عورت کی دوسری شادی جرم کیوں
جس طرح مرد کی دوسری شادی جرم نہیں اسی طرح عورت کی دوسری شادی بھی کسی طرح معیوب بات نہیں ہے۔
آج کی عورت باشعور پڑھی لکھی اور اپنے حقوق سے آگاہی رکھتی ہے۔
مگر وہ بہ دستور معاشرے کی متعین کردہ حدود و قیود میں رہ کر اپنی زندگی گزارنے کی پابند ہے، یہ پابندیاںکچھ تو ہماری مذہبی اور ثقافتی ضرورت ہیں، جب کہ کچھ ایسی ہیں جو صرف خواتین کے لیے مشکلات کا باعث ہیں اور انہیں تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اسلام وہ مذہب ہے جو مکمل طور پر خواتین کے حقوق کی بات کرتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ مذہب اسلام نے جتنے حقوق خواتین کو دیے ہیں اتنے کسی اور مذہب نے نہیں دیے، اگر خدا نہ خواستہ کسی عورت کا شوہر انتقال کر جائے یا پھر کسی بنا پر اسے اپنی زوجیت سے خارج کر دے تو ہمارا مذہب عورت کو اپنی مرضی سے دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے، تاکہ وہ ایک مرد کے سہارے اپنی زندگی عزت و سکون سے گزار سکے۔
دوسری طرف ہمارا معاشرہ ہے جو عورت کی دوسری شادی کو پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، ایک عورت بیوہ یا مطلقہ ہو کر اگر دوسرا عقد کرنے کی خواہش ظاہر کرتی ہے تو اسے بے باک اور بے حیا سمجھا جاتا ہے، اس لیے شاذو نادر ہی کوئی عورت دوسری شادی کرتی ہے، عموماً ہمارے معاشرے میں بیوہ اور مطلقہ خواتین کو عقد ثانی کرنے میں کافی مشکلات آتی ہیں۔
مرد حضرات بھی ایسی خواتین سے شادی کرنے سے کتراتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ نہیں کر پاتے کہ ان کی شریک حیات اس سے پہلے کسی اور کی زوجیت میں رہ چکی ہو اور اگر کوئی مرد ایسی خاتون سے شادی کے لیے رضا مند ہو بھی جاتا ہے تو اس عورت کے سابقہ سسرال والے اسے کافی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
دوسری شادی کرنے کا تجربہ اکثر و بیش تر خواتین کے لیے کافی تکلیف دہ اور ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے، کیوں کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کا شوہر بات بے بات پر اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے انہیں سابقہ شوہر اور سابقہ گزری زندگی کے طعنے دیتا ہے۔ اگر وہ کسی سوچ میں مبتلا ہے یا پھر کسی وجہ سے اداس ہے تو فوراً یہ سننے کو ملتا ہے کہ ''یقیناً پہلے شوہر کے بارے میں سوچ رہی ہوں گی۔'' یا پھر ''سابقہ شوہر تمہیں بہت یاد آ رہا ہے ناں'' وغیرہ۔
اس ضمن میں سسرال والے بھی عورت کو طنز و تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں، جس کی بنا پر وہ اپنے شوہر کے دل میں جگہ بنانے میں ناکام رہتی ہے۔ اسے بار بار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کا بھائی یا بیٹا اس کی زندگی کا دوسرا مرد ہے۔ اس قسم کی صورت حال عورت کے لیے بہت رنج و تکلیف کا باعث بنتی ہے، وہ ویسے ہی اپنی پچھلی زندگی کے ناخوش گوار حادثے کی مغموم یادوں سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے، اوپر سے یہ کاٹ دار باتیں اسے اور کچوکے لگاتی ہیں۔
ایسی خواتین جو جوانی میں اپنے شوہر سے بچھڑنے کے حادثے سے دوچار ہوں تو ان کے گھر والے ان کی مرضی کے خلاف ان کی دوسری شادی کر دیتے ہیں، حالاں کہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے سہارے ساری زندگی گزار لیں گی یا کم سے کم کوئی ایسا مرد ان کی زندگی میں آئے جو ان کے بچوں کو ان سے جدا نہ کرے، لیکن اکثر ایسی شادیوں کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ پہلے شوہر کا بچہ یا تو ننھیال میں پلتا ہے یا پھر ددھیال والے اسے لے جاتے ہیں اور بعض اوقات اسے ماں سے ملنے سے بھی منع کردیتے ہیں کہ اب وہ کسی دوسرے مرد کی بیوی ہے اور اگر بچہ ننھیال میں پرورش پاتا ہے یا ددھیال والے اعلا ظرف ہیں تو اس عورت کا موجودہ شوہر اپنی بیوی کے سابقہ شوہر کی اولاد سے ملنے نہیں دیتا، دونوں صورتوں میں ایک ماں ہی دوسری شادی کے جرم میں اپنے بچے سے محروم کر دی جاتی ہے جو سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔
بہت سی خواتین بھائیوں کی سرد مہری اور بھاوجوں کے طعنوں سے تنگ آکر جلد بازی میں کسی ایسی جگہ شادی کر بیٹھتی ہیں کہ ان کی زندگی مزید کرب اور تکالیف کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک خاتون نے مجبور ہوکر جب ایک ایسے شخص سے شادی کر لی جس کے پہلے سے چار بچے تھے، شادی کے بعد شوہر صاحب کو محض اس بات سے پرخاش تھی کہ یہ بچی ان کی بیگم کے پہلے شوہر کی ہے، لہٰذا انہوںنے اپنے چاروں بچوں کو تو اپنے ساتھ رکھا لیکن ان کی کم سن بچی سے ملنے پر پابندی لگا دی۔
کچھ خواتین کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ پہلے شوہر سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے یا کسی اور وجوہ کی بنا پر علیحدگی لے لیتی ہیں اور جب وہ اپنی مرضی کے شخص سے دوسرا عقد کرتی ہیں تو پاس پڑوس، رشتے دار اور دیگر ملنے جلنے والے اس عورت کے کردار پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس ہی طرح جب بھی کسی ایسی عورت سے ملاقات ہو، جس نے دوسری شادی کی ہو تو لوگ اسے اس قدر حیرت اور عجیب وغریب نظروں سے دیکھتے ہیں، جیسے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہو۔ ایسی صورت حال خواتین کو عجیب کشمکش میں مبتلا کر دیتی ہے۔
اسلام عورت کو شوہر کی وفات یا طلاق کے بعد دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے اور اسے اپنی پسند کا شریک سفر چننے کا حق بھی دیتا ہے، پھر کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی عورت کے اس حق کو سلب کرے یا اپنا یہ حق استعمال کرنے والی خاتون کے خلاف کوئی بات کہے۔ جس طرح مرد کی دوسری شادی جرم نہیں، اسی طرح عورت کی دوسری شادی بھی کسی طرح معیوب بات نہیں ہے، اسے اپنی مرضی کی ازدواجی زندگی کا پورا حق ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرہ عورت کی دوسری شادی سے متعلق اپنے دلوں میں وسعت پیدا کرے، مردوں کی طرح ہم عورت کے معاملے میں بھی اپنی سوچ کو مثبت اور وسیع کر کے اسے طنز و تضحیک کا نشانہ نہ بنائیں اور اس کے سابقہ شوہر کے بچوں سے اسے دور کر کے قہر خداوندی کو آواز نہ دیں۔
مگر وہ بہ دستور معاشرے کی متعین کردہ حدود و قیود میں رہ کر اپنی زندگی گزارنے کی پابند ہے، یہ پابندیاںکچھ تو ہماری مذہبی اور ثقافتی ضرورت ہیں، جب کہ کچھ ایسی ہیں جو صرف خواتین کے لیے مشکلات کا باعث ہیں اور انہیں تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اسلام وہ مذہب ہے جو مکمل طور پر خواتین کے حقوق کی بات کرتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ مذہب اسلام نے جتنے حقوق خواتین کو دیے ہیں اتنے کسی اور مذہب نے نہیں دیے، اگر خدا نہ خواستہ کسی عورت کا شوہر انتقال کر جائے یا پھر کسی بنا پر اسے اپنی زوجیت سے خارج کر دے تو ہمارا مذہب عورت کو اپنی مرضی سے دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے، تاکہ وہ ایک مرد کے سہارے اپنی زندگی عزت و سکون سے گزار سکے۔
دوسری طرف ہمارا معاشرہ ہے جو عورت کی دوسری شادی کو پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، ایک عورت بیوہ یا مطلقہ ہو کر اگر دوسرا عقد کرنے کی خواہش ظاہر کرتی ہے تو اسے بے باک اور بے حیا سمجھا جاتا ہے، اس لیے شاذو نادر ہی کوئی عورت دوسری شادی کرتی ہے، عموماً ہمارے معاشرے میں بیوہ اور مطلقہ خواتین کو عقد ثانی کرنے میں کافی مشکلات آتی ہیں۔
مرد حضرات بھی ایسی خواتین سے شادی کرنے سے کتراتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ نہیں کر پاتے کہ ان کی شریک حیات اس سے پہلے کسی اور کی زوجیت میں رہ چکی ہو اور اگر کوئی مرد ایسی خاتون سے شادی کے لیے رضا مند ہو بھی جاتا ہے تو اس عورت کے سابقہ سسرال والے اسے کافی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
