دہشت کی علامت ڈاکو شکیل دستی مقابلے میں ’’پار‘‘
ملزم 9 شہریوں کے قتل اور ڈکیتی کی درجنوں وارداتوں میں پولیس کو مطلوب تھا
شجاع آباد میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ڈاکو راج کا سلسلہ جاری تھا، خطرناک ڈاکوؤں کے گینگ اس علاقے میں خوف کی علامت بنے ہوئے تھے، مگر پولیس بھی ان کے خلاف کارروائی کے لئے پرعزم رہی۔
ضلعی پولیس نے کئی بار ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لئے ملتان سے اضافی نفری شجاع آباد بھیجی، ایلیٹ فورس نے دریا کے کنارے ڈاکوؤں کے خلاف متعدد آپریشن کئے، یوں یہ سلسلہ کئی سال سے جاری تھا، لیکن اس میں کامیابیاں اس وقت ملنا شروع ہوئیں جب خطرناک گینگ کا سربراہ رمضان عرف مانو لنگاہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ان دنوں مانو خان لنگاہ کا قریبی ساتھی شکیل دستی عرف شکیلا ملتان، مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازی خان اور قریبی علاقوں میں خوف کی علامت بن گیا۔
ظلم و بربریت کی داستان بن جانے والا شکیل احمد دستی ولد محمد رفیق سولہ سال کی عمر میں جرم کی دنیا میں داخل ہوا، سب سے پہلے اس کی دوستی عرفان دستی کے ساتھ ہوئی، جس کے ساتھ مل کر اس نے وارداتیں شروع کیں، اس کے کچھ عرصہ بعد اس کا رابطہ شفیق عرف شفیقا وینس کے ساتھ ہوا اور اس نے بھی گینگ میں شامل ہو کر لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ عرفان دستی اور شفیق عرف شفیقا پولیس مقابلوں میں مارے گئے مگر شکیل دستی بچنے میں کامیاب رہا، جس کے بعد خطرناک ڈاکو رمضان عرف مانا لنگاہ گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔
2016ء میں مانا لنگاہ بھی اپنے انجا م کو پہنچ گیا، جس کے بعد ملزم شکیل لاہور چلا گیا اور وہاں پر لکھا بک کے ساتھ مل کر وارداتیں شروع کر دیں۔ 2017 کے آغاز میں لکھا بک لاہور میں پولیس کے ہاتھوں مارا گیا، اس بار بھی شکیل دستی وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ ملزم لاہور سے واپس آ گیا اور مظفر گڑھ میں وارداتوں کا آغاز کردیا، ملزم علاقے میں خوف کی علامت بن گیا اس نے مختلف وارداتوں میں 9 افراد کو قتل کیا۔ اس کے علاوہ وہ ڈکیتی کی 36 سے زائد وارداتوں میں پولیس کو مطلوب تھا۔
اس خطرناک ڈاکو کی گرفتاری پر حکومت پنجاب نے دس لاکھ روپے کی انعامی رقم مقرر کر رکھی تھی۔ ملزم شکیل نے کچھ عرصہ قبل محمد یوسف ولد رفیق سکنہ لودھراں کے نام سے جعلی شناختی کارڈ بھی بنوا لیا۔ اس طرح اس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دفتر کی سکیورٹی کا پول بھی کھول دیا اسی ملزم نے مظفر گڑھ پولیس کے ایک مخبر عامر کو قتل کرکے اس کی ویڈیو بنائی اور یہ ویڈیو پولیس افسران کوبھیج دی۔ ملزم اکثر دریا پارکرکے شجاع آباد کے علاقے میں داخل ہوتا اور وارداتیں کرنے کے بعد فرار ہو جاتا تھا۔
ملزم کی گرفتاری کے لئے سی آئی اے سٹاف کے اے ایس آئی محمد رمضان گل اور ساجد نے دن رات محنت کی اور سائنسی بنیادوں پر اس کی تلاش کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک روز سی آئی اے سٹاف کی جانب سے شجاع آباد پولیس کو اطلاع دی گئی کہ ملزم دریا پار کرکے شجاع آباد میں داخل ہو چکا ہے، جس پر انسپیکٹر بشیر ہراج اپنی ٹیم کے ہمراہ متحرک ہو گیا۔
ملزم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک جگہ ناکہ لگا کر وارداتین کر رہا تھا کہ پولیس موقع پر پہنچ گئی جہاں فائرنگ کا تبادلہ ہوا تو مقابلے میں ایک ملزم ہلاک جبکہ اس کے ساتھی فرار ہو نے میں کامیاب ہو گئے۔ ہلاک ہو نے والے کی شناخت شکیل دستی کے نام سے ہوئی۔ اس طرح شجاع آباد میں خوف کی علامت سمجھا جانے والا خطرناک ڈاکو شکیل دستی عرف شکیلا اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
دوسری جانب ایک اور واقعہ میں کاؤنٹر ٹیئررازم ڈیپارٹمنٹ ملتان کو اطلاع ملی کہ دہشت گردی کے مختلف مقدمات میں مطلوب ملزم محمد اجمل اپنے پانچ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جلالپور پیروالا میں موجود ہے، جس پر سی ٹی ڈی ملتان نے جلالپور میں چھاپہ مارا تو ملزمان نے فائرنگ شروع کر دی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کی فائرنگ کے نتیجے میں محمد اجمل اور اس کا ایک نامعلوم ساتھی ہلاک ہو گیا جبکہ ملزمان کے دیگر ساتھی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے موقع سے فرار ہو گئے۔
