رشتہ ایک وزیرِ اعظم کا
جب تک انیسویں آئینی ترمیم کا ٹنٹا نہیں تھا تو صدرِ مملکت کسی بھی معقول سے تیسرے آدمی کو پنچوں کے مشورے سے نگراں۔۔۔
کتنا اچھا تھا پرانا زمانہ۔جب بچوں کی کہانی میں بادشاہ بے اولاد مرجاتا تھا اور پھر لوگ اس اجنبی کو آرام سے نیا بادشاہ بنا لیتے جو علی الصبح صدر دروازے سے شہر میں داخل ہوتا۔نا حسب نسب ، نا تعلیم ، نا تجربہ ، نا شکل و صورت ، نا ادب آداب ، نا ذہانت۔ کچھ بھی تو نہیں دیکھا جاتا تھا۔بس بادشاہ بنا لیا جاتا۔
ویسے تو بادشاہ آج بھی اسی اصول کے تحت ہی بنتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ پہلے یہ کام بھولی بھالی رعایا سیدھے سبھاؤ انداز میں کرتی تھی۔ اب یہی کام سیاسی جماعتیں غیر سیاسی اصحاب الرائے کے مشورے سے فنکارانہ طریقے سے کرتی ہیں۔ ایک عام آدمی اور ایک منجھے ہوئے آرٹسٹ کے کام میں یہی بنیادی فرق تو ہوتا ہے۔
فنکار بگلہ بھی پکڑنے جائے گا تو پہلے چپکے سے کہنیوں کے بل رینگتا ہوا ایک لمبا چکر کاٹ کے بگلے کے قریب پہنچے گا۔اس کے سر پر ایسے موم رکھے گا کہ بگلے کو احساس ہی نہ ہو کہ اس کے ساتھ کیا ہاتھ ہورہا ہے۔پھر یہی موم سورج کی گرمی سے پگھل کر بگلے کی آنکھوں میں گھس جائے گی اور جب بگلہ اندھا ہوجائے گا تب فن کار آرام سے اسے گردن سے پکڑ کر تماشائیوں کی داد وصول کرے گا۔
ایسے ہی کسی فن کار سے ایک دیہاتی نے پوچھا کہ استاد جی جب آپ بگلے کے اتنے قریب پہنچ جاتے ہو کہ آسانی سے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال سکو تو پھر موم سر پر رکھنے کے ناٹک کی کیا ضرورت ہے۔فن کار نے کہا کہ بات تو تیری ٹھیک ہے۔ ایسے تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔مگر یہ فنکاری تو نہ ہوئی۔تیرے اور میرے بیچ یہی تو فرق ہے......
جب تک انیسویں آئینی ترمیم کا ٹنٹا نہیں تھا تو صدرِ مملکت کسی بھی معقول سے تیسرے آدمی کو پنچوں کے مشورے سے نگراں وزیرِ اعظم نامزد کرسکتا تھا۔ اس کا بنیادی کام ہی یہ تھا کہ وہ نئی حکومت کے انتخاب تک پیدا ہونے والے خلا کو پورا کرے اور انتخابات کے بعد اقتدار کی چابی آنے والے کے حوالے کر کے گھر کی راہ لے۔اللہ اللہ خیر صلا۔
لیکن پہلی دفعہ اب یہ کام چونکہ فن کاروں کے حوالے کردیا گیا ہے لہذا ہر کوئی ٹپوسیاں مار رہا ہے۔کبھی اس تنے پر چڑھ رہا ہے، کبھی اس درخت سے چھلانگ مار رہا ہے اور بازار بند ہونے سے پہلے پہلے زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔گویا نگراں وزیرِاعظم کاانتخاب نا ہوااوچھے کے ہاتھ میں تیتر ہوگیا...گویا بچے کھلونوں کی دکان میں گھس گئے ہیں اور طے نہیں کر پارہے کہ ریل گاڑی خریدنی ہے کہ طیارہ کہ سائیکل کہ سپر مین کہ پزل بکس......
جو خوبیاں کسی نے پانچ سال کے لیے منتخب وزیرِاعظم میں آج تک نہیں ڈھونڈیں وہ خوبیاں دو مہینے کے وزیرِ اعظم میں ڈھونڈی جارہی ہیں...
