سیموئل اور ایڈم کا پاکستان

سوسائٹی کے دوممبران،سیموئل جانسن اورایڈم سلوبر نے2016میں فیصلہ کیاکہ پاکستان جاناچاہیے۔

raomanzar@hotmail.com

برٹش بیک پیپرسوسائٹی(British Backpaper Society)برطانیہ میں موجودبین الاقوامی سیاحت کوفروغ دینے کا مستند ادارہ ہے۔اس کے اراکین پوری دنیا کا سفر کرتے ہیں۔قریہ قریہ،ملکوں ملکوں پھرتے ہیں اوربتاتے ہیں کہ کون سے ملک اورکون سی جگہ جانا چاہیے۔اس ادارے کو کروڑوں لوگ قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اس کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق اپنی سیاحت کاپروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ برٹش بیک پیپرسوسائٹی کی ساکھ حددرجہ غیرمتنازعہ ہے۔

سوسائٹی کے دوممبران،سیموئل جانسن اورایڈم سلوبر نے2016میں فیصلہ کیاکہ پاکستان جاناچاہیے۔وہاں کے شہر،لوگ، پہاڑ اورہروادی کوخوددیکھناچاہیے۔سیموئل کی عمر چھبیس برس اورایڈم محض پچیس برس کاتھا۔جب اپنے ارادے کااظہارکیاتوسوسائٹی کے ہررکن نے انکواس مہم جوئی سے روکا۔دوستوں نے انھیں پاکستان جانے کے خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔خودکش حملوں،دھماکوں اور جانی نقصان کے متعلق بھی سمجھایا۔تہذیب کے دائرہ میں رہ کرمطلع کیاکہ پاکستان دنیاکاخطرناک ترین ملک ہے۔

سیموئل کی والدہ نے تو یہاں تک کہاکہ جیسے ہی پاکستان جائینگے،انکواغواکرلیاجائیگا۔پھردہشت گرد ان کی وڈیو بناکر آزاد کرنے کی قیمت مانگیں گے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس مہم جوئی میں جان گنوانی پڑجائے۔ایڈم کے ایک دوست نے اسے یہ بھی کہا،کہ جیسے ہی وہ لاہوریااسلام آبادپہنچے گا،اسے کافر قراردیکرحکومت گرفتارکرلیگی۔سیموئل اور ایڈم سوچ میں پڑگئے۔ایسے لگاکہ غلط ملک جارہے ہیں۔ قائل ہوگئے کہ انھیں پاکستان نہیں جاناچاہیے۔سب نے مشورہ دیاکہ ہندوستان چلے جاؤ۔وہ ایک محفوظ ملک ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں۔چانچہ انھوں نے ہندوستان جانے کافیصلہ کرلیا۔

ایڈم کے ذہن میں صرف ایک سوال تھا۔سب سے پوچھتا تھا۔جس جس نے پاکستان جانے کی مخالفت کی تھی، ان میں سے کسی نے بھی اس ملک کودیکھاہے یا نہیں۔جب ایڈم بات کرتاتھاکہ آپ ایک ملک کودیکھے بغیرکیسے رَد کرسکتے ہیں۔توکوئی جواب نہیں آتاتھا۔ایڈم اورسیموئل نے پاکستان کاویزہ بھی لگوالیاکہ فیصلہ کرینگے، اگر جانا ہوا تو ٹھیک،ورنہ دہلی سے واپس آجائینگے۔2016میں دونوں دہلی چلے گئے۔وہاں متعددشہردیکھے۔تاریخی مقامات کی بھرپورسیرکی۔مگرکئی مقامات پربے حددشواری کاسامنا کرنا پڑا۔

مقامی لوگوں کی کوشش ہوتی تھی کہ انھیں دس روپے کاکھانا،دوسوروپوں میں دیں۔جوہاتھ لگے،ان سے وصول کریں۔ایڈم نے یہ بھی محسوس کیاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے بہت زیادہ مثبت جذبات بھی نہیں ہیں۔درست تھاکہ ہزاروں غیرملکی،دہلی اورآگرہ میں گھوم رہے تھے مگر ایک روایتی گرم جوشی کافقدان ضرورتھا۔ایک رات فیصلہ کیا کہ پاکستان جائینگے اوراس کے شمالی علاقہ جات کو ضرور دیکھیں گے۔

کسی کوبتائے بغیرواہگہ آئے اوروہاں سے لاہورپہنچ گئے۔لاہوردیکھ کرپریشان سے ہوگئے۔ایک مقامی ہوٹل میں قیام کے دوران ریسپشن پرجاکرپوچھاکہ کیاباہردہشت گردموجودہیں۔کیاباہرنکلتے ہی انھیں اغوابرائے تاوان کا خطرہ ہے۔ہوٹل کے عملہ نے ہنسناشروع کردیا۔بتایاکہ باہر جاؤاورجی بھرکرسیرکرو۔کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ڈرتے ڈرتے جب باہرآئے تومال روڈپرٹریفک رواں دواں تھی۔ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ آجارہے تھے۔زندگی کا بھرپور احساس تھا۔انھیں لارنس گارڈن جاناتھا۔

