کیا ہونے والا ہے، کمیشن کہاں جا رہا ہے، نظر آرہا ہے، مگر بددیانتی کے اندھیروں کو کون دور کرے؟
آگے پتا نہیں۔ لوگ نااہل کو یوں رکھنا چاہتے ہیں کہ اس کے کام سے ثابت ہوا کہ پاکستان کا مطلب اپنا ایک مخصوص علاقہ۔ دوسرے صوبوں کو ان کا حصہ نہیں ملا پورا، اور اپنے علاقے پر سب سے زیادہ لگا۔ کیونکہ سیٹ اور ووٹ کا مسئلہ ہے۔ پنجاب ملک کا 60 فیصد ہے تو پندرہ فیصد حواری تو مل ہی جاتے ہیں۔ ''زر'' میں بہت زور ہے۔ ماڈل ٹاؤن کا مسئلہ جو نہایت غیر ضروری اور سیاسی خودکشی تھا، وہ بہا لے جائے گا سب کچھ، کچھ نہیں بچے گا۔ بلوچستان میں ہمیشہ بندربانٹ ہوتی ہے، اب بھی ہورہی ہے۔ افسوس ہے کہ دولت کے ہاتھوں، جو اقتدار سے ملتی ہے، کون کون بک گیا۔ کون کیا تھا کیا ہوگیا، نام والے نام کے رہ گئے۔
خبریں بھی کمال ہوتی ہیں کہ حیرت کی خبر پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اگر درسی کتابوں میں آج کے سیاستدان کی تعریف لکھنی ہو تو یوں ہوگی ''یہ اکثر جب پیدا ہوتا ہے تو زیادہ تر سونے کے چمچے کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، اور جو سونے کا چمچہ لے کر نہ پیدا ہو آگے چل کر اس کے چمچے اس کو سونا بنا کر لاکر دیتے ہیں، جو یہ غیر ملکی لاکر میں رکھتا ہے، کچھ بے وقوف سست ہوتے ہیں اور ملک میں سونا رکھ لیتے ہیں تو پریشانی ہوتی ہے۔ یہ عوام کو باتوں سے بہلا کر خوب لوٹتے ہیں، ان کا ووٹ بھی اور ان کے نوٹ (ٹیکس) بھی، یہ کوئی کام خود نہیں کرتے، قتل سے لے کر زمینوں پر قبضے تک کرائے کے آدمیوں یا سرکاری غلاموں (ملازمین) سے کرواتے ہیں۔
یوں یہ براہ راست ملوث نہیں ہوتے، لیکن اپنے ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کے پکڑے جانے پر دھمکیاں دے کر دبئی چلے جاتے ہیں، کبھی کبھی لندن بھی جاتے ہیں، ہر جگہ ان کے ''ہاؤس'' ہوتے ہیں، وہاں ہر ''چیز'' ہوتی ہے۔ یہ اندرون و بیرون ملک سفر کے دوران ہی بڑے ہوجاتے ہیں اور پہلے شریک اور آخر میں مکمل چیئرمین بن جاتے ہیں، اور باپ، نانا، دادا کا سیاسی کاروبار سنبھال لیتے ہیں۔ اس فیلڈ میں لڑکیاں بھی ہیں اور آتی رہتی ہیں، مگر چیئر ویمن صرف ایک خاتون بنیں، بے نظیر۔ جو ہم نام کی ایک خاتون انڈر ٹریننگ ہیں، مگر کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ اگلی کلاسوں میں آپ ان کے بارے میں بہت کچھ پڑھو گے، جو کورس میں نہیں ہوگا'' (نوٹ: سیاستدان کے گھر پیدا ہونے والا ہر بچہ سیاستدان نہیں ہوتا، وہ کوئی اور معقول قسم کا انسان بھی ہوسکتا ہے)۔
اب اس خبر کی طرف آتے ہیں جس نے ہمیں اس قدر حیرت میں مبتلا کیا کہ چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ بمشکل اپنے ہوش سنبھالے، پانی پیا دو گلاس، ایک کلو میٹر کے قریب واک کی اور پھر واپس آکر آہستہ آہستہ سانس کو قابو کیا، حالانکہ ناہمواری سانسوں کی اس خبر کے پولوشن سے پیدا ہوئی تھی۔ اچانک ایسی خبر کے یہی اثرات ہوتے ہیں۔ پنجاب سے ایسی خبر نہیں آسکتی، اس کا اندازہ آپ کو اس خبر سے ہوجائے گا، خبر ہے ''ترقیاتی منصوبوں سے متعلق انکشافات پر اراکین سندھ اسمبلی حیرت زدہ۔''
ایک ہزار سے زیادہ اسکیمیں پانچ سال بعد بھی ادھوری۔ 157 اسکیموں کا آغاز ہی نہ ہوسکا۔ ڈھائی ہزار میں سے صرف 168 اسکیموں کو مکمل کیا جاسکا۔ وقفہ سوالات میں جوابات۔ اور تفصیل یہ ہے کہ سندھ میں ترقیاتی کاموں کی قلعی کھل گئی، سندھ سرکار کے دعوے ہوا ہوگئے۔ ترقیاتی منصوبوں سے متعلق انکشافات سے حزب اختلاف ہی نہیں حزب اقتدار کے اراکین بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ تحریری اور ضمنی جوابات میں بتایا گیا کہ 2011-12 کی ایک رپورٹ میں 2011-12 میں محکمہ تعلیم کی 969 اسکیمیں شروع نہیں ہوئیں۔ سکھر میں 908 اسکیمیں شروع نہ ہوسکیں، محکمہ تعلیم کی خیرپور میں 134، ٹنڈو محمد خان میں تعلیم کے 96 منصوبے، لاڑکانہ میں 66 منصوبے شروع نہیں ہوئے۔
