بے نظیر بھٹو اور آج کی لیڈر شپ

بی بی کی شہادت کے بعد کے لیڈر اب’’ بینظیر ، بینظیر‘‘کھیلنے میں لگے ہیں۔

ali.dhillon@ymail.com

یہ اتفاق سمجھ لیں یا ہماری نا اہلی کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دو سابق وزرائے اعظم لیاقت علی خان اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ ابھی تک حل طلب ہے۔ یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ جب لیاقت علی خان کی شہادت ہوئی اس وقت ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی لیکن بے نظیر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔

ان پر حملے کی کئی ویڈیوز بھی موجود ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بی بی کس طرح قتل ہوئیں۔ دھماکا کرنے والوں اور گولیاں چلانے والوں کی پوزیشن کیا تھی۔ پھر بھی آج تک ہمارے سیاستدان خصوصاََ محترمہ کی اپنی پیپلزپارٹی جو سندھ میں گزشتہ 9سال سے حکومت میں ہے اور مرکز میں بھی پانچ سال گزار چکی ہے، اس بات کا تعین نہیں کر سکیں کہ محترمہ کے اصل قاتل کون ہیں؟ اصل منصوبہ بندی کہاں کی گئی؟ اور اس قتل کے اصل سہولت کار اور بینیفشری کون تھے؟

نہ ہمارے تفتیشی ادارے کسی نتیجے پر پہنچ سکے ، نہ عدالتیں، نہ سیاستدان، نہ اسکاٹ لینڈ یارڈ، نہ اقوام متحدہ کا کمیشن اور نہ ہی محترمہ کے خاندان کے افراد۔ ان تمام تفتیشوں اور اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی ٹیموں کو پاکستان بلانے پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔ رہی بات انسداد دہشت گردی کی عدالت کے گزشتہ دنوں کے فیصلے کی تو اس فیصلے سے ماسوائے ان پانچ ملزمان کے جو بری ہوئے ہیں کے سوا کوئی بھی مطمئن نہ ہوا۔

اگست 2017ء میں اس عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ان پانچ افراد کو اس مقدمے سے بری کر دیا گیا جن کو بینظیر بھٹو کے قتل کے واقعے کے دو ماہ کے بعد ہی گرفتار کیا گیا تھا اور اس طرح اُنھوں نے نو سال کا عرصہ بغیر کسی سزا کے جیل میں گزارا۔ ان افراد میں رفاقت، حسنین گل، شیر زمان، اعتزاز شاہ اور رشید احمد شامل ہیں۔ اس مقدمے میں 68 سرکاری گواہان پیش کیے گئے جن میں وہ مجسٹریٹ بھی شامل تھے جنھوں نے ملزمان کے اقبالی بیان بھی قلمبند کیے تھے لیکن ''سلام'' اس عدالتی نظام پر کہ فیصلہ پھر بھی استغاثہ کے حق میں نہیں آیا۔

جب راقم نے اس حوالے سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ دیکھا جائے کہ اس مقدمے میں پیپلز پارٹی کے وکیل کون کون تھے؟ تو علم ہوا کہ نہ تو اس مقدمے میں چوہدری اعتزاز احسن تھے، نہ لطیف کھوسہ اور نہ ہی بابر اعوان جیسے نامور وکیل بلکہ کیس ایک غیر معروف وکیل کو سونپ دیا گیا تھا۔حالانکہ ملک کے یہ چوٹی کے وکلا بینظیر بھٹو کی زندگی میں ان کے خلاف نیب کے مقدمات کی پیروی کے لیے عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں لیکن ان کی شہادت کے بعد کوئی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کو اپنی منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے عملی اقدامات کرنے کا کوئی خیال نہیں آیا۔

حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جب بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی سماعت ہوتی تھی تو اس وقت پیپلز پارٹی کا کوئی بھی سرکردہ رہنما کمرہ عدالت میں موجود نہیں ہوتا تھا۔کیسی بات ہے کہ آصف زرداری اس کیس میں مدعی ہی نہیں تھے۔اگر مدعی نہیں تھے تو پھر سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیس کس کے آسرے پر چھوڑا ہوا تھا؟


