دردِ لادوا
پاکستانی معاشرے میںروز ِاول ہی سے مکالمے اورروشن خیالی کے راستے میں روڑے اٹکانے کی کوششیں شروع ہوگئی تھیں۔
پروین رحمان کو قتل کردیا گیا۔اس کا قصوریہ تھا کہ اس نے کچی بستیوں کے مکینوںکو سماجی سہولیات تک رسائی کاشعور دیا اوران کے حصول میں مددمہیا کی۔ غریبوں کوبلاسود قرضوں کی فراہمی کے ذریعے انھیںاپنی معاشی وسماجی حالت میں تبدیلی کا موقع فراہم کیا۔
یہ وہ خاتون تھی، جو مرحوم ڈاکٹر اختر حمید خان کے مشن کا ادراک رکھتے ہوئے اسے آگے بڑھا نے میں محو تھی۔اسی لیے اس نے اپنی زندگی کے25قیمتی سال اس مشن کی تکمیل میںصرف کردیے ۔اسے ان خدمات کا صلہ کیا ملا؟دہشت گردوں کی سفاک گولیاں اوراس زندگی کا خاتمہ جو دوسروں کے لیے وقف ہوچکی تھی۔
پاکستانی معاشرے میںروز ِاول ہی سے فکری کثرتیت،دلیل کی بنیاد پرمکالمہ اورروشن خیالی کے راستے میں روڑے اٹکانے کی کوششیںشروع ہوگئی تھیں۔ ایک طرف مذہب کا سہارا لیتے ہوئے تاریخ کی غلط تفہیم پیش کی گئی،جب کہ دوسری طرف آزادیِ اظہارپرجابجا قدغن عائدکرکے فکری ارتقاء کا راستہ روکا گیا۔اس رجحان کا پہلا نشانہ خود بانیِ پاکستان بنے، جن کی 11 اگست1947ء کو دستور ساز اسمبلی میںکی گئی تقریر سنسر کردی گئی۔
وہ تو بھلاہو بنگالی ایڈیٹرالطاف حسین کا جس نے جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس تقریر کوروزنامہ ڈان میں شایع کرکے آزادیِ صحافت کے لیے راہ ہموار کی۔ مگر آزادیِ اظہار کو پابند سلاسل کرنے کی کوششیں مسلسل جاری رہیں۔ایوب خان کے دور میں پروگریسو پیپرز کے اخبارات اورجرائدکا قومیایا جانا اور پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس کا اجراء اسی سلسلے کی کڑی تھے۔ آج معاشرہ عدم برداشت کی جس بھیانک منزل تک جا پہنچاہے، وہ ماضی کے انھی اقدامات کا منطقی نتیجہ ہے۔
پروین رحمان کون تھیں؟کیا کررہی تھیں اور ان کے بہیمانہ قتل سے معاشرے کو کیافائدہ یا نقصان پہنچاہے۔یہ سمجھنے کے لیے ڈاکٹر اخترحمید خان مرحوم کی شخصیت اور ان کے کارناموں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر اختر حمید خان مرحوم عجیب وغریب شخصیت کے مالک تھے۔انھوں نے انگریزی ادب میںایم اے امتیازی نمبروںسے پاس کرنے کے بعدICSکے امتحان میںپورے برٹش انڈیامیں اول پوزیشن حاصل کی۔تربیت کے لیے انگلستان گئے تو انھیںہاسٹل کا وہ کمرہ دیاگیا،جس میں کبھی علامہ عنایت اللہ مشرقی رہ چکے تھے۔
انھوںنےICSکی تربیت کے ساتھ خاکسار تحریک اور علامہ مشرقی کے نظریات کا مطالعہ بھی شروع کردیا۔ علامہ مشرقی کی شخصیت اورافکار کاان کے ذہن پر اتنا گہرااثر ہواکہ سادگی ان کااوڑھنا بچھوناہوگئی۔نتیجتاًتربیت کی تکمیل کے بعد جب واپس ہوئے تو ممبئی سے میرٹھ تک تیسرے درجے میں سفرکیا،جب کہ ضابطے کے مطابق ICSافسران فرسٹ کلاس میں سفر کرنے کے پابند ہواکرتے تھے۔جس زمانے میںبنگال میںان کی تقرری ہوئی ،وہ صوبہ بدترین قحط سالی کا شکار تھا۔