آہ ایف۔ای چوہدری
ایف ای چوہدری نے اپنی 104 سالہ طویل زندگی نہایت بھرپور انداز میں گزاری۔ وہ نہایت منکسرالمزاج اور ملنسار انسان تھے۔
وطن عزیز کے سب سے سینئر اور بزرگ ترین پریس فوٹو گرافر ایف۔ای چوہدری جمعہ 15 مارچ کو ملک عدم سدھار گئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر 104 تھی۔ ان کا پورا نام فاؤسٹن ایلمر چوہدری تھا، مگر صحافی برادری انھیں پیار اور احترام کی رو سے چاچا کہہ کر پکارتی تھی اور وہ اس سے بہت خوش بھی ہوا کرتے تھے۔ ان کی 105 ویں سالگرہ کی تیاریاں لاہور میں نکتہ عروج پر تھیں کہ موت نے انھیں بوقت صبح اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ لیا۔ بے شک! موت سے کس کو دستگار ی ہے۔ ہر ذی روح کو آخر کار اس کا ذائقہ چکھنا ہی پڑتا ہے۔
ایف ای چوہدری نے اپنی 104 سالہ طویل زندگی نہایت بھرپور انداز میں گزاری۔ وہ نہایت منکسرالمزاج اور ملنسار انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا حلقہ احباب بے حد وسیع تھا۔ وہ جس محفل میں جاتے وہاں اپنی خوشبو بکھیردیتے تھے۔ ان کا لب و لہجہ محبت اور شفقت کی مٹھاس سے لبریز تھا۔ چوہدری صاحب کا تعلق ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کے راجپوت گھرانے سے تھا۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز سائنس ٹیچر کی حیثیت سے کیا اور لاہور کے تعلیمی ادارے سینٹ انتھونی میں اپنا ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔
مگر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انھیں یہ محسوس ہوا کہ طلبہ کو لوہے کو میگنیز سے علیحدہ کرنے کا طریقہ سکھانے اور جادوئی لالٹین سے محفوظ کرنے سے زیادہ لطف باکس کیمرے سے تصویریں کھینچنے میں آتا ہے تو انھوں نے تدریس کے پیشے کو خیرباد کہہ کر پریس فوٹوگرافر کی حیثیت سے کوچہ صحافت میں قدم رنجہ فرمایا اور پھر تادم آخر اسی لیلیٰ کی زلفوں کے اسیر ہوگئے اور پھر پیچھے کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ اس شعبے میں بہت کم وقت میں انھوں نے اپنی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔
ان کی عکاسی نے ہندوستان کے مشہورومعروف انگریزی اخبار اسٹیٹسمین اور ہفت روزہ السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا میں بڑی دھوم مچادی اور 1936 کے بعد ان کی شہرت کی خوشبو دور دراز تک پھیلتی چلی گئی۔ علامہ اقبال کی مصروفیات کی عکس بندی کے علاوہ انھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی سرگرمیوں کو بھی کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا اور مسلم لیگ کے 1940 میں لاہور میں منعقدہ تاریخی اجلاس کی عکس بندی کا منفرد اعزاز بھی حاصل کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے اہم ترین دورہ لاہور کی بھی نہایت خوبصورت عکس بندی کی۔
1947 میں قیام پاکستان کے وقت تک وہ صحافت کے میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے، چناں چہ میاں افتخار الدین اور فیض احمد فیض نے انھیں پاکستان ٹائمز میں شمولیت کی پیشکش کی جہاں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کے خوب جوہر دکھائے۔ تمام اہم سیاسی اور سماجی تقریبات کو کور کرنے کی ذمے داری ان ہی کو سونپی جاتی تھی۔
جس کے نتیجے میں ملک کی بڑی بڑی شخصیات سے ان کے ذاتی مراسم قائم ہوگئے اور ہر جگہ انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا جانے لگا۔ اسپورٹس کی سرگرمیوں کی عکاسی کے لیے وہ اپنے رولی کورڈ کیمرے کے ساتھ ٹیلی لینس جوڑا کرتے تھے۔ ان کی فیاض اور فراخدلی کا عالم یہ تھا کہ انھوں نے اپنے ہنر کو اپنے جونیئرز تک بلا تامل منتقل کیا اور اپنے شاگردوں میں بلند رتبہ پایا۔