کاش جس طرح پیپلز پارٹی نے ایان علی کا کیس لڑا اُسی یکسوئی کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس بھی لڑا جاتا۔ کاش جس طرح پیپلز پارٹی نے زرداری کو کرپشن کے بے شمار کیسز سے آزاد کرایا (اورآج اللہ کی مہربانی سے اُن پر کوئی کیس نہیں ہے) اسی طرح محترمہ کے کیس میں بھی اچھے اچھے وکیل میدان میں اُتارے جاتے، تاکہ اصل قاتلوں تک پہنچ کر انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جاتا۔

کاش جس طرح گیلانی اور راجہ پرویز اشرف پر 16، 16مقدمات کی پیروی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے اسی طرح محترمہ کے قتل کیس پر بھی پارٹی فنڈز کے منہ کھول دیے جاتے۔کاش جس طرح پیپلز پارٹی میں موجود کئی دوست رہنماء جو ہمیشہ زرداری کا دفاع کرتے نظرآتے ہیں، وہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کا متنازع فیصلہ آنے کے بعد دو لفظ ہی محترمہ کے لیے کہہ دیتے۔ کاش جس طرح شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے پیپلز پارٹی کی قیادت ڈٹ گئی ہے ، اسی طرح بے نظیر کے معاملے میں بھی ڈٹ جاتی ۔آصف علی زرداری اب سابقہ نااہل وزیراعظم نواز شریف ، زرداری کو اسٹیبلشمنٹ کا ''تیسرا لاڈلا'' کہہ کر پکارتے نظر آتے ہیں۔

جو زرداری بے نظیر کے قتل کو اسٹیبلشمنٹ کی سازش قرار دیا کرتے تھے اقتدار کی خاطر آج انھی سے جا ملے ہیں۔ حالانکہ جنہوں نے زرداری کو آیندہ اقتدار کی نوید سنائی ہے، بادی النظر میں وہ اُن کے ساتھ ''ہاتھ'' کرنے والے ہیں۔ کیونکہ پنجاب حکومت کی سب سے بڑی شخصیت حقیقی ''لاڈلا'' بننے والی ہے۔ جب وہ زندہ تھیں تو سیاسی بصیرت کے حوالے سے ان کا کوئی نعمل البدل نہیں تھا۔ یہاں تک کہ آج سے دس برس قبل تک ہر اخبار، ٹی وی چینل اور ریڈیو پر بے نظیر بھٹو کو دیکھا اور سنا جاتا تھا،یہی وجہ ہے کہ محترمہ کے ہوتے ہوئے اُن کی سیاست و پارٹی ''نیلام گھر'' نہیں بنے تھے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹوایک معرکۃ الآرا، یگانہء روزگار خاتون، انسان،سیاستکار، اور لیڈر تھی۔ وہ واقعی قلعہ بند گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے عوام کے درمیان ایک دن کی زندگی پر یقین رکھنے والی تھیں۔بقول شاعر

شہر کے غریبوں میں اک امیر جیسی تھی

بے نظیر بھٹو بس بے نظیر جیسی تھی

بی بی کی شہادت کے بعد کے لیڈر اب'' بینظیر ، بینظیر''کھیلنے میں لگے ہیں۔ کھیلیں بھی کیوں نہ انھیں کسی نے اگلے اقتدار کی نوید جو سنا دی ہے۔ آپ نے ٹی وی چینلوں پر دبئی سے واپس آنے والے اس شرجیل میمن کے استقبال کے مناظر دیکھے ہوں گے، اس دیکھ کر پتہ نہیں کیوں مجھے بے نظیر کے جلوس یاد آگئے۔ وہی ٹنڈو جام کا راستہ۔ جہانگیر بدر(مرحوم) جیسے سچے کھرے مست ملنگ اور آج کا زمانہ ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس کھیل میں جیالے کہیں دکھائی نہیں دے رہے، روٹھوں کو واپس لانے کا پیپلز پارٹی کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔ وہ محض جیالوں کو یہ کہہ کر لا رہے ہیں کہ اگلی حکومت اُن کی ہے۔ حالانکہ اس میں کوئی سچائی نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی اور بھی ان کے ساتھ ''بے نظیر ، بے نظیر '' ہی کھیل رہا ہو!
Load Next Story