اتحادِ امّت کی بنیاد

اختلاف مذہبی ہو یا سیاسی، تنظیمی، جماعتی، مسلکی یا مشربی، ہر جگہ ہماری زبان عدل اور اعتدال کی حدود کو پھاند جاتی ہے۔

جن باتوں کو نرملب و لہجے میں کہا جاسکتا ہے، ان کو بھی ہم ایسی تلخی کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ اس سے نفرت کی دیواریں اور اونچی ہوجاتی ہیں۔ فوٹو؛ فائل

ISLAMABAD:
اِس وقت عالم اِسلام کی صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی تشخص سے محروم کرنے کی سازش رچی جارہی ہے، اس لیے اس حقیقت سے شاید ہی کوئی شخص انکار کرسکے کہ مسلمانوں کے لیے اتحاد، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

عالمی اور ملکی سطح پر ان کی محرومیوں اور نامرادیوں کا اصل سبب باہمی افتراق اور انتشار ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اتحاد کس طرح پیدا ہو ؟ ایسا اتحاد کہ تمام لوگوں کی سوچ ایک ہوجائے اور فکر و نظر کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے چہرے مہرے اور رنگ و روپ میں اختلاف رکھا ہے، اسی طرح ان میں مزاج و مذاق کا اختلاف بھی رکھا گیا ہے، اور یہ اختلافِ ذوق ہر قدم پر عیاں ہے۔

لباس ہی کو دیکھیے، کتنی وضع کے لباس بنائے جاتے ہیں، اور ہر وضع کسی نہ کسی کی نگاہِ اِنتخاب کے لیے منظورِ نظر بن جاتی ہے، پھر کپڑوں کا رنگ، اور بناوٹ کے اعتبار سے ہر ایک کا ذوق جداگانہ ہے۔ یہی حال مکان کی تعمیر، سواریوں کی پسند اور انسان کے استعمال میں آنے والی تقریباً تمام ہی چیزوں کا ہے۔

جیسے اشیاء کے انتخاب میں، ذوق و نظر کی بوقلمونی کارفرما ہے، اسی طرح افکار و خیالات اور اخذ و استنباط میں بھی انسانی مزاج و مذاق کی نیرنگی جلوہ فرما ہوئی ہے، اس لیے ملّی، سیاسی، سماجی اور مذہبی مسائل میں فکر و نظر کا اختلاف واقع ہونا بالکل فطری ہے، یہ اختلاف کبھی معمولی درجے کا ہوتا ہے اور کبھی شدید بھی ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں اگر اتحاد کا مطلب یہ ہوکہ تمام لوگ ایک ہی فکر کے حامل ہوجائیں اور ہر مسئلے میں ایک ہی طریقے پر سوچنے لگیں تو یہ ایسی ہی غیر فطری خواہش ہوگی، جیسے کوئی اس بات کا آرزو مند ہو کہ دنیا کے تمام لوگ ایک ہی رنگ اور ایک ہی روپ کے بن جائیں۔ اصل میں اتحاد کا راستہ یہی ہے کہ اختلاف کے باوجود اتحاد کو قائم رکھا جائے۔

'' اختلاف کے باوجود اتحاد '' کے لیے چند باتیں ضروری ہیں :

دو گروہوں کے درمیان خواہ کتنا بھی اختلاف ہو، لیکن بہت سے اُمور میں اشتراک بھی پایا جاتا ہے، اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ اختلافی اُمور کے بہ جائے ان اُمور پر نظر رکھی جائے جو قدرِ مشترک ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اتنی زیادہ باتیں مشترک ہیں کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں اس کا پچاس فی صد بھی شاید ہی مل سکے، مثلاً ہندوؤں کے یہاں آریہ سماجی اور سناتن فرقوں کے درمیان، عیسائیوں میں کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور آرتھیوڈوکس کے درمیان خدا کے تصور کے بارے میں بھی اتفاقِ رائے نہیں پایا جاتا ہے۔