مگرکومیلا اور جیسور کے اضلاع میں جہاں وہ اس دوران تعینات رہے ،انھوں نے ذاتی دلچسپی اورانتظامی صلاحیت کے ذریعے راشن کی تقسیم کے نظام کو اس طرح ترتیب دیا کہ ان اضلاع کے عوام پر قحط سالی کارتی بھر اثر نہیں ہوا۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم کی دوسری خوبی یہ تھی کہ اس زمانے میں جب ICSہوناقابل فخرتصورکیاجاتا تھا،انھوں نے اپنے عروج کے زمانے میں اس سے کنارہ کشی اختیار کرکےPh.D کرنے کا فیصلہ کیا۔ درس وتدریس کے ساتھ انھوں نے علی گڑھ میں تالاسازی کی اور اس صنعت کے مزدور وںکی حالت زار کو سمجھنے کی عملی کوشش کی۔ تقسیم کے بعد ایک بار پھر کومیلاکو اپنا مستقر بنایااور اس کی سماجی ترقی کے لیے کوششوں کا آغاز کیا۔سقوط ڈھاکہ کے کچھ عرصے کے بعد کراچی آکر سابقہ مشرقی پاکستان سے آنے والے مہاجرین کی سب سے بڑی کچی بستی اورنگی ٹائون میں ''اورنگی پائلٹ پروجیکٹ '' کے نام سے تنظیم قائم کی اوراس بستی کے رہائشیوں کوسماجی ترقی کا شعور دیا تاکہ وہ اپنی مددآپ کے تحت اپنی زندگیوں میں بہتری لاسکیں۔
ڈاکٹر اختر حمید خان مرحوم کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں ایک انتہائی کمیٹیڈ ٹیم میسر آئی۔خاص طورپر سول سرونٹ تسنیم صدیقی ، ٹائون پلانر عارف حسن ، ڈاکٹر شمیم زین الدین خان اورنوجوان(اس وقت) پروین رحمان سمیت ان گنت مخلص ساتھیوںنے ان کی فکر کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار اداکیا۔اس ٹیم کی کوششوںکا نتیجہ یہ نکلا کہ اسوقت اورنگی ٹائون ایشیاء کی وہ واحد کچی بستی ہے،جہاں تعلیم کی شرح نہ صرف دنیا بھر کی کچی بستیوں میں سب سے زیادہ ہے ،بلکہ پاکستان کی بیشتر متوسط طبقے کی پکی بستیوں سے بھی زیادہ ہے۔
اس تنظیم کی دوسری اہم کامیابی یہ ہے کہ اس نے جس انداز میں سماجی آگہی کے تصورکو عام کیا، اپنی مددآپ کے تحت ترقیاتی کام کرنے کے رجحان کو فروغ دیا اور بلاسود چھوٹے قرضوں کے ذریعے معاشی خود انحصاری اورسماجی ترقی کارجحان پیدا کیا ،اس نے کئی ممالک کے Development Strategistsکو OPP کے ماڈل کو استعمال کرنے پر مجبور کیا۔
ڈاکٹر اختر حمید خان کے انتقال کے بعد تسنیم صدیقی اور عارف حسن کی ماہرانہ مشاورت اور پروین کی انتھک محنت نے اس مشن کو اسی جذبہ اور تندہی سے جاری رکھا جو ڈاکٹر صاحب مرحوم کا خواب تھا۔پروین کے فکری رہنما(Mentor)ڈاکٹر اختر حمید خان مرحوم تھے،اس لیے اس نے ترقیاتی سرگرمیوں کے ساتھ شہر کی ترقی کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کے مطالعے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔اس نے لینڈاور واٹر ٹینکرمافیاکے بارے میں غیر جانبدارانہ تحقیقی رپورٹ تیار کرکے شایع کی۔یہی سبب ہے کہ شہر میں سرگرم مختلف مافیائیںاور انتظامیہ کے وہ عہدیدار بھی اس کے دشمن ہوگئے، جن کی سرپرستی میں یہ مافیائیںسرگرم ہیں۔
اس کے علاوہ ایک مخصوص مذہبی شدت پسند ٹولہ بھی OPPسمیت ان تمام تنظیموں کا مخالف ہے،جوعلم کے فروغ، دلیل کی بنیادپرمکالمے اور فکری کثرتیت پر یقین رکھتی ہیں اور سماجی شعور و آگہی میں اضافہ کے لیے کام کررہی ہیں۔ پولیس کے مطابق اس نے ایک مذہبی شدت پسند گروپ کے سرغنہ کو پکڑا ہے ،جس پر پروین کے قتل کا الزام ہے۔لیکن اگر لینڈ اور واٹرٹینکرمافیاکو بھی شامل تفتیش کرلیاجائے تواس قتل کے کئی دیگر پہلو بھی سامنے آسکیں گے اور اصل حقائق تک پہنچنے میں مزید آسانی ہوسکے گی۔
