دہشت گردی اور امریکا کا کردار
پاکستان پر دہشت گردی کے تحفظ کا الزام لگانے والے ٹرمپ کیا اس سوال کا جواب دیں گے کہ طالبان کس کی ایجاد ہیں؟
پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، خاص طور پر شمالی وزیرستان میں جو دہشت گردی کا گڑھ تھا اب صورتحال نارمل ہے، لیکن خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں وقفے وقفے سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ میں کرسمس کی دعائیہ تقریب ایک چرچ میں جاری تھی کہ دہشت گرد چرچ میں داخل ہوگئے اور دھماکا کردیا، اس دھماکے میں 8 افراد جاں بحق ہوئے اور درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔
کوئٹہ میں دہشت گردی کا مسلسل ارتکاب جاری ہے، کوئٹہ دو عشروں سے سخت حفاظتی حصار میں ہے لیکن اس کے باوجود کوئٹہ میں دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ پاکستان سے مسلسل دھمکی آمیز مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے میں ''سنجیدہ کردار'' ادا کرے۔ بلاشبہ دہشت گردی ایک ایسا عذاب ہے جس کے خاتمے میں سب کو سنجیدہ کردار ادا کرنا چاہیے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ جس دہشت گردی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں اس میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہونے والی دہشت گردی بھی شامل ہے؟
کوئٹہ کے جس چرچ میں دہشت گردی کی یہ کارروائی کی گئی اس میں 8 افراد ہلاک ہوگئے، دہشت گردی کی ان وارداتوں میں عام بے گناہ افراد کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی اہلکار بھی مارے جاتے ہیں بلکہ سیکیورٹی اہلکاروں پر گھات لگا کر حملے کیے جاتے ہیں۔ امریکا پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کو تحفظ دے رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے کیا یہ دہشت گردی وہ دہشت گرد کر رہے ہیں جنھیں پاکستان تحفظ دے رہا ہے؟ یا دہشت گردی کی یہ وارداتیں وہ دہشت گرد کر رہے ہیں جنھیں پاکستان مخالف ملکوں کی حمایت حاصل ہے؟
دہشت گردوں کے حوالے سے پاکستان پر تنقید کرنے والے حضرات کیا اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے کس ملک کا ہاتھ ہے؟ دہشت گردی خواہ بلوچستان میں ہو، خیبرپختونخوا میں یا افغانستان میں، ایک انسانیت سوز کارروائی ہے جس کو ہر قیمت پر ختم ہونا چاہیے، لیکن جب دہشت گردی کے پیچھے ملکوں کے سیاسی مفادات ہوں تو پھر دہشت گردی کو ختم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ بلوچستان میں بلوچوں کے کچھ پاکستان سے ناراض عناصر اپنی ناراضگی کا اظہار دہشت گردی کی شکل میں کر رہے ہیں، لیکن کیا ان نادان دوستوں کو اس بات کا احساس ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں مارے جانے والے بے گناہ لوگ جن میں سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہوتے ہیں وہ بلوچستان کے باشندے اور بلوچی ہیں۔ دہشت گردی کا شکار دوسرے صوبوں خصوصاً پنجاب کے باشندے بھی ہوتے ہیں، جن کا تعلق ان غریب طبقات سے ہوتا ہے جو محنت مزدوری کرنے کے لیے بلوچستان آتے ہیں۔
بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں دو عناصر شامل بتائے جاتے ہیں جن میں ایک عنصر وہ مذہبی انتہاپسند ہے جو پاکستان سمیت بیشتر مسلم ملکوں میں دہشت گردی کی مسلسل کارروائیاں کر رہا ہے، جس میں عبادت گاہوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اقلیتوں کا تحفظ ہر حکومت کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے، پاکستان میں اقلیتوں کا تحفظ حکومت کی اولین ذمے داری ہے اور حکومت مقدور بھر کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ زندگی گزاریں لیکن مذہبی انتہاپسند اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے کرکے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا امریکا کوئٹہ کے چرچ میں ہونے والی اس دہشت گردی کا ذمے دار پاکستان کو سمجھتا ہے؟
پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف پاکستان کی سول سوسائٹی سمیت ترقی پسند حلقوں کی طرف سے ہمیشہ شدید مذمت کی جاتی ہے، خواہ یہ زیادتیاں سندھ کے اندرونی علاقوں میں ہوں یا پاکستان کے کسی اور حصے میں۔ کوئٹہ کے چرچ میں ہونے والے اس دھماکے کے خلاف کوئٹہ بار کی جانب سے ہڑتال کی گئی جس میں وکلا برادری نے بھرپور حصہ لیا۔ یہ اقلیتوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف پاکستان کے امن پسند شہریوں کا ایک مثبت اقدام تھا۔ اس حوالے سے ایک اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اقلیتوں خصوصاً ہندو اور عیسائی اقلیت کے مذہبی تہواروں میں ہماری سیاسی ہی نہیں بلکہ اعتدال پسند مذہبی جماعتوں کے رہنما بھی شرکت کر رہے ہیں، یہ مذہب دوستی اور مذہبی یکجہتی کے ایسے مظاہرے ہیں جو انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں، اس قسم کے مثبت اقدامات کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
امریکا کے نئے صدر اپنی ذات میں مجموعہ اضداد ہیں، وہ ایک طرف دہشت گردی کی مخالفت میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ اس حوالے سے آزاد اور خودمختار ملکوں کو وارننگ پہ وارننگ دیتے رہتے ہیں تو دوسری طرف شدید مذہبی انتہاپسند جماعتوں کی سرپرستی کے الزامات کا بھی انھیں سامنا رہتا ہے۔ کیا ماضی میں محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر امریکا نے طالبان کو روشناس نہیں کرایا۔ کیا افغانستان سے روس کو نکالنے کی خاطر پاکستان میں امریکا نے طالبان کی کاشت نہیں کی؟ کیا آج دنیا جس بے لگام دہشت گردی کا سامنا کر رہی ہے اس میں طالبان کا ہاتھ نہیں ہے؟ پاکستان پر دہشت گردی کے تحفظ کا الزام لگانے والے ٹرمپ کیا اس سوال کا جواب دیں گے کہ طالبان کس کی ایجاد ہیں؟
آزاد ملکوں کے درمیان اختلافات معمول کا حصہ ہیں لیکن ان سیاسی اختلافات کو دہشت گردوں کی حمایت تک لے جانا حکومتوں کا قابل فخر کارنامہ نہیں بلکہ قابل شرم و قابل مذمت برائی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 70 سال سے اختلافات اور کشیدگی کا سلسلہ جاری ہے، اس دوران تین جنگیں بھی لڑی جاچکی ہیں، اور آج کل بھی کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ بھی لگ بھگ 70 سال سے جاری ہے اور اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ مسلم مذہبی انتہاپسندی کا براہ راست تعلق مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین سے ہے۔ کیا امریکا کی کسی حکومت نے سنگین مسئلوں کو حل کرنے کی ایماندارانہ اور سنجیدہ کوششیں کیں؟ اس سوال کا واضح جواب یہ ہے کہ محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر 70 سال سے امریکی حکمران بھارت اور اسرائیل کو خوش رکھنے کی خاطر دو ایسے مسائل کو حل کرنے سے گریزاں رہے ہیں جو عالمی امن کے لیے ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکا ایک سپرپاور ہے۔ عالمی خاندان میں امریکا خاندان کا سربراہ بننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس عالمی برادری میں محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر تفریق نہ کرے۔
