نوازشریف کی سیاست کا باب بند ہوگیا
سابق وزیراعظم کی نااہلی کے دوررس اثرات پارٹی اور اس کے ووٹ بینک پر پڑیں گے
عدالت عظمیٰ نے اپنے 28 جولائی 2017ء کے فیصلے میں صادق و امین نہ ہونے کی وجہ سے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا۔ 15 ستمبر کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کی نظرثانی اپیل بھی مسترد کر دی۔ یوں1981ء میں پنجاب کے صوبائی وزیر خزانہ کی حیثیت سے شروع ہونے والا بھرپور سیاسی سفر 36 سال بعد اختتام پذیر ہوتا نظر آ رہا ہے۔
دو دفعہ وزیراعلیٰ پنجاب اور تین دفعہ وزیراعظم پاکستان منتخب ہونے والے نواز شریف ایک سیاسی رہنما کے طور پر قومی سیاست کا اہم کردار رہیں گے، لیکن بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ وہ آئندہ کسی عوامی عہدے پر براجمان ہو سکیں۔ چنانچہ ان کی اس نااہلی کے اثرات آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن اور اس کے ووٹ بینک پر پڑیں گے۔
2013ء میں اقتدار میںآنے کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت کو بمشکل ایک سال گزرا تھا کہ اسے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے معاملے پر تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کا سامنا کرنا پڑا۔
مسلم لیگ ن نے اس مشکل وقت میں پارلیمنٹ سے رجوع کیا، جہاں موجود جماعتوں نے اس کا ساتھ دیا۔ جولائی 2015ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم تین رکنی انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ گزشتہ انتخابات میں منظم دھاندلی کے کوئی ثبوت نہیں ملے اور اس سلسلے میں تحریک انصاف اپنے الزامات ثابت نہیں کر سکی۔ مسلم لیگ ن نے اس رپورٹ کو اپنی فتح قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے نادیدہ قوتوں کے اشارے پر تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے دھرنا دیا۔
حکومت نے کچھ مہینے ہی سکون سے گزارے تھے کہ 4 اپریل 2016ء کو پاناما پیپرز میں شریف خاندان کی آفشور کمپنیوں کا انکشاف ہوا۔ اگلے روز قوم سے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کر دیا۔ 22 اپریل کو قوم سے اپنے دوسرے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کرپشن ثابت ہوئی تو وہ مستعفی ہو کر گھر چلے جائیں گے۔ بعدازاں کئی ہفتوں تک حکومت اور اپوزیشن کے مابین مجوزہ کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر لاحاصل مذاکرات ہوئے۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے 27 اگست کو جماعت اسلامی اور 30 اگست کو تحریک انصاف کی شریف خاندان کی مبینہ کرپشن پر تحقیقات کی درخواستوں کو اعتراضات لگا کر واپس کر دیا۔ 30 ستمبر 2016ء کو رائیونڈ میں تحریک انصاف نے احتجاجی جلسہ میں نوازشریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔
تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے بالآخر عدالت عظمیٰ نے شریف خاندان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ 16 نومبر کو عدالت میں شریف فیملی نے اپنی صفائی کے لیے قطری شہزادے کا خط پیش کیا۔ نومبر اور دسمبر کے کچھ دنوں پر مشتمل سماعت کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے سپریم کورٹ کا یہ بینچ ٹوٹ گیا۔4 جنوری 2017ء کو سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار نے پاناما کیس کی سماعت کے لیے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا۔
20 اپریل کو عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف الزامات کی چھان بین کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا حکم دیا، فیصلے پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے ایک خصوصی بینچ بھی تشکیل دیا گیا۔ مسلم لیگ ن نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ نواز شریف کا کہنا تھا: ''اللہ تعالیٰ نے سرخرو کیا، جے ٹی آئی میں بھی بے گناہی ثابت کریں گے۔'' 9 مئی سے کام شروع کرنے والی جے آئی ٹی نے دو ماہ بعد 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی۔ بالآخر 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے نوازشریف کی تاحیات نااہلی اور شریف فیملی کے خلاف کرپشن کے مقدمات نیب کو بھجوانے کا فیصلہ سنا دیا۔
