خالہ رشیدہ اور کرنل معمر قذافی
سوال یہ ہے کہ ہم کھلے دل کے ساتھ سچائی کا اعتراف کیوں نہیں کرتے؟
آج کالم پڑھنے والوں سے بے ربط باتیں کرنے کا دل چاہ رہا ہے۔ میرا بیٹا جب بہت چھوٹا تھا، ایک دن بلی کو پریشان کر رہا تھا۔ وہ بلی کی دم پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہم نے اسے منع کیا مگر وہ مانا نہیں، کچھ دیر بعد اچانک صحن سے بلی کی میاؤں میاؤں تیز آواز بلند ہوئی۔ ہم نے بلند آواز میں کہا بیٹا! بلی کی دم مت کھینچو۔ بیٹے نے جواب دیا ''پاپا! بلی کی دم میں نہیں کھینچ رہا ہوں، بلی اپنی دم خود کھینچ رہی ہے، میں نے تو اس کی دم پر اپنا پاؤں رکھا ہوا ہے۔''
گزشتہ دنوں ہماری دور کے رشتے دار کی ایک خاتون، جنھیں ہم اور دیگر عزیز رشتے دار رشیدہ خالہ کے نام سے پکارتے ہیں، وہ گھر تشریف لائیں۔ حال احوال کے بعد اپنے بیٹے کی شکایت کرتے ہوئے بولیں کہ وہ بیوی کا غلام ہوگیا ہے، ہر وقت اس کی خدمت میں لگا رہتا ہے، ماں کا خیال ہی نہیں رکھتا۔ خالہ کی بات سن کر ہم نے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ ہم نے پوچھا خالہ! ابھی حال ہی میں آپ کی بیٹی کی شادی ہوئی ہے، ماشا اﷲ داماد کیسا ہے؟ ہمارا سوال سن کر انتہائی خوش ہوکر بولیں، ارے بیٹا! وہ تو مثالی شوہر ہے، بیٹی کا بڑا خیال رکھتا ہے اور ساس سسر کے گن گاتا ہے۔
ہم نے کہا خالہ! کہاں کا انصاف ہے؟ بیٹا بیوی کا خیال رکھے تو جورو کا غلام، اور داماد بیٹی کا خیال رکھے تو مثالی شوہر۔ خالہ! یہ تضاد کیوں؟ کہنے لگیں آدمی کو دونوں جانب کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہم نے کہا اس کوشش بالخصوص ساس اور بہو کے مابین لڑائی اور کشمکش میں آدمی سرکس میں رسی پر چلنے والا مداری بن جاتا ہے۔ کہنے لگیں، بیٹا! یہ تو آدمی کے لیے بہت اچھی بات ہے، کم ازکم یوم آخرت میں آدمی پل صراط سے آسانی سے گزر جائے گا۔ خالہ کی بات سن کر ہم ان کا منہ دیکھتے رہے گئے۔
قدیم زمانے میں ایک فلاسفر نے اس وقت کے بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ فلسفہ پڑھانے والوں کو سرکاری خزانے سے تنخواہ ادا کی جائے۔ بادشاہ نے اس کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا، وہ بادشاہ کے قدموں پر گر پڑا، بادشاہ نے اس کے مطالبے کو مان لیا۔ اس واقعے کے بعد لوگوں نے فلسفی کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا کہ تم مالی امداد کے لیے بادشاہ کے قدموں پر گرگئے۔ اس نے جواب دیا یہ میری غلطی نہیں ہے، بادشاہ کی غلطی ہے، اس کے کان اس کے پیروں (پاؤں) میں تھے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں، اس کے علاوہ میں کیا کرسکتا تھا۔
ہمارے ایک دوست جو ایک دینی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، ملاقات کے لیے آئے۔ ان سے مختلف موضوعات پر بات ہوئی۔ ہم سے کہنے لگے آپ کو پتا ہے کہ رائیٹسٹ اور لیفٹسٹ کسے کہتے ہیں؟