ماضی میں غیر جانبدار تحریک کا بھارت سربراہ رہا ہے اور اس کی عزت اسی کردار کی وجہ سے تھی، اب جب کہ بھارت امریکا کا فوجی اتحادی بنا ہوا ہے تو کیا بلوچستان میں اس کی مداخلت افغانستان میں اس کی حصہ داری امریکا کے لیے قابل قبول ہوگی؟ دہشت گردی دنیا کے لیے ایک عذاب ہے اس کے خاتمے کے لیے امریکا کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے۔ اگر امریکا بھارت اور اسرائیل کی حمایت کرتا رہا تو نہ پاکستان میں دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے نہ افغانستان میں۔
کوئٹہ میں دہشت گردی کا مسلسل ارتکاب جاری ہے، کوئٹہ دو عشروں سے سخت حفاظتی حصار میں ہے لیکن اس کے باوجود کوئٹہ میں دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ پاکستان سے مسلسل دھمکی آمیز مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے میں ''سنجیدہ کردار'' ادا کرے۔ بلاشبہ دہشت گردی ایک ایسا عذاب ہے جس کے خاتمے میں سب کو سنجیدہ کردار ادا کرنا چاہیے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ جس دہشت گردی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں اس میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہونے والی دہشت گردی بھی شامل ہے؟
کوئٹہ کے جس چرچ میں دہشت گردی کی یہ کارروائی کی گئی اس میں 8 افراد ہلاک ہوگئے، دہشت گردی کی ان وارداتوں میں عام بے گناہ افراد کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی اہلکار بھی مارے جاتے ہیں بلکہ سیکیورٹی اہلکاروں پر گھات لگا کر حملے کیے جاتے ہیں۔ امریکا پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کو تحفظ دے رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے کیا یہ دہشت گردی وہ دہشت گرد کر رہے ہیں جنھیں پاکستان تحفظ دے رہا ہے؟ یا دہشت گردی کی یہ وارداتیں وہ دہشت گرد کر رہے ہیں جنھیں پاکستان مخالف ملکوں کی حمایت حاصل ہے؟
دہشت گردوں کے حوالے سے پاکستان پر تنقید کرنے والے حضرات کیا اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے کس ملک کا ہاتھ ہے؟ دہشت گردی خواہ بلوچستان میں ہو، خیبرپختونخوا میں یا افغانستان میں، ایک انسانیت سوز کارروائی ہے جس کو ہر قیمت پر ختم ہونا چاہیے، لیکن جب دہشت گردی کے پیچھے ملکوں کے سیاسی مفادات ہوں تو پھر دہشت گردی کو ختم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ بلوچستان میں بلوچوں کے کچھ پاکستان سے ناراض عناصر اپنی ناراضگی کا اظہار دہشت گردی کی شکل میں کر رہے ہیں، لیکن کیا ان نادان دوستوں کو اس بات کا احساس ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں مارے جانے والے بے گناہ لوگ جن میں سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہوتے ہیں وہ بلوچستان کے باشندے اور بلوچی ہیں۔ دہشت گردی کا شکار دوسرے صوبوں خصوصاً پنجاب کے باشندے بھی ہوتے ہیں، جن کا تعلق ان غریب طبقات سے ہوتا ہے جو محنت مزدوری کرنے کے لیے بلوچستان آتے ہیں۔
بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں دو عناصر شامل بتائے جاتے ہیں جن میں ایک عنصر وہ مذہبی انتہاپسند ہے جو پاکستان سمیت بیشتر مسلم ملکوں میں دہشت گردی کی مسلسل کارروائیاں کر رہا ہے، جس میں عبادت گاہوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اقلیتوں کا تحفظ ہر حکومت کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے، پاکستان میں اقلیتوں کا تحفظ حکومت کی اولین ذمے داری ہے اور حکومت مقدور بھر کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ زندگی گزاریں لیکن مذہبی انتہاپسند اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے کرکے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا امریکا کوئٹہ کے چرچ میں ہونے والی اس دہشت گردی کا ذمے دار پاکستان کو سمجھتا ہے؟
پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف پاکستان کی سول سوسائٹی سمیت ترقی پسند حلقوں کی طرف سے ہمیشہ شدید مذمت کی جاتی ہے، خواہ یہ زیادتیاں سندھ کے اندرونی علاقوں میں ہوں یا پاکستان کے کسی اور حصے میں۔ کوئٹہ کے چرچ میں ہونے والے اس دھماکے کے خلاف کوئٹہ بار کی جانب سے ہڑتال کی گئی جس میں وکلا برادری نے بھرپور حصہ لیا۔ یہ اقلیتوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف پاکستان کے امن پسند شہریوں کا ایک مثبت اقدام تھا۔ اس حوالے سے ایک اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اقلیتوں خصوصاً ہندو اور عیسائی اقلیت کے مذہبی تہواروں میں ہماری سیاسی ہی نہیں بلکہ اعتدال پسند مذہبی جماعتوں کے رہنما بھی شرکت کر رہے ہیں، یہ مذہب دوستی اور مذہبی یکجہتی کے ایسے مظاہرے ہیں جو انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں، اس قسم کے مثبت اقدامات کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
امریکا کے نئے صدر اپنی ذات میں مجموعہ اضداد ہیں، وہ ایک طرف دہشت گردی کی مخالفت میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ اس حوالے سے آزاد اور خودمختار ملکوں کو وارننگ پہ وارننگ دیتے رہتے ہیں تو دوسری طرف شدید مذہبی انتہاپسند جماعتوں کی سرپرستی کے الزامات کا بھی انھیں سامنا رہتا ہے۔ کیا ماضی میں محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر امریکا نے طالبان کو روشناس نہیں کرایا۔ کیا افغانستان سے روس کو نکالنے کی خاطر پاکستان میں امریکا نے طالبان کی کاشت نہیں کی؟ کیا آج دنیا جس بے لگام دہشت گردی کا سامنا کر رہی ہے اس میں طالبان کا ہاتھ نہیں ہے؟ پاکستان پر دہشت گردی کے تحفظ کا الزام لگانے والے ٹرمپ کیا اس سوال کا جواب دیں گے کہ طالبان کس کی ایجاد ہیں؟
آزاد ملکوں کے درمیان اختلافات معمول کا حصہ ہیں لیکن ان سیاسی اختلافات کو دہشت گردوں کی حمایت تک لے جانا حکومتوں کا قابل فخر کارنامہ نہیں بلکہ قابل شرم و قابل مذمت برائی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 70 سال سے اختلافات اور کشیدگی کا سلسلہ جاری ہے، اس دوران تین جنگیں بھی لڑی جاچکی ہیں، اور آج کل بھی کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ بھی لگ بھگ 70 سال سے جاری ہے اور اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ مسلم مذہبی انتہاپسندی کا براہ راست تعلق مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین سے ہے۔ کیا امریکا کی کسی حکومت نے سنگین مسئلوں کو حل کرنے کی ایماندارانہ اور سنجیدہ کوششیں کیں؟ اس سوال کا واضح جواب یہ ہے کہ محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر 70 سال سے امریکی حکمران بھارت اور اسرائیل کو خوش رکھنے کی خاطر دو ایسے مسائل کو حل کرنے سے گریزاں رہے ہیں جو عالمی امن کے لیے ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکا ایک سپرپاور ہے۔ عالمی خاندان میں امریکا خاندان کا سربراہ بننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس عالمی برادری میں محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر تفریق نہ کرے۔
ماضی میں غیر جانبدار تحریک کا بھارت سربراہ رہا ہے اور اس کی عزت اسی کردار کی وجہ سے تھی، اب جب کہ بھارت امریکا کا فوجی اتحادی بنا ہوا ہے تو کیا بلوچستان میں اس کی مداخلت افغانستان میں اس کی حصہ داری امریکا کے لیے قابل قبول ہوگی؟ دہشت گردی دنیا کے لیے ایک عذاب ہے اس کے خاتمے کے لیے امریکا کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے۔ اگر امریکا بھارت اور اسرائیل کی حمایت کرتا رہا تو نہ پاکستان میں دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے نہ افغانستان میں۔