انقلاب زندہ باد

نیب نے بقیہ 450 آف شور کمپنیوں کا معاملہ بھی اٹھالیا ہے۔ ان میں بھی بڑے نامی گرامی خاندان اور اشخاص شامل ہیں۔

سعید پرویز تو روتا رہے گا/ اور جو ہونا ہے ہوتا رہے گا۔ سکندر جتوئی کا بیٹا شاہ رخ جتوئی ضمانت پر رہا ہوگیا، قتل والی رات اور بعد کے بہت سے دن رات کراچی والوں نے خوف میں گزارے۔ اسی دوران سیکڑوں لوگ قتل کی لرزہ خیز واردات کے خلاف سڑکوں پر بھی نکلے اور پھر شہر عدالتی فیصلے کا انتظار کرنے لگا۔ جس رفتار اور انداز سے مقدمہ چل رہا تھا، لوگ مایوس تھے۔ پیسہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا، ''کھابے'' چل رہے تھے، قاتل جب نظر آیا ہنستا ہوا نظر آیا، اور پھر وہی فیصلہ ہوا جو لکھا نظر آرہا تھا۔ ضمانت منظور ہونے کے فیصلے پر قائل اور اس کے ساتھی عدالت سے فتح کے نشان (V) بناتے، چیختے چنگھاڑتے، قہقہے لگاتے، ناچتے باہر آرہے تھے۔

لیکن ابھی کھیل ختم نہیں ہوا، کراچی کے دس شہریوں نے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی ہے۔ ابھی اور بھی دیکھنے سننے کو ملے گا۔

ادھر صوبہ بلوچستان میں ممبر بلوچستان اسمبلی عبدالمجید اچکزئی کو بھی ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ عبدالمجید اچکزئی نے ایک ٹریفک پولیس سارجنٹ کو اپنی گاڑی تلے کچل کر مار دیا تھا۔ اپنی گرفتاری پر بھی اچکزئی بڑے غیظ و غضب میں تھا، بغیر ہتھکڑی جیل سے عدالت لایا گیا اور یہاں بھی مقتول غریب پولیس والے کا وہی حشر ہوا جو نظر آرہا تھا۔ عبدالمجید اچکزئی ممبر صوبائی اسمبلی، ضمانت پر رہا ہوگیا۔ جیل کے دروازے پر اچکزئی کا والہانہ استقبال کرنے کے لیے ملی عوامی پارٹی کے لوگ پارٹی پرچم اٹھائے موجود تھے، گلاب کے پھولوں کی پتیاں اچکزئی پر نچھاور کی گئیں، پتا نہیں قبر میں عبدالصمد اچکزئی پر کیا گزر رہی ہوگی۔ قومی اسمبلی میں ''چادر پوش'' محمود خان اچکزئی تک بھی یقیناً یہ خبر پہنچی ہوگی۔ محمود خان کے بھائی تو خیر سے گورنر بلوچستان ہیں، انھیں بھی خبر ہوگی کہ ''انصاف'' کیسا ہوا۔ ''ادھر بھی بھائی، ادھر بھی بھائی'' اور محمود خان اچکزئی کی چادر کی ''بکل'' میں مجید اچکزئی۔

یاد نہیں آرہا کہ یہ شاہ حسین ہیں یا بلھے شاہ وہ کہہ گئے ہیں ''تری بکل دے وچ چور۔''

نیب نے بقیہ 450 آف شور کمپنیوں کا معاملہ بھی اٹھالیا ہے۔ ان میں بھی بڑے نامی گرامی خاندان اور اشخاص شامل ہیں۔ دیکھیں 450 میں سے کیا نکلتا ہے۔ ریاست کا ایک اہم ستون فوج بھی بڑے صبر اور برداشت کا مظاہرہ کر رہی ہے، ریاست کے دوسرے ستون اس سے ٹکرا رہے ہیں۔ پہلے اتنا صبر، ایسی برداشت کہاں تھی؟ ادھر ذرا سا پانی گھٹنوں گھٹنوں آیا، ادھر ''مرے عزیز ہم وطنو!'' ہوگیا۔ اب تو جنرل قمر جاوید باجوہ خود چل کر پارلیمنٹ ہاؤس آگئے۔ ایک گھنٹہ بولے، اپنا موقف بیان کیا اور تین گھنٹے سوالات کے جواب دیے۔ فیض آباد کا دھرنا ختم کروایا اور جمہوریت کا رستہ صاف کیا۔ ورنہ فیض آباد ''مرے عزیز ہم وطنو!'' کے لیے بہت کافی تھا۔

