ڈرون ٹیکنالوجی اور اس کے مضمرات

اگر ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر کوئی ٹھوس پالیسی نہ وضع کی گئی تو ایشیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

اگر ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر کوئی ٹھوس پالیسی نہ وضع کی گئی تو ایشیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

پاکستان نے ایک بار پھر خود مختار ممالک کے خلاف یکطرفہ ڈرون حملوں کو عالمی امن و استحکام کے لیے خطرہ قرار دے کر ان کی کھل کر مخالفت کر دی ہے۔ پاکستان کا یہ اصولی موقف رہا ہے کہ ڈرون حملے اس کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف ہیں' ان حملوں میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کے باعث پاکستانی حکومت کے خلاف عوامی دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ان حملوں کا آغاز صدر بش کے دور میں ہوا تھا، ان کے پیشرو صدر اوباما سے یہ امید بندھی تھی کہ وہ صدر بش کی اس پالیسی کے برعکس ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کر دیں گے مگر صدر اوباما کے دور میں ان حملوں میں تیزی پیدا ہوگئی۔ پاکستان نے بارہا اعلیٰ سطح پر احتجاج کرتے ہوئے امریکا سے یہ حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا مگر امریکی انتظامیہ اپنی پالیسی پر کاربند رہی۔ اگرچہ امریکا نے ان حملوں میں کچھ کامیابی بھی حاصل کی مگر بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کے باعث قبائلی علاقوں میں امریکا کے خلاف نفرت اور احتجاج میں اضافہ ہوا جس کے منفی اثرات پاکستان کے دیگر علاقوں پر بھی مرتب ہوئے۔


گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی ایک ٹیم بن ایمرسن کی سربراہی میں ڈرون حملوں کے عام شہریوں پر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان آئی تھی۔اس ٹیم نے بھی اپنی رپورٹ میں ڈرون حملوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق پاکستان مزید قدم آگے بڑھاتے ہوئے اقوام متحدہ میں بھی ان حملوں کے خلاف اتفاق رائے پیدا کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ پاکستان کا موقف واضح اور غیر مبہم نہیں کہ روس' چین اور دیگر ممالک بھی ڈرون ٹیکنالوجی کے حصول کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔

وہ ممالک جن کے پاس یہ ٹیکنالوجی آ جائے گی وہ امریکا کی مثال پر عمل پیرا ہوکر اپنے مخالف ملک کو دباؤ میں لانے کے لیے اسے اس کے خلاف بے دریغ استعمال کر سکتے ہیں جس سے امن و امان کے حوالے سے نت نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ خاص طور پر بہت سے ایشیائی ممالک کے آپس میں شدید اختلافات ہیں۔ اگر ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر کوئی ٹھوس پالیسی نہ وضع کی گئی تو ایشیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ ڈرون حملوں کے شکار ممالک میں حکومت مخالف مزید جنگجو گروپ پیدا ہونے کا خدشہ اپنی جگہ موجود رہے گا جس سے ان ممالک کی سالمیت داؤ پر لگ سکتی ہے۔

لہٰذا پاکستان نے خود مختار ممالک کی سالمیت کے تحفظ کے لیے ڈرون حملوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے خلاف اقوام متحدہ میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں کا آغاز کر کے درست سمت قدم اٹھایا ہے۔ توقع ہے کہ اس سال کے آخر تک ان حملوں کے حوالے سے حتمی رپورٹ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کر دی جائے گی۔ اب عالمی برادری پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان حملوں کے خلاف متفقہ پالیسی وضع کر کے دنیا کے امن و امان کو تباہ ہونے سے بچائیں۔
Load Next Story