رکشے والے کو جب بتایا کہ یہ باغ دیکھناچاہتے ہیں تورکشہ والے نے بے ساختگی سے کہاکہ آپکورکشے کی کوئی ضرورت نہیں۔یہ باغ توہوٹل کے تقریباًسامنے ہے۔لارنس گارڈن دویاتین منٹ کی پیدل مسافت پرتھا،رکشے والے نے انھیں قطعاًبیوقوف نہیں بنایا۔ سیموئل اورایڈم نے اب پورالاہوردیکھناشروع کردیا ۔ ہرجگہ گئے۔بادشاہی مسجدسے لے کرشاہی قلعہ اور رنجیت سنگھ کی سمادھی سے لے کراندرون لاہورتک۔جب ان مقامات کی تصاویرلندن بھجوائیں تودوست اوروالدین حیران رہ گئے۔

کہیں بھی توپیں اوربندوقیں نصب نہیں تھیں۔کہیں بھی اونٹوں اورگھوڑوں پرسفرنہیں ہورہاتھا۔ہرطرف جدید ترین کاریں اورہرطرح کی سواری موجودتھی۔خیرتین چار دن کے بعد اسلام آبادچلے گئے۔وہاں جاکربھی انھیں، یہی احساس ہواکہ ایک بہترین شہرمیں ہیں۔ مگر ابھی انھیں مزید حیرت زدہ ہوناتھا۔اسلام آبادسے شاہراہ قراقرم پرروانہ ہوئے۔ کاغان، ناران ہوتے ہوئے گلگت پہنچ گئے۔سفرکے آخرمیں کریم آبادسے ہوتے ہوئے ہنزہ پہنچ گئے۔ان مقامات پر جاکر ششدررہ گئے۔بلکہ سحر زدہ ہوگئے۔


اس درجہ قدرتی حسن، پہاڑوں اوروادیوں کے حسین سنگم اور لوگوں کی مہمان نوازی نے انھیں دیوانہ ساکردیا۔تصوربھی نہیں کرسکتے تھے کہ گہرے نیلگوں پانی کی جھیلیں جگہ جگہ نظرآئینگی۔سیموئل فوٹو گرافی کاماہرتھا۔اس نے ہرجگہ کی سیکڑوں تصاویر کھینچیں۔ مقامی لوگوں کے رویوں نے بھی انھیں بے حد متاثر کیا۔ لوگ اس گرم جوشی سے ملتے تھے کہ برطانوی سیاح بات کرنے کے قابل نہ رہتے تھے۔کئی کھوکھوں اورچائے خانوں میں ان سے قہوے کا معاوضہ تک نہ لیاگیا۔

ہربندہ کہتاتھاکہ آپ ہمارے مہمان ہو۔ پیسے کسی اورسے کمالینگے۔ہربندہ ان کے ساتھ سیلفی بنواتا تھا اورپوچھتاتھاکہ پہاڑکیسے لگے۔سیموئل اورایڈم کے لیے یہ خوشگوارترین واقعات تھے۔کہاں دہشت گردی کاہردم تاثر اورکہاں مقامی لوگوں کاپیارمحبت۔انھیں یقین نہیں آتا تھا کہ ان کے ساتھ کیاہورہاہے۔کسی سے راستہ پوچھتے تھے تو وہ شخص کوشش کرکے انھیں صحیح مقام تک چھوڑ کر آتا تھا۔ دو ہفتے قیام کرنے کے بعد واپس لندن چلے گئے۔ وہاں جاکر والدین،عزیزواقارب ،دوستوں کوپاکستان کے متعلق بتایا تو سب حیران رہ گئے۔

شمالی مقامات اس درجہ خوبصورت تھے کہ معلوم ہوتاتھاکہ سوئزرلینڈمیں ہیں۔ دونوں نے اپنے ادارے کے لیے رپورٹ لکھی۔یہ رپورٹ آج سے ٹھیک تین دن پہلے شایع ہوئی ہے۔اٹھائیس دسمبرکی رپورٹ کوتمام بین الاقوامی میڈیانے پذیرائی دی۔اس کے مطابق پاکستان سیاحوں کے لیے پہلے نمبرکی خوشگوارجگہ ہے۔ ادارے نے دنیاکے بیس ایسے مقامات کی نشاندہی کی جہاں ہرسیاح کو جاناچاہیے۔پاکستان اس میں اول نمبر پر ہے۔ اس میں یہاں تک لکھاگیاکہ اگرلندن،پیرس یابرلن جانا ہو ہمیں کسی سے بھی پوچھنا نہیں پڑتااورمعذرت کے ساتھ یہ تمام شہربھی کافی غیرمحفوظ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقہ جات دنیاکے بہترین تفریحی مقامات ہیں۔ 2018 میں سوسائٹی کی طرف سے اَن گنت سیاح سکردو آئینگے اورK-2میں کیمپ بناکرہفتوں رہینگے۔یہ رپورٹ انٹرنیٹ پر موجودہے اورہرکوئی پڑھ سکتا ہے۔ استدعا ہے کہ اسے ضرورپڑھیے۔ہرپاکستانی کے لیے رپورٹ تازہ ہواکاایک خوشبودار جھونکاہے۔یہ کسی بھی دباؤ یا تعصب کے بغیرمرتب کی گئی ہے۔موجودہ حالات میں اس کی آمداوربھی اہم ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ سارادن سیاست در سیاست کا بے کیف کھیل دیکھ کر لوگ اُکتاچکے ہیں۔

