دور حاضر اور حضرت عیسیٰ ؑ کا درس
حضرت عیسیٰ ؑ غریب مفلوک الحال بے کس لوگوں کو نئی زندگی بخشتے تھے۔
KARACHI:
اسلام اور عیسائیت پر ذرا غورکریں تو یہ حضرت ابراہیم ؑ کی دو اولادوں یعنی حضرت اسحاق ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی نسلوں کا تسلسل ہے مگر زمینی فاصلوں اور رابطوں کی کمی پھر گزرتے وقت اور بدلتی دنیا کے تقاضوں کی وجہ سے نئے نئے ادیان کو خود خداوند کریم نے رائج کیا۔ بدلتے وقت کے تقاضوں اور ضروریات کے تحت ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد پیغمبران اور پھر اولیا اور اوصیا کو دنیا میں امن و انصاف قائم کرنے کے لیے بھیجا۔
اکثر و بیشتر راہبروں نے مکالموں مباحثوں اور تبلیغ کے ذریعے اپنا پیغام عام کیا یہاں تک کہ حضرت اسحاقؑ سے لے کر حضرت سلیمان اور پھر مزید وقت گزرنے کے بعد اسی نسل سے بی بی مریم کے بطن سے ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے۔
انجیل میں حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے جب یسوع مسیح کی ماں کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوگئی تو ان کی رخصتی سے پہلے روح القدس کی قدرت سے وہ حاملہ ہوگئیں۔ یوسف ایک راست باز انسان تھا جو اس کو بدنام نہیں کرنا چاہتا تھا وہ ابھی دل میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ چپکے سے الگ ہوجائے گا۔ وہ ابھی ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے ایک فرشتے نے خواب میں تفصیل سے آگاہ کیا اور کہا کہ تو اس کو اپنے گھر لا اور اولاد ہونے دے اور جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت ہے فرشتے نے مزید بتایا کہ اس کے پیٹ سے بیٹا پیدا ہوگا تم اس کا نام یسوع رکھنا وہ لوگوں کو گناہوں سے نجات دلائے گا۔ یوسف نے فرشتے کی بات مانی مریم کو اپنے گھر لے آیا یہاں تک کہ بیٹا پیدا ہوا اور اس کا نام یسوع رکھا۔ حضرت مریم کی پاکیزگی کی تائید قرآن کریم نے فرمائی ہے۔
یہ دور بادشاہ ہیروڈیس کا تھا جب حضرت عیسیٰ ؑ جنھیں عبرانی زبان میں یسوع کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے جب ان کی ولادت ہوئی تو انجیل میں ایک روحانی تصویر کھینچی گئی ہے وہ یہ کہ2 مجوسی حضرات نے بتایا کہ یروشلم کا بادشاہ پیدا ہوا ہے، آسمان پر ستارے نیچی پرواز پر محسوس ہوتے دیکھے گئے کہ ان کے سر پر آ کھڑے ہوئے وہ ایک طرف چل رہے ہیں گویا وہ راستہ بتا رہے ہیں وہ جس مقام پر لڑے وہ بیت الحم تھا جہاں انھوں نے یسوع کی زیارت کی اور نذرانہ پیش کیا۔ مگر یہ مجوسی پہلے بادشاہ کے پاس گئے تھے کہ ایک بڑی ہستی کی آمد ہے اور وہ بادشاہ کو تفصیل بتا چکے تھے لہٰذا بادشاہ ہیروڈیس نے چھوٹے بچوں کا قتال بھی کیا تھا لیکن اگر کوئی ہونی کو انہونی میں بدلنے کی کوشش کرے بھی تو بے سود ہے۔ خداوند کریم کو اپنا نظام چلانے کے لیے کسی اور کی ضرورت نہیں۔ حالات خودبخود خدا کے حکم کے تابع ہوتے جائیں گے۔
حضرت عیسیٰ بھیڑ بھاڑ مجمع اور حواریوں کے غول کو لے کر چلتے تھے تاکہ وہ اپنے اعمال کو روبرو پیش کریں مثلاً انھوں نے بھیڑ میں سے ایک آدمی کو بلایا جو آنکھوں سے اندھا معذور اور سماعت سے محروم تھا۔ لوگوں نے دیکھا وہ حضرت عیسیٰ ؑ کے دست شفقت سے ٹھیک ہوگیا۔ جوانی کے چند برسوں میں ہی لوگ شام، عراق اور دوسرے علاقوں سے جوق در جوق آنے لگے تھے۔ یہ مکالموں کی محفل نہ ہوتی تھی اور نہ سوال و جواب یہ حضرت و استعجاب کی منزل ہوتی تھی۔
