ہم تو وقت کے جوہڑ میں ہیں

یہ شادمانی کے ویسے ہی مظاہرے ہوں گے جیسے صدیوں، ہزاروں سال پہلے ہمارے اجداد دیکھ چکے ہیں۔

کٹہروں کے اُس طرف سے ایسے تیزدھار تبصرے آتے رہے کہ انصاف لہولہان ہوگیا۔ فوٹو : فائل

آج کی رات کھسکتی سوئی سمے کی سیما پار کرکے جوں ہی نئے برس کی دھرتی کو چھوئے گی، ہمارے ملک کی سڑکیں چیخ اٹھیں گی، گلی کوچے شور سے بھر جائیں گے۔ نہیں۔۔۔یہ بیتے برس کے المیوں پر آہ وبکا نہیں ہوگی، پورے سال کے زیاں پر بین نہیں ہوں گے، یہ تو خوشی کے نعرے ہوں گے، جو بندوقوں سے چھوٹیں گے اور فضا اور نئے برس کے سینے میں شگاف ڈالتے رہیں گے، سائلینسر نکلی موٹرسائیکلوں سے پھوٹیں گے اور دھویں سمیت ارض وسما کو آلودہ کرتے رہیں گے۔

یہ شادمانی کے ویسے ہی مظاہرے ہوں گے جیسے صدیوں، ہزاروں سال پہلے ہمارے اجداد دیکھ چکے ہیں، آدم خور جنگلیوں کا اپنا انسانی شکار آگ پر چڑھا کر لایعنی آوازوں کے ساتھ بے ہنگم رقص، گھوڑے دوڑاتے اور خوشی کے ڈنکے بجاتے فاتحین کی مفتوح بستیوں میں آمد، قہقہے لگاتے ہوئے جنگجوؤں کا شکست خوردہ دشمن کے کٹے سر کو ٹھوکریں رسید کرنا۔۔۔وہی وحشت وہی جنون۔۔۔اور نام نئے سال کی شادمانی۔

چلیے، چند گھنٹوں کی خوش گمانی میں گُم ہوجائیں کہ اس بار بڑے مہذب انداز میں سال کا استقبال ہوگا، بڑی شائستگی کے ساتھ خوشی منائی جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کس بات کی خوشی! اس سرزمین پر ایسا کون سا لمحہ اُترا ہے جو خوش کُن تو کجا خوش آئند بھی ہے؟ یہاں تو وقت گندے پانی کے جوہڑ کی طرح ٹھیرا ہوا سڑاند دے رہا ہے۔ انسانی ماضی کے گھناؤنے اور سیاہ باب اور خود پاکستان کی تاریخ کے تاریک صفحات اپنی ساری سیاہی کے ساتھ خود کو دُہرا رہے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں جرگہ لگتا ہے اور جوڑے کو کرنٹ لگا کر مار اور دفنا دیا جاتا ہے، ڈیرہ اسمعٰیل خان میں بنت آدم کا لباس نوچ کر پھینک دیا جاتا ہے اور اس کے جسم سے پورے شہر کی غیرت آنکھیں سینکتی ہے، ارض سرگودھا پر اندھی عقیدت میں قلب وذہن کی بینائی کھودینے والے بیس مرید خوشی خوشی اور خاموشی سے اپنے پِیر کے ہاتھوں جان سے چلے جاتے ہیں۔ یہ ہے اکیسویں صدی کے سترہویں سال پاکستان کا سماج۔



یہ تو کچھ منی ایچر ہیں، ورنہ لینڈ اسکیپ تو کہیں زیادہ خوف ناک منظر دکھا رہا ہے۔ ان منظروں کا دریا جون ایلیا نے اس شعر کے کوزے میں بند کردیا تھا:


جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں

''وہ لوگ'' کبھی لال شہباز کی درگاہ کو خون میں لال کرتے تو کبھی چرچ میں مصروف دعا معصوم لوگوں کو وحشت کا نشانہ بناتے نظر آئے، لیکن دیکھنے کے نظارے تو وہ تھے جب ان کے جبہ ودستار سے اُمڈتی گالی گفتار نے وہ عزت پائی کہ ریاست نے آگے بڑھ کر ہاتھ چومے اور قدموں پر سر رکھ دیا۔ ریاست کا ایک ستون حالت رکوع میں تھا اور دوسرا سارے معاملے کو ''فریقین'' کا تنازع قرار دے کر خاموش تماشائی۔ اور بہت سے سیاست داں طاقت اور مفادات کے ہاتھ پر بیعت کرکے بن گئے ان کے پیر بھائی۔

کٹہروں کے اُس طرف سے ایسے تیزدھار تبصرے آتے رہے کہ انصاف لہولہان ہوگیا، پھر فیصلے۔۔۔! صاف بتاگئے کہ ''آئے'' ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔ سو، جن کے فیصلے ہی بولتے ہیں انھیں دھواں دھار تقریر کو ''وکیل صفائی'' بنانا پڑا۔

رہے حکم راں، تو اپنے پچھلوں کی طرح ناکارکردگی، بدعنوانی اور بدانتظامی کو دعووں کے پردے میں چھپاتے وقت گزارتے رہے۔

اس تحریر کے لفظ پڑھنے والوں کے دلوں میں مایوسی کا اندھیرا پھیلا رہے ہیں، یہی اس ملک کی سچی تصویر ہے۔ امید کے جھوٹے دیپ جلاکر گھپ اندھیرے کو چٹکی بھر اور جلد بجھ جانے والی روشنی دینے سے بہتر ہے کہ آنکھوں کو دکھا دیا جائے کہ دیکھو! دور دور تک کوئی کرن کوئی سویرا نہیں، یہ مایوسی ہی دلوں میں سورج کھینچ لانے اور صبح ڈھال لینے کی امنگ جگا سکتی ہے۔
Load Next Story