عراق پر حملہ امریکا اور برطانیہ نے جھوٹ کا سہارا لیا
اعلیٰ عہدیداروں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ صدام حسین کے پاس مہلک ہتھیار نہیں.
TUNIS:
عراق پر حملے کے لیے امریکہ اور برطانیہ نے جھوٹ کا سہارا لیا۔
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے عراق پر حملے سے پہلے ہی بعض اعلیٰ عہدیداروں نے یہ کہہ دیا تھا کہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیار نہیں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دراصل عراق پر حملہ دو عراقی جاسوسوں کی جھوٹی اطلاعات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ ان جاسوسوں کی من گھڑت معلومات اور جھوٹ ان خفیہ معلومات کی بنیاد تھے جن کے سبب عراق پر حملہ کیا گیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ حملے سے چھ ماہ پہلے ہی اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے صدام حسین کے مبینہ وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پیدا ہونے والے خطرات کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔ اسی دن 24 ستمبر 2002 کو برطانوی حکومت نے سابق عراقی لیڈر صدام حسین کے ہتھیاروں پر متنازعہ ڈوزیئر بھی شائع کیا تھا۔
عام لوگوں کے لیے جاری اس ڈوزیئر کا پیش لفظ خود وزیر اعظم بلیئر نے لکھا تھاتاکہ قارئین کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ صدام حسین 'بلا شبہ' مسلسل وسیع تباہی کے ہتھیار بنارہے ہیں۔ اس وقت برطانوی وزیر اعظم کے دفتر اور امریکہ کے وائٹ ہاؤس نے جنگ کے لیے جن خفیہ معلومات کا استعمال کیا وہ من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی تھی۔
جنگ کے بعد وسیع تباہی کے ہتھیاروں کے سلسلے میں پہلی سرکاری جانچ کی قیادت کرنے والے لارڈ بٹلر نے کہا تھا کہ ٹونی بلیئر اور خفیہ برادری نے 'خود کو گمراہ کیا'۔
عراق پر حملے کے لیے امریکہ اور برطانیہ نے جھوٹ کا سہارا لیا۔
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے عراق پر حملے سے پہلے ہی بعض اعلیٰ عہدیداروں نے یہ کہہ دیا تھا کہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیار نہیں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دراصل عراق پر حملہ دو عراقی جاسوسوں کی جھوٹی اطلاعات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ ان جاسوسوں کی من گھڑت معلومات اور جھوٹ ان خفیہ معلومات کی بنیاد تھے جن کے سبب عراق پر حملہ کیا گیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ حملے سے چھ ماہ پہلے ہی اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے صدام حسین کے مبینہ وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پیدا ہونے والے خطرات کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔ اسی دن 24 ستمبر 2002 کو برطانوی حکومت نے سابق عراقی لیڈر صدام حسین کے ہتھیاروں پر متنازعہ ڈوزیئر بھی شائع کیا تھا۔
عام لوگوں کے لیے جاری اس ڈوزیئر کا پیش لفظ خود وزیر اعظم بلیئر نے لکھا تھاتاکہ قارئین کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ صدام حسین 'بلا شبہ' مسلسل وسیع تباہی کے ہتھیار بنارہے ہیں۔ اس وقت برطانوی وزیر اعظم کے دفتر اور امریکہ کے وائٹ ہاؤس نے جنگ کے لیے جن خفیہ معلومات کا استعمال کیا وہ من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی تھی۔
جنگ کے بعد وسیع تباہی کے ہتھیاروں کے سلسلے میں پہلی سرکاری جانچ کی قیادت کرنے والے لارڈ بٹلر نے کہا تھا کہ ٹونی بلیئر اور خفیہ برادری نے 'خود کو گمراہ کیا'۔