حضرت عیسیٰ ؑ غریب مفلوک الحال بے کس لوگوں کو نئی زندگی بخشتے تھے۔ اسی لیے جو لوگ ان کی راہ پر چلنے لگتے ہیں وہ زندگی سے تمام خوشیاں نکال باہر کرتے ہیں جیسے بھارت میں مدر ٹریسا اور کراچی میں کوڑھیوں کے لیے جذام سینٹر قائم کرنے والی جرمن خاتون رتھ فاؤ جنھوں نے ہزاروں لاکھوں کو صحت یاب کیا جس کا اجر پروردگار ہی دینے والا ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ جن کو یسوع مسیح کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے وہ تمثیلوں (Demo) سے گفتگو فرمایا کرتے تھے ان کی تبلیغ اس قدر مختصر وقت میں اتنی پراثر تھی کہ لوگ جوق در جوق ان کے گرویدہ ہوتے تھے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو نہ صرف اس دنیا میں زندہ اٹھالیا گیا بلکہ امام مہدی کی آمد پر بھی لوگ ان کا دیدار کریں گے۔
حضرت عیسیٰ ؑکے اپنے خدمت گزاروں میں سے ایک شاگرد میتھو کی انجیل سے ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنے جوان بیٹے کو یسوع مسیح کے پاس لے آیا اور اس نے کہا کہ میرا بیٹا کبھی آگ اور کبھی پانی میں اچانک گر جاتا ہے یہ مرگی (Epilepsy) میں مبتلا ہے۔ آپ کے شاگردوں کے پاس لے گیا تھا مگر فائدہ نہ ہوا۔ لہٰذا چند منٹ سے بھی کم وقفے میں وہ ٹھیک ہوگیا بقول میتھو (متی) کے ایمان کی قوت سے اگر پہاڑ سے بھی کہا جائے تو وہ بھی سرک جائے گا۔
بہرصورت حضرت عیسیٰ کو قرآن پاک میں بلند درجات اور ان کی والدہ ماجدہ کے لیے بھی بلند درجات سے نوازا گیا۔ کیونکہ ماضی میں روابط کے وسائل میسر نہ تھے اس لیے مذہبی جنگیں بھی ہوتی رہیں۔ اب روابط آسان تر اور وسیع تر ہیں اس لیے مکالمہ آسان اور ممکن ہے۔ انبیا کی رحلت کے بعد ان کا روحانی نظام اور انسانی تصورات کا حسین اور عظیم خاکہ طویل عرصہ جاری نہ رہ سکا ان کے نائبین کا قتل ہوتا گیا۔ اور دین کے اصل رنگ و روپ بدلتے گئے جیسے خلافت کے بعد ملوکیت کا آغاز اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب دینے کے بعد وہاں بھی انسانی روحانی تصورات کو نابود کردیا گیا لیکن تمام امت ظالم اور جابر نہ رہی اس میں انسان دوستوں کی بھی کمی نہ رہی۔
اسی طرح اسلام میں دور خلافت ریشہ دوانیوں کا شکار ہوگیا اور دونوں طرف سلاطین حکومت پر فائز ہوگئے جس کا نتیجہ صلیبی جنگیں اور اسلامی فتوحات ہی عام لوگوں کا پیمانہ بن گیا اور ادیان، نبی اور اولیاؤں کے بجائے شہنشاہوں کے پاس آگئے۔ اللہ کا دین حضرت موسیٰؑ کے حلال کردہ شریعت اسلام تک چلی آئی کیونکہ دین کا منبع نور خداوندی ہی تھا۔ مگر اس میں انداز تبلیغ نے ایک دوسرے کو ہم خیال بنانے کے لیے تبلیغ نہ کی بلکہ غلبہ کی سیاست اور ملکوں پر قبضے نے ادیان کی شکل بدل ڈالی اسی لیے غربا اور مساکین کے لیے جو تبلیغ اور ان کے حقوق کے لیے حضرت عیسیٰ ؑ اور محمد مصطفیٰؐ نے کیں وہ پس پشت چلی گئیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شاعر مجاز لکھنوی کو یہ کہنا پڑا :
دین کے پردے میں جنگ زرگری جاری رہی
اور قتال کی سیاست نے گھر کر لیا
