کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ

بعض نے عہدے و اقتدار کو کام یابی کا معیار سمجھا اور عہدے دار و صاحبِ اقتدار کو کامیاب ترین انسان جانا۔

آج بھی اگر ہم کامیاب انسان بننا چاہیں تو چنداں مشکل نہیں۔ فوٹو : فائل

دنیا کا ہر انسان ترقی اور کام یابی کا خواہش مند ہے، ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ وہ کام یاب انسان بن جائے، اور کام یابی و کام رانی اس کے قدم چومے۔ مگر کام یابی کا معیار کیا ہے؟

اس کے متعلق لوگوں میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے، چناں چہ بعض لوگ کام یابی کا معیار مال و دولت کو سمجھے اور مال دار و سرمایہ دار شخص کو کام یاب انسان سمجھا، بعض نے زمین و جائیداد کو کام یابی کا معیار ٹھہرایا اور جاگیردار کو کام یاب انسان گردانا۔ بعض نے عہدے و اقتدار کو کام یابی کا معیار سمجھا اور عہدے دار و صاحبِ اقتدار کو کامیاب ترین انسان جانا۔ لیکن کام یابی کے یہ سب معیارات و تصورات ناقص و نامکمل ہیں، کیوں کہ یہ معیارات انسان کے صرف مادی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کیے گئے ہیں، جو انسان کی صرف مادی ضروریات و حاجات ہی کو پورا کرتے ہیں۔

حالاں کہ انسان محض جسم کا نام نہیں بل کہ انسان جسم و روح دونوں کے مجموعے کا نام ہے، لہذا کامیابی کا معیار و تصور بھی وہی درست اور کامل ہوگا جس میں انسان کے مادی اور روحانی دونوں پہلوؤں سے متعلق جملہ ضروریات و حاجات کو مدنظر رکھا گیا ہو، اور جو انسان کے جسمانی و روحانی تقاضوں کو بہ حسن و خوبی پورا کرتے ہوں۔

اگر تاریخ ِ عالم کا بہ غور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات ضرور سامنے آجائے گی کہ اگر مال و دولت کام یابی کا معیار ہوتا تو قارون جو اپنے وقت کا سب سے بڑا مال دار و سرمایہ دار شخص تھا اور جس کے خزانوں کی چابیاں اونٹوں پر لادی جاتی تھیں، وہ کام یاب انسان کہلاتا۔ اگر حکومت کامیابی کا معیار ہوتی، تو فرعون جس نے اپنی سلطنت کی عظمت و وسعت کے بل بوتے پر '' انا ربکم الاعلیٰ'' کا دعویٰ کیا تھا، وہ کام یاب انسان ٹھہرتا۔

سکندر اعظم اور چنگیز کام یاب انسان ٹھہرتے اور اگر عہدے کام یابی کا معیار ہوتے تو ہامان کام یاب انسان ہوتا۔ لیکن یہ سب لوگ مال و دولت، جاہ و منصب، عزت و شہرت کے باوجود ناکام و نامراد ٹھہرے۔ معلوم ہوا کہ کام یابی کا صحیح اور کامل معیار اور کام یابی کی شرائط وہ نہیں جو انسانوں نے اپنے تئیں متعین کی ہیں بل کہ کام یابی کا، کامل و اکمل معیار اور شرائط وہ ہیں جسے خالقِ کون و مکان نے قرآنِ مجید و فرقانِ حمید میں بیان فرمایا ہے، جو انسانوں کی مصالح کو انسانوں سے زیادہ جانتا ہے۔

ارشاد ِربانی ہے، مفہوم : '' قسم ہے زمانے کی! بے شک تمام انسان خسارے میں ہیں۔ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے، اور عمل صالح کرتے رہے، اور حق کی تلقین کرتے رہے، اور صبر کا درس دیتے رہے۔''