ہم نے کہا آپ جانتے ہیں کہ ہمارا علم بہت محدود ہے لیکن ہم نے اس لفظ کے بارے میں پڑھاہے، یہ سیاسی اصطلاحات ہیں جو پہلی بار فرانس میں استعمال ہوئی۔ فرانس انقلاب کے زمانے میں وہاں قومی اسمبلی میں دو بڑے سیاسی گروپ تھے، ایک گروپ بادشاہ کی حمایت کرتا تھا دوسرا گروپ انقلابی تبدیلیاں چاہتا تھا۔ بادشاہ کے حامی اسپیکر کے دائیں جانب بیٹھے جب کہ انقلاب پسند اسپیکر کے بائیں جانب بیٹھے۔ اس وقت سے شاہ پسندوں کو رائیٹسٹ اور انقلاب پسندوں کو لیفٹسٹ کہا جانے لگا۔ اس کے بعد ہمارے یہاں رائیٹسٹ کی اصطلاح روایت پسندوں بالخصوص دینی حلقوں کے لیے جب کہ لیفٹسٹ کی اصطلاح انقلاب پسند بالخصوص سیکولر عناصر کے لیے استعمال کی جانے لگی۔
ہماری بات سن کر بولے ایسا نہیں ہے۔ دراصل جو لوگ واقعات کو صحیح اور درست بیان کرتے ہیں وہ رائیٹسٹ کہلاتے ہیں جو غلط اور الٹا بیان کرتے ہیں وہ لیفٹسٹ کہلاتے ہیں۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا سیکولر عناصر مرد کی ایک سے زائد شادی کے خلاف ہیں، ان کے نزدیک اس عمل سے آبادی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، ان عناصر سے کوئی یہ سوال کرے کہ کیا ان عورتوں کی شادی اگر غیر شادی شدہ افراد سے کی جائے گی تو کیا بچے پیدا نہیں ہوں گے؟ اپنے دوست کی بات سن کر ہم نے انھیں کوئی جواب نہیں دیا۔
دوران گفتگو بجلی کے بحران پر بات ہوئی۔ کہنے لگے بجلی کا بحران چند دنوں میں حل ہوسکتا ہے۔ ہم نے کہا، وہ کیسے؟ کہنے لگے بس ملک کے تمام عوام سڑکوں پر آجائیں ۔ ہم نے کہا یہ غیر سائنسی سوچ ہے، اس عمل سے ملک میں انتشار، بدامنی اور تصادم میں اضافہ ہوگا، ہمیں بجلی کے بحران کے خاتمے کے لیے ڈیم بنانے ہوں گے۔ کہنے لگے ارے نہیں جناب! بس قوم ایک بار ایمان کی روشنی میں دلی جذبے کے ساتھ ایک بار سڑکوں پر آجائے، ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ ان کی بات سن کرہم نے کہا۔ ایمان کی روشنی میں عوامی قوت کے ساتھ جہاد تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی روشنی میں فلم کی عکس بندی (شوٹنگ) نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے لائٹ اور کیمروں کی ضرورت ہر حال میں ہوگی۔ ہماری بات سن کر ناگوار لہجے میں بولے یار! تم بھی لیفٹسٹ ہوگئے ہو۔
22 فروری 1991 میں ہندوستان ٹائمز میں ایک دلچسپ خبر شایع ہوئی جس کا عنوان تھا:
''ڈیموکریسی ایک عربی لفظ ہے۔''
رائٹر نے اس خبر میں بتایا کہ لیبیا کے فوجی صدر کرنل معمر قذافی نے قاہرہ میں ایک اجتماع میں جس میں ایک سو سے زائد مصری شریک تھے، ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''لوگ کہتے ہیں ڈیموکریسی یونانی لفظ ہے، یہ بات غلط ہے، درست بات یہ ہے کہ یہ عربی لفظ ہے جو دو لفظ دیمومۃ اور کراسی کا مرکب ہے۔ دیمومۃ کے معنی ہمیشہ اور کراسی کا لفظ کرسی کی جمع ہے۔ اس کا مطلب ہے مسلسل کرسی پر بیٹھے رہنا۔''
آپ اس بات کو پڑھ کر یقیناً مسکرائیں گے۔ مگر یقین جانیے ہمارے حکمرانوں کا ڈیموکریسی کے حوالے سے جو طرز عمل دیکھنے میں آتا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران کرنل قذافی کی طرح ڈیموکریسی کا یہی مطلب سمجھتے ہیں۔
کالم میں رشیدہ خالہ سے لے کر کرنل معمر قذافی تک کے جو تصوراتی واقعات تحریر میں لائے گئے ہیں ان میں چند حقائق پر بھی مبنی ہیں۔ آپ ان کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہر شخص کے قول و فعل کے حوالے سے اس کے پاس دلائل موجود ہیں، کوئی شخص بھی کھلے دل کے ساتھ سچائی کا اعتراف کرتا نظر نہیں آئے گا۔ آپ ایک عوامی سروے کرلیں جس میں ہر شخص سے ایک بھی سوال کریں کہ ''کیا آپ نے کبھی کسی پر ظلم کیا ہے؟'' یقین جانیے ہر شخص کا ایک ہی جواب ہوگا ''ہم نے کبھی کسی پر ظلم نہیں کیا، بلکہ ہم تو خود ظلم کا شکار ہیں۔'' سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر شخص مظلوم ہے تو کیا زمین پر جو ظلم ہوتا نظر آتا ہے کیا وہ کوئی آسمانی مخلوق زمین پر آکر کرتی ہے؟
سوال یہ ہے کہ ہم کھلے دل کے ساتھ سچائی کا اعتراف کیوں نہیں کرتے؟ اس کا بہتر جواب تو ماہر نفسیات ہی دے سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں ہماری سوچ اور عمل دونوں ہمارے مفادات اور جذبات کے تابع ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنی سوچ اور عمل کو مفادات اور جذبات سے بالاتر کرلیں تو ہمیں سچائی کو قبول کرنے میں کبھی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
نیوٹن کی شہرت جب بڑھی تو کسی نے اس سے کہا کہ آپ غیر معمولی ذہن اور صلاحیتوں والے آدمی ہیں۔ اس نے جواب دیا میرے اندر کوئی خصوصی قابلیت اور صلاحیت نہیں، اگر کوئی چیز ہے تو وہ یہ ہے کہ کوئی سچائی میرے سامنے آئے تو میں اس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نیوٹن کی مثال سامنے رکھتے ہوئے یاد رکھیں دنیا کے ہر بڑے آدمی کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ اس نے سچائی کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ آپ بھی یہ طرز عمل اپنا کر عظیم لوگوں کی فہرست میں خود کو شامل کرسکتے ہیں۔ا1
گزشتہ دنوں ہماری دور کے رشتے دار کی ایک خاتون، جنھیں ہم اور دیگر عزیز رشتے دار رشیدہ خالہ کے نام سے پکارتے ہیں، وہ گھر تشریف لائیں۔ حال احوال کے بعد اپنے بیٹے کی شکایت کرتے ہوئے بولیں کہ وہ بیوی کا غلام ہوگیا ہے، ہر وقت اس کی خدمت میں لگا رہتا ہے، ماں کا خیال ہی نہیں رکھتا۔ خالہ کی بات سن کر ہم نے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ ہم نے پوچھا خالہ! ابھی حال ہی میں آپ کی بیٹی کی شادی ہوئی ہے، ماشا اﷲ داماد کیسا ہے؟ ہمارا سوال سن کر انتہائی خوش ہوکر بولیں، ارے بیٹا! وہ تو مثالی شوہر ہے، بیٹی کا بڑا خیال رکھتا ہے اور ساس سسر کے گن گاتا ہے۔
ہم نے کہا خالہ! کہاں کا انصاف ہے؟ بیٹا بیوی کا خیال رکھے تو جورو کا غلام، اور داماد بیٹی کا خیال رکھے تو مثالی شوہر۔ خالہ! یہ تضاد کیوں؟ کہنے لگیں آدمی کو دونوں جانب کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہم نے کہا اس کوشش بالخصوص ساس اور بہو کے مابین لڑائی اور کشمکش میں آدمی سرکس میں رسی پر چلنے والا مداری بن جاتا ہے۔ کہنے لگیں، بیٹا! یہ تو آدمی کے لیے بہت اچھی بات ہے، کم ازکم یوم آخرت میں آدمی پل صراط سے آسانی سے گزر جائے گا۔ خالہ کی بات سن کر ہم ان کا منہ دیکھتے رہے گئے۔
قدیم زمانے میں ایک فلاسفر نے اس وقت کے بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ فلسفہ پڑھانے والوں کو سرکاری خزانے سے تنخواہ ادا کی جائے۔ بادشاہ نے اس کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا، وہ بادشاہ کے قدموں پر گر پڑا، بادشاہ نے اس کے مطالبے کو مان لیا۔ اس واقعے کے بعد لوگوں نے فلسفی کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا کہ تم مالی امداد کے لیے بادشاہ کے قدموں پر گرگئے۔ اس نے جواب دیا یہ میری غلطی نہیں ہے، بادشاہ کی غلطی ہے، اس کے کان اس کے پیروں (پاؤں) میں تھے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں، اس کے علاوہ میں کیا کرسکتا تھا۔
ہمارے ایک دوست جو ایک دینی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، ملاقات کے لیے آئے۔ ان سے مختلف موضوعات پر بات ہوئی۔ ہم سے کہنے لگے آپ کو پتا ہے کہ رائیٹسٹ اور لیفٹسٹ کسے کہتے ہیں؟
ہم نے کہا آپ جانتے ہیں کہ ہمارا علم بہت محدود ہے لیکن ہم نے اس لفظ کے بارے میں پڑھاہے، یہ سیاسی اصطلاحات ہیں جو پہلی بار فرانس میں استعمال ہوئی۔ فرانس انقلاب کے زمانے میں وہاں قومی اسمبلی میں دو بڑے سیاسی گروپ تھے، ایک گروپ بادشاہ کی حمایت کرتا تھا دوسرا گروپ انقلابی تبدیلیاں چاہتا تھا۔ بادشاہ کے حامی اسپیکر کے دائیں جانب بیٹھے جب کہ انقلاب پسند اسپیکر کے بائیں جانب بیٹھے۔ اس وقت سے شاہ پسندوں کو رائیٹسٹ اور انقلاب پسندوں کو لیفٹسٹ کہا جانے لگا۔ اس کے بعد ہمارے یہاں رائیٹسٹ کی اصطلاح روایت پسندوں بالخصوص دینی حلقوں کے لیے جب کہ لیفٹسٹ کی اصطلاح انقلاب پسند بالخصوص سیکولر عناصر کے لیے استعمال کی جانے لگی۔
ہماری بات سن کر بولے ایسا نہیں ہے۔ دراصل جو لوگ واقعات کو صحیح اور درست بیان کرتے ہیں وہ رائیٹسٹ کہلاتے ہیں جو غلط اور الٹا بیان کرتے ہیں وہ لیفٹسٹ کہلاتے ہیں۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا سیکولر عناصر مرد کی ایک سے زائد شادی کے خلاف ہیں، ان کے نزدیک اس عمل سے آبادی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، ان عناصر سے کوئی یہ سوال کرے کہ کیا ان عورتوں کی شادی اگر غیر شادی شدہ افراد سے کی جائے گی تو کیا بچے پیدا نہیں ہوں گے؟ اپنے دوست کی بات سن کر ہم نے انھیں کوئی جواب نہیں دیا۔
دوران گفتگو بجلی کے بحران پر بات ہوئی۔ کہنے لگے بجلی کا بحران چند دنوں میں حل ہوسکتا ہے۔ ہم نے کہا، وہ کیسے؟ کہنے لگے بس ملک کے تمام عوام سڑکوں پر آجائیں ۔ ہم نے کہا یہ غیر سائنسی سوچ ہے، اس عمل سے ملک میں انتشار، بدامنی اور تصادم میں اضافہ ہوگا، ہمیں بجلی کے بحران کے خاتمے کے لیے ڈیم بنانے ہوں گے۔ کہنے لگے ارے نہیں جناب! بس قوم ایک بار ایمان کی روشنی میں دلی جذبے کے ساتھ ایک بار سڑکوں پر آجائے، ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ ان کی بات سن کرہم نے کہا۔ ایمان کی روشنی میں عوامی قوت کے ساتھ جہاد تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی روشنی میں فلم کی عکس بندی (شوٹنگ) نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے لائٹ اور کیمروں کی ضرورت ہر حال میں ہوگی۔ ہماری بات سن کر ناگوار لہجے میں بولے یار! تم بھی لیفٹسٹ ہوگئے ہو۔
22 فروری 1991 میں ہندوستان ٹائمز میں ایک دلچسپ خبر شایع ہوئی جس کا عنوان تھا:
''ڈیموکریسی ایک عربی لفظ ہے۔''
رائٹر نے اس خبر میں بتایا کہ لیبیا کے فوجی صدر کرنل معمر قذافی نے قاہرہ میں ایک اجتماع میں جس میں ایک سو سے زائد مصری شریک تھے، ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''لوگ کہتے ہیں ڈیموکریسی یونانی لفظ ہے، یہ بات غلط ہے، درست بات یہ ہے کہ یہ عربی لفظ ہے جو دو لفظ دیمومۃ اور کراسی کا مرکب ہے۔ دیمومۃ کے معنی ہمیشہ اور کراسی کا لفظ کرسی کی جمع ہے۔ اس کا مطلب ہے مسلسل کرسی پر بیٹھے رہنا۔''
آپ اس بات کو پڑھ کر یقیناً مسکرائیں گے۔ مگر یقین جانیے ہمارے حکمرانوں کا ڈیموکریسی کے حوالے سے جو طرز عمل دیکھنے میں آتا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران کرنل قذافی کی طرح ڈیموکریسی کا یہی مطلب سمجھتے ہیں۔
کالم میں رشیدہ خالہ سے لے کر کرنل معمر قذافی تک کے جو تصوراتی واقعات تحریر میں لائے گئے ہیں ان میں چند حقائق پر بھی مبنی ہیں۔ آپ ان کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہر شخص کے قول و فعل کے حوالے سے اس کے پاس دلائل موجود ہیں، کوئی شخص بھی کھلے دل کے ساتھ سچائی کا اعتراف کرتا نظر نہیں آئے گا۔ آپ ایک عوامی سروے کرلیں جس میں ہر شخص سے ایک بھی سوال کریں کہ ''کیا آپ نے کبھی کسی پر ظلم کیا ہے؟'' یقین جانیے ہر شخص کا ایک ہی جواب ہوگا ''ہم نے کبھی کسی پر ظلم نہیں کیا، بلکہ ہم تو خود ظلم کا شکار ہیں۔'' سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر شخص مظلوم ہے تو کیا زمین پر جو ظلم ہوتا نظر آتا ہے کیا وہ کوئی آسمانی مخلوق زمین پر آکر کرتی ہے؟
سوال یہ ہے کہ ہم کھلے دل کے ساتھ سچائی کا اعتراف کیوں نہیں کرتے؟ اس کا بہتر جواب تو ماہر نفسیات ہی دے سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں ہماری سوچ اور عمل دونوں ہمارے مفادات اور جذبات کے تابع ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنی سوچ اور عمل کو مفادات اور جذبات سے بالاتر کرلیں تو ہمیں سچائی کو قبول کرنے میں کبھی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
نیوٹن کی شہرت جب بڑھی تو کسی نے اس سے کہا کہ آپ غیر معمولی ذہن اور صلاحیتوں والے آدمی ہیں۔ اس نے جواب دیا میرے اندر کوئی خصوصی قابلیت اور صلاحیت نہیں، اگر کوئی چیز ہے تو وہ یہ ہے کہ کوئی سچائی میرے سامنے آئے تو میں اس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نیوٹن کی مثال سامنے رکھتے ہوئے یاد رکھیں دنیا کے ہر بڑے آدمی کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ اس نے سچائی کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ آپ بھی یہ طرز عمل اپنا کر عظیم لوگوں کی فہرست میں خود کو شامل کرسکتے ہیں۔ا1