دور سوشلزم کو نابود کرنے کے لیے حضرت عیسیٰؑ کے پیروکاروں نے افغانستان کو استعمال کرکے نئی دنیا میں جنگ زرگری کا آغاز کیا اور پاکستان کے قبائلی علاقے میں دین بچاؤ کے نام پر جنگ کا آغاز کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیم اور دینی تعلیم اور تاریخی تصورات سے اور انسانی اقدار سے ناواقف لوگوں نے مخالفین کو پست کرنے اور ان کو نابود کرنے کے لیے بم باندھ کر پھٹنا شروع کیا۔ مگر ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں جن ادیان کے ماننے والے اربوں یعنی بلین میں ہوں گے، ان کو یہ بم پست کرنے کے بجائے متحد اور مضبوط کردیں گے۔
اب بم باندھ کے پھٹنے کو رواج حاصل ہوا ہے مگر اس کا حاصل لاحاصل ہے لہٰذا اب اس وقت تین ادیان یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کے عالم و فاضل رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ بیٹھ کر عالمی پیمانے پر بین المذاہب کانفرنس کا آغاز کریں۔ کیونکہ ان کے مابین فاصلے کم ہیں اور مصنوعی اختلافات وسیع، لہٰذا عالمی جنگ اور ایٹمی ہلاکتوں کا خوف بھی جاتا رہے گا۔
اس طرح مذاہب کے درمیان قتل و غارت گری کا رجحان بھی ختم ہوگا اور فی الحال تینوں مذاہب میں ہم آہنگی اور رواداری کا آغاز ہوسکے گا اور بہت سے سیاسی مسائل جنھوں نے مذہب کی آڑ میں جنگی جنون کا آغاز کیا ہے یہ آگ جلد ہی سرد ہوجائے گی۔ کیونکہ یہودی عیسائی اور مسلم واضح طور پر ایک ہی خدا اور سلسلہ نبوت کے ماننے والے ہیں اور تمام ادیان کا سلسلہ ایک ہی نور سے وابستہ ہے اور اگر دنیا میں کوئی تباہ کن جنگ ہوئی تو یہ مسلم، عیسائی اور یہودی مذہب کے ماننے والوں کے مناقشہ کا نتیجہ ہوگا۔ کیونکہ یہ انبیا کی تعلیم کا نقص نہ ہوگا بلکہ ہوس دنیا و زرگری اس کا محرک ہوگی۔
اسلام اور عیسائیت پر ذرا غورکریں تو یہ حضرت ابراہیم ؑ کی دو اولادوں یعنی حضرت اسحاق ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی نسلوں کا تسلسل ہے مگر زمینی فاصلوں اور رابطوں کی کمی پھر گزرتے وقت اور بدلتی دنیا کے تقاضوں کی وجہ سے نئے نئے ادیان کو خود خداوند کریم نے رائج کیا۔ بدلتے وقت کے تقاضوں اور ضروریات کے تحت ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد پیغمبران اور پھر اولیا اور اوصیا کو دنیا میں امن و انصاف قائم کرنے کے لیے بھیجا۔
اکثر و بیشتر راہبروں نے مکالموں مباحثوں اور تبلیغ کے ذریعے اپنا پیغام عام کیا یہاں تک کہ حضرت اسحاقؑ سے لے کر حضرت سلیمان اور پھر مزید وقت گزرنے کے بعد اسی نسل سے بی بی مریم کے بطن سے ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے۔
انجیل میں حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے جب یسوع مسیح کی ماں کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوگئی تو ان کی رخصتی سے پہلے روح القدس کی قدرت سے وہ حاملہ ہوگئیں۔ یوسف ایک راست باز انسان تھا جو اس کو بدنام نہیں کرنا چاہتا تھا وہ ابھی دل میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ چپکے سے الگ ہوجائے گا۔ وہ ابھی ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے ایک فرشتے نے خواب میں تفصیل سے آگاہ کیا اور کہا کہ تو اس کو اپنے گھر لا اور اولاد ہونے دے اور جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت ہے فرشتے نے مزید بتایا کہ اس کے پیٹ سے بیٹا پیدا ہوگا تم اس کا نام یسوع رکھنا وہ لوگوں کو گناہوں سے نجات دلائے گا۔ یوسف نے فرشتے کی بات مانی مریم کو اپنے گھر لے آیا یہاں تک کہ بیٹا پیدا ہوا اور اس کا نام یسوع رکھا۔ حضرت مریم کی پاکیزگی کی تائید قرآن کریم نے فرمائی ہے۔