اس سورہ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے زمانے کی قسم کھا کر اس بات کو اور تاکید کرکے فرمایا کہ خبردار! تمام انسان خسارے میں ہیں۔ اہل علم جانتے ہیں کہ ''الانسان'' میں الف لام استغراقی ہے یعنی تمام کے تمام انسان خسارے اور نقصان میں ہیں۔ امیر ہو یا غریب، صاحب ِاولاد ہو یا بے اولاد، سفید فام ہو یا سیاہ فام، آقا ہو یا غلام، محلات میں رہنے والا ہو یا جھونپڑی میں شب و روز گزارنے والا، اعلیٰ عہدے دار ہو یا معمولی کلرک اور چپڑاسی۔ ہر ایک انسان خسارے اور نقصان میں ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی ٰ نے خسران و نقصان کے لق و دق صحرا سے نکلنے، اور کام یابی کی سبز و شاداب وادی میں قدم رکھنے، اور دنیوی و اخروی طور پر کام یاب ترین انسان بننے کے لیے چار شرائط ذکر فرمائے۔

ایمان : ایمان، کام یابی کا پہلا زینہ اور بنیادی شرط ہے اس کے بغیر کام یابی کا حصول تو درکنار، کام یابی کا تصور بھی ناممکن ہے، چوں کہ ایمان ماخوذ ہے امن سے جس کے معنے ہیں، مامون ہونا اور مامون کردینا۔ لہذا جو شخص ایمان لاتا ہے تو گویا وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور دنیوی و اخروی عذاب سے محفوظ و مامون کرلیتا ہے۔ اور ایمان کا اصطلاحی معنی ہے اللہ کی وحدانیت و ربوبیت کے ساتھ اس کے فرشتوں، رسولوں، کتابوں، یوم آخرت، تقدیر، اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو ماننا اور یقین رکھنا۔


اعمالِ صالحہ : کامل اور کام یاب بننے کے لیے دوسری شرط، اعمال ِ صالحہ ہے۔ اعمال صالحہ سے مراد ہر اچھا اور نیک عمل ہے خواہ وہ حقوق اللہ میں سے ہو جیسے نماز، روزہ، زکوۃ، حج، قربانی۔ یا حقوق العباد میں سے ہو، جیسے صلۂ رحمی، اخلاق حسنہ، خدمتِ خلق، حقوق والدین، اولاد کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، مہمان کے حقوق، رشتے داروں کے حقوق، چھوٹوں اور بڑوں کے حقوق، حیوانوں، درندوں، چرند، پرند اور جملہ حشرات الارض کے حقوق کا خیال رکھنا اور ان کی ادائی کا ویسے ہی اہتمام کرنا جیسے کہ اللہ و رسولؐ کا حکم ہے۔ یہ سب اعمال صالحہ ہی ہیں جو ایمان کے بعد کام یابی کی دوسری شرط ہے۔

تواصی بالحق: کام یابی و کام رانی کے حصول کا تیسرا اور ایک اہم شرط تواصی بالحق، یعنی جب انسان نے اللہ کو مانا اور اس کے رسول ؐ نے جن ہدایات و احکامات کا حکم دیا اسے حق مان کر بجا لایا اور جن کاموں سے منع کیا ان سے باز آیا، توگویا اس نے اپنے نفس کی اصلاح کی مگر محض اپنی انفرادی اصلاح کام یابی کے لیے کافی نہیں، بل کہ اب تیسری شرط یہ ہے کہ دوسروں کو بھی (اصلاح کی نیّت سے) اس حق کی تلقین کرتا رہے، اور تلقین ِ حق کے اس عمل کو دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کہا جاتا ہے، جو اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ عمل ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم : '' اور اس سے بڑھ کر اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور اعمال ِصالحہ کرتا رہے۔'' یعنی انسان خود بھی اچھا عمل کرے اور دوسروں کو بھی اچھائی کی تلقین کرتا رہے، خود بھی برائی سے دور رہے اور دوسروں کو بھی برائی سے دور رہنے کا درس دیتا رہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں فساد ختم ہوکر امن کی فصل لہلہانے لگے گی، عصبیت ختم ہوکر اخوت و بھائی چارے کی فضا قائم ہوجائے گی، باطل مٹ جائے گا اور حق غالب آجائے گا۔ اور یوں معاشرہ اسلامی اقدار میں ڈھل کر شاہ راہ ِترقی پر گام زن ہوگا۔

تواصی بالصبر: چوں کہ تلقین ِحق کا یہ راستہ بہت ہی تکلیف دہ راستہ ہے، اس میں کانٹے ہی کانٹے، مصائب ہی مصائب، مشکلات ہی مشکلات، طعن ہی طعن ہے۔ لہذا اس راستے پر چلتے ہوئے اور لوگوں کو حق و صداقت کی دعوت دیتے ہوئے مصائب و تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑے گا، لوگوں کی کڑوی کسیلی باتیں بھی سننا پڑیں گی مگر ان چیزوں کے باوجود حق صداقت کے راستے پر صبر و استقامت سے جمے رہنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ تواصی بالحق کے بعد اللہ نے کام یابی کی چوتھی شرط صبر کو قرار دیا۔

