ریلوے بستر مرگ پہ

مسافروں اور مال کی نقل و حمل کے ایک قومی ادارے میں ایسی صورتحال کا جنم لینا تشویش کی بات ہے۔

پاکستان ریلوے کی بربادی کا آغاز کئی برس قبل ہوا۔ایک ایسا ادارہ جو ملک کے لیے سب سے زیادہ منافع بخش ثابت ہوسکتا تھا اس ادارے کو جانتے بوجھتے ہوئے خسارے کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا گیا ۔ پاکستان ریلوے اپنی ذاتی حیثیت میں تو بلامبالغہ آج بھی نفع بخش ہے،یہ الگ بات ہے کہ جو بھی منافع حاصل ہوتا ہے وہ سارے کا سارا مالی بددیانتیوں اور بے ضابطگیوں کی نذر ہوجاتا ہے اور اب دکھائی دینے والی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ریلوے کے پاس انجن کا ڈیزل خریدنے تک کے پیسے نہیں ہوتے۔

لوٹ مار، مالی بدعنوانیوں اور نااہلی نے اس اہم قومی ادارے کو رفتہ رفتہ بستر مرگ پر پہنچا دیا ہے۔ مارکیٹنگ سے لے کر پرچیزنگ تک ہر کام میں ادارے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا ، یہی نہیں بلکہ ادارے میں موجود غیرضروری افسران کی ایک بڑی تعداد جو تنخواہوں کی مد میں لاکھوں روپے اورکھانے پینے سے لے کر مفت ملکی سفر کی مراعات اس کے علاوہ حاصل کرتے ہیں،ریلوے کی تباہ حالی میں نہایت ڈھٹائی سے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔کمیشن خوری کی وباء نے جہاں ملک کے دیگر اداروں کو شدید نقصان پہنچایا وہیں ریلوے کو بھی نہیں بخشا۔

گزشتہ ادوار میں باوجود ماہرین کے اعتراضات کے، محض کمیشن کھانے کی خاطر چائنا انجن خرید کر قومی خزانے اور ریلوے کے پہلے سے ڈولتے بجٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ،ماہرین کی رائے میں انجن اسکریپ تھے جن کا خریدا جانا قطعی ملک اور ادارے کے مفاد میں نہیں تھا مگر پھر بھی یہ اسکریپ انجن خریدے گئے جس کا خمیازہ آج بھگتنا پڑرہا ہے۔ دوسری طرف ڈیزل کے بحران کی وجہ سے پاکستان ریلوے کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ۔ ڈیزل کے بحران نے پہلے پہل مال گاڑیاں بند کرائیں بعد ازاں بحران برقرار رہنے کی صورت میں مسافر گاڑیوں پر نزلہ گرا۔

مسافروں اور مال کی نقل و حمل کے ایک قومی ادارے میں ایسی صورتحال کا جنم لینا تشویش کی بات ہے۔ ریلوے جو کبھی ملک میں سفر اور سامان کی نقل و حمل کا نہایت بہترین اور قابل اعتماد ذریعہ تھا، اب برسوں سے اس کی کارکردگی روبہ زوال ہے۔ کبھی عام ریل گاڑیوں کی آمدورفت میں تاخیر کا تصور ہی محال تھا لیکن اب ایکسپریس ٹرینوں تک کا گھنٹوں کی تاخیر سے منزل مقصود پر پہنچنا ایک عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے اس کی ایک اور سب سے بڑی وجہ یہی ناقص اور ناکارہ انجن ہیں۔

ریلوے کی کارکردگی میں تیزی سے آنے والے زوال کی وجہ سے پہلے ہی کئی مسافر گاڑیاں بند کی جاچکی ہیں اور اب ملک میں ریل کا پہیہ ہی جام ہوجانے کا خطرہ منڈلانے لگا ہے،جس کا بہت واضح مطلب ہے کہ ریلوے میں بدانتظامی اور بد نظمی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت بھی سرکاری اداروں کے ایک دوسرے پر واجبات کی ادائیگی کا کوئی نظام قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے، جس کی بناء پر ان اداروں کا ایک دوسرے کی سہولتیں بند کردینا معمول کی بات بن چکا ہے ۔

اسی ضمن میںبعض کمپنیوں نے بھی ریلوے کو ڈیزل کی فراہمی بند کردی تھی کہ کروڑوں روپے کے واجبات ہیں جن کی ادائیگی ریلوے کی جانب سے نہیں کی گئی ۔ تقریبا ڈیڑھ سو سے زائد انجن مرمت کے منتظر ہیں جب کہ ڈیزل چوری کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ ریلوے کا صرف 80 فیصد ریونیو تو تیل کی خریداری پر ہی خرچ ہوجاتا ہے۔1999 میں ریلوے کا خسارہ 8 ارب روپے تھا جو مالی بدانتظامیوں اور سنگین غفلت کے باعث اب 48 ارب تک جا پہنچا ہے۔


ریلوے کو اس حالت تک پہنچانے والوں نے اربوں روپے کی بدعنوانیوں کی مد میں صرف ناکارہ انجن و بوگیاں ہی نہیں خریدیں ، ہزاروں میل پٹڑی کی لمبی لائنیں اور پرزے بھی خریدے جو آج تک استعمال ہی نہیں ہوئے۔ مالی بدعنوانیوں سے ریلوے کو تو تباہ کیا ہی گیا ساتھ ہی بے ضابطگیوں کا بوجھ ، کرائے میں اضافہ کرکے عوام کے کندھوں پر ڈال دیا گیا۔ وقت مقررہ پر منزل مقصود تک نہ پہنچنے والی ٹرینوں میں صفائی ستھرائی سے بھی لاپرواہی برتی گئی جس کے باعث عوام کی ایک بڑی تعداد نے اندرون ملک چلنے والی پرائیویٹ کوچز میں سفر کو ترجیح دینا زیادہ بہتر سمجھا ، نتیجہ یہ ہوا کہ قومی ادارے کی آمدنی روزبروز گرتی چلی گئی ۔

ابھی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ریلوے کی ڈھائی سو سے زائد ٹرینوں میں سے فقط پچاس کے لگ بھگ گاڑیاں چل رہی ہیں جس میں کوئی ایسی ٹرین نہیں دکھائی دیتی جس کے پنکھے، لائیٹیںاور اے سی کورز درست حالت میں ہوں ۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ قومی ادارے پر قابض کرپٹ مافیا کا احتساب کرنے کے بجائے ریلوے کو بند کردینے جیسے اعلانات سننے میں آتے ہیں جب کہ کتنے ہی لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے،اسٹیشنز کے باہر مسافروں کو لانے لیجانے والے رکشہ ، ٹیکسی اور تانگے والے، مسافروں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھاکراپنے بچوں کا پیٹ پالنے والے غریب قلی،اسٹیشنز کے احاطوں میں مسافروں کو سامان فروخت کرنے والے دکاندار، اور نہ جانے کتنے ہی لوگ اس قومی ادارے کے قائم رہنے سے اپنی زندگیاں قائم رکھے ہوئے ہیں ، اس لیے ریلوے کی بہتری کے لیے طویل مدت منصوبہ سازی کی ضرورت ہے ۔

بدعنوانیوں اور مالی بے ضابطگیوں میں مرکزی کردار ادا کرنے والے عناصر کے کڑے احتساب کی ضرورت ہے۔ ریلوے جیسے منافع بخش اورعوامی سہولیات سے مزین ادارے کے ساتھ حکومتی بے حسی پر دکھائی یہ دیتا ہے کہ جیسے کسی خاص منصوبہ بندی کے تحت پاکستان ریلوے کو کھڈے لائن لگایا جارہا ہے، پرائیویٹ کوچز کے کاروبار کو فروغ حاصل ہورہا ہے ۔ عوامی آمدورفت کے ساتھ ساتھ تجارتی سامان کی نقل و حمل اور دفاعی ترسیل میں بھی ریلوے کا فعال کردار رہا ہے جو دھیرے دھیرے روبہ زوال ہے۔

ریلوے کی کئی ہزار ایکڑ رقبے پرمحیط اراضی قبضہ مافیا کے چنگل میں ہے جس کو واگزار کراکے پٹڑی سے اترتی ہوئی ریلوے کو ازسرنو سہارا دیا جاسکتا ہے۔ حکومتی سطح پر سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔ آج پاکستان ریلوے کی تباہی کی بڑی وجوہات میں ، ادارے میں افسران کی فوج ، ڈیزل کی چوری، قرض کی ادائیگی ، خریداری میں گھپلوں کے ساتھ ساتھ ٹکٹ بلیک سسٹم بھی شامل ہے۔ ٹکٹ بلیک کرنے والے ماہانہ لاکھوں روپے کا نقصان قومی ادارے کو پہنچارہے ہیں ۔

دنیا کے تمام ممالک اپنے عوام کو آمدورفت کی جدید سے جدید سہولیات فراہم کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دوڑ میں مصروف ہیں ، ایسے میں وطن عزیز میں جدید سہولیات تو درکنار ، ٹھیک سے چلنے والے انجن بھی دستیاب نہیں ہیں ۔ جاپان نے گولی کی رفتار سے چلنے والی بلٹ ٹرین ایجاد کی تو دنیا بھر میں دھوم مچ گئی اور دیکھا دیکھی دوسرے ممالک نے بھی ٹرینوں کی رفتار کے مقابلے میں اس سے بھی زائد رفتار میں چلنے والی ٹرینیں متعارف کرادیں۔لیکن بدقسمتی سے ایٹمی ٹیکنالوجی کا حامل یہ ملک ، چلنے والے انجن تو کجا ، مسافروں کو ان کی منزل مقصود پر کچھوے کی رفتار سے بھی نہ پہنچا سکا۔

حکومت اپنے پانچ سال پورے کرگئی ، اور سارے کام ادھورے چھوڑ گئی ۔ اب نئی آنے والی حکومت اپنی ہر ناکامی کو جانے والی حکومت کا تحفہ قرار دے کر راہ فرار اختیار کرتی رہے گی جیسا کہ گزشتہ ادوار سے ہوتا آرہا ہے۔ اور ریلوے کی زبوں حالی برقرار رہے گی ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ آنے والی حکومت اپنے اقتدار کی ابتداء ہی ریلوے کی بہتری سے کرے ، متوسط طبقے کے اس ذریعے نقل وحمل کو بدعنوانیوں ، بے ضابطگیوں سے نجات دلا کر خوشحالی کی پٹڑی پر گامزن کرے ، ایڈہاک ازم کو ترک کرے، ریلوے پاکستان کی تعمیر و ترقی کا انتہائی اہمیت کا حامل ادارہ ہے اس لیے اس کی بحالی پر حکومت کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔انجنوں کی مرمت کے معاملات پر خصوصی توجہ ، ڈیزل کی چوری ، ذمے داران کے خلاف سخت کارروائی جیسے اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کیے جائیں تاکہ مملکت خداداد کے باسیوں کے دل کچھ تو خوش ہوسکیں۔
Load Next Story