سکھ مذہب کے ماننے والوں میں عام سکھ اور اور نرن کاری مشن کے اختلاف کو دیکھیے، لیکن مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ خدا کی توحید، اللہ تعالیٰ کی صفات، نبوت و رسالت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم نبوت، آخرت، بنیادی فرائض، واجبات اور محرمات و ممنوعات کے بابت کوئی اختلاف نہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے اتحاد و اتفاق کا راستہ بہت آسان ہے، اور وہ اختلافی امور کے بہ جائے مشترکہ اقدار کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ سکتے ہیں۔ ہم آہنگی اور اشتراک کو مختلف میدانوں میں بڑھانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ جب آدمی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتا ہے، مشترک مسائل پر گفت گو کرتا اور سوچتا ہے، تو فاصلے سمٹتے ہیں، مفاہمت پیدا ہوتی ہے، اور ایک دوسرے کی توقیر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

غور کیجیے تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسلام کے مزاج کے عین مطابق ہے، قرآن مجید نے یہودیوں اور عیسائیوں کو دعوت دی کہ ہم قدرِ مشترک پر ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہوجائیں اور وہ یہ ہے کہ ہم سب اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ جب مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان قدرِ مشترک کی بنیاد پر اتحاد کی تشکیل ہوسکتی ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ خود اُمت مسلمہ اس اُصول پر آپس میں متحد نہ ہوسکے۔


دوسری ضروری بات یہ ہے کہ شخصیتوں کے بارے میں لوگوں کی پسند الگ ہوتی ہے، ابنیاء پر ایمان لانے کا تو ہر شخص مکلف ہے، لیکن فقہا و محدثین، اولیاء و صالحین اور مشائخ و سلاطین کے بارے میں ہوسکتا ہے کہ مختلف لوگوں کا ذوق اور ان کا رجحان الگ ہو۔ ایک شخص کچھ بزرگوں سے عقیدت رکھتا ہے، دوسرے شخص کو کچھ دوسرے بزرگوں سے عقیدت ہو، ایسی صورت میں کم سے کم یہ بات ضروری ہے کہ ہر آدمی اپنے بزرگوں کے بارے میں کلمۂ خیر کہتے ہوئے دوسروں کی خدمات کا بھی معترف ہو، یا کم از کم ان کے بارے میں بدگوئی اور بدکلامی سے گریز کرے، تاکہ ان کے متبعین کی دل آزاری نہ ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کا بھی پاس و لحاظ رکھا ہے، کیا ہم مسلمانوں کے آباء و اجداد، ان کے مشائخ و بزرگوں اور دین حق کے خدمت گاروں کے بارے میں بھی اس درجہ تہذیب و شائستگی اختیار نہیں کرسکتے؟ یہ بات ظاہر ہے کہ جب آپ دوسروں کے بزرگوں کو بُرا کہیں گے، تو وہ آپ کے بزرگوں کی شان میں منقبت نہیں پڑھیں گے، اس لیے صحیح طریقہ وہی ہے کہ خود اپنی زبان کی حفاظت کی جائے۔ قرآن مجید نے اس لیے معبودانِ باطل کو بُرا کہنے سے منع کیا ہے کہ جب تم انہیں بُرا کہو گے تو تم جس خدا کے پرستار ہو، وہ ان کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوں گے۔ جو اصول قرآن مجید نے غیر مسلموں کے معبودان باطل کے بارے میں دیا ہے کم سے کم ہم ان لوگوں کے بارے میں جو مسلمانوں کے لیے عقیدت و احترام کا مرکز ہیں، یہی رویہ اختیار کریں، تو بہت سارے اختلافات سے ہم بچ سکتے ہیں۔

تیسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہم اختلاف کا سلیقہ سیکھیں اگر کسی نظریے پر آپ خوش سلیقگی اور خوش کلامی کے ساتھ تنقید کریں، تو فریق مخالف آپ کی بات کو قابل غور بھی سمجھے گا، اور کم سے کم یہ ضرور ہوگا کہ نفرت کا آتش فشاں سلگنے نہ پائے گا، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم :

'' بہتر طریقہ پر رد کرو تو ممکن ہے کہ جس شخص سے تمہاری عداوت ہے، وہ تمہارا گرم جوش دوست بن جائے۔''