تاریخ شاہد ہے کہ تلقین ِحق کرتے ہوئے انبیائے کرامؑ پر بھی سختیاں آئی ہیں، انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا، انہیں آروں سے چیر کر بے دردی سے شہید کیا گیا، لیکن انہوں نے صبر و استقامت کے دامن کو تھامے رکھا اور مصائب و شدائد کو برداشت کیا۔

پیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے، آپؐ نے جب حق کی دعوت دی، تو وہی لوگ جو آپؐ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے آپؐ کو ساحر و جادوگر، شاعر اور مجنون کہنے لگے، ظالموں نے صرف اس پر بس نہیں کیا بل کہ آپؐ کا سوشل بائیکاٹ کردیا، آپؐ کو شہید کرنے کی سازشیں کرنے لگے،( نعوذباللہ) مگر پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے ان کے تمام تر مظالم کے جواب میں صبر و استقامت سے کام لیا، اور اپنے جاں نثار صحابہ کرامؓ کو بھی صبر و استقامت کا درس دیا، چناں چہ جب ابوجہل نے حضرت یاسرؓ، حضرت سمیّہ ؓ اور ان کے صاحب زادے حضرت عمارؓ کو زنجیروں میں باندھا، اور انہیں طرح طرح کے مظالم کا نشانہ بنانا شروع کیا تو اس وقت بھی آپ ﷺ نے انہیں صبر کی تلقین کی اور جنت کی خوش خبری سنائی۔

اسی طرح حضرت بلال حبشی ؓکو ان کا مالک امیہ ابن خلف مکہ کی تپتی ریت پر لٹاکر کوڑوں سے مارتا رہتا تھا اور جب تھک جاتا تو انہیں گرم ریت پر لٹا کر ایک بڑا پتھر ان کے سینہ پر رکھ دیتا تھا، کبھی ان کے گلے میں رسی ڈال کر مکہ کے اوباش لڑکوں کو تھما دی جاتی تھی جو حضرت بلال ؓ کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے رہتے تھے، مگر رسول اللہ ﷺ کے یہ عظیم صحابیؓ حق و صداقت کی راہ پر صبر و استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے، اور احَد احَد کی صدا بلند کرتے رہے۔

یہی حال تمام صحابہ کرام ؓ کا تھا ہر ایک کو کفار کی طرف سے تکلیف پہنچی ہے، طعنے سننے پڑے ہیں، مگر سب نے صبر و استقامت سے کفار کی ایذا رسانیوں کا مقابلہ کیا اور کام یابی کی مذکورہ بالا چاروں شرائط پر پورا اتر کر اللہ کے ہاں کام یاب ترین انسان ٹھہرے، جن کی کام یابی کی گواہی قرآن پاک کی مختلف آیتوں میں دی گئی ہے اور وہ دنیا و آخرت کے کام یاب انسان قرار دیے گئے ہیں۔

آج بھی اگر ہم کامیاب انسان بننا چاہیں تو چنداں مشکل نہیں، لیکن اس کے لیے ہمیں کام یابی کے متعلق اپنی سوچ، تصور اور معیار کو بدلنا ہوگا اور کام یابی و کام رانی کے قرآنی تصور اور معیار کو اپنانا ہوگا۔ اپنی تنگ نظری، انا اور شخصیت پرستی کے خول سے باہر نکلنا ہوگا۔ صرف اپنی انفرادی اصلاح کی فکر کرنے کے بہ جائے پورے معاشرے کی اصلاح کی فکر کرنا ہوگی، تب ہی ہم اللہ کے ہاں کام یاب انسان ٹھہریں گے۔ اور معاشرے میں فساد کے بہ جائے امن امان، ظلم و ناانصافی کے بہ جائے عدل و انصاف، نفرت و کدورت کے بہ جائے محبت و الفت، دشمنی کے بہ جائے دوستی عام ہوجائے گی اور یوں یہ معاشرہ کام یاب انسان مہیا کرسکے گا۔
Load Next Story