یہ دور بادشاہ ہیروڈیس کا تھا جب حضرت عیسیٰ ؑ جنھیں عبرانی زبان میں یسوع کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے جب ان کی ولادت ہوئی تو انجیل میں ایک روحانی تصویر کھینچی گئی ہے وہ یہ کہ2 مجوسی حضرات نے بتایا کہ یروشلم کا بادشاہ پیدا ہوا ہے، آسمان پر ستارے نیچی پرواز پر محسوس ہوتے دیکھے گئے کہ ان کے سر پر آ کھڑے ہوئے وہ ایک طرف چل رہے ہیں گویا وہ راستہ بتا رہے ہیں وہ جس مقام پر لڑے وہ بیت الحم تھا جہاں انھوں نے یسوع کی زیارت کی اور نذرانہ پیش کیا۔ مگر یہ مجوسی پہلے بادشاہ کے پاس گئے تھے کہ ایک بڑی ہستی کی آمد ہے اور وہ بادشاہ کو تفصیل بتا چکے تھے لہٰذا بادشاہ ہیروڈیس نے چھوٹے بچوں کا قتال بھی کیا تھا لیکن اگر کوئی ہونی کو انہونی میں بدلنے کی کوشش کرے بھی تو بے سود ہے۔ خداوند کریم کو اپنا نظام چلانے کے لیے کسی اور کی ضرورت نہیں۔ حالات خودبخود خدا کے حکم کے تابع ہوتے جائیں گے۔
حضرت عیسیٰ بھیڑ بھاڑ مجمع اور حواریوں کے غول کو لے کر چلتے تھے تاکہ وہ اپنے اعمال کو روبرو پیش کریں مثلاً انھوں نے بھیڑ میں سے ایک آدمی کو بلایا جو آنکھوں سے اندھا معذور اور سماعت سے محروم تھا۔ لوگوں نے دیکھا وہ حضرت عیسیٰ ؑ کے دست شفقت سے ٹھیک ہوگیا۔ جوانی کے چند برسوں میں ہی لوگ شام، عراق اور دوسرے علاقوں سے جوق در جوق آنے لگے تھے۔ یہ مکالموں کی محفل نہ ہوتی تھی اور نہ سوال و جواب یہ حضرت و استعجاب کی منزل ہوتی تھی۔
حضرت عیسیٰ ؑ غریب مفلوک الحال بے کس لوگوں کو نئی زندگی بخشتے تھے۔ اسی لیے جو لوگ ان کی راہ پر چلنے لگتے ہیں وہ زندگی سے تمام خوشیاں نکال باہر کرتے ہیں جیسے بھارت میں مدر ٹریسا اور کراچی میں کوڑھیوں کے لیے جذام سینٹر قائم کرنے والی جرمن خاتون رتھ فاؤ جنھوں نے ہزاروں لاکھوں کو صحت یاب کیا جس کا اجر پروردگار ہی دینے والا ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ جن کو یسوع مسیح کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے وہ تمثیلوں (Demo) سے گفتگو فرمایا کرتے تھے ان کی تبلیغ اس قدر مختصر وقت میں اتنی پراثر تھی کہ لوگ جوق در جوق ان کے گرویدہ ہوتے تھے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو نہ صرف اس دنیا میں زندہ اٹھالیا گیا بلکہ امام مہدی کی آمد پر بھی لوگ ان کا دیدار کریں گے۔
حضرت عیسیٰ ؑکے اپنے خدمت گزاروں میں سے ایک شاگرد میتھو کی انجیل سے ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنے جوان بیٹے کو یسوع مسیح کے پاس لے آیا اور اس نے کہا کہ میرا بیٹا کبھی آگ اور کبھی پانی میں اچانک گر جاتا ہے یہ مرگی (Epilepsy) میں مبتلا ہے۔ آپ کے شاگردوں کے پاس لے گیا تھا مگر فائدہ نہ ہوا۔ لہٰذا چند منٹ سے بھی کم وقفے میں وہ ٹھیک ہوگیا بقول میتھو (متی) کے ایمان کی قوت سے اگر پہاڑ سے بھی کہا جائے تو وہ بھی سرک جائے گا۔
