قبلہ عالم امیر ملت پیر جماعت علی شاہؒ

1940 میں قرارداد پاکستان کے موقع پر حضرت نے اعلان کیا کہ جو اس کے خلاف بات کرے گا میں اس کا جنازہ نہیں پڑھاؤں گا

1940 میں قرارداد پاکستان کے موقع پر حضرت نے اعلان کیا کہ جو اس کے خلاف بات کرے گا میں اس کا جنازہ نہیں پڑھاؤں گا۔ (فوٹو: فائل)

سید کریم شاہ ایک متقی، دین دار دولتمند لیکن فیاض آدمی تھے۔ اللہ کریم نے ان کی زبان میں وہ تاثیر عطا فرمائی تھی کہ وہ جو کہہ دیتے، رب کریم پورا فرما دیتا۔ ایک روز سیالکوٹ کے ایک عالم سید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، سید صاحب اس وقت ارادت مندوں کی محفل میں تشریف فرما تھے، عالم نے تھوڑی دیر سید کریم شاہ سے بات چیت کی اور پھر واپسی کی اجازت چاہی، جب وہ جانے لگے تو سید صاحب کے 5 سالہ معصوم صاحبزادے نے جو محفل میں تشریف فرما تھے، والد صاحب سے کہا ''محترم بابا جان! اس مسافر کو ایک گھوڑی دے دیجیے۔'' سید صاحب کے جواب دینے سے پہلے ہی وہ عالم کہنے لگے، صاحب زادے میرے پاس اپنا اعلیٰ نسل کا گھوڑا ہے، میں گھوڑی لے کر کیا کروں گا؟ سید صاحب نے ان عالم سے فرمایا: حضرت! میرے بچے کی ضد پوری کردیجیے اور اصطبل سے ایک گھوڑی لیتے جائیے۔ یہ کہہ کر شاہ صاحب نے گھوڑی منگوا دی اور وہ عالم صاحب اپنے گھوڑے پر سوار اور گھوڑی کی رسی تھامے واپس روانہ ہوئے۔

ابھی تھوڑا سفر ہی طے ہوا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ بارش اتنی تیز تھی کہ سفر جاری رکھنا ممکن نہ رہا اور عالم صاحب کو ایک کھنڈر میں پناہ لینی پڑی۔ بارش ذرا تھمی تو عالم صاحب کھنڈر سے نکلے، اچانک ایک چھ سات فٹ لمبے سانپ نے لپک کر ان کے گھوڑے کو ڈس لیا۔ گھوڑا تڑپ کر گرا اور ٹھنڈا ہوگیا۔ اسی اثنا میں وہ سانپ مولوی صاحب کی طرف بڑھا اور قریب تھا کہ مولوی صاحب کو بھی ڈس لے کہ گھوڑی نے اپنا پاؤں سانپ کے سر پر مارا اور سانپ کو پیر کے نیچے دبا دیا۔ سانپ مرگیا تو مولوی صاحب کی جان میں جان آئی، وہ فوراً واپس سید کریم صاحب کی حویلی کی جانب چلے۔ راستے میں حویلی کے قریب ہی سید صاحب کا وہ پانچ سالہ بچہ مل گیا، عالم نے گھوڑی سے اتر کر اس کے پاؤں پکڑ لیے۔ بچے نے گھبرا کر کہا جناب آپ یہ کیا کر رے ہیں، آپ حضورﷺ سرور کائنات کی شریعت کے پاسبان ہیں اور میرے لیے محترم ہیں؛ جائیے دین کی تعلیمات نیک نیتی سے لوگوں تک پہنچائیے اور ہمارے لیے دعا کردیا کیجیے، بس یہی کافی ہے۔