ضلعی پولیس نے کئی بار ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لئے ملتان سے اضافی نفری شجاع آباد بھیجی، ایلیٹ فورس نے دریا کے کنارے ڈاکوؤں کے خلاف متعدد آپریشن کئے، یوں یہ سلسلہ کئی سال سے جاری تھا، لیکن اس میں کامیابیاں اس وقت ملنا شروع ہوئیں جب خطرناک گینگ کا سربراہ رمضان عرف مانو لنگاہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ان دنوں مانو خان لنگاہ کا قریبی ساتھی شکیل دستی عرف شکیلا ملتان، مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازی خان اور قریبی علاقوں میں خوف کی علامت بن گیا۔
ظلم و بربریت کی داستان بن جانے والا شکیل احمد دستی ولد محمد رفیق سولہ سال کی عمر میں جرم کی دنیا میں داخل ہوا، سب سے پہلے اس کی دوستی عرفان دستی کے ساتھ ہوئی، جس کے ساتھ مل کر اس نے وارداتیں شروع کیں، اس کے کچھ عرصہ بعد اس کا رابطہ شفیق عرف شفیقا وینس کے ساتھ ہوا اور اس نے بھی گینگ میں شامل ہو کر لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ عرفان دستی اور شفیق عرف شفیقا پولیس مقابلوں میں مارے گئے مگر شکیل دستی بچنے میں کامیاب رہا، جس کے بعد خطرناک ڈاکو رمضان عرف مانا لنگاہ گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔
2016ء میں مانا لنگاہ بھی اپنے انجا م کو پہنچ گیا، جس کے بعد ملزم شکیل لاہور چلا گیا اور وہاں پر لکھا بک کے ساتھ مل کر وارداتیں شروع کر دیں۔ 2017 کے آغاز میں لکھا بک لاہور میں پولیس کے ہاتھوں مارا گیا، اس بار بھی شکیل دستی وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ ملزم لاہور سے واپس آ گیا اور مظفر گڑھ میں وارداتوں کا آغاز کردیا، ملزم علاقے میں خوف کی علامت بن گیا اس نے مختلف وارداتوں میں 9 افراد کو قتل کیا۔ اس کے علاوہ وہ ڈکیتی کی 36 سے زائد وارداتوں میں پولیس کو مطلوب تھا۔
اس خطرناک ڈاکو کی گرفتاری پر حکومت پنجاب نے دس لاکھ روپے کی انعامی رقم مقرر کر رکھی تھی۔ ملزم شکیل نے کچھ عرصہ قبل محمد یوسف ولد رفیق سکنہ لودھراں کے نام سے جعلی شناختی کارڈ بھی بنوا لیا۔ اس طرح اس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دفتر کی سکیورٹی کا پول بھی کھول دیا اسی ملزم نے مظفر گڑھ پولیس کے ایک مخبر عامر کو قتل کرکے اس کی ویڈیو بنائی اور یہ ویڈیو پولیس افسران کوبھیج دی۔ ملزم اکثر دریا پارکرکے شجاع آباد کے علاقے میں داخل ہوتا اور وارداتیں کرنے کے بعد فرار ہو جاتا تھا۔
ملزم کی گرفتاری کے لئے سی آئی اے سٹاف کے اے ایس آئی محمد رمضان گل اور ساجد نے دن رات محنت کی اور سائنسی بنیادوں پر اس کی تلاش کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک روز سی آئی اے سٹاف کی جانب سے شجاع آباد پولیس کو اطلاع دی گئی کہ ملزم دریا پار کرکے شجاع آباد میں داخل ہو چکا ہے، جس پر انسپیکٹر بشیر ہراج اپنی ٹیم کے ہمراہ متحرک ہو گیا۔
ملزم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک جگہ ناکہ لگا کر وارداتین کر رہا تھا کہ پولیس موقع پر پہنچ گئی جہاں فائرنگ کا تبادلہ ہوا تو مقابلے میں ایک ملزم ہلاک جبکہ اس کے ساتھی فرار ہو نے میں کامیاب ہو گئے۔ ہلاک ہو نے والے کی شناخت شکیل دستی کے نام سے ہوئی۔ اس طرح شجاع آباد میں خوف کی علامت سمجھا جانے والا خطرناک ڈاکو شکیل دستی عرف شکیلا اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
دوسری جانب ایک اور واقعہ میں کاؤنٹر ٹیئررازم ڈیپارٹمنٹ ملتان کو اطلاع ملی کہ دہشت گردی کے مختلف مقدمات میں مطلوب ملزم محمد اجمل اپنے پانچ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جلالپور پیروالا میں موجود ہے، جس پر سی ٹی ڈی ملتان نے جلالپور میں چھاپہ مارا تو ملزمان نے فائرنگ شروع کر دی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کی فائرنگ کے نتیجے میں محمد اجمل اور اس کا ایک نامعلوم ساتھی ہلاک ہو گیا جبکہ ملزمان کے دیگر ساتھی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے موقع سے فرار ہو گئے۔