ایک بیان پھر اسکاردِعمل ۔پھراس ردِعمل کاردِعمل سن سن کرلوگوں کے کان پک چکے ہیں۔کسی سیاسی لیڈرنے کیابیان دیا،کہاں ہزاروں اورلاکھوں کاجلسہ ہوا، اب عام لوگوں کواس میں قطعاًدلچسپی نہیں۔سچ بات کہہ رہا ہوں۔درجنوں لوگوں کو جانتاہوں جواب سیاسی معاملات پر توجہ دینی چھوڑچکے ہیں۔مزید ذہنی تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس اس اس درجہ کے ارسطواورسقراط موجود ہیں،جوگھنٹوں کسی بھی نکتے پر غیرموزوں گفتگوکرنے میں حددرجہ مہارت رکھتے ہیں۔

اس پربھی بحث کرسکتے ہیں کہ فلاں سیاسی لیڈر یا وزیرنے فلاںکپڑے کیوں پہنے ہوئے تھے۔ وزیراعظم،وزراء اعلیٰ، وزیروںاوراہم لوگوں کے ذہن پڑھ کر قوم کوگھنٹوں لیکچر دے سکتے ہیں۔وہ بھی پڑھ سکتے ہیں جوانھوں نے کبھی بھی کہا نہیں۔ ابھی ایک سیاستدان بات کر رہا ہوتا ہے۔اس نے بیان مکمل بھی نہیں کیاہوتااوراس پر بھرپورتبصرے شروع ہوجاتے ہیں۔آج کل شادیوں کا دور دورہ ہے۔لوگوں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔کئی افرادکی گفتگوسے کم ازکم خاکسارتوحیرت زدہ ہوچکا ہے۔

چندسیاست دانوں کے سعودی عرب کے دورے کے متعلق ایسے گوہرافشانی کررہے تھے کہ تقریب میں آنے سے پہلے سعودی بادشاہ اورولی عہد سے ملکرتشریف لائے ہیں۔ ایسے لگتاتھاکہ ٹرمپ انھیں روزفون کرتاہے۔منت سماجت کرتا ہے کہ اعلیٰ حضرت، اگر اجازت ہوتوآج میں برطانوی وزیراعظم سے صرف دس منٹ ملاقات کرلوں۔ ہاں ضرورحکم کیجیے۔کہ بات کیا کروں۔ ہاں،یہ بھی اجازت دے دیجیے، کہ برطانوی وزیراعظم کے بعدنیٹوکے کمانڈر موجود ہیں۔ ان سے ملوں یانہ ملوں۔

یقین فرمائیے۔قوم سیاست کی بے رنگ اوردقیق دنیا سے باہرنکل کرکھلی فضامیں سانس لیناچاہتی ہے۔ہمارے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ سیاسی تجزیہ کارجوکہ دراصل حالیہ سقراط ہیں، انھیں چنددن رخصت پرچلے جاناچاہیے۔ تاکہ قوم کم ازکم چنددن کسی بہترموضوع پرذہنی توانائیاں خرچ کرسکے۔ ہمیں بیک پیپرسوسائٹی کی رپورٹ باربارپڑھنی چاہیے۔موقعہ ملے اور جیب اجازت دے،توپاکستان کے شمالی مقامات کو ضرور دیکھنا چاہیے۔وہاں جاکرصاف ہوامیں سانس لینا چاہیے۔

شائد اپنی نظرسے اپنے ملک میں خرابیاں ہی خرابیاں نظر آئیں۔ مگرپاکستان کوسیموئل اورایڈم کی نظرسے دیکھنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ شائد محدود عرصے کے لیے ہم بھی اپنے ملک کی خوبصورتی دیکھ کرحیران رہ جائیں۔شائدہم بھی اپنے ملک کوتمام کوتاہیوں کے باوجود نمبرون قراردے دیں۔کوشش کرکے دیکھیں۔ آپ کو حیران ہونے کی واقعی ضرورت ہے!
Load Next Story