یہ پانچ سالہ بچہ مادرزاد ولی تھا۔ یہی بچہ بڑا ہوکر امیر ملت پیر حافظ الحاج جماعت علی شاہؒ کے نام سے مشہور ہوا۔ دنیا آپ کو قبلہ عالم کے نام سے بھی یاد کرتی ہے۔ قبلہ عالم حضرت پیر جماعت علی شاہ صاحب 1830 میں علی پور سیداں میں پیدا ہوئے جو پسرور سے 9 میل کے فاصلے پر ضلع سیالکوٹ میں شامل ہے۔

حضرت قبلہ عالم کی ولادت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ آپ کے قصبے کے مشہور عالم مولوی غلام رسول قلعہ سوبھا سنگھ میں باقاعدگی سے جمعہ پڑھانے تشریف لے جاتے تھے۔ جب واپس علی پور لوٹتے تو قصبے میں داخل ہونے سے پہلے جوتیاں اتار لیتے۔ ان کی تقلید میں ان کے مرید اور ہمراہی بھی برہنہ پا علی پور سیداں میں داخل ہوتے۔ مولوی صاحب ایک کم گو اور کم آمیز عالم دین تھے۔ کسی نے جب ان سے جوتیاں اتار کر قصبے میں آنے والے معمول کا سبب پوچھا تو فرمایا، اس سرزمین پر عنقریب ایک ایسی ہستی جنم لینے والی ہے جس کے سر پر سارے ہندوستان کی قطبیت کا تاج ہوگا اور ان کی تقسیم کردہ نورانی روشنی سے ہر گھر منور ہوگا اور ہر ذرہ چمک اٹھے گا۔

انیسویں اور بیسویں صدی کی تقریباً تمام روحانی شخصیات کے سوانح نگار، محققین، تاریخ دان وادباء اس بات پر متفق ہیں کہ انیسویں اور بیسویں صدی میں حضرت قبلہ عالم سے زیادہ مرید کسی اور شیخ طریقت اور روحانی بزرگ کے نہیں ہوئے۔

حضرت پیر جماعت علی شاہؒ کو بچپن ہی سے شہبازِ ولایت کہا جاتا تھا۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق 4 برس، 4 ماہ اور 4 دن کی عمر میں ہی آپ کو حفظِ قرآن کےلیے بٹھایا گیا اور آپ نے مختصر عرصے میں ہی یہ سعادت حاصل کرلی۔ عہدِ طفولیت سے ہی آپ کا طرزِ زندگی عام لوگوں سے ہٹ کر تھا۔ آپ کا زیادہ تر وقت تلاوتِ قرآن مجید اور ذکرِ الہی میں گزرتا، خودداری و بردباری دو ایسی خوبیاں ہیں جن سے آپ کی شخصیت بچپن ہی سے مزین تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد شاہ صاحب نے خان پور، سہارن پور، لکھنؤ اور گنج مراد آباد جیسے دور افتادہ علاقوں کا سفر حصولِ علم کی خاطر اختیار فرمایا اور اس دورِ طالب علمی کی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ حصولِ علم کی رسمی تکمیل کے بعد آپ کو اورینٹل کالج لاہور میں مدرس کے عہدے کی پیشکش ہوئی مگر آپ کے والد نے اجازت نہ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ علم کو فروخت کرنے کے بجائے فی سبیل اللہ اس روشنی کو عام کیا جائے۔ سعادت مند بیٹے نے سرِتسلیم خم کیا اورآپ رمضان شریف میں مسجد میں قرآن سناتے اور باقی گیارہ مہینے وعظ و تبلیغ میں مصروف رہتے۔ آپ کی شادی اپنی ماموں زاد سے ہوئی جو انتہائی عفیفہ، عابدہ اور زاہدہ خاتون تھیں، تہجد گزاری اور شب بیداری آپ کا بھی معمول تھا۔