پاکستان کے عوام کی اکثریت ان کوششوں سے ناواقف ہے، جو بعض تنظیمیں اورکمیٹیڈ افراد اپنے سماجی شعور، اخلاص اور بے لوث خدمت کے ذریعے خاموشی سے سرانجام دے رہے ہیں۔انھیں یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ پروین رحمان کے قتل سے ان کے ملک میںغیر سرکاری سطح پرترقیاتی عمل کے لیے کی جانے والی کوششوں کوکتنا شدید نقصان پہنچاہے۔ انقلاب بظاہر ایک خوبصورت اور خون کی حدت میں اضافہ کرنے والی اصطلاح ہے، مگر اس کوعملی جامہ پہناناکتنامشکل ہے،اس کا اندازہ ان اقوام کوہے جو اس عمل سے گزری ہیں۔دوسری بات یہ کہ انقلاب محض نعروں سے بپا نہیں ہوتا ،اس کے لیے ہر سطح پر عملی کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
تیسری بات یہ کہ انقلاب صرف حکومتوں کی تبدیلی سے مشروط نہیں ہے، بلکہ انسانی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کااظہار ہے۔اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو ایڈیسن نے بلب ایجاد کرکے دنیا میںسب سے بڑاانقلاب بپا۔آج انفارمیشن اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی زندگی میںجو تبدیلیاںآئی ہیں،وہ کسی انقلاب سے کم نہیں ہیں۔ اس لیے جو لوگ عوام کو سماجی شعور سے آشنا کررہے ہیں اور سماجی ترقی میں ان کی معاونت کررہے ہیں وہ دراصل ایک خاموش اور بظاہر نظرنہ آنے والے انقلاب کی راہ ہموار کررہے ہیں،جس کے ثمرات اس لیے دیر پا اورپائیدار ہوں گے ،کیونکہ یہ معاشرے کے اپنے شعور وآگہی کی بدولت ان کے اندر سے جنم لے رہے ہیں۔
دوسری اہم بات جو پاکستانی عوام کو سمجھنا ہوگی،وہ یہ ہے کہ ان کے ملک میں ان کے مذہب اور عقیدے کو کسی بھی سمت سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔اگر کوئی خطرہ ہے تو خود انھیں اپنے رویوں اور عمل سے ہے۔انھیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ زباں بندی مسائل کا حل نہیںہے۔بے جا پابندیاں، جبر اورخوف وہراس معاشرے میںتنگ نظری ،توہم پرستی اورفکری بانجھ پن کو جنم دیتاہے ۔اس کے برعکس کھلے معاشروں میں جہاںآزادیِ اظہارکی سہولتیںمیسر ہوتی ہیں،غور وفکر کی نئی جہتیں کھلتی ہیں اور تحقیق وتخلیق کا عمل آگے بڑھتاہے۔
ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ جس طرح کسی معاشرے کی اکثریتی آبادی کو اپنے عقائد ،نظریات اور ثقافتی رسومات کی آزادانہ ادائیگی کا حق حاصل ہے،اسی طرح معاشرے میں موجود اقلیتوںکوبھی اپنے عقائد، نظریات اور ثقافتی رسومات کی ادائیگی کا آزادانہ حق حاصل ہے۔ معاشرے کوسماجی ترقی کی راہ پر لگانے کے لیے جو افراد اور تنظیمیں خدمات سرانجام دے رہی ہیں، اگرہم ان کی تعریف و توصیف نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کی راہ میں کانٹے بچھانے سے تو گریز کریں۔ پروین کے قتل سے صرف ایک خاتون یافرد کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہوا،بلکہ تعمیری سوچ اور خدمت کے جذبے کا ایک باب بند ہواہے۔