چوہدری چاچا یاروں کے یار اور ضرورتمندوں کے مددگار تھے۔ ان کے گھر کے ہی نہیں دل کے دروازے بھی ہمیشہ ہر ایک کے لیے کھلے ہوئے رہتے تھے۔ دوسروں کے کام آنا ان کی زندگی کا مشن تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رحلت پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر ایک دل سوگوار ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ:
اک شخص سارے جہاں کو ویراں کرگیا
وہ ایک محب وطن پاکستانی اور ایک دیانت دار و باکردار پیشہ ور صحافی تھے۔ وہ اپنے کام کو ہمیشہ عبادت سمجھ کر انجام دیا کرتے تھے۔ اپنی بے مثال اخلاقی صفات کی وجہ سے انھیں صحافی برادری میں ایک اعلیٰ اور بلند مقام حاصل تھا۔ اپنی بے لوث خدمات کی بدولت وہ پی ایف یوجے، پی یو جے اور پی پی ایل میں بھی اہم مناصب پر فائز رہ کر انتہائی سرگرم اور فعال رہے۔ اس کے علاوہ وہ لاہور پریس کلب کے صدارتی منصب پر بھی فائز رہے۔ اس حوالے سے انھیں اگر صحافی برادری کا روحانی رہنما بھی کہا جائے تو شاید یہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔
نا ممکن کا لفظ ان کی لغت میں کبھی شامل نہیں رہا۔ وہ جس کام کا بیڑہ اٹھاتے تھے اسے پایہ تکمیل کو پہنچاکر ہی دم لیتے تھے۔ وہ ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنھیں ان کی زندگی میں عزت اور توقیر سے نوازا گیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 27 ایوارڈز دیے گئے جس میں صدارتی ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس، ستارہ امتیاز، تمغہ خدمت بھی شامل ہے۔ انھیں تحریک پاکستان گولڈ میڈل بھی دیا گیا جس کے وہ بجاطور پر مستحق تھے۔ صحافتی میدان میں ان کی طویل خدمات ایک مجنونانہ عشق سے عبارت ہیں، بہ قول شاعر:
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم جس کے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
ان کی صحافتی خدمات ایک طویل عرصے پر محیط ہیں۔ انھوں نے نہ صرف بذات خود پریس فوٹوگرافی کو بام عروج پر پہنچایا بلکہ ایک پوری نسل کی تیاری اورعملی تربیت بھی کی۔ لوگوں کی عام طور پر یہ خصلت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہنر اور فن کو اپنے ہم پیشہ حضرات سے چھپاتے ہیں لیکن چوہدری صاحب کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اپنے تجربے کا نچوڑ اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کے حلق میں انڈیل دیں یا ان کے ذہن و قلب میں انجیکٹ کردیں۔ اس حوالے سے وہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ان سے مستفید ہونے والے تمام لوگ ان کے احسان عظیم کا بدلہ تاحیات نہیں چکا سکتے۔ ان کا حسن سلوک ستائش و صلہ کی تمنا اور توقع سے بالاتر تھا۔
ایف ای چوہدری اول درجے کے پاکستانی تھے۔ انھوں نے نہ صرف بذات خود وطن عزیز کی خدمت کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں کو وقف کردیا بلکہ اپنے انتہائی لائق و نالائق فرزندوں کو بھی خدمت وطن کے لیے پیش کردیا۔ ان کے خاندان کے بارے میں بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایں خانہ ہمہ' آفتاب است۔ ان کے ایک صاحبزادے سیسل چوہدری کا شمار پاکستان ایئرفورس کے مایہ ناز شاہینوں میں ہوتا ہے جو 1965 اور 1971 کے معرکوں کے ہیرو کہلاتے تھے۔
ان دونوں جنگوں کے دوران ان کی جرأت مندانہ قیادت پر ملک و قوم کو ہمیشہ بڑا فخر رہے گا۔ ان کی زبردست خدمات کے اعتراف میں انھیں ستارہ جرأت اور ستارہ بصالت کے اعلیٰ قومی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ 13 اپریل 2013 کو سرطان میں مبتلا رہ کر بوجہ علالت انتقال کرگئے۔ ایف ای چوہدری کے دوسرے بیٹے انتھونی چوہدری بھی پاک فضائیہ میں بحیثیت ونگ کمانڈر گرانقدر خدمات انجام دینے کے بعد آج کل لاہور فلائنگ کلب میں بطور چیف فلائنگ انسٹرکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے ایک اور صاحبزادے میرل چوہدری جوتے کی ایک مشہورومعروف کمپنی میں منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔
ایف ای چوہدری کی وفات پر پورا لاہور شہر افسردہ اور اداس ہے۔ بقول شاعر ''اک شخص سارے شہر کو ویراں کرگیا''۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہ ہوگا۔ ان جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوا کرتے۔ ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔
ایف ای چوہدری نے اپنی 104 سالہ طویل زندگی نہایت بھرپور انداز میں گزاری۔ وہ نہایت منکسرالمزاج اور ملنسار انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا حلقہ احباب بے حد وسیع تھا۔ وہ جس محفل میں جاتے وہاں اپنی خوشبو بکھیردیتے تھے۔ ان کا لب و لہجہ محبت اور شفقت کی مٹھاس سے لبریز تھا۔ چوہدری صاحب کا تعلق ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کے راجپوت گھرانے سے تھا۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز سائنس ٹیچر کی حیثیت سے کیا اور لاہور کے تعلیمی ادارے سینٹ انتھونی میں اپنا ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔
مگر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انھیں یہ محسوس ہوا کہ طلبہ کو لوہے کو میگنیز سے علیحدہ کرنے کا طریقہ سکھانے اور جادوئی لالٹین سے محفوظ کرنے سے زیادہ لطف باکس کیمرے سے تصویریں کھینچنے میں آتا ہے تو انھوں نے تدریس کے پیشے کو خیرباد کہہ کر پریس فوٹوگرافر کی حیثیت سے کوچہ صحافت میں قدم رنجہ فرمایا اور پھر تادم آخر اسی لیلیٰ کی زلفوں کے اسیر ہوگئے اور پھر پیچھے کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ اس شعبے میں بہت کم وقت میں انھوں نے اپنی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔
ان کی عکاسی نے ہندوستان کے مشہورومعروف انگریزی اخبار اسٹیٹسمین اور ہفت روزہ السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا میں بڑی دھوم مچادی اور 1936 کے بعد ان کی شہرت کی خوشبو دور دراز تک پھیلتی چلی گئی۔ علامہ اقبال کی مصروفیات کی عکس بندی کے علاوہ انھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی سرگرمیوں کو بھی کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا اور مسلم لیگ کے 1940 میں لاہور میں منعقدہ تاریخی اجلاس کی عکس بندی کا منفرد اعزاز بھی حاصل کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے اہم ترین دورہ لاہور کی بھی نہایت خوبصورت عکس بندی کی۔
1947 میں قیام پاکستان کے وقت تک وہ صحافت کے میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے، چناں چہ میاں افتخار الدین اور فیض احمد فیض نے انھیں پاکستان ٹائمز میں شمولیت کی پیشکش کی جہاں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کے خوب جوہر دکھائے۔ تمام اہم سیاسی اور سماجی تقریبات کو کور کرنے کی ذمے داری ان ہی کو سونپی جاتی تھی۔
جس کے نتیجے میں ملک کی بڑی بڑی شخصیات سے ان کے ذاتی مراسم قائم ہوگئے اور ہر جگہ انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا جانے لگا۔ اسپورٹس کی سرگرمیوں کی عکاسی کے لیے وہ اپنے رولی کورڈ کیمرے کے ساتھ ٹیلی لینس جوڑا کرتے تھے۔ ان کی فیاض اور فراخدلی کا عالم یہ تھا کہ انھوں نے اپنے ہنر کو اپنے جونیئرز تک بلا تامل منتقل کیا اور اپنے شاگردوں میں بلند رتبہ پایا۔
چوہدری چاچا یاروں کے یار اور ضرورتمندوں کے مددگار تھے۔ ان کے گھر کے ہی نہیں دل کے دروازے بھی ہمیشہ ہر ایک کے لیے کھلے ہوئے رہتے تھے۔ دوسروں کے کام آنا ان کی زندگی کا مشن تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رحلت پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر ایک دل سوگوار ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ:
اک شخص سارے جہاں کو ویراں کرگیا
وہ ایک محب وطن پاکستانی اور ایک دیانت دار و باکردار پیشہ ور صحافی تھے۔ وہ اپنے کام کو ہمیشہ عبادت سمجھ کر انجام دیا کرتے تھے۔ اپنی بے مثال اخلاقی صفات کی وجہ سے انھیں صحافی برادری میں ایک اعلیٰ اور بلند مقام حاصل تھا۔ اپنی بے لوث خدمات کی بدولت وہ پی ایف یوجے، پی یو جے اور پی پی ایل میں بھی اہم مناصب پر فائز رہ کر انتہائی سرگرم اور فعال رہے۔ اس کے علاوہ وہ لاہور پریس کلب کے صدارتی منصب پر بھی فائز رہے۔ اس حوالے سے انھیں اگر صحافی برادری کا روحانی رہنما بھی کہا جائے تو شاید یہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔
نا ممکن کا لفظ ان کی لغت میں کبھی شامل نہیں رہا۔ وہ جس کام کا بیڑہ اٹھاتے تھے اسے پایہ تکمیل کو پہنچاکر ہی دم لیتے تھے۔ وہ ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنھیں ان کی زندگی میں عزت اور توقیر سے نوازا گیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 27 ایوارڈز دیے گئے جس میں صدارتی ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس، ستارہ امتیاز، تمغہ خدمت بھی شامل ہے۔ انھیں تحریک پاکستان گولڈ میڈل بھی دیا گیا جس کے وہ بجاطور پر مستحق تھے۔ صحافتی میدان میں ان کی طویل خدمات ایک مجنونانہ عشق سے عبارت ہیں، بہ قول شاعر:
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم جس کے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
ان کی صحافتی خدمات ایک طویل عرصے پر محیط ہیں۔ انھوں نے نہ صرف بذات خود پریس فوٹوگرافی کو بام عروج پر پہنچایا بلکہ ایک پوری نسل کی تیاری اورعملی تربیت بھی کی۔ لوگوں کی عام طور پر یہ خصلت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہنر اور فن کو اپنے ہم پیشہ حضرات سے چھپاتے ہیں لیکن چوہدری صاحب کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اپنے تجربے کا نچوڑ اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کے حلق میں انڈیل دیں یا ان کے ذہن و قلب میں انجیکٹ کردیں۔ اس حوالے سے وہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ان سے مستفید ہونے والے تمام لوگ ان کے احسان عظیم کا بدلہ تاحیات نہیں چکا سکتے۔ ان کا حسن سلوک ستائش و صلہ کی تمنا اور توقع سے بالاتر تھا۔
ایف ای چوہدری اول درجے کے پاکستانی تھے۔ انھوں نے نہ صرف بذات خود وطن عزیز کی خدمت کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں کو وقف کردیا بلکہ اپنے انتہائی لائق و نالائق فرزندوں کو بھی خدمت وطن کے لیے پیش کردیا۔ ان کے خاندان کے بارے میں بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایں خانہ ہمہ' آفتاب است۔ ان کے ایک صاحبزادے سیسل چوہدری کا شمار پاکستان ایئرفورس کے مایہ ناز شاہینوں میں ہوتا ہے جو 1965 اور 1971 کے معرکوں کے ہیرو کہلاتے تھے۔
ان دونوں جنگوں کے دوران ان کی جرأت مندانہ قیادت پر ملک و قوم کو ہمیشہ بڑا فخر رہے گا۔ ان کی زبردست خدمات کے اعتراف میں انھیں ستارہ جرأت اور ستارہ بصالت کے اعلیٰ قومی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ 13 اپریل 2013 کو سرطان میں مبتلا رہ کر بوجہ علالت انتقال کرگئے۔ ایف ای چوہدری کے دوسرے بیٹے انتھونی چوہدری بھی پاک فضائیہ میں بحیثیت ونگ کمانڈر گرانقدر خدمات انجام دینے کے بعد آج کل لاہور فلائنگ کلب میں بطور چیف فلائنگ انسٹرکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے ایک اور صاحبزادے میرل چوہدری جوتے کی ایک مشہورومعروف کمپنی میں منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔
ایف ای چوہدری کی وفات پر پورا لاہور شہر افسردہ اور اداس ہے۔ بقول شاعر ''اک شخص سارے شہر کو ویراں کرگیا''۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہ ہوگا۔ ان جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوا کرتے۔ ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