یہ سارے سلسلے اپنی جگہ تھے مگر حضرت قبلہ عالم کے سینے میں عشقِ الہی کی کسک کسی رہبرِ کامل کی متلاشی تھی۔ ایک مرتبہ آپ کی ملاقات حضرت پیر امام علیؒ سے ہو گئی تو انہوں نے آپ پر بڑی شقفت فرمائی اور اپنے مریدوں سے فرمایا کہ یہ نوجوان ولئ کامل اور شہبازِ ولایت ہوگا، قطبیت کا پاسباں ہوگا اور پوری دنیائے اسلام کو اس سے فیض پہنچے گا۔ اس کے مرید ہمالیہ سے راس کماری تک ہوں گے۔

آخر حضرت قبلہ عالم کی تلاش ختم ہوئی اور آپ کی ملاقات قطب زماں بابا فقیر محمدؒ سے ہوئی اور آپ بابا صاحب سے بیعت ہو گئے۔ مختصر عرصے کی روحانی تربیت کے بعد بابا صاحب نے حضرت قبلہ عالم کو حکم دیا کہ اللہ اللہ کرو اور لوگوں کو اللہ کا نام اور ذکر سناؤ اور اپنی دستارِ مبارک اتار کو حضرت قبلہ عالم کے سر پر رکھ کر گویا خلافت عطا فرما دی۔

اہل اللہ کے واقعات اور سوانح میں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ کوئی شخص مختصر مدت میں اپنے شیخِ طریقت سے باطنی نعمت و خلافت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور پرانے حاضر باش مرید دیکھتے رہ گئے، حضرت بہاؤلدین زکریا ملتانیؒ اور شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ کا واقعہ اس ضمن میں بہت مشہور ہے۔ بالکل اسی طرح بابا صاحب کے کچھ مریدوں نے شکایتاً عرض کیا کہ حضرت آپ نے جماعت علی کو اتنی جلدی خلافت عطا فرما دی؟ یہ سن کر بابا فقیر محمد پہلے تو خاموش رہے، پھر کچھ دیر بعد بڑے جوش سے فرمایا: نادانو! تمھیں کیا معلوم جماعت علی کیا ہے، وہ تو چراغ، بتی، اور تیل ہمراہ لایا تھا، میں نے تو صرف چراغ روشن کیا ہے۔

حضرت قبلہ عالم امیر ملتؒ آں حضرتﷺ کے عاشقِ زار تھے، آپ نے 40 حج کیے تھے۔ فرمایا کرتے: حج کی برکت سے اس غلام کی حاضری آقاﷺ کے در پر بھی ممکن ہو جاتی ہے۔

ایک مرتبہ سفرِ حج کےلیے جاتے ہوئے بحری جہاز میں آپ نے سمندری پانی سے وضو و طہارت کی تو آپ کا جسم الرجی کا شکار ہو گیا اور رفتہ رفتہ یہ حالت ہوگئی کہ آپ کے جسم کے متاثرہ حصوں سے باقاعدہ خون رسنے لگا۔ اسی حالت میں آپ نے مدینے پاک کا سفر کیا اور روضہ اقدس کے سامنے کچھ دور کھڑے ہو کر التجا کی، یا رسول اللہﷺ حاضری کے شوق میں آیا ہوں مگر میری حالت ایسی نہیں، جسم ناپاک ہونے کے سبب روضہ اطہر کے پاس حاضر نہیں ہو سکتا، اس لیے دور ہی سے سلام پیش کرتا ہوں، غلام پر نظرِ کرم فرمائیے۔ یہ عرض کرنے کے بعد آپ مسجد کے باہر ہی لیٹ گئے اور آنکھ لگ گئی، عالم رویا میں زیارتِ نبوی سے سرفراز ہوئے، سرکارِ دوعالمﷺ نے فرمایا: ''جماعت علی! مسجد نبوی کی وضو والی جگہ پر ایک پیالہ پانی کا بھرا رکھا ہے۔ اٹھ! جاکر اس سے وضو کر اور باقی پی لے۔'' حضرت امیرِ ملت اٹھے اور بے تابانہ اس جگہ پہنچے، تعمیلِ حکم کی اور جسم ایسے ہو گیا کہ جیسے کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔ فوراً پاک صاف ہوکر آقاﷺ کے دربارِ عالی میں حاضر ہوئے اور درود و سلام کے نذرانے پیش کیے۔