نااہلی کے بعد نواز شریف نے جی ٹی روڈ ریلی نکالی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں سازش کا نشانہ بنایا گیا، عدالتی کارروائی کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے۔ ان کے تازہ ترین ارشادات یہ ہیں کہ وہ ایک نظریاتی آدمی ہیں، اور اب وہ سول بالادستی اور انصاف کی فراہمی کے لیے جدوجہد کریں گے اور اسی ایجنڈے پر پارٹی کی انتخابی مہم چلائیں گے۔ نوازشریف کی سیاست اور دور حکمرانی سب نے دیکھا ہے، ان کے ماضی کے طرزعمل کی روشنی میں ان بیانات کو سنجیدگی سے لینا بہت مشکل ہے۔
پانچ سال قبل عدالت عظمیٰ نے سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے پر اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا تو نواز شریف نے اس فیصلے کی بھرپور حمایت کی، بلکہ ان کا کہنا تھا کہ ''اگلا وزیراعظم خط نہ لکھے تو اسے بھی گھر بھیج دینا چاہیے۔'' نومبر 2011ء میں میمو گیٹ معاملے میں وہ کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے کہ تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا جائے۔ اس وقت وہ سول حکومت کے بجائے ملٹری اسٹبلیشمنٹ کے ساتھ کھڑے دکھائی دیئے۔ پھر پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں شہباز شریف اور چوہدری نثار نے اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کئی خفیہ ملاقاتیں کیں، جن کو درپردہ نواز شریف کی حمایت حاصل تھی۔ ماضی بعید کی بات کریں تو سب جانتے ہیں کہ گورنر پنجاب جنرل جیلانی نے ان کی سرپرستی کی، پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آئی جے آئی تشکیل دی گئی، پھر 90 کی دہائی کی سیاست اور سپریم کورٹ پر حملہ بھی سب کے علم میں ہے۔
اس لیے جب نوازشریف کہتے ہیں کہ وہ نظریاتی آدمی ہیں تو قدرتی طور پر سوال ذہن میں آتا ہے کہ ایسا کب سے ہوا ہے؟ اگر یہ کایا کلپ ان کی نااہلی کے بعد ہوئی ہے تو پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ''نظریاتی'' بننے کے علاوہ ان کے پاس اور کیا راستہ تھا۔ انہیں اس وقت کرپشن مقدمات کا سامنا ہے، آئندہ الیکشن کی مہم چلانے کے لیے کچھ نعرے بھی چاہیئں، چنانچہ اس وقت ضرورت کے تحت اپنے آپ کو نظریاتی بنا کر پیش کرنے کو ''نظریہ ضرورت'' ہی کہا جائے گا۔ اور نواز شریف کی مجموعی سیاست کو دیکھا جائے تو یہی پتا چلتا ہے کہ فی الواقع ان کا کوئی نظریہ ہے تو پھر وہ یہی نظریہ ضرورت ہی ہے۔
نواز شریف نے ان دنوں آئین و قانون اور انصاف کی بالادستی کا علم بلند کیا ہوا ہے۔ ان سے یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ کیا ان کے نزدیک آئین و قانون کی بالادستی محض یہ ہے کہ سول اور ملٹری کے مابین طاقت کی کشمکش میں سول حکومت کا ساتھ دیا جائے؟ کیا منتخب وزیراعظم کو زیب دیتا ہے کہ وہ مشکل وقت میں تو پارلیمنٹ کا رخ کرے اور اس کا نام استعمال کرے، لیکن عام حالات میں وہاں باقاعدگی سے جانے میں اس کی شان میں کمی آتی ہو؟ کیا جمہوریت اسی کا نام ہے کہ اپنے رشتے داروں کو عہدے بانٹ دیئے جائیں، لیکن اپنی پارٹی میں جمہوری کلچر کو فروغ نہ دیا جائے؟ کیا آئین یہ نہیں کہتا کہ لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں؟