وزیر منصوبہ بندی اور ترقیات میر ہزار خان بجارانی نے کہا کہ صوبائی محکمہ خزانہ کی طرف سے ترقیاتی اسکیموں کے لیے بروقت فنڈ جاری نہ ہونے کی وجہ سے ان اسکیموں کی تکمیل میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ متعدد ارکان نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پانچ اور چھ سال پرانی اسکیمیں بھی ابھی تک مکمل نہ ہوسکیں۔ متعدد ارکان نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ اسمبلی میں سوالوں کے جواب تین چار سال کے بعد دیے جاتے ہیں اور سوال پوچھنے کا مقصد ختم ہوجاتا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا میر ہزار خان کو Rescue کرتی رہیں اور ارکان سے کہتی رہیں کہ ان کے سوال غیر متعلق ہیں۔ انھیں تازہ سوال جمع کرانا چاہئیں۔''
لیجیے، کرلیجیے بات۔ بجائے اس کے کہ وزیر سے پوچھتیں کہ آپ اتنے سال کیا کرتے رہے اور ایسا کیوں ہوا؟ آپ نے وزیراعلیٰ کو کیوں نہیں بتایا؟ وہ ان کو بچاتی رہیں، کیوں؟ کیونکہ اس وقت موجودہ وزیراعلیٰ ہی وزیر خزانہ تھے اور ان کو بچانا ڈپٹی اسپیکر کے لیے ضروری تھا۔ ساری اسکیموں کا ہم نے ذکر نہیں کیا ہے، تعداد بتا دی ہے۔
اب آپ خود فیصلہ کریں، جہاں سے رقم جاری کی جاتی ہے شاید وہاں کچھ بندوبست نہیں ہوسکا، تو انھوں نے رقم جاری نہیں کی یا رقم جاری ہوکر کہیں اور جاچکی ہے۔ یہ دو سوال ہیں۔ دوسرا کمپلسری ہے، تو ساری بات سمجھ میں آجائے گی۔ غالباً جلسوں کا دھوم دھڑکا بھی سمجھ میں آجائے گا، زرداری تو ایک روپیہ بھی خرچ کرنے سے رہے۔ وہاں صرف لینے والا ہاتھ کام کرتا ہے، جہاں تک ہمیں معلوم ہے۔ سرکاری لفافے ہم نے انھیں تقسیم کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کئی پروگراموں میں ہم اسٹیج سیکریٹری تھے۔ صوبہ کیسے ترقی کرے، صوبے کے کرتا دھرتاؤں کا یہ حال ہے۔ کراچی، حیدرآباد کی اسکیموں کا کیا حشر ہوا، یہ بھی پتا نہیں چلا۔ یہ شہر غلاظت کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں اور دونوں پارٹیاں عیش کر رہی ہیں۔
ڈپٹی اسپیکر اسمبلی کو باورچی خانے کی طرح چلاتی ہیں اور خصوصاً حزب اختلاف کے ارکان کو برتن سمجھتی ہیں اور اکثر بجاتی رہتی ہیں۔ ٹھیک کپڑے پہن کر نہ آنے والے بچوں کی طرح ان کی ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی ہیں۔ اسپیکر زیادہ تر ان نہیں ہوتے، لہٰذا ہاؤس انھیں ہی سنبھالنا پڑتا ہے اور ان کی پارٹی بھی اس پر خوش ہے کہ وزیر سے کچھ نہیں پوچھا گیا اور وزارت خزانہ بھی خوش کہ ان پر کوئی الزام نہ آیا۔
کس قدر افسوس کی بات ہے۔ ایک منظم اور عوامی پارٹی کی یہ کارکردگی اور اس کا یہ حشر سوالیہ نشان نہیں ہے۔ پارٹی سربراہ کون ہے۔ ایک بار بھی تھر جا کر لوگوں کا حال نہ پوچھا، وہاں جو اسکول سرکاری اور غیر سرکاری تھے، بند ہوگئے۔ اسکول کی عمارتیں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ خوشحال تھر میں بدحالی کا راج ہے، مگر وہ راج سنگھاسن سے نہیں اترے۔ سب معلوم ہے مگر سندھ کے عوام کو بھیڑ بکری سے زیادہ اہم نہیں سمجھتے۔ ان کے لیے ڈالر گرل اور ڈاکٹر عاصم اہم ہیں، شرجیل میمن اہم ہیں، کیونکہ یہ دودھ دینے والی گائے ہیں اور وزارت خزانہ ڈیری شاپ۔ 3 دسمبر کے اخبار نے وضاحت سے بتادیا ہے کہ سندھ حکومت کے منصوبوں میں کرپشن، 50 فیصد سے زائد رقم کمیشن کی نذر، 20 فیصد ٹھیکیدار کا منافع، اصل کام پر بہت کم 30 سے 35 فیصد رقم خرچ ہوتی ہے۔ بعض اوقات پچانوے فیصد رقم کمیشن اور ٹھیکیدار کے منافع کی نذر ہوجاتی ہے۔
کمیشن کا علم برسر اقتدار سیاسی جماعت کے رہنماؤں، ہر وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری کو بخوبی ہوتا ہے، لیکن وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ محکمہ آبپاشی سے متعلق تحریری شکایت چیف سیکریٹری سندھ کو ارسال کی گئی ہے، جس میں سرکاری اسکیموں پر کمیشن کی تفصیل شامل ہے۔ بھلا کیا ہونے والا ہے، کمیشن کہاں جا رہا ہے، نظر آرہا ہے، مگر بددیانتی کے اندھیروں کو کون دور کرے؟