وہ لوگ جو عقائد ونظریات سے بالاترہوکر انسانی زندگیوں میں تبدیلیوں کے خواہاں ہیں کیا اس واقعے کے بعد ایسے سفاکانہ ماحول میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گے؟اس سوال پر پاکستانی عوام کو اب بہرحال غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ وہ خاتون تھی، جو مرحوم ڈاکٹر اختر حمید خان کے مشن کا ادراک رکھتے ہوئے اسے آگے بڑھا نے میں محو تھی۔اسی لیے اس نے اپنی زندگی کے25قیمتی سال اس مشن کی تکمیل میںصرف کردیے ۔اسے ان خدمات کا صلہ کیا ملا؟دہشت گردوں کی سفاک گولیاں اوراس زندگی کا خاتمہ جو دوسروں کے لیے وقف ہوچکی تھی۔
پاکستانی معاشرے میںروز ِاول ہی سے فکری کثرتیت،دلیل کی بنیاد پرمکالمہ اورروشن خیالی کے راستے میں روڑے اٹکانے کی کوششیںشروع ہوگئی تھیں۔ ایک طرف مذہب کا سہارا لیتے ہوئے تاریخ کی غلط تفہیم پیش کی گئی،جب کہ دوسری طرف آزادیِ اظہارپرجابجا قدغن عائدکرکے فکری ارتقاء کا راستہ روکا گیا۔اس رجحان کا پہلا نشانہ خود بانیِ پاکستان بنے، جن کی 11 اگست1947ء کو دستور ساز اسمبلی میںکی گئی تقریر سنسر کردی گئی۔
وہ تو بھلاہو بنگالی ایڈیٹرالطاف حسین کا جس نے جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس تقریر کوروزنامہ ڈان میں شایع کرکے آزادیِ صحافت کے لیے راہ ہموار کی۔ مگر آزادیِ اظہار کو پابند سلاسل کرنے کی کوششیں مسلسل جاری رہیں۔ایوب خان کے دور میں پروگریسو پیپرز کے اخبارات اورجرائدکا قومیایا جانا اور پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس کا اجراء اسی سلسلے کی کڑی تھے۔ آج معاشرہ عدم برداشت کی جس بھیانک منزل تک جا پہنچاہے، وہ ماضی کے انھی اقدامات کا منطقی نتیجہ ہے۔
پروین رحمان کون تھیں؟کیا کررہی تھیں اور ان کے بہیمانہ قتل سے معاشرے کو کیافائدہ یا نقصان پہنچاہے۔یہ سمجھنے کے لیے ڈاکٹر اخترحمید خان مرحوم کی شخصیت اور ان کے کارناموں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر اختر حمید خان مرحوم عجیب وغریب شخصیت کے مالک تھے۔انھوں نے انگریزی ادب میںایم اے امتیازی نمبروںسے پاس کرنے کے بعدICSکے امتحان میںپورے برٹش انڈیامیں اول پوزیشن حاصل کی۔تربیت کے لیے انگلستان گئے تو انھیںہاسٹل کا وہ کمرہ دیاگیا،جس میں کبھی علامہ عنایت اللہ مشرقی رہ چکے تھے۔
انھوںنےICSکی تربیت کے ساتھ خاکسار تحریک اور علامہ مشرقی کے نظریات کا مطالعہ بھی شروع کردیا۔ علامہ مشرقی کی شخصیت اورافکار کاان کے ذہن پر اتنا گہرااثر ہواکہ سادگی ان کااوڑھنا بچھوناہوگئی۔نتیجتاًتربیت کی تکمیل کے بعد جب واپس ہوئے تو ممبئی سے میرٹھ تک تیسرے درجے میں سفرکیا،جب کہ ضابطے کے مطابق ICSافسران فرسٹ کلاس میں سفر کرنے کے پابند ہواکرتے تھے۔جس زمانے میںبنگال میںان کی تقرری ہوئی ،وہ صوبہ بدترین قحط سالی کا شکار تھا۔مگرکومیلا اور جیسور کے اضلاع میں جہاں وہ اس دوران تعینات رہے ،انھوں نے ذاتی دلچسپی اورانتظامی صلاحیت کے ذریعے راشن کی تقسیم کے نظام کو اس طرح ترتیب دیا کہ ان اضلاع کے عوام پر قحط سالی کارتی بھر اثر نہیں ہوا۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم کی دوسری خوبی یہ تھی کہ اس زمانے میں جب ICSہوناقابل فخرتصورکیاجاتا تھا،انھوں نے اپنے عروج کے زمانے میں اس سے کنارہ کشی اختیار کرکےPh.D کرنے کا فیصلہ کیا۔ درس وتدریس کے ساتھ انھوں نے علی گڑھ میں تالاسازی کی اور اس صنعت کے مزدور وںکی حالت زار کو سمجھنے کی عملی کوشش کی۔ تقسیم کے بعد ایک بار پھر کومیلاکو اپنا مستقر بنایااور اس کی سماجی ترقی کے لیے کوششوں کا آغاز کیا۔سقوط ڈھاکہ کے کچھ عرصے کے بعد کراچی آکر سابقہ مشرقی پاکستان سے آنے والے مہاجرین کی سب سے بڑی کچی بستی اورنگی ٹائون میں ''اورنگی پائلٹ پروجیکٹ '' کے نام سے تنظیم قائم کی اوراس بستی کے رہائشیوں کوسماجی ترقی کا شعور دیا تاکہ وہ اپنی مددآپ کے تحت اپنی زندگیوں میں بہتری لاسکیں۔
ڈاکٹر اختر حمید خان مرحوم کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں ایک انتہائی کمیٹیڈ ٹیم میسر آئی۔خاص طورپر سول سرونٹ تسنیم صدیقی ، ٹائون پلانر عارف حسن ، ڈاکٹر شمیم زین الدین خان اورنوجوان(اس وقت) پروین رحمان سمیت ان گنت مخلص ساتھیوںنے ان کی فکر کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار اداکیا۔اس ٹیم کی کوششوںکا نتیجہ یہ نکلا کہ اسوقت اورنگی ٹائون ایشیاء کی وہ واحد کچی بستی ہے،جہاں تعلیم کی شرح نہ صرف دنیا بھر کی کچی بستیوں میں سب سے زیادہ ہے ،بلکہ پاکستان کی بیشتر متوسط طبقے کی پکی بستیوں سے بھی زیادہ ہے۔
اس تنظیم کی دوسری اہم کامیابی یہ ہے کہ اس نے جس انداز میں سماجی آگہی کے تصورکو عام کیا، اپنی مددآپ کے تحت ترقیاتی کام کرنے کے رجحان کو فروغ دیا اور بلاسود چھوٹے قرضوں کے ذریعے معاشی خود انحصاری اورسماجی ترقی کارجحان پیدا کیا ،اس نے کئی ممالک کے Development Strategistsکو OPP کے ماڈل کو استعمال کرنے پر مجبور کیا۔
ڈاکٹر اختر حمید خان کے انتقال کے بعد تسنیم صدیقی اور عارف حسن کی ماہرانہ مشاورت اور پروین کی انتھک محنت نے اس مشن کو اسی جذبہ اور تندہی سے جاری رکھا جو ڈاکٹر صاحب مرحوم کا خواب تھا۔پروین کے فکری رہنما(Mentor)ڈاکٹر اختر حمید خان مرحوم تھے،اس لیے اس نے ترقیاتی سرگرمیوں کے ساتھ شہر کی ترقی کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کے مطالعے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔اس نے لینڈاور واٹر ٹینکرمافیاکے بارے میں غیر جانبدارانہ تحقیقی رپورٹ تیار کرکے شایع کی۔یہی سبب ہے کہ شہر میں سرگرم مختلف مافیائیںاور انتظامیہ کے وہ عہدیدار بھی اس کے دشمن ہوگئے، جن کی سرپرستی میں یہ مافیائیںسرگرم ہیں۔
اس کے علاوہ ایک مخصوص مذہبی شدت پسند ٹولہ بھی OPPسمیت ان تمام تنظیموں کا مخالف ہے،جوعلم کے فروغ، دلیل کی بنیادپرمکالمے اور فکری کثرتیت پر یقین رکھتی ہیں اور سماجی شعور و آگہی میں اضافہ کے لیے کام کررہی ہیں۔ پولیس کے مطابق اس نے ایک مذہبی شدت پسند گروپ کے سرغنہ کو پکڑا ہے ،جس پر پروین کے قتل کا الزام ہے۔لیکن اگر لینڈ اور واٹرٹینکرمافیاکو بھی شامل تفتیش کرلیاجائے تواس قتل کے کئی دیگر پہلو بھی سامنے آسکیں گے اور اصل حقائق تک پہنچنے میں مزید آسانی ہوسکے گی۔