بہرصورت حضرت عیسیٰ کو قرآن پاک میں بلند درجات اور ان کی والدہ ماجدہ کے لیے بھی بلند درجات سے نوازا گیا۔ کیونکہ ماضی میں روابط کے وسائل میسر نہ تھے اس لیے مذہبی جنگیں بھی ہوتی رہیں۔ اب روابط آسان تر اور وسیع تر ہیں اس لیے مکالمہ آسان اور ممکن ہے۔ انبیا کی رحلت کے بعد ان کا روحانی نظام اور انسانی تصورات کا حسین اور عظیم خاکہ طویل عرصہ جاری نہ رہ سکا ان کے نائبین کا قتل ہوتا گیا۔ اور دین کے اصل رنگ و روپ بدلتے گئے جیسے خلافت کے بعد ملوکیت کا آغاز اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب دینے کے بعد وہاں بھی انسانی روحانی تصورات کو نابود کردیا گیا لیکن تمام امت ظالم اور جابر نہ رہی اس میں انسان دوستوں کی بھی کمی نہ رہی۔
اسی طرح اسلام میں دور خلافت ریشہ دوانیوں کا شکار ہوگیا اور دونوں طرف سلاطین حکومت پر فائز ہوگئے جس کا نتیجہ صلیبی جنگیں اور اسلامی فتوحات ہی عام لوگوں کا پیمانہ بن گیا اور ادیان، نبی اور اولیاؤں کے بجائے شہنشاہوں کے پاس آگئے۔ اللہ کا دین حضرت موسیٰؑ کے حلال کردہ شریعت اسلام تک چلی آئی کیونکہ دین کا منبع نور خداوندی ہی تھا۔ مگر اس میں انداز تبلیغ نے ایک دوسرے کو ہم خیال بنانے کے لیے تبلیغ نہ کی بلکہ غلبہ کی سیاست اور ملکوں پر قبضے نے ادیان کی شکل بدل ڈالی اسی لیے غربا اور مساکین کے لیے جو تبلیغ اور ان کے حقوق کے لیے حضرت عیسیٰ ؑ اور محمد مصطفیٰؐ نے کیں وہ پس پشت چلی گئیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شاعر مجاز لکھنوی کو یہ کہنا پڑا :
دین کے پردے میں جنگ زرگری جاری رہی
اور قتال کی سیاست نے گھر کر لیا
دور سوشلزم کو نابود کرنے کے لیے حضرت عیسیٰؑ کے پیروکاروں نے افغانستان کو استعمال کرکے نئی دنیا میں جنگ زرگری کا آغاز کیا اور پاکستان کے قبائلی علاقے میں دین بچاؤ کے نام پر جنگ کا آغاز کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیم اور دینی تعلیم اور تاریخی تصورات سے اور انسانی اقدار سے ناواقف لوگوں نے مخالفین کو پست کرنے اور ان کو نابود کرنے کے لیے بم باندھ کر پھٹنا شروع کیا۔ مگر ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں جن ادیان کے ماننے والے اربوں یعنی بلین میں ہوں گے، ان کو یہ بم پست کرنے کے بجائے متحد اور مضبوط کردیں گے۔
اب بم باندھ کے پھٹنے کو رواج حاصل ہوا ہے مگر اس کا حاصل لاحاصل ہے لہٰذا اب اس وقت تین ادیان یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کے عالم و فاضل رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ بیٹھ کر عالمی پیمانے پر بین المذاہب کانفرنس کا آغاز کریں۔ کیونکہ ان کے مابین فاصلے کم ہیں اور مصنوعی اختلافات وسیع، لہٰذا عالمی جنگ اور ایٹمی ہلاکتوں کا خوف بھی جاتا رہے گا۔
اس طرح مذاہب کے درمیان قتل و غارت گری کا رجحان بھی ختم ہوگا اور فی الحال تینوں مذاہب میں ہم آہنگی اور رواداری کا آغاز ہوسکے گا اور بہت سے سیاسی مسائل جنھوں نے مذہب کی آڑ میں جنگی جنون کا آغاز کیا ہے یہ آگ جلد ہی سرد ہوجائے گی۔ کیونکہ یہودی عیسائی اور مسلم واضح طور پر ایک ہی خدا اور سلسلہ نبوت کے ماننے والے ہیں اور تمام ادیان کا سلسلہ ایک ہی نور سے وابستہ ہے اور اگر دنیا میں کوئی تباہ کن جنگ ہوئی تو یہ مسلم، عیسائی اور یہودی مذہب کے ماننے والوں کے مناقشہ کا نتیجہ ہوگا۔ کیونکہ یہ انبیا کی تعلیم کا نقص نہ ہوگا بلکہ ہوس دنیا و زرگری اس کا محرک ہوگی۔