نہیں نہیں یہ نہیں چلے گا، اس کی عمر زیادہ ہے... کیا یہ بھی نہیں؟؟ بالکل نہیں...اس کے تو سامنے کے دو دانت ہی غائب ہیں...اور وہ؟... نہیں یار خدا کا خوف کرو بولتا ہے تو لگتا ہے کسی نے کانوں میں صور پھونک دیا...اور وہ والا ؟؟...بندہ تو اچھا ہے مگر زرداری کی طرف سے نام آیا ہے، اس لیے مجھے کچھ شک سا ہے...اچھا اسے ہی منتخب کرلو؟...سوال ہی نہیں پیدا ہوتا...میں نے اس کی ایک پرانی تصویر دیکھی ہے جس میں یہ نواز شریف سے ہنس ہنس کے باتیں کررہا تھا...تو پھر کسے نامزد کریں، اب فرشتہ تو آنے سے رہا؟...ہوجائے گا فیصلہ ہو جائے گا... فرشتے کسی نا کسی فرشتے کو تو ڈھونڈھ ہی لیں گے اور پھر سب متفق بھی ہوجائیں گے...پہلے دن ہی اگر یہ خوش اسلوبی سے ہوجاتا تو پانچ چھ دن میڈیا کو کیا بیچتے...یار تو سمجھتا کیوں نہیں ہے یہ باریکیاں......
اور پھر بات نگراں وزیرِ اعظم کی نامزدگی پر ہی تھوڑا ٹل جائے گی...ہمیں اس وزیر پر اعتراض ہے...اس کا ماضی یوں...اس کا حال ووں... فلانے سے تو بہتر تھا کہ کسی جوکر کو لے لیا جاتا...دو کالمی ، تین کالمی ، ٹاک شو ، پریس کانفرنس ، ہلہ للالا...
یہ سب تب تک کسی پرانے محلے کی تنگ گلی میں بیٹھی فالتو جوروؤں کی طرح بتیاتے رہیں گے جب تک امیدواروں کی حتمی فہرست سامنے نہیں آجاتی۔اس کے بعد لپا ڈکی ، گالم گلوچ ، الزام تراشی ، شجرہ سازی کی فضا میں کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ جس نگراں وزیرِ اعظم کا رشتہ ڈھونڈنے کے لیے محلے کی سیاسی خالاؤںاور نانیوںدادیوںنے اس قدر ہا ہا کار مچائے رکھی وہ غریب کس کونے میں بیٹھا دہی سے روٹی کھا رہا ہے۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ پانچ سال کے دوران شہر میں میمو گیٹ ، بن لادن ، سوئس اکاؤنٹس ، دہری شہریت، جعلی ڈگری ، ٹیکس چوری ، رینٹل پاور ، ذوالفقار آباد ، طاہر القادری ، گوادر پورٹ ، گورنر راج کے نام پر کیسا کیسا سرکس آیا اور چلا گیا...اب وقت پیٹنے کو کچھ نہیں تو ٹائم پاس کے لیے نگراں وزیرِ اعظم کا نام ہی سہی......
بے کار مباش کچھ کام کیا کر
پاجامہ ادھیڑ کر پھر سیا کر
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )
ویسے تو بادشاہ آج بھی اسی اصول کے تحت ہی بنتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ پہلے یہ کام بھولی بھالی رعایا سیدھے سبھاؤ انداز میں کرتی تھی۔ اب یہی کام سیاسی جماعتیں غیر سیاسی اصحاب الرائے کے مشورے سے فنکارانہ طریقے سے کرتی ہیں۔ ایک عام آدمی اور ایک منجھے ہوئے آرٹسٹ کے کام میں یہی بنیادی فرق تو ہوتا ہے۔
فنکار بگلہ بھی پکڑنے جائے گا تو پہلے چپکے سے کہنیوں کے بل رینگتا ہوا ایک لمبا چکر کاٹ کے بگلے کے قریب پہنچے گا۔اس کے سر پر ایسے موم رکھے گا کہ بگلے کو احساس ہی نہ ہو کہ اس کے ساتھ کیا ہاتھ ہورہا ہے۔پھر یہی موم سورج کی گرمی سے پگھل کر بگلے کی آنکھوں میں گھس جائے گی اور جب بگلہ اندھا ہوجائے گا تب فن کار آرام سے اسے گردن سے پکڑ کر تماشائیوں کی داد وصول کرے گا۔
ایسے ہی کسی فن کار سے ایک دیہاتی نے پوچھا کہ استاد جی جب آپ بگلے کے اتنے قریب پہنچ جاتے ہو کہ آسانی سے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال سکو تو پھر موم سر پر رکھنے کے ناٹک کی کیا ضرورت ہے۔فن کار نے کہا کہ بات تو تیری ٹھیک ہے۔ ایسے تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔مگر یہ فنکاری تو نہ ہوئی۔تیرے اور میرے بیچ یہی تو فرق ہے......
