ایک نشست پروفیسر سحر انصاری کے ساتھ آخری حصہ
سحر انصاری سے انٹرویو لینے یا گفتگو کرنے کی خاص وجہ یہ بھی تھی کہ اب ان جیسے وضع دار بہت کم نظر آتے ہیں۔
شہرت اور ترقی کے حصول کے لیے اکثر حضرات شارٹ کٹ استعمال کرتے ہیں اور نت نئے طریقوں سے راتوں رات نمایاں ہوجاتے ہیں، کیا یہ طریقہ درست ہے؟ انھوں نے ہمارے سوال کے جواب میں کہا۔
بالکل درست نہیں ہے، جو کھوٹے سکے ہوتے ہیں وہ مماثلات میں تو اصل کی طرح ہوتے ہیں لیکن بازار میں ناقابل استعمال ہوتے ہیں۔ آج کل مشاعروں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ مشاعرے ہماری تہذیب کا اہم حصہ رہے ہیں اور ایک زمانے میں شعرا کا معیار اور آداب مشاعرہ ایک تاریخی حیثیت رکھتے تھے، رفتہ رفتہ یہ ادارہ انحطاط کا شکار ہوگیا۔ کمرشل ازم اور اداکاری کا دخل زیادہ ہوگیا اور ظاہری سجاوٹ کو زیادہ اہمیت ملنے لگی، چنانچہ اب اکثر یہ تبصرہ سننے میں آتا ہے کہ مشاعرہ اب سننے کی نہیں دیکھنے کی چیز ہوگیا ہے۔
ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ یہ روایت بھی بڑی قدیم ہے کہ ممتاز شعرا، شہرت کی طلب گار خواتین کو شاعری، نظم یا غزل کی شکل میں لکھ کر دیتے ہیں، یہ رویہ درست ہے؟ انھوں نے کہا مختصراً کہا، نہیں، بالکل درست نہیں ہے۔ میرا ذاتی خیال بھی یہ ہے کہ سچی خوشی اور تسکین روح کا سامان تو اپنی تخلیقیت سے ہی حاصل ہوتا ہے، باقی سب وقتی اور پانی میں جھاگ کی طرح ہے۔
سحر انصاری آج ادب کی جو صورتحال ہے اس میں طمانیت کا گزر ذرا کم ہی کم ہے؟ اس کی وجہ شاید ادبی گروہ بندی ہے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب میں انھوں نے کہا کہ اگر جینوئن قلم کاروں کو آگے نہ بڑھایا جائے، ان کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے، میرے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے، کیونکہ ادب کا سفر اولمپک مشعل کی طرح ہے، جو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک پہنچتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ادب کا مستقبل ایک اندھی گلی کی طرح کچھ نہ رہے گا۔
ان کی زندگی کے خوشگوار اور مایوس کن واقعے کے حوالے سے کیے گئے سوال پر سحر انصاری اس طرح گویا ہوئے کہ سقوط حیدرآباد دکن اور سانحہ مشرقی پاکستان نے شدید صدمہ پہنچایا۔ اور یہ ایسے واقعات ہیں جو ناقابل فراموش بن چکے ہیں۔ ان سانحات پر میری ایک نظم بھی ہے ''نسل زیاں گزیدہ'' جوکہ ''نمود'' میں شامل ہے۔ دل کو خوشی و انبساط سے قریب تر کرنے والا واقعہ میٹرک کے امتحان میں کامیابی تھی، گھر والے تو گھر والے بلکہ اہل محلہ بھی خوشی میں شریک تھے۔
انھوں نے شاعری کے بدلتے ہوئے رجحان کے حوالے سے ہمارے سوال کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ 20 برس میں نعتیہ کلام زیادہ لکھا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ''حمد'' اور ''نعت رنگ'' جیسے رسالے اشاعت کے مرحلے سے گزر رہے ہیں اور ان تحقیقی جرائد پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالے لکھے جا رہے ہیں۔
ہم نے ان سے ان کا نعتیہ کلام اور خصوصاً ان کے پسندیدہ اشعار بھی سنے، نذر قارئین:
کسی نے اس سے پہلے معجزہ ایسا نہیں دیکھا
کہ شق ہونے کی خواہش خود مہِ کامل میں آجائے
محفل ہو کہ دربار، سدا رشک کریں گے
اے غار حرا کیا تجھے تنہائی ملی ہے
دامن میں آپؐ کے ہیں دو عالم کی نعمتیں
ہر زاویہ سے سورۂ رحمن آپؐ ہیں
پروفیسر سحر انصاری کراچی یونیورسٹی کے ہر دلعزیز استاد اور اردو ڈپارٹمنٹ کے انچارج رہے ہیں۔ ادب کی ان بڑی شخصیات میں ان کا شمار ہوتا ہے جنھیں ہم سکہ بند ادیب کہتے ہیں۔ ان کی علمیت، قابلیت اور صلاحیتوں سے طلبا نے بھرپور طریقے سے استفادہ کیا اور آج وہی طلبا اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے علاوہ اردو لغت بورڈ، وفاقی اردو یونیورسٹی، جناح یونیورسٹی برائے خواتین، جاپان یونیورسٹی ڈائتوبنکا، اور اسٹڈی سینٹر میں بھی خدمات انجام دیں۔ سحر انصاری کی علمیت اور دانشوری کے حوالے سے ان کے قدردان انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور ادبی محافل میں مدعو کرنا اعزاز کی بات سمجھتے ہیں۔ بے پناہ شہرت ملنے کے باوجود ان میں جذبہ تکبر پیدا نہ ہوا، گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ دن میں کئی بار توبہ کرتا ہوں کہ اﷲ مجھے غرور سے بچائے رکھے، شاید یہی وجہ ہے کہ پروفیسر سحر انصاری کی شخصیت انکساری و عاجزی کا پیکر نظر آتی ہے۔ وہ اپنے جونیئر و سینئر سب سے یکساں انداز میں اظہار تکلم کرتے ہیں۔
ان کی تدریسی و تخلیقی صلاحیتوں کی بنا پر حکومت پاکستان کی طرف سے 2010 میں تمغہ امتیاز اور 2016 میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا اور 2 سال قبل امریکا کے 11 شہروں اور کینیڈا کے ایک شہر ٹورنٹو میں علی گڑھ یونیورسٹی المنائی کی طرف سے جشن سحر انصاری منایا گیا اور ہیوسٹن میں علی سردار جعفری ایوارڈ دیا گیا۔ بے شک وہ اس تعریف و توصیف اور اعزازات کے مستحق تھے کہ انھوں نے ادب کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے۔ بے شمار کتابوں پر سحر انصاری نے پیش لفظ، مقدمہ اور تبصروں اور تجزیوں کی صورت میں تحریریں قلم بند کی ہیں، اگر ان کے افکار اور تنقیدی مضامین کو یکجا کرلیا جائے تو یہ کتابی شکل میں محفوظ ہوسکتے ہیں اور ایسا کرنا کسی بھی پبلشنگ ادارے کے لیے مشکل نہیں ہے۔ سحر انصاری نے مختلف زبانوں کے تراجم بھی کیے ہیں، ان ترجموں کو بھی یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔
سحر انصاری سے انٹرویو لینے یا گفتگو کرنے کی خاص وجہ یہ بھی تھی کہ اب ان جیسے وضع دار بہت کم نظر آتے ہیں، ورنہ آج کا دور تو ادبی لحاظ سے بلکہ ہر لحاظ سے پرآشوب ہے، افراتفری اور چھینا جھپٹی کا عالم ہے، ایوارڈ مل جائیں تو ایک ہی شخص کو ملیں اور وہ شخص محض تعلقات، سفارش، دھونس اور زبردستی سے دوسروں کو کچلتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ لیکن یہ بھی حق ہے کہ صدق و کذب میں تفریق ہر مشہور شخص آسانی سے کرسکتا ہے۔
سحر انصاری سے جب ہم نے یہ سوال کیا کہ آپ شاعر ہیں، ادیب ہیں اور نقاد ہیں، ان تینوں اصناف میں سے آپ کے لیے کس صنف کی تخلیقیت باعث تسکین ہے؟ انھوں نے برملا جواب دیا ''شاعری''۔ سحر انصاری کے دو بھائی حیات ہیں، ایک پاکستان اور دوسرے امریکا میں رہائش پذیر ہیں۔
آساں نہیں ہے کشمکش ذات کا سفر
ہے آگہی کے بعد غمِ آگہی بہت
پروفیسر سحر انصاری کی شاعری قارئین کے لیے سوچ کے نئے در وا کرتی ہے۔
بالکل درست نہیں ہے، جو کھوٹے سکے ہوتے ہیں وہ مماثلات میں تو اصل کی طرح ہوتے ہیں لیکن بازار میں ناقابل استعمال ہوتے ہیں۔ آج کل مشاعروں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ مشاعرے ہماری تہذیب کا اہم حصہ رہے ہیں اور ایک زمانے میں شعرا کا معیار اور آداب مشاعرہ ایک تاریخی حیثیت رکھتے تھے، رفتہ رفتہ یہ ادارہ انحطاط کا شکار ہوگیا۔ کمرشل ازم اور اداکاری کا دخل زیادہ ہوگیا اور ظاہری سجاوٹ کو زیادہ اہمیت ملنے لگی، چنانچہ اب اکثر یہ تبصرہ سننے میں آتا ہے کہ مشاعرہ اب سننے کی نہیں دیکھنے کی چیز ہوگیا ہے۔
ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ یہ روایت بھی بڑی قدیم ہے کہ ممتاز شعرا، شہرت کی طلب گار خواتین کو شاعری، نظم یا غزل کی شکل میں لکھ کر دیتے ہیں، یہ رویہ درست ہے؟ انھوں نے کہا مختصراً کہا، نہیں، بالکل درست نہیں ہے۔ میرا ذاتی خیال بھی یہ ہے کہ سچی خوشی اور تسکین روح کا سامان تو اپنی تخلیقیت سے ہی حاصل ہوتا ہے، باقی سب وقتی اور پانی میں جھاگ کی طرح ہے۔
سحر انصاری آج ادب کی جو صورتحال ہے اس میں طمانیت کا گزر ذرا کم ہی کم ہے؟ اس کی وجہ شاید ادبی گروہ بندی ہے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب میں انھوں نے کہا کہ اگر جینوئن قلم کاروں کو آگے نہ بڑھایا جائے، ان کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے، میرے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے، کیونکہ ادب کا سفر اولمپک مشعل کی طرح ہے، جو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک پہنچتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ادب کا مستقبل ایک اندھی گلی کی طرح کچھ نہ رہے گا۔
ان کی زندگی کے خوشگوار اور مایوس کن واقعے کے حوالے سے کیے گئے سوال پر سحر انصاری اس طرح گویا ہوئے کہ سقوط حیدرآباد دکن اور سانحہ مشرقی پاکستان نے شدید صدمہ پہنچایا۔ اور یہ ایسے واقعات ہیں جو ناقابل فراموش بن چکے ہیں۔ ان سانحات پر میری ایک نظم بھی ہے ''نسل زیاں گزیدہ'' جوکہ ''نمود'' میں شامل ہے۔ دل کو خوشی و انبساط سے قریب تر کرنے والا واقعہ میٹرک کے امتحان میں کامیابی تھی، گھر والے تو گھر والے بلکہ اہل محلہ بھی خوشی میں شریک تھے۔
انھوں نے شاعری کے بدلتے ہوئے رجحان کے حوالے سے ہمارے سوال کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ 20 برس میں نعتیہ کلام زیادہ لکھا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ''حمد'' اور ''نعت رنگ'' جیسے رسالے اشاعت کے مرحلے سے گزر رہے ہیں اور ان تحقیقی جرائد پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالے لکھے جا رہے ہیں۔
ہم نے ان سے ان کا نعتیہ کلام اور خصوصاً ان کے پسندیدہ اشعار بھی سنے، نذر قارئین:
کسی نے اس سے پہلے معجزہ ایسا نہیں دیکھا
کہ شق ہونے کی خواہش خود مہِ کامل میں آجائے
محفل ہو کہ دربار، سدا رشک کریں گے
اے غار حرا کیا تجھے تنہائی ملی ہے
دامن میں آپؐ کے ہیں دو عالم کی نعمتیں
ہر زاویہ سے سورۂ رحمن آپؐ ہیں
پروفیسر سحر انصاری کراچی یونیورسٹی کے ہر دلعزیز استاد اور اردو ڈپارٹمنٹ کے انچارج رہے ہیں۔ ادب کی ان بڑی شخصیات میں ان کا شمار ہوتا ہے جنھیں ہم سکہ بند ادیب کہتے ہیں۔ ان کی علمیت، قابلیت اور صلاحیتوں سے طلبا نے بھرپور طریقے سے استفادہ کیا اور آج وہی طلبا اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے علاوہ اردو لغت بورڈ، وفاقی اردو یونیورسٹی، جناح یونیورسٹی برائے خواتین، جاپان یونیورسٹی ڈائتوبنکا، اور اسٹڈی سینٹر میں بھی خدمات انجام دیں۔ سحر انصاری کی علمیت اور دانشوری کے حوالے سے ان کے قدردان انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور ادبی محافل میں مدعو کرنا اعزاز کی بات سمجھتے ہیں۔ بے پناہ شہرت ملنے کے باوجود ان میں جذبہ تکبر پیدا نہ ہوا، گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ دن میں کئی بار توبہ کرتا ہوں کہ اﷲ مجھے غرور سے بچائے رکھے، شاید یہی وجہ ہے کہ پروفیسر سحر انصاری کی شخصیت انکساری و عاجزی کا پیکر نظر آتی ہے۔ وہ اپنے جونیئر و سینئر سب سے یکساں انداز میں اظہار تکلم کرتے ہیں۔
ان کی تدریسی و تخلیقی صلاحیتوں کی بنا پر حکومت پاکستان کی طرف سے 2010 میں تمغہ امتیاز اور 2016 میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا اور 2 سال قبل امریکا کے 11 شہروں اور کینیڈا کے ایک شہر ٹورنٹو میں علی گڑھ یونیورسٹی المنائی کی طرف سے جشن سحر انصاری منایا گیا اور ہیوسٹن میں علی سردار جعفری ایوارڈ دیا گیا۔ بے شک وہ اس تعریف و توصیف اور اعزازات کے مستحق تھے کہ انھوں نے ادب کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے۔ بے شمار کتابوں پر سحر انصاری نے پیش لفظ، مقدمہ اور تبصروں اور تجزیوں کی صورت میں تحریریں قلم بند کی ہیں، اگر ان کے افکار اور تنقیدی مضامین کو یکجا کرلیا جائے تو یہ کتابی شکل میں محفوظ ہوسکتے ہیں اور ایسا کرنا کسی بھی پبلشنگ ادارے کے لیے مشکل نہیں ہے۔ سحر انصاری نے مختلف زبانوں کے تراجم بھی کیے ہیں، ان ترجموں کو بھی یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔
سحر انصاری سے انٹرویو لینے یا گفتگو کرنے کی خاص وجہ یہ بھی تھی کہ اب ان جیسے وضع دار بہت کم نظر آتے ہیں، ورنہ آج کا دور تو ادبی لحاظ سے بلکہ ہر لحاظ سے پرآشوب ہے، افراتفری اور چھینا جھپٹی کا عالم ہے، ایوارڈ مل جائیں تو ایک ہی شخص کو ملیں اور وہ شخص محض تعلقات، سفارش، دھونس اور زبردستی سے دوسروں کو کچلتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ لیکن یہ بھی حق ہے کہ صدق و کذب میں تفریق ہر مشہور شخص آسانی سے کرسکتا ہے۔
سحر انصاری سے جب ہم نے یہ سوال کیا کہ آپ شاعر ہیں، ادیب ہیں اور نقاد ہیں، ان تینوں اصناف میں سے آپ کے لیے کس صنف کی تخلیقیت باعث تسکین ہے؟ انھوں نے برملا جواب دیا ''شاعری''۔ سحر انصاری کے دو بھائی حیات ہیں، ایک پاکستان اور دوسرے امریکا میں رہائش پذیر ہیں۔
آساں نہیں ہے کشمکش ذات کا سفر
ہے آگہی کے بعد غمِ آگہی بہت
پروفیسر سحر انصاری کی شاعری قارئین کے لیے سوچ کے نئے در وا کرتی ہے۔