پاکستان کے عوام کی اکثریت ان کوششوں سے ناواقف ہے، جو بعض تنظیمیں اورکمیٹیڈ افراد اپنے سماجی شعور، اخلاص اور بے لوث خدمت کے ذریعے خاموشی سے سرانجام دے رہے ہیں۔انھیں یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ پروین رحمان کے قتل سے ان کے ملک میںغیر سرکاری سطح پرترقیاتی عمل کے لیے کی جانے والی کوششوں کوکتنا شدید نقصان پہنچاہے۔ انقلاب بظاہر ایک خوبصورت اور خون کی حدت میں اضافہ کرنے والی اصطلاح ہے، مگر اس کوعملی جامہ پہناناکتنامشکل ہے،اس کا اندازہ ان اقوام کوہے جو اس عمل سے گزری ہیں۔دوسری بات یہ کہ انقلاب محض نعروں سے بپا نہیں ہوتا ،اس کے لیے ہر سطح پر عملی کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
تیسری بات یہ کہ انقلاب صرف حکومتوں کی تبدیلی سے مشروط نہیں ہے، بلکہ انسانی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کااظہار ہے۔اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو ایڈیسن نے بلب ایجاد کرکے دنیا میںسب سے بڑاانقلاب بپا۔آج انفارمیشن اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی زندگی میںجو تبدیلیاںآئی ہیں،وہ کسی انقلاب سے کم نہیں ہیں۔ اس لیے جو لوگ عوام کو سماجی شعور سے آشنا کررہے ہیں اور سماجی ترقی میں ان کی معاونت کررہے ہیں وہ دراصل ایک خاموش اور بظاہر نظرنہ آنے والے انقلاب کی راہ ہموار کررہے ہیں،جس کے ثمرات اس لیے دیر پا اورپائیدار ہوں گے ،کیونکہ یہ معاشرے کے اپنے شعور وآگہی کی بدولت ان کے اندر سے جنم لے رہے ہیں۔
دوسری اہم بات جو پاکستانی عوام کو سمجھنا ہوگی،وہ یہ ہے کہ ان کے ملک میں ان کے مذہب اور عقیدے کو کسی بھی سمت سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔اگر کوئی خطرہ ہے تو خود انھیں اپنے رویوں اور عمل سے ہے۔انھیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ زباں بندی مسائل کا حل نہیںہے۔بے جا پابندیاں، جبر اورخوف وہراس معاشرے میںتنگ نظری ،توہم پرستی اورفکری بانجھ پن کو جنم دیتاہے ۔اس کے برعکس کھلے معاشروں میں جہاںآزادیِ اظہارکی سہولتیںمیسر ہوتی ہیں،غور وفکر کی نئی جہتیں کھلتی ہیں اور تحقیق وتخلیق کا عمل آگے بڑھتاہے۔
ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ جس طرح کسی معاشرے کی اکثریتی آبادی کو اپنے عقائد ،نظریات اور ثقافتی رسومات کی آزادانہ ادائیگی کا حق حاصل ہے،اسی طرح معاشرے میں موجود اقلیتوںکوبھی اپنے عقائد، نظریات اور ثقافتی رسومات کی ادائیگی کا آزادانہ حق حاصل ہے۔ معاشرے کوسماجی ترقی کی راہ پر لگانے کے لیے جو افراد اور تنظیمیں خدمات سرانجام دے رہی ہیں، اگرہم ان کی تعریف و توصیف نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کی راہ میں کانٹے بچھانے سے تو گریز کریں۔ پروین کے قتل سے صرف ایک خاتون یافرد کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہوا،بلکہ تعمیری سوچ اور خدمت کے جذبے کا ایک باب بند ہواہے۔وہ لوگ جو عقائد ونظریات سے بالاترہوکر انسانی زندگیوں میں تبدیلیوں کے خواہاں ہیں کیا اس واقعے کے بعد ایسے سفاکانہ ماحول میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گے؟اس سوال پر پاکستانی عوام کو اب بہرحال غور کرنے کی ضرورت ہے۔