حضرت قبلہ عالم نے مرزا قادیانی دجال و کذاب کی سرکوبی کےلیے بھی ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔ مرزا فرتوت کی یہ عادت تھی کہ حضرت امیرِ ملت سے ہر میدان میں شکست کھاتا، ذلیل و خوار ہوتا مگر باز نہ آتا۔ 28 اکتوبر 1904 کو سیالکوٹ میں ہونے والا مناظرہ ہو یا 22 مئی 1908 کو لاہور کی شاہی مسجد میں ہونے والا مباہلہ، مرزا نے ہمیشہ ہی راہِ فرار اختیار کی۔ مئی 1908 میں ہونے والے مباہلے میں بار بار کہنے اور بلانے پر بھی مرزا قادیانی نہ آیا تو امیرِملت نے فرمایا: یہ خبیث اب نہیں رہے گا۔ چنانچہ ٹھیک ایک ہفتے کے بعد وبائی ہیضے میں مرزا کی موت ہوگئی۔

حکیم الامت، ترجمانِ حقیقت حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال آپ کے بڑے عقیدت مند اور محب تھے۔ وہ حضرت کی خدمت میں اکثر و بیشتر حاضری دیتے تھے۔ ایک مرتبہ انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ہو رہا تھا، حضرت قبلہ عالم صدارت فرما رہے تھے، رش بہت تھا، علامہ دیر سے آئے اور جب کہیں جگہ نہ ملی تو حضرت کے قدموں میں بیٹھ گئے اور فرمانے لگے، اولیاء اللہ کے قدموں میں جگہ مل جائے تو اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی! حضرت نے فرمایا، جس کے قدموں میں اقبال آجائے اس کے فخر کا کیا ٹھکانہ ہوگا!


ایک مرتبہ حضرت نے علامہ کو ان کا یہ شعر سنایا:
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

علامہ نے حضرت کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہا، حضرت! میری بخشش کےلیے اتنا ہی کافی ہے کہ میں کسی حوالے سے حضرت کو یاد تو ہوں۔



مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کےلیے جب چندہ جمع کرنے کی مہم شروع ہوئی تو اس سلسلے میں لاہور میں ہونے والے ایک بڑے اجتماع میں نواب وقار الملک نے اپنی ٹوپی آپ کے قدموں میں رکھ کر درخواست کی، حضرت! یہ یونیورسٹی مسلمانانِ ہند کی آن اور امید کی کرن ہے اور جناب کی سرپرستی و مدد کے بغیر اس کا بننا مشکل ہے۔ آپ نے فرمایا، کیا اس میں دینی تعلیم کا انتظام بھی ہوگا؟ جواب دیا گیا، یقیناً، انگریزی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی ہوگی۔ آپ نے نہ صرف اسی وقت تین لاکھ روپے کی گراں قدر رقم عطیہ کی بلکہ ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اپنے مریدوں کو بھی اس کار خیر میں حصہ لینے کا حکم دیا۔ بعد میں بھی تا عمر یونیورسٹی کی مدد فرماتے رہے۔ مسلمانوں کی بہتری سے متعلق ہر ہر تحریک کی حمایت و سرپرستی حضرت کا معمول و وطیرہ تھا۔ حجاز ریلوے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، خلافت تحریک کی فنڈنگ، سمرنا فنڈ اور ایسے ہی دیگر امور کےلیے آپ نہ صرف خود دل کھول کے چندہ دیتے بلکہ اپنے مریدین و محبین کو بھی اس جانب متوجہ فرماتے۔