انہوں نے اپنے دور اقتدار میں پسماندہ علاقوں پر کتنے وسائل خرچ کیے اور ملک کی تمام اکائیوں کو قریب لانے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو توانائی کے بحران پر قابو پانا اور سی پیک منصوبے کے تحت مختلف شہروں کے درمیان موٹرویز اور رابطہ سڑکوں کی تکمیل اس کے اہم کارنامے ہیں۔ دہشت گردی میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ توانائی کے بحران پر مکمل قابو پانے کے دعوے کا اصل امتحان تو آئندہ گرمیوں میں ہو گا، تاہم کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے ناقص حکمت عملی کے تحت توانائی کے بحران کو کنٹرول کیا ہے۔ توانائی منصوبوں کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھے ہیں۔ کول پراجیکٹ کی وجہ سے شدید ماحولیاتی آلودگی کا خدشہ ہے، جس کی شدت کا اندازہ دو ماہ قبل شہروں پر چھائی آلودہ دھند سے لگایا جا سکتا ہے۔ جبکہ دیگر شعبے، صحت، ماحولیات کی بدترین صورتحال، قرضوں میں غیرمعمولی اضافہ، کمزور سول ادارے، پی آئی اے خسارہ، یہ سب حکومت کی ناکامی کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔
اپریل 2016ء میں پاناما لیکس سامنے آئیں تو بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ حکمران خاندان اس بحران میں بھی 'سرخرو' ہونے میں کامیاب ہو جائے گا۔ خواجہ آصف نے میڈیا کے سامنے کہہ دیا تھا کہ ''میاںصاحب گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔'' مولانا فضل الرحمٰن اس ایشو پر اول دن سے نوازشریف کے ساتھ کھڑے نظر آئے، جبکہ پارلیمنٹ میں موجود کچھ جماعتوں نے ان سے فاصلہ اختیار کر لیا اور دیگر جماعتیں کھلے عام مخالفت پر اتر آئیں۔ بہرحال اس معاملے کو عوام میں زندہ رکھنے اور عدالت میں لانے کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے۔ اگرچہ اب کچھ دن قبل عدالت عظمیٰ نے ان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دے دیا ہے۔
جسے کچھ تجزیہ کار ''توازن قائم کرنے کوشش'' قرار دے رہے ہیں۔ قانون دانوں میں اس جوڈیشل ایکٹو ازم کے بارے میں دو متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ عدالت نے نواز شریف کے کیس میں پہلی بار کسی ممبر اسمبلی کو نااہل قرار دیا ہو، عدالتیں پہلے بھی ممبران اسمبلی کو مختلف وجوہات کی بنا پر نااہل قرار دیتی رہی ہیں۔ وزیراعظم کی بات کی جائے تو یوسف رضا گیلانی کی مثال سامنے ہے۔ آئیڈیل معیارات کے مطابق دیکھا جائے تو اس کو جمہوریت کے لیے اچھی روایت قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن پھر اس صورتحال کے سب سے زیادہ ذمہ دار بھی سیاستدان اور سیاسی رہنما ہی ہیں، جنہوں نے اس ملک میں کبھی جمہوریت کی حقیقی روح پر عمل نہیں کیا اور اس کے نام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔
نواز شریف اپنی نااہلی کے بعد سے وقتاً فوقتاً کہتے رہتے ہیں کہ وہ ''کسی دن سب بتا دیں گے کہ انہیں کیوں نکالا گیا۔'' اب جبکہ وہ باقاعدہ تحریک چلانے کا اعلان کر چکے ہیں تو بہت مناسب ہو گا کہ وہ سب کچھ بتا ہی دیں، اپنے حصے کا سچ بول دیں۔ وہ اب بھی نہیں بولتے تو لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان کے پاس کہنے کے لیے کوئی ٹھوس بات نہیں، صرف سازش کے الزامات ہیں، جو دوسرے لیگی رہنما دہراتے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ ن لیگ نے جہاں ٹرائل کی شفافیت پر سوالات اٹھائے ہیں، وہاں اس نے کرپشن الزامات پر اپنی کوئی قابل قبول صفائی یا دستاویزات پیش نہیں کیں۔
ملک کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کے تینوں ستون ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔ اس سلسلے میں پہلا قدم سیاستدانوں کو اٹھانا ہو گا۔ جہاں تک مسلم لیگ ن کے مستقبل کا تعلق ہے، حدیبیہ کیس سے خلاصی کے بعد نواز شریف نے آئندہ وزیراعظم کے لیے شہباز شریف کا نام پیش کر دیا ہے۔ ان کی مفروضہ گڈگورننس کے بارے میں کہانیاں سنائی جا رہی ہیں، جن کا آنے والے دنوں میں مزید چرچا ہو گا۔ یہ سب اپنا ووٹ بینک بچانے کی ایک کوشش ہے۔ شہباز شریف کی گڈگورننس لاہور سے باہر کم ہی نظر آتی ہے اور لاہور میں بھی ان کے نزدیک گڈگورننس کا دوسرا نام دو، تین میگا پراجیکٹس ہیں۔ بہرحال آنے والے دنوں میں ن لیگ میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں، فی الحال نواز شریف کا فوکس کرپشن کیسز سے بچاؤ اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کا حصول ہے۔
دو دفعہ وزیراعلیٰ پنجاب اور تین دفعہ وزیراعظم پاکستان منتخب ہونے والے نواز شریف ایک سیاسی رہنما کے طور پر قومی سیاست کا اہم کردار رہیں گے، لیکن بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ وہ آئندہ کسی عوامی عہدے پر براجمان ہو سکیں۔ چنانچہ ان کی اس نااہلی کے اثرات آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن اور اس کے ووٹ بینک پر پڑیں گے۔
2013ء میں اقتدار میںآنے کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت کو بمشکل ایک سال گزرا تھا کہ اسے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے معاملے پر تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کا سامنا کرنا پڑا۔
مسلم لیگ ن نے اس مشکل وقت میں پارلیمنٹ سے رجوع کیا، جہاں موجود جماعتوں نے اس کا ساتھ دیا۔ جولائی 2015ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم تین رکنی انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ گزشتہ انتخابات میں منظم دھاندلی کے کوئی ثبوت نہیں ملے اور اس سلسلے میں تحریک انصاف اپنے الزامات ثابت نہیں کر سکی۔ مسلم لیگ ن نے اس رپورٹ کو اپنی فتح قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے نادیدہ قوتوں کے اشارے پر تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے دھرنا دیا۔
حکومت نے کچھ مہینے ہی سکون سے گزارے تھے کہ 4 اپریل 2016ء کو پاناما پیپرز میں شریف خاندان کی آفشور کمپنیوں کا انکشاف ہوا۔ اگلے روز قوم سے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کر دیا۔ 22 اپریل کو قوم سے اپنے دوسرے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کرپشن ثابت ہوئی تو وہ مستعفی ہو کر گھر چلے جائیں گے۔ بعدازاں کئی ہفتوں تک حکومت اور اپوزیشن کے مابین مجوزہ کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر لاحاصل مذاکرات ہوئے۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے 27 اگست کو جماعت اسلامی اور 30 اگست کو تحریک انصاف کی شریف خاندان کی مبینہ کرپشن پر تحقیقات کی درخواستوں کو اعتراضات لگا کر واپس کر دیا۔ 30 ستمبر 2016ء کو رائیونڈ میں تحریک انصاف نے احتجاجی جلسہ میں نوازشریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔
تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے بالآخر عدالت عظمیٰ نے شریف خاندان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ 16 نومبر کو عدالت میں شریف فیملی نے اپنی صفائی کے لیے قطری شہزادے کا خط پیش کیا۔ نومبر اور دسمبر کے کچھ دنوں پر مشتمل سماعت کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے سپریم کورٹ کا یہ بینچ ٹوٹ گیا۔4 جنوری 2017ء کو سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار نے پاناما کیس کی سماعت کے لیے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا۔
20 اپریل کو عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف الزامات کی چھان بین کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا حکم دیا، فیصلے پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے ایک خصوصی بینچ بھی تشکیل دیا گیا۔ مسلم لیگ ن نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ نواز شریف کا کہنا تھا: ''اللہ تعالیٰ نے سرخرو کیا، جے ٹی آئی میں بھی بے گناہی ثابت کریں گے۔'' 9 مئی سے کام شروع کرنے والی جے آئی ٹی نے دو ماہ بعد 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی۔ بالآخر 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے نوازشریف کی تاحیات نااہلی اور شریف فیملی کے خلاف کرپشن کے مقدمات نیب کو بھجوانے کا فیصلہ سنا دیا۔