دوسری شادی کرنے کا تجربہ اکثر و بیش تر خواتین کے لیے کافی تکلیف دہ اور ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے، کیوں کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کا شوہر بات بے بات پر اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے انہیں سابقہ شوہر اور سابقہ گزری زندگی کے طعنے دیتا ہے۔ اگر وہ کسی سوچ میں مبتلا ہے یا پھر کسی وجہ سے اداس ہے تو فوراً یہ سننے کو ملتا ہے کہ ''یقیناً پہلے شوہر کے بارے میں سوچ رہی ہوں گی۔'' یا پھر ''سابقہ شوہر تمہیں بہت یاد آ رہا ہے ناں'' وغیرہ۔
اس ضمن میں سسرال والے بھی عورت کو طنز و تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں، جس کی بنا پر وہ اپنے شوہر کے دل میں جگہ بنانے میں ناکام رہتی ہے۔ اسے بار بار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کا بھائی یا بیٹا اس کی زندگی کا دوسرا مرد ہے۔ اس قسم کی صورت حال عورت کے لیے بہت رنج و تکلیف کا باعث بنتی ہے، وہ ویسے ہی اپنی پچھلی زندگی کے ناخوش گوار حادثے کی مغموم یادوں سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے، اوپر سے یہ کاٹ دار باتیں اسے اور کچوکے لگاتی ہیں۔
ایسی خواتین جو جوانی میں اپنے شوہر سے بچھڑنے کے حادثے سے دوچار ہوں تو ان کے گھر والے ان کی مرضی کے خلاف ان کی دوسری شادی کر دیتے ہیں، حالاں کہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے سہارے ساری زندگی گزار لیں گی یا کم سے کم کوئی ایسا مرد ان کی زندگی میں آئے جو ان کے بچوں کو ان سے جدا نہ کرے، لیکن اکثر ایسی شادیوں کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ پہلے شوہر کا بچہ یا تو ننھیال میں پلتا ہے یا پھر ددھیال والے اسے لے جاتے ہیں اور بعض اوقات اسے ماں سے ملنے سے بھی منع کردیتے ہیں کہ اب وہ کسی دوسرے مرد کی بیوی ہے اور اگر بچہ ننھیال میں پرورش پاتا ہے یا ددھیال والے اعلا ظرف ہیں تو اس عورت کا موجودہ شوہر اپنی بیوی کے سابقہ شوہر کی اولاد سے ملنے نہیں دیتا، دونوں صورتوں میں ایک ماں ہی دوسری شادی کے جرم میں اپنے بچے سے محروم کر دی جاتی ہے جو سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔
بہت سی خواتین بھائیوں کی سرد مہری اور بھاوجوں کے طعنوں سے تنگ آکر جلد بازی میں کسی ایسی جگہ شادی کر بیٹھتی ہیں کہ ان کی زندگی مزید کرب اور تکالیف کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک خاتون نے مجبور ہوکر جب ایک ایسے شخص سے شادی کر لی جس کے پہلے سے چار بچے تھے، شادی کے بعد شوہر صاحب کو محض اس بات سے پرخاش تھی کہ یہ بچی ان کی بیگم کے پہلے شوہر کی ہے، لہٰذا انہوںنے اپنے چاروں بچوں کو تو اپنے ساتھ رکھا لیکن ان کی کم سن بچی سے ملنے پر پابندی لگا دی۔
کچھ خواتین کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ پہلے شوہر سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے یا کسی اور وجوہ کی بنا پر علیحدگی لے لیتی ہیں اور جب وہ اپنی مرضی کے شخص سے دوسرا عقد کرتی ہیں تو پاس پڑوس، رشتے دار اور دیگر ملنے جلنے والے اس عورت کے کردار پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس ہی طرح جب بھی کسی ایسی عورت سے ملاقات ہو، جس نے دوسری شادی کی ہو تو لوگ اسے اس قدر حیرت اور عجیب وغریب نظروں سے دیکھتے ہیں، جیسے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہو۔ ایسی صورت حال خواتین کو عجیب کشمکش میں مبتلا کر دیتی ہے۔
اسلام عورت کو شوہر کی وفات یا طلاق کے بعد دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے اور اسے اپنی پسند کا شریک سفر چننے کا حق بھی دیتا ہے، پھر کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی عورت کے اس حق کو سلب کرے یا اپنا یہ حق استعمال کرنے والی خاتون کے خلاف کوئی بات کہے۔ جس طرح مرد کی دوسری شادی جرم نہیں، اسی طرح عورت کی دوسری شادی بھی کسی طرح معیوب بات نہیں ہے، اسے اپنی مرضی کی ازدواجی زندگی کا پورا حق ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرہ عورت کی دوسری شادی سے متعلق اپنے دلوں میں وسعت پیدا کرے، مردوں کی طرح ہم عورت کے معاملے میں بھی اپنی سوچ کو مثبت اور وسیع کر کے اسے طنز و تضحیک کا نشانہ نہ بنائیں اور اس کے سابقہ شوہر کے بچوں سے اسے دور کر کے قہر خداوندی کو آواز نہ دیں۔