جب تک انیسویں آئینی ترمیم کا ٹنٹا نہیں تھا تو صدرِ مملکت کسی بھی معقول سے تیسرے آدمی کو پنچوں کے مشورے سے نگراں وزیرِ اعظم نامزد کرسکتا تھا۔ اس کا بنیادی کام ہی یہ تھا کہ وہ نئی حکومت کے انتخاب تک پیدا ہونے والے خلا کو پورا کرے اور انتخابات کے بعد اقتدار کی چابی آنے والے کے حوالے کر کے گھر کی راہ لے۔اللہ اللہ خیر صلا۔
لیکن پہلی دفعہ اب یہ کام چونکہ فن کاروں کے حوالے کردیا گیا ہے لہذا ہر کوئی ٹپوسیاں مار رہا ہے۔کبھی اس تنے پر چڑھ رہا ہے، کبھی اس درخت سے چھلانگ مار رہا ہے اور بازار بند ہونے سے پہلے پہلے زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔گویا نگراں وزیرِاعظم کاانتخاب نا ہوااوچھے کے ہاتھ میں تیتر ہوگیا...گویا بچے کھلونوں کی دکان میں گھس گئے ہیں اور طے نہیں کر پارہے کہ ریل گاڑی خریدنی ہے کہ طیارہ کہ سائیکل کہ سپر مین کہ پزل بکس......
جو خوبیاں کسی نے پانچ سال کے لیے منتخب وزیرِاعظم میں آج تک نہیں ڈھونڈیں وہ خوبیاں دو مہینے کے وزیرِ اعظم میں ڈھونڈی جارہی ہیں...
نہیں نہیں یہ نہیں چلے گا، اس کی عمر زیادہ ہے... کیا یہ بھی نہیں؟؟ بالکل نہیں...اس کے تو سامنے کے دو دانت ہی غائب ہیں...اور وہ؟... نہیں یار خدا کا خوف کرو بولتا ہے تو لگتا ہے کسی نے کانوں میں صور پھونک دیا...اور وہ والا ؟؟...بندہ تو اچھا ہے مگر زرداری کی طرف سے نام آیا ہے، اس لیے مجھے کچھ شک سا ہے...اچھا اسے ہی منتخب کرلو؟...سوال ہی نہیں پیدا ہوتا...میں نے اس کی ایک پرانی تصویر دیکھی ہے جس میں یہ نواز شریف سے ہنس ہنس کے باتیں کررہا تھا...تو پھر کسے نامزد کریں، اب فرشتہ تو آنے سے رہا؟...ہوجائے گا فیصلہ ہو جائے گا... فرشتے کسی نا کسی فرشتے کو تو ڈھونڈھ ہی لیں گے اور پھر سب متفق بھی ہوجائیں گے...پہلے دن ہی اگر یہ خوش اسلوبی سے ہوجاتا تو پانچ چھ دن میڈیا کو کیا بیچتے...یار تو سمجھتا کیوں نہیں ہے یہ باریکیاں......
اور پھر بات نگراں وزیرِ اعظم کی نامزدگی پر ہی تھوڑا ٹل جائے گی...ہمیں اس وزیر پر اعتراض ہے...اس کا ماضی یوں...اس کا حال ووں... فلانے سے تو بہتر تھا کہ کسی جوکر کو لے لیا جاتا...دو کالمی ، تین کالمی ، ٹاک شو ، پریس کانفرنس ، ہلہ للالا...
یہ سب تب تک کسی پرانے محلے کی تنگ گلی میں بیٹھی فالتو جوروؤں کی طرح بتیاتے رہیں گے جب تک امیدواروں کی حتمی فہرست سامنے نہیں آجاتی۔اس کے بعد لپا ڈکی ، گالم گلوچ ، الزام تراشی ، شجرہ سازی کی فضا میں کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ جس نگراں وزیرِ اعظم کا رشتہ ڈھونڈنے کے لیے محلے کی سیاسی خالاؤںاور نانیوںدادیوںنے اس قدر ہا ہا کار مچائے رکھی وہ غریب کس کونے میں بیٹھا دہی سے روٹی کھا رہا ہے۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ پانچ سال کے دوران شہر میں میمو گیٹ ، بن لادن ، سوئس اکاؤنٹس ، دہری شہریت، جعلی ڈگری ، ٹیکس چوری ، رینٹل پاور ، ذوالفقار آباد ، طاہر القادری ، گوادر پورٹ ، گورنر راج کے نام پر کیسا کیسا سرکس آیا اور چلا گیا...اب وقت پیٹنے کو کچھ نہیں تو ٹائم پاس کے لیے نگراں وزیرِ اعظم کا نام ہی سہی......
بے کار مباش کچھ کام کیا کر
پاجامہ ادھیڑ کر پھر سیا کر
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )