ہم قربانی کا بکرا نہیں ہیں
امریکا کو تو کوئی نہ کوئی قربانی کا بکرا چاہیے جس کی وہ وہ ہر وقت تلا ش میں رہتا ہے۔
ملک کے اندر سیاسی اور وسماجی جنگ کا ایک محاذ ٹھنڈا نہیں ہوتا کہ ہم ایک دوسرامحاذ کھول دیتے ہیں۔ آخر ہم چاہتے کیا ہیں، کوئی دن نہیں جاتا جب ہم کوئی ایسا نیا شوشا نہ چھوڑیں جو ملکی حالات کو مزید بگاڑ کی طرف لے جا سکتا ہے۔
ہماری نئی حکومت کا تو حال یہ ہے کہ اس نے کوئی بھی ڈھنگ کا کام نہیں کیا شاید اس کو اس بات کی اجازت ہی نہیں ہے اور اس تاثر کو مزید تقویت دینی ہے کہ جب تک میاں نواز شریف حکمران رہے دن دگنی رات چوگنی ترقی کا عمل جاری رہا اور ان کے بعد ان کے ہی پروردہ حکمران جو ان کے طفیل ہی حکومت کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں اس قابل نہیں ہیںکہ وہ ملکی ترقی و بہتری کا کوئی کام سرانجام دے سکیں۔
ملک کا آئین اپنی جگہ موجود ہے جس کے تحت ریاست کا انتظام چل رہا ہے البتہ ہم نے اس میں من پسند ترامیم کے ذریعے اس کو متنارع بنانے کی ہر ممکن کوشش کر لی ہے اور اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ ملک میں صنعتی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے کہ صنعتوں کے سب سے بڑے دعویدار ہمارے حکمران اپنی دکان اب آگے بڑھا گئے ہیں اور جن صنعتوں نے پاکستان میں ان کو کھرب پتی بنایا تھا وہ صنعتیں اب صد حیف سعودی عرب اور ان کی آمدنی برطانیہ کی ترقی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
برآمد کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر سامان موجود نہیں جو تھوڑا بہت سامان برآمد ہو رہا ہے وہ ہماری چھوٹی صنعتوں کی مالکان کی ہمت اور ان کے ذاتی تعلقات کی بنیاد پربرآمد ہو تا ہے حکومت نے تو اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جس کے نتائج مقامی صنعتوں کی بندش کی صورت میں ہم بھگت رہے ہیں اور ان کی جگہ اب چین کی ناقص مصنوعات لے رہے ہیں اور عوام ان کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
اسٹاک مارکیٹ جس کے بارے میں بلند و بانگ دعوے کیے گئے تھے وہ اپنی مصنوعی بلندی بر قرار نہیں رکھ سکی اور اپنے وزیر خزانہ کے لیٹتے ہی خود بھی لیٹ گئی ہے اور تو اور قرض کی مے پی کر مصنوعی طریقوں سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کا مژدہ سنایا گیا لیکن جیسے ہی سیاسی حالات میں اونچ نیچ ہوئی تو ڈالر کو بھی پر لگ گئے اور اس کی اڑان اوپر سے اوپر کی طرف ہی جا رہی ہے اور حکومت نے اب سرکاری طور پر اپنی کرنسی کی قیمت میں کمی کا منصوبہ بنا لیا ہے اس لیے توقع رکھنی چاہیے کہ ڈالر کی یہ اڑان کافی اوپر تک جائے گی اس لیے زرمبادلہ کے ذخائر پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔
ملکی قرضوں میں بیٹھے بٹھائے مزید اضافہ ہونے والا ہے۔ لاکھوں کروڑوں ڈالر کے بجلی فراہمی کے منصوبے اتنی افادیت کے نظر نہیں آتے جتنی لاگت ان کے مکمل کرنے پر آ رہی ہے، بلکہ ان میں سے جو مکمل ہو چکے ہیں وہ بھی حکومت نے برائے فروخت رکھ دیے ہیں۔ لیکن ان کی اصل لاگت بھی ان کی فروخت سے پوری ہونے کی توقع نہیں۔ زراعت ہمارے زرعی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کہلاتی ہے اور سب سے بڑی فصل کپاس ہے جس سے سب سے زیادہ زر مبادلہ حاصل ہوتا تھا۔
ایک زمانہ تھا کہ یہ زر مبادلہ ہمارا خزانہ بھر دیتا تھا۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ہم نے پہلے تو بیرون ملک منڈیوں میں اپنی کمزور مارکیٹنگ سے اپنی برآمدات کو محدود کیا اور پھر سونے پہ سہاگے کا کام کرتے ہوئے کپاس پیدا کرنے والے علاقوں میں شوگر ملیں لگا لیں تا کہ وہاں کے کسان بھی کپاس کے بجائے گنا کاشت کریں اور شوگر مل مالکان کے بارے میں تو سب کو معلوم ہے کہ یہ کن لوگوں کو ملکیت ہیں اور اب تو عدالت نے بھی کپاس کے علاقوں میں شوگر ملوں کی منتقلی کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
دیکھتے ہیں کہ عدالت کے اس فیصلے پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے۔ ملاوٹی دواؤں، کھاد کی ہوشربا قیمتوں اور بجلی اور ڈیزل کے نرخوں نے فصلوں کی پیداوار کو تباہ کر دیا ہے۔ کاشتکاروں کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انھیں بجلی کس نرخ پر ملتی رہے گی اور ڈیزل کی قیمت کیا ہو گی جس کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار کا بہت نقصان ہوا ہے اور وہ کوئی منصوبہ بندی کرنے سے قاصر رہا ہے۔ جس ملک میں صنعت نہ ہو وہاںروز گار کے مواقع کہاں سے آئیں گے اور غربت کیسے دور ہو گی۔
اس پھیلی ہوئی غربت نے ہمارا امن و امان چھین لیا ہے۔ ڈاکے اور چوریاں اسی غربت کے رد عمل کا نتیجہ ہیں۔ قوم کے ذہن رفتہ رفتہ بگڑ گئے اور سڑکوں پر حادثے اسی بے چین ذہن کی وجہ سے ہیں۔ جتنے لوگ روز حادثوں کی نظر ہو رہے ہیں اتنے تو جنگوں میں بھی نہیں کام نہیں آئے۔
جن لوگوں کے پاس سرمایہ ہے وہ اسے منجمد کر کے بیٹھ گئے ہیں کیونکہ سرمایہ کاری کے مواقع اسحاق ڈار کی وزارت خزانہ نے ٹیکسوں کی بھر مار کر کے ختم کر دئے ہیں اور اب تو کاروباری لوگ بھی نقد سودا لینے دینے کو تریج دیتے ہیں، جس کی وجہ بینکوں سے رقوم نکالنے پر بھی ٹیکس اور جمع کرانے پر بھی ٹیکس اور پوچھ گچھ علیحد ہے۔ قومی مسائل کا بلکہ مصائب کا شمار کرنے لگیں تو ان کا ذکر ختم نہیں ہوتا مگر اصلاح احوال کی طرف کسی پیش قدمی کا سراغ نہیں ملتا۔
اخبارات میں اشتہارات اور بیانوں کی بھرمار جاری ہے جو ناکام حکومتوں میں ہمیشہ رہتی ہے۔ قوم کے مستقل اور پرانے مسائل جوں کے توں ہیں اور ان میں نئے مسائل کا شوقیہ اضافہ کیا جا رہا ہے جو کوئی اس کے بارے میں کھل کر بول رہا ہے اس کو کسی ان دیکھی طاقت سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اور یوں اپنے آپ کو ان مسائل سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان اس وقت چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے اس کو اس وقت قومی یکجہتی کی ضرورت ہے لیکن یکجہتی کے بجائے قومی کمزوریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے باجود بیرونی خطروں سے ہمیں خود ہی نپٹنا ہے۔
امریکا کو تو کوئی نہ کوئی قربانی کا بکرا چاہیے جس کی وہ وہ ہر وقت تلا ش میں رہتا ہے۔ ہماری رہی سہی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور جیسے تیسے قومی یکجہتی کے لیے اپنی ذاتی رنجشیں بھلا دینی چاہئیں۔ پاکستان کمزور ہوتا جا رہا ہے قوم کا موروال گر رہا ہے یہ فارن ایکسچینج اور ایٹم بم ہمیں نہیں بچا سکیں گے ہمارا قومی جذبہ ہی ہمارا اصل محافظ ہے اور کون نہیں جانتا کہ قومی جذبہ کیا ہے اور کیسے پیدا ہوتا ہے اور کیسے اس میں سر شار ہو کر قوم اپنی سلامتی کے لیے مر مٹتی ہے۔ ہمارے نظریاتی سیاستدان یہ سب کچھ کر سکتے ہیں بس نیت ٹھیک ہونی چاہیے۔ پاکستان خدا کی مدد سے چلتا ہی رہے گا اور چل رہا ہے۔
ہماری نئی حکومت کا تو حال یہ ہے کہ اس نے کوئی بھی ڈھنگ کا کام نہیں کیا شاید اس کو اس بات کی اجازت ہی نہیں ہے اور اس تاثر کو مزید تقویت دینی ہے کہ جب تک میاں نواز شریف حکمران رہے دن دگنی رات چوگنی ترقی کا عمل جاری رہا اور ان کے بعد ان کے ہی پروردہ حکمران جو ان کے طفیل ہی حکومت کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں اس قابل نہیں ہیںکہ وہ ملکی ترقی و بہتری کا کوئی کام سرانجام دے سکیں۔
ملک کا آئین اپنی جگہ موجود ہے جس کے تحت ریاست کا انتظام چل رہا ہے البتہ ہم نے اس میں من پسند ترامیم کے ذریعے اس کو متنارع بنانے کی ہر ممکن کوشش کر لی ہے اور اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ ملک میں صنعتی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے کہ صنعتوں کے سب سے بڑے دعویدار ہمارے حکمران اپنی دکان اب آگے بڑھا گئے ہیں اور جن صنعتوں نے پاکستان میں ان کو کھرب پتی بنایا تھا وہ صنعتیں اب صد حیف سعودی عرب اور ان کی آمدنی برطانیہ کی ترقی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
برآمد کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر سامان موجود نہیں جو تھوڑا بہت سامان برآمد ہو رہا ہے وہ ہماری چھوٹی صنعتوں کی مالکان کی ہمت اور ان کے ذاتی تعلقات کی بنیاد پربرآمد ہو تا ہے حکومت نے تو اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جس کے نتائج مقامی صنعتوں کی بندش کی صورت میں ہم بھگت رہے ہیں اور ان کی جگہ اب چین کی ناقص مصنوعات لے رہے ہیں اور عوام ان کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
اسٹاک مارکیٹ جس کے بارے میں بلند و بانگ دعوے کیے گئے تھے وہ اپنی مصنوعی بلندی بر قرار نہیں رکھ سکی اور اپنے وزیر خزانہ کے لیٹتے ہی خود بھی لیٹ گئی ہے اور تو اور قرض کی مے پی کر مصنوعی طریقوں سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کا مژدہ سنایا گیا لیکن جیسے ہی سیاسی حالات میں اونچ نیچ ہوئی تو ڈالر کو بھی پر لگ گئے اور اس کی اڑان اوپر سے اوپر کی طرف ہی جا رہی ہے اور حکومت نے اب سرکاری طور پر اپنی کرنسی کی قیمت میں کمی کا منصوبہ بنا لیا ہے اس لیے توقع رکھنی چاہیے کہ ڈالر کی یہ اڑان کافی اوپر تک جائے گی اس لیے زرمبادلہ کے ذخائر پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔
ملکی قرضوں میں بیٹھے بٹھائے مزید اضافہ ہونے والا ہے۔ لاکھوں کروڑوں ڈالر کے بجلی فراہمی کے منصوبے اتنی افادیت کے نظر نہیں آتے جتنی لاگت ان کے مکمل کرنے پر آ رہی ہے، بلکہ ان میں سے جو مکمل ہو چکے ہیں وہ بھی حکومت نے برائے فروخت رکھ دیے ہیں۔ لیکن ان کی اصل لاگت بھی ان کی فروخت سے پوری ہونے کی توقع نہیں۔ زراعت ہمارے زرعی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کہلاتی ہے اور سب سے بڑی فصل کپاس ہے جس سے سب سے زیادہ زر مبادلہ حاصل ہوتا تھا۔
ایک زمانہ تھا کہ یہ زر مبادلہ ہمارا خزانہ بھر دیتا تھا۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ہم نے پہلے تو بیرون ملک منڈیوں میں اپنی کمزور مارکیٹنگ سے اپنی برآمدات کو محدود کیا اور پھر سونے پہ سہاگے کا کام کرتے ہوئے کپاس پیدا کرنے والے علاقوں میں شوگر ملیں لگا لیں تا کہ وہاں کے کسان بھی کپاس کے بجائے گنا کاشت کریں اور شوگر مل مالکان کے بارے میں تو سب کو معلوم ہے کہ یہ کن لوگوں کو ملکیت ہیں اور اب تو عدالت نے بھی کپاس کے علاقوں میں شوگر ملوں کی منتقلی کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
دیکھتے ہیں کہ عدالت کے اس فیصلے پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے۔ ملاوٹی دواؤں، کھاد کی ہوشربا قیمتوں اور بجلی اور ڈیزل کے نرخوں نے فصلوں کی پیداوار کو تباہ کر دیا ہے۔ کاشتکاروں کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انھیں بجلی کس نرخ پر ملتی رہے گی اور ڈیزل کی قیمت کیا ہو گی جس کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار کا بہت نقصان ہوا ہے اور وہ کوئی منصوبہ بندی کرنے سے قاصر رہا ہے۔ جس ملک میں صنعت نہ ہو وہاںروز گار کے مواقع کہاں سے آئیں گے اور غربت کیسے دور ہو گی۔
اس پھیلی ہوئی غربت نے ہمارا امن و امان چھین لیا ہے۔ ڈاکے اور چوریاں اسی غربت کے رد عمل کا نتیجہ ہیں۔ قوم کے ذہن رفتہ رفتہ بگڑ گئے اور سڑکوں پر حادثے اسی بے چین ذہن کی وجہ سے ہیں۔ جتنے لوگ روز حادثوں کی نظر ہو رہے ہیں اتنے تو جنگوں میں بھی نہیں کام نہیں آئے۔
جن لوگوں کے پاس سرمایہ ہے وہ اسے منجمد کر کے بیٹھ گئے ہیں کیونکہ سرمایہ کاری کے مواقع اسحاق ڈار کی وزارت خزانہ نے ٹیکسوں کی بھر مار کر کے ختم کر دئے ہیں اور اب تو کاروباری لوگ بھی نقد سودا لینے دینے کو تریج دیتے ہیں، جس کی وجہ بینکوں سے رقوم نکالنے پر بھی ٹیکس اور جمع کرانے پر بھی ٹیکس اور پوچھ گچھ علیحد ہے۔ قومی مسائل کا بلکہ مصائب کا شمار کرنے لگیں تو ان کا ذکر ختم نہیں ہوتا مگر اصلاح احوال کی طرف کسی پیش قدمی کا سراغ نہیں ملتا۔
اخبارات میں اشتہارات اور بیانوں کی بھرمار جاری ہے جو ناکام حکومتوں میں ہمیشہ رہتی ہے۔ قوم کے مستقل اور پرانے مسائل جوں کے توں ہیں اور ان میں نئے مسائل کا شوقیہ اضافہ کیا جا رہا ہے جو کوئی اس کے بارے میں کھل کر بول رہا ہے اس کو کسی ان دیکھی طاقت سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اور یوں اپنے آپ کو ان مسائل سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان اس وقت چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے اس کو اس وقت قومی یکجہتی کی ضرورت ہے لیکن یکجہتی کے بجائے قومی کمزوریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے باجود بیرونی خطروں سے ہمیں خود ہی نپٹنا ہے۔
امریکا کو تو کوئی نہ کوئی قربانی کا بکرا چاہیے جس کی وہ وہ ہر وقت تلا ش میں رہتا ہے۔ ہماری رہی سہی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور جیسے تیسے قومی یکجہتی کے لیے اپنی ذاتی رنجشیں بھلا دینی چاہئیں۔ پاکستان کمزور ہوتا جا رہا ہے قوم کا موروال گر رہا ہے یہ فارن ایکسچینج اور ایٹم بم ہمیں نہیں بچا سکیں گے ہمارا قومی جذبہ ہی ہمارا اصل محافظ ہے اور کون نہیں جانتا کہ قومی جذبہ کیا ہے اور کیسے پیدا ہوتا ہے اور کیسے اس میں سر شار ہو کر قوم اپنی سلامتی کے لیے مر مٹتی ہے۔ ہمارے نظریاتی سیاستدان یہ سب کچھ کر سکتے ہیں بس نیت ٹھیک ہونی چاہیے۔ پاکستان خدا کی مدد سے چلتا ہی رہے گا اور چل رہا ہے۔