افسوس کہ ''دفاع احسن'' جس کو قرآن مجید نے دوسری جگہ ''جدال احسن'' (النحل) سے تعبیر کیا ہے، اب اس کی صلاحیت مسلمانوں میں باقی نہیں رہی ہے۔ جب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام فرعون کو دعوتِ حق دینے کے لیے بھیجے گئے تو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ہدایت فرمائی کہ نرم لب و لہجہ اختیار کریں۔ مقام فکر ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام اللہ کے پیغمبر ہیں، اور فرعون کھلا ہوا کافر بل کہ کافروں کا سرخیل ہے، اس کے باوجود ان پیغمبروں کو نرم خوئی اور نرم گفتاری کا حکم دیا جاتا ہے، لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اُمت کے باہمی اختلاف میں بھی اس اُصول پر عمل کرنے کو آمادہ نہیں ہیں۔

اختلاف مذہبی ہو یا سیاسی اور تنظیمی و جماعتی ہو یا مسلکی و مشربی ہر جگہ ہماری زبان عدل اور اعتدال کے حدود کو پھاند جاتی ہے، اور جن باتوں کو نرم لب و لہجے اور سنجیدہ پیرائے میں کہا جاسکتا ہے، ان کو بھی ہم ایسی تلخی اور تندی کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ اس سے نفرت کی دیواریں اور اونچی ہوجاتی ہیں۔ یہ سلیقہ بہت ضروری ہے، اور مسلمان جتنی جلد اسے سیکھ لیں گے، اتنا ہی جلد اپنے آپ کو انتشار اور بکھراؤ سے بچا سکیں گے۔

انسان کے سامنے جب کوئی اہم کام نہیں ہوتا تو وہ غیر اہم کام میں اُلجھ جاتا ہے، اس کی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے جب کوئی مثبت اور تعمیری میدان مہیا نہیں ہوتا تو وہ منفی اور تخریبی کاموں میں لگ جاتا ہے، مسلمانوں سے ایک بہت بڑا فریضہ دعوتِ دین کا متعلق ہے، کہ وہ غیرمسلم ہم وطنوں تک دین کو پہنچائیں، اور ادیانِ باطلہ کی ایسی خوب صورتی کے ساتھ تردید کریں جس سے اختلاف و نفرت پیدا ہونے کے بہ جائے لوگوں میں قبولیت کا جذبہ بیدار ہو، یہ بات ممکن بھی ہے اور جو لوگ تھوڑا بہت اس کام کو کر رہے ہیں، اس کے نتائج بڑے ہی بہتر اور امید افزاء سامنے آرہے ہیں۔

اگر مسلمان اپنے باہمی مسلکی اختلاف میں پہلو تہی سے کام لیں اور اختلاف بڑھانے والی باتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے دعوتِ دین کی طرف متوجہ ہوں، تو ان کو اپنی کاوشوں اور صلاحیتوں کے استعمال کے لیے ایک بہتر میدان مل جائے گا، ان کی قوتیں صحیح سمت میں خرچ ہوں گی، اور اس سے انشاء اللہ دنیا میں ایک نیا انقلاب کروٹ لے سکتا ہے۔

مشکلات اور دشواریاں بھیڑیے بکری اور سانپ نیولے کو اکٹھا کردیتے ہیں، مقامِ افسوس ہے کہ جس اُمت کو اس کے پیغمبر ﷺ نے آخر تک اتحاد و اتفاق کی تلقین کی ہے، اور جس کے درمیان اتفاق و اشتراک کے نکات کے مقابلے میں اختلافی نکات شاید دو فی صد بھی نہ ہوں، وہ اُمت نقش دیوار کو پڑھنا چھوڑ دے اور بلا امتیاز اس کے جان و مال اور عزت و آبرو کی ارزانی بھی اسے متحد نہ کرسکے، وہ اپنے دشمنوں کی منصوبہ بندی کی طرف سے غافل ہوجائے اور اپنی صفوں کو متحدہ چٹان کے بہ جائے بکھرے ہوئے ذرات بنالے، کیا اس سے زیادہ کم نصیب بھی کوئی گروہ ہوسکتا ہے۔۔۔۔ ؟
Load Next Story