یہ پوری صدی کا قصہ ہے

ہماری اس گزشتہ حکومت اور حکمرانوں کا ذکر تو پاکستان کی تاریخ میں ایک برے نام اور بھیانک خواب کی طرح زندہ رہے گا۔

Abdulqhasan@hotmail.com

سب سے پہلے مجھے ہمارے سابق وزیر داخلہ کے اس بیان پر حیرت کرنے دیجیے کہ میں اپنے جانشین کے لیے ایک پر امن پاکستان چھوڑے جا رہا ہوں۔ سنا ہے کہ انسان کے اندر شرم و حیا بھی ہوا کرتی ہے لیکن ہماری گزشتہ حکومت میں اللہ نے یہ انسانی صفت شاذ ہی پیدا کی تھی ورنہ کچھ ہمارے اس وزیر کے حصے میں بھی آتی۔ سابق وزیر داخلہ پر ہی موقوف نہیں دوسرے چھوٹے بڑے سبھی وزیر وغیرہ ایسی ہی جلا دینے والی باتیں کر رہے ہیں جب کہ پاکستانی شکرانے کے نفل ادا کررہے ہیں۔

ہماری اس گزشتہ حکومت اور حکمرانوں کا ذکر تو پاکستان کی تاریخ میں ایک برے نام اور بھیانک خواب کی طرح زندہ رہے گا اور قوم اپنی اس تباہی کا ماتم کرتی رہے گی جو اس کے اپنے گناہوں کی سزا تھی، میں اس وقت اپنے ایک مہربان بزرگ کا ذکر کر رہا ہوں جو ایک صدی چار برس کی زندگی بسر کرنے کے بعد اس دنیا سے چلا گیا۔ یہ تھے ہماری مسیحی برادری کے ایف ای چوہدری صاحب۔ ایک اخباری فوٹو گرافر جن کے کیمرے میں ان مہ و سال کی روداد محفوظ تھی۔ انھوں نے تحریک پاکستان اور پھر پاکستان کی فوٹو گرافی کی۔

وہ ایک اوسط قد و قامت مگر اس سے بہت اونچی آواز والی شخصیت تھے، اس انتہائی طویل زندگی میں ان کی شاید ہی کسی سے تلخی ہوئی ہو۔ وہ اس قدر خوشگوار اور وضعدار شخصیت کے مالک تھے کہ وہ ہر ایک سے اور ہر کوئی ان سے خوش رہا۔ میں نے جب لیل و نہار میں ملازمت اختیار کی تو وہ اس ادارے کے ایک پرانے کارکن تھے اور چچا چوہدری کے ہر دلعزیز لقب سے سرفراز تھے، ان کی یہ طول طویل مقبول عام زندگی ان کے لیے قدرت کا ایک عطیہ تھی۔

ہم دیکھتے ہیں جب کہ کچھ لوگ صرف پانچ برس کی زندگی میں بھی لعنت و ملامت کے انبار جمع کر لیتے ہیں لیکن چاچا چوہدری سو برس سے اوپر کی زندگی میں بھی ایک باعزت انسان رہا جیسا کہ عرض کیا ہے وہ ایک پاکستانی مسیحی تھے لیکن ایسے سچے مسیحی جو دوسرا گال سامنے کردیتے ہیں۔ چند دن پہلے ان کا ڈانٹ ڈپٹ کا فون آیا،جب میں نے لاہور پریس کلب کے قیام کے ذکر میں ان کا ذکر نہ کیا۔ انھوں نے یاد دلایا کہ ہوٹل والوں سے یہ جگہ انھوں نے حاصل کی تھی اور ہم جو سینئر لوگ اس کی لکڑی کی پرانے زمانے کی سیڑھیاں چڑھ کر اس نئے کلب میں داخل ہوئے تھے، بات درست تھی، میں نے معافی کے لیے حاضری کا وعدہ کیا۔

انھوں نے بتایا کہ وہ میرا اخبار ایکسپریس خریدتے ہیں، بے حد افسوس کہ دنیا کی فضولیات میں پھنس کر اس منفرد شخصیت کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکا۔ انھیں بعض تقریبات میں ویل چیئر پر دیکھا اور یاد آیا کہ وہ کسی بڑے کے ہاں اخباری تقریب کی فوٹو گرافی کرتے ہوئے تصویر کا خاص زاویہ بنانے کے لیے بلا تکلف اس کے قیمتی صوفوں پر جوتیوں سمیت چڑھ جاتے تھے۔ میں نے ایک بار کہا چاچا یہ کیا کرتے ہو۔ اس کا جواب تھا کہ یہ ہمیں کوئی معزز مہمان سمجھ کر بلاتے ہیں۔ ہم ان کی ضرورت ہوتے ہیں، اس لیے ہمیں ان کے ہاں احتیاط کرنے کی کیا ضرورت۔ تنخواہ ہمیں کہیں اور سے ملتی ہے لیکن یہ ہمیں اپنا کمی کمین اور خدمت گار سمجھتے ہیں۔


چاچے چوہدری کے پاس تحریک پاکستان اور پاکستان کی تاریخ کا ایک نادر ذخیرہ تھا بلکہ صرف اس کے پاس تھا۔ یہ دستاویزیں اس کے ڈبے کی طرح کے پرانے کیمرے سے لے کر جدید ترین کیمروں میں محفوظ تھیں۔ چاچے نے جرمنی سے نیا کیمرہ منگوایا۔ وہ اس کا ڈبہ کھول رہا تھا۔ اتفاق سے میں بھی وہاں موجود تھا، اس نے کیمرے میں فلم ڈالی اور کہا آؤ بچے پہلی تصویر تمہاری بناتے ہیں۔ چاچے نے تصویر کا یہ پرنٹ بعد میں مجھے تحفہ کی طرح عطا کیا۔ لاہور میں قائد اعظم کی سرگرمیاں چاچے کا موضوع رہیں اور وہ ہماری اس تاریخ کو قلمبند کرتا رہا۔

چچا کے آس پاس میرے وہی دو چار سال گزرے جب میں اس کے ادارے پی پی ایل میں ملازم تھا لیکن عمر بھر چاچا کی شفقت اور مہربانی حاصل رہی۔ میں صدی سے زیادہ کی اس زندگی کو چند برس کے قرب میں بند نہیں کر سکتا لیکن یہ ادارہ چھوڑ دینے کے بعد بھی چاچے سے ملاقات رہی۔ اکمل علیمی چاچے کا خاص نیاز مند تھا۔ وہ مجھے چاچا کے ہاں جیل روڈ پر لے جاتا تھا، بعد میں بڑھاپے میں اپنے بیٹے اور ہمارے ہیرو ونگ کمانڈر سی سی چوہدری کے ہاں منتقل ہو گئے۔ چاچا چوہدری نہ صرف لاہور کی سیاست بلکہ اس کی معاشرتی سماجی اور ثقافتی زندگی کے مصور بھی تھے۔

ایک بار میں نے کسی سلسلے میں لاہور کی ایک مشہور پرانی تاریخی بیٹھک چھجو کے چوبارے کا ذکر کیا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جو 'مزا چھجو دے چوبارے او نہ بلخ نہ بخارے' ایک دو دن بعد چاچا اس چوبارے کی تصویر لے آئے اور مجھے عنایت کر دی۔ یہ قیام پاکستان کے پہلے کی تصویر تھی۔ لاہور کے میو اسپتال کے قریب کی ایک عمارت میں یہ چوبارہ واقع تھا۔

وہ اپنی وفات کے دن، اپنی ایک سو چارویں سالگرہ منا رہے تھے۔ ایک سو چار برس کی اس عمر میں انھوںنے سیاست سیاستدانوں اور لاہور شہر کو بہت ہی قریب سے دیکھا لیکن وہ بوجوہ عملی سیاست سے دور رہے اور یہی ان کا منصب بھی تھا، وہ ایک صحافی تھے اور انھوں نے زمانے کو ایک صحافی اور پھر اپنے کیمرے کی نظر سے دیکھا اور دکھایا۔ وہ آج کی طرح بے صبرے صحافی نہ تھے کہ کسی سیاستدان سے صاحب سلامت ہو گئی تو اس پر مر مٹے اور قلم اس کے سپرد کر دیا۔

کون سیاستدان اور جماعت ایسی نہ تھی جس کے ساتھ چوہدری کا تعلق نہیں تھا لیکن یہ تعلق اپنی حدود و قیود میں بند رہا، آپے سے باہر نہ ہوا۔ مجھے وہ سیاستدانوں کے بارے میں نصیحتیں بھی کرتے تھے اور ان سے بچ کر رہنے کی ترکیبیں بھی بتاتے تھے۔ بہر کیف ہم اپنے اس مہربان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جس نے ایک صدی سے زائد زندگی عزت اور سلامتی کے ساتھ گزار دی اور اپنے ہر نشان کو اداس چھوڑ گئے۔
Load Next Story