تحریک پاکستان میں حضرت قبلہ عالم کی دلچسپی، محبت اور حمایت تاریخ کے صفحات میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ 1940 میں قراردادِ پاکستان کی منظوری کے موقع پر حضرت نے اعلان فرمایا کہ جو اس قرارداد کے خلاف بات کرے گا میں اس کا جنازہ نہیں پڑھاؤں گا۔ سن 1944ء کے انتخابات میں حضرت نے اپنے لاکھوں مریدوں کو یہ ہدایت بلکہ حکم جاری فرمایا کہ جو مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دے گا وہ میری مریدی سے نکل جائے گا۔

1943 میں قائد اعظمؒ پر قاتلانہ حملے کی ناپاک کوشش ہوئی تو حضرت قبلہ عالم نے ایک مشفقانہ خط میں تحریر فرمایا، یہ جو آپ محنت اور کوشش کر رہے ہیں یہ دراصل میرا کام تھا، مگر اب میں سو سال سے زیادہ عمر کا ہو چکا ہوں، آپ ثابت قدم رہیں، اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہے اور میں ہر میدان میں آپ کی کماحقہ مدد کروں گا۔ قائداعظم نے جواباً تحریر فرمایا: آپ کا خط پڑھ کر میں یوں محسوس کرتا ہوں کہ میں ابھی سے کامیاب ہو گیا، میں وعدہ کرتا ہوں کہ پیچھے نہیں ہٹوں گا۔

دیگر مشائخ و پیرانِ طریقت کے ساتھ ساتھ پیر صاحب مانکی شریف کو بھی مسلم لیگ اور قائد اعظم کی حمایت پر آمادہ کرنے والے حضرت قبلہ عالم ہی تھے۔ جب مانکی میں مسلم لیگ کا جلسہ ہوا اور قائداعظم بھی تشریف لے گئے تو آپ نے ایک فرستادہ کے ذریعے قائداعظم کےلیے سونے کا تمغہ بھیجا، جب قائد کو بتایا گیا تو آپ فرط مسرت سے ڈائس پر کھڑے ہو گئے اور فرمایا، فوراً یہ تمغہ میرے سینے پر آویزاں کر دیا جائے، میں آج سچ مچ کامیاب ہو گیا۔

1946 کے انتخابات میں فقید المثال کامیابی کے بعد قائدِ اعظم نے حضرت امیرِ ملت کو تار بھیجا کہ آپ کی دعاؤں سے پاکستان کی سرحدیں بن گئیں، جواباً حضرت نے تحریر فرمایا کہ مسلمانوں کو ان کے نئے وطن کی سرحدیں مبارک ہوں۔

قیام پاکستان کے بعد 14 اگست کو قائدِ اعظم نے حضرت کو ایک اور خط میں تحریر فرمایا کہ حضرت! آپ کی دعاؤں اور نیک تمناؤں سے مسلمانوں نے 200 سالہ غلامی کی زنجیریں کاٹ کر اپنی آزاد و خود مختار مملکت اللہ کے فضل سے حاصل کر لی ہے۔ حضرت امیرِ ملت نے جواباً لکھا کہ ملک گیری آسان ہے، پر ملک داری مشکل۔ اللہ تعالی آپ کو ملک داری کی توفیق عطا فرمائے۔

1951ء میں مئی کی 13 تاریخ کو جب آپ کی عمر مبارک 121 برس ہو چکی تھی، آپ کو عربی زبان میں لکھا ہوا ایک خط موصول ہوا جس میں آپ کی وفات کا اشارہ موجود تھا۔ اسی سال 9 رمضان المبارک کو آپ کو بخار آگیا جو مسلسل کئی روز تک جاری رہا اور پھر اسی کے نتیجے میں 121 برس کی عمر میں اسلام اور ملتِ اسلامیہ کے یہ مجاہد، خادم اور بطل جلیل جنہیں قبلہ عالم اور امیر ملت بھی کہا گیا، 30 اور 31 اگست کی درمیانی شب اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طنیت را۔

علی پور سیداں میں آپ کا سنگ سفید سے بنا روضہ ایک آن بان اور شان سے ایستادہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story