نااہلی کے بعد نواز شریف نے جی ٹی روڈ ریلی نکالی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں سازش کا نشانہ بنایا گیا، عدالتی کارروائی کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے۔ ان کے تازہ ترین ارشادات یہ ہیں کہ وہ ایک نظریاتی آدمی ہیں، اور اب وہ سول بالادستی اور انصاف کی فراہمی کے لیے جدوجہد کریں گے اور اسی ایجنڈے پر پارٹی کی انتخابی مہم چلائیں گے۔ نوازشریف کی سیاست اور دور حکمرانی سب نے دیکھا ہے، ان کے ماضی کے طرزعمل کی روشنی میں ان بیانات کو سنجیدگی سے لینا بہت مشکل ہے۔
پانچ سال قبل عدالت عظمیٰ نے سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے پر اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا تو نواز شریف نے اس فیصلے کی بھرپور حمایت کی، بلکہ ان کا کہنا تھا کہ ''اگلا وزیراعظم خط نہ لکھے تو اسے بھی گھر بھیج دینا چاہیے۔'' نومبر 2011ء میں میمو گیٹ معاملے میں وہ کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے کہ تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا جائے۔ اس وقت وہ سول حکومت کے بجائے ملٹری اسٹبلیشمنٹ کے ساتھ کھڑے دکھائی دیئے۔ پھر پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں شہباز شریف اور چوہدری نثار نے اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کئی خفیہ ملاقاتیں کیں، جن کو درپردہ نواز شریف کی حمایت حاصل تھی۔ ماضی بعید کی بات کریں تو سب جانتے ہیں کہ گورنر پنجاب جنرل جیلانی نے ان کی سرپرستی کی، پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آئی جے آئی تشکیل دی گئی، پھر 90 کی دہائی کی سیاست اور سپریم کورٹ پر حملہ بھی سب کے علم میں ہے۔
اس لیے جب نوازشریف کہتے ہیں کہ وہ نظریاتی آدمی ہیں تو قدرتی طور پر سوال ذہن میں آتا ہے کہ ایسا کب سے ہوا ہے؟ اگر یہ کایا کلپ ان کی نااہلی کے بعد ہوئی ہے تو پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ''نظریاتی'' بننے کے علاوہ ان کے پاس اور کیا راستہ تھا۔ انہیں اس وقت کرپشن مقدمات کا سامنا ہے، آئندہ الیکشن کی مہم چلانے کے لیے کچھ نعرے بھی چاہیئں، چنانچہ اس وقت ضرورت کے تحت اپنے آپ کو نظریاتی بنا کر پیش کرنے کو ''نظریہ ضرورت'' ہی کہا جائے گا۔ اور نواز شریف کی مجموعی سیاست کو دیکھا جائے تو یہی پتا چلتا ہے کہ فی الواقع ان کا کوئی نظریہ ہے تو پھر وہ یہی نظریہ ضرورت ہی ہے۔
نواز شریف نے ان دنوں آئین و قانون اور انصاف کی بالادستی کا علم بلند کیا ہوا ہے۔ ان سے یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ کیا ان کے نزدیک آئین و قانون کی بالادستی محض یہ ہے کہ سول اور ملٹری کے مابین طاقت کی کشمکش میں سول حکومت کا ساتھ دیا جائے؟ کیا منتخب وزیراعظم کو زیب دیتا ہے کہ وہ مشکل وقت میں تو پارلیمنٹ کا رخ کرے اور اس کا نام استعمال کرے، لیکن عام حالات میں وہاں باقاعدگی سے جانے میں اس کی شان میں کمی آتی ہو؟ کیا جمہوریت اسی کا نام ہے کہ اپنے رشتے داروں کو عہدے بانٹ دیئے جائیں، لیکن اپنی پارٹی میں جمہوری کلچر کو فروغ نہ دیا جائے؟ کیا آئین یہ نہیں کہتا کہ لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں؟
انہوں نے اپنے دور اقتدار میں پسماندہ علاقوں پر کتنے وسائل خرچ کیے اور ملک کی تمام اکائیوں کو قریب لانے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو توانائی کے بحران پر قابو پانا اور سی پیک منصوبے کے تحت مختلف شہروں کے درمیان موٹرویز اور رابطہ سڑکوں کی تکمیل اس کے اہم کارنامے ہیں۔ دہشت گردی میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ توانائی کے بحران پر مکمل قابو پانے کے دعوے کا اصل امتحان تو آئندہ گرمیوں میں ہو گا، تاہم کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے ناقص حکمت عملی کے تحت توانائی کے بحران کو کنٹرول کیا ہے۔ توانائی منصوبوں کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھے ہیں۔ کول پراجیکٹ کی وجہ سے شدید ماحولیاتی آلودگی کا خدشہ ہے، جس کی شدت کا اندازہ دو ماہ قبل شہروں پر چھائی آلودہ دھند سے لگایا جا سکتا ہے۔ جبکہ دیگر شعبے، صحت، ماحولیات کی بدترین صورتحال، قرضوں میں غیرمعمولی اضافہ، کمزور سول ادارے، پی آئی اے خسارہ، یہ سب حکومت کی ناکامی کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔
اپریل 2016ء میں پاناما لیکس سامنے آئیں تو بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ حکمران خاندان اس بحران میں بھی 'سرخرو' ہونے میں کامیاب ہو جائے گا۔ خواجہ آصف نے میڈیا کے سامنے کہہ دیا تھا کہ ''میاںصاحب گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔'' مولانا فضل الرحمٰن اس ایشو پر اول دن سے نوازشریف کے ساتھ کھڑے نظر آئے، جبکہ پارلیمنٹ میں موجود کچھ جماعتوں نے ان سے فاصلہ اختیار کر لیا اور دیگر جماعتیں کھلے عام مخالفت پر اتر آئیں۔ بہرحال اس معاملے کو عوام میں زندہ رکھنے اور عدالت میں لانے کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے۔ اگرچہ اب کچھ دن قبل عدالت عظمیٰ نے ان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دے دیا ہے۔
جسے کچھ تجزیہ کار ''توازن قائم کرنے کوشش'' قرار دے رہے ہیں۔ قانون دانوں میں اس جوڈیشل ایکٹو ازم کے بارے میں دو متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ عدالت نے نواز شریف کے کیس میں پہلی بار کسی ممبر اسمبلی کو نااہل قرار دیا ہو، عدالتیں پہلے بھی ممبران اسمبلی کو مختلف وجوہات کی بنا پر نااہل قرار دیتی رہی ہیں۔ وزیراعظم کی بات کی جائے تو یوسف رضا گیلانی کی مثال سامنے ہے۔ آئیڈیل معیارات کے مطابق دیکھا جائے تو اس کو جمہوریت کے لیے اچھی روایت قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن پھر اس صورتحال کے سب سے زیادہ ذمہ دار بھی سیاستدان اور سیاسی رہنما ہی ہیں، جنہوں نے اس ملک میں کبھی جمہوریت کی حقیقی روح پر عمل نہیں کیا اور اس کے نام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔
نواز شریف اپنی نااہلی کے بعد سے وقتاً فوقتاً کہتے رہتے ہیں کہ وہ ''کسی دن سب بتا دیں گے کہ انہیں کیوں نکالا گیا۔'' اب جبکہ وہ باقاعدہ تحریک چلانے کا اعلان کر چکے ہیں تو بہت مناسب ہو گا کہ وہ سب کچھ بتا ہی دیں، اپنے حصے کا سچ بول دیں۔ وہ اب بھی نہیں بولتے تو لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان کے پاس کہنے کے لیے کوئی ٹھوس بات نہیں، صرف سازش کے الزامات ہیں، جو دوسرے لیگی رہنما دہراتے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ ن لیگ نے جہاں ٹرائل کی شفافیت پر سوالات اٹھائے ہیں، وہاں اس نے کرپشن الزامات پر اپنی کوئی قابل قبول صفائی یا دستاویزات پیش نہیں کیں۔
ملک کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کے تینوں ستون ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔ اس سلسلے میں پہلا قدم سیاستدانوں کو اٹھانا ہو گا۔ جہاں تک مسلم لیگ ن کے مستقبل کا تعلق ہے، حدیبیہ کیس سے خلاصی کے بعد نواز شریف نے آئندہ وزیراعظم کے لیے شہباز شریف کا نام پیش کر دیا ہے۔ ان کی مفروضہ گڈگورننس کے بارے میں کہانیاں سنائی جا رہی ہیں، جن کا آنے والے دنوں میں مزید چرچا ہو گا۔ یہ سب اپنا ووٹ بینک بچانے کی ایک کوشش ہے۔ شہباز شریف کی گڈگورننس لاہور سے باہر کم ہی نظر آتی ہے اور لاہور میں بھی ان کے نزدیک گڈگورننس کا دوسرا نام دو، تین میگا پراجیکٹس ہیں۔ بہرحال آنے والے دنوں میں ن لیگ میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں، فی الحال نواز شریف کا فوکس کرپشن کیسز سے بچاؤ اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کا حصول ہے۔