سپریم کورٹ بھی بڑا زوروں پر ہے۔ وزیراعظم کو نکال دیا، اس کے بیٹے مفرور ہیں، وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی ملک چھوڑ کر برطانیہ کے ایک اسپتال میں بیمار پڑا ہے۔ یہ سارے ''بڑے لوگ'' بے چارے، ان کی بیماریاں بھی ''بیرونی'' اور یہ خود بھی بیرونی۔ اپنے ڈاکٹر عاصم، ڈاکٹر ضیا الدین احمد کے فرزند، دنیا کا بہترین اسپتال اپنا ذاتی اسپتال ''ضیا الدین اسپتال'' چھوڑ کر لندن چلے گئے۔ کس کس کا نام لوں، یہ سارے ''بیرونی بیماریوں'' میں مبتلا لوگ تندرستی ہمارے سروں پر سوار گزارتے ہیں اور بیرون جا کر ''طاقت'' بھروا کر پھر واپس آجاتے ہیں۔

یہ سب جو کچھ ہمارے ملک پاکستان میں ہو رہا ہے، یہ بہت ''وکھرے ٹائپ'' کا ہو رہا ہے۔ 70 سال گزرنے کے بعد بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کیسے کیسے ''مہربان'' ہمارے سامنے ہیں۔ جھوٹ بولنے کے چیمپئن، جھوٹ ہی بولے جا رہے ہیں اور ڈھٹائی کے ساتھ بولے جا رہے ہیں، اپنے اپنے پارٹی لیڈر کے بارے میں جتنا یہ جانتے ہیں، اتنا کوئی نہیں جانتا، پھر بھی جو سچ ہے اسے چھپا کر جھوٹ ہی بولے جا رہے ہیں، نہ انھیں اﷲ یاد، نہ رسول یاد، نہ قرآن یاد، یاد ہے تو صرف اپنا لیڈر اور اپنی پارٹی۔

مگر یہ بھی سچ ہے کہ جھوٹ کا سر نیچے ہونے والا ہے۔ ہم عوام انقلاب کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ ہر رات کے بعد صبح ضرور ہوتی ہے اور وہ صبح ہمیں جس کا صدیوں سے انتظار ہے بس طلوع ہونے کو ہے۔

جہاں ظلم و جبر کے ستون ہل گئے ہیں، وہ وقت قریب ہے کہ یہ جابروں کی عمارت ہی ڈھے جائے گی۔

یارو! وہ سارے بڑے لوگ جو کہہ کر گئے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا:

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو


کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

فیض نے کہا، وہ کہہ کر رخصت ہوا ہے۔

ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

جب تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے

اور راج کرے گی خلق خدا، ہم دیکھیں گے

اور جالب وعدہ کرکے گیا ہے ''میں ضرور آؤں گا اک عہدِ حسیں کی صورت'' اور ہم جانتے ہیں کہ جالب وعدے کا پکا ہے۔ واقعی وہ ''عہد حسیں'' کی صورت ضرور آئے گا۔ آخر میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی خدمت میں کوئٹہ کے غریب پولیس سارجنٹ کے چھوٹے بھائی کی فریاد نقل کرتے ہوئے اجازت ''ہم غریب لوگ ہیں، ہم عبدالمجید اچکزئی کا مقابلہ نہیں کرسکتے، آپ ہی ہمارا مقدمہ لڑیں۔''

انقلاب زندہ باد۔
Load Next Story