شہید تیرا قافلہ رکا نہیں۔۔۔ جھکا نہیں

18 اکتوبر کو بی بی شہید کے جلوس پر دھماکے کیے گئے نشانہ بلاشبہ بی بی تھیں لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔

ISLAMABAD:
ساحر نے کہا تھا خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔ دست قاتل پر جمے یا کفِ صحرا میں جمے۔ بی بی کا خون کہیں اور نہیں بلکہ دست قاتل پر دست پرویز مشرف پر جما ہے۔

اپنی کتاب میں پرویز مشرف جھنڈا چیچی پر ہونے والے حملے کے بارے میں لکھتا ہے کہ ''.....کے ناکام ہونے کے اگلے دس منٹ میں اس وقت کے آئی ایس آئی اشفاق پرویز کیانی نے اس علاقے کو اس طرح سیل کردیا کہ پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا تھا۔ جدید آلات کی مدد سے علاقے کی ایک ایک انچ زمین کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔ تین دن تک کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ چوتھے روز وہاں ایک سم ملی جو کسی موبائل سے نکل کر گری تھی۔

آگے چل کر پرویز مشرف لکھتا ہے کہ ''خوش قسمتی سے وہ سم تباہ نہیں ہوئی تھی قابل استعمال تھی اس سم کا جب ڈیٹا حاصل کیا گیا تو پورا پلان سامنے آگیا۔ سم خودکش کی تھی اور وہ تمام پیغامات حاصل ہوگئے جو خودکش کو چند سیکنڈ پہلے تک مل رہے تھے۔

18 اکتوبر کو بی بی شہید کے جلوس پر دھماکے کیے گئے نشانہ بلاشبہ بی بی تھیں لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ بی بی خیریت سے رہیں لیکن حملے کی جگہ کو سیل کرنے کے بجائے اگلے تیس منٹ میں دھلوادیا گیا بلکہ سڑک ٹریفک کے لیے کھول دی گئی۔ مقصد اس کے علاوہ کیا تھا کہ شواہد ضایع ہوجائیں ایسا کوئی ثبوت نہ مل جائے جو جھنڈا چیچی میں مل گیا تھا۔ کسی بھی لاش کے پوسٹ مارٹم سے بھی گریز کیا گیا تاکہ کوئی فارنزک شہادت بھی نہ مل سکے۔

جو کچھ 18 اکتوبر کو کیا گیا بالکل وہی کچھ 27 دسمبر کو دہرایا گیا۔ حادثے کی جگہ کو اسی طرح دھلوایا گیا اور اسی طرح ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ کوئی پوسٹ مارٹم نہیں ہوا بلکہ ڈیڈ باڈیز کو ورثا کے حوالے کرنے کی جلدی تھی اتنی جلدی کہ دو بار وزیر اعظم اور کروڑوں لوگوں کے دل کی دھڑکن کی ڈیڈ باڈی کو محفوظ کرنے کے لیے برف تک کا انتظام نہیں کیا جاسکا۔

سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ جھنڈا چیچی کے واقعے میں یہ پھرتیاں کیوں نہیں تھیں اور ان دونوں مقامات پر یہ تیزی کیوں تھی اس سے بڑا بلکہ بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ کون سی شخصیت ہوسکتی ہے جس کے احکامات پر کراچی اور پنڈی پر یکساں طور پر عمل ہو رہا تھا۔ اس طرح اس سوال کی اہمیت بھی اپنی جگہ کہ وہ کون تھا جس کے ذہن میں یہ خدشہ موجود تھا کہ اگر حادثے کی جگہ کو نہ دھلوایا گیا اور اگر اس جگہ کو ٹریفک کے لیے نہ کھولا گیا تو کہیں کوئی ایسا ثبوت نہ ہاتھ آجائے جیسا جھنڈا چیچی میں ہاتھ آگیا تھا۔


چور کی داڑھی میں اس وقت تنکا بہت واضح اور صاف نظر آیا تھا جب اس وقت کے وزیر داخلہ سے پریس کانفرنس کروائی گئی جو جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔ جس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ حقائق کا رخ کسی اور جانب موڑا جائے۔ اس کے ساتھ ہی پروپیگنڈا کی ایک لہر شروع کی گئی جس میں بہتان تراشی کے وہ پہاڑ تراشے گئے کہ حقائق اس کے پیچھے چھپ جائیں یہ بات البتہ کسی دانشور تجزیہ نگار کی زبان سے نہیں نکلی کہ اس فقرے کے کیا معنی تھے کہ ''بے نظیر کی سلامتی کا تعلق اس بات سے ہے کہ ان کے مجھ سے تعلقات کیسے رہتے ہیں۔'' تاریخ کے صفحات میں آج تک کوئی بھی قاتل چھپ نہیں سکا ہے۔

تاریخ کے اوراق ایسے واقعات سے بھرے ہوئے ہیں جب قاتل وقتی طور پر جھوٹ کے پردوں کے پیچھے چھپنے میں سرخ رو رہا لیکن بالآخر قاتل کا اصل چہرہ سامنے آکر رہا اور اس خون ناحق کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا ہوسکتا ہے ہماری زندگیوں میں ایسا نہ ہو کیونکہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ 92 بعد ہی قاتل اپنا چہرہ چھپا نہیں سکا اور جب ایسا ہوگا تو یہ راز کھل جائے گا کہ قتل کی خبر کے ساتھ ہی کس طرح گولیاں باہر نکلیں اور انھوں نے کس طرح پرتشدد کارروائیاں کیں۔ پیپلز پارٹی سے وابستہ افراد تو شکست کے عالم میں تھے پھر وہ کون لوگ تھے جنھیں آتش گیر اشیا پہلے سے فراہم کی گئی تھیں خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں پیپلز پارٹی کے ہمدردوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔

شہید کی پہچان یہ ہے کہ اس سے قبل اس کا جسد خاکی زمین کے حوالے کیا جائے اس کے اپنے خاندان سے کوئی نکلتا ہے اور اس علم کو لے کر آگے بڑھتا ہے جس کے لیے شہید نے جان دی تھی۔ شہید بے نظیر بھٹو آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن جس مشن کو بی بی نے اپنے والد کی شہادت کے بعد آگے بڑھایا تھا اس مشن کو آج بی بی کا بیٹا آگے بڑھا رہا ہے۔ اس کی آواز میں وہی گونج ہے جو کبھی ذوالفقار علی بھٹو کی آواز میں تھی اور پھر بی بی کی آواز میں آئی تبھی تو ہم جیسے کارکن آواز میں آواز ملاتے ہیں اور پوری قوت سے نعرہ لگاتے ہیں کہ:

شہید تیرا قافلہ رکا نہیں۔۔۔۔جھکا نہیں؎

دشت پیما ہے نفس لاکھ بگولوں کی طرح

دل میں یادیں تری محفوط ہیں پھولوں کی طرح
Load Next Story