آخر کب تلک
یہاں معاملہ کسی آمرکی بے جا وکالت نہیں، بلکہ تاریخ کے صفحات کی درستی ہے۔
نئے سال کی آمد پر مبارکباد لکھوں یا گئے برس کا نوحہ۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس دور زبوں حالی کے بارے میں کیا لکھوں؟وہ ملک و معاشرہ جہاں حکمران اشرافیہ عاقبت نااندیش، نظام عدل فرسودہ اور انتظامیہ کرپٹ اور بدعنوان ہو، وہاں خرابی بسیار کا جنم لینا ایک تلخ حقیقت ہوتی ہے۔
ایسا معاشرہ جہاں جمہوریت کا شور و غوغا تو بہت ہو، مگر فکر اور ضمیر کی آزادی پہ قدغن لگے ہوں۔ وہاں عقیدے اور نسلی ولسانی عصبیتوں کا پروان چڑھنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوتی۔جہاں سیاسی جماعتیںجمہوری اقدار کے بجائے موروثیت کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہوں اور ذرایع ابلاغ عوام کی فکری تربیت کرنے کے بجائے گوئبلز طرز کے پروپیگنڈے کے ذریعے غلط کو صحیح ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہوں، وہاں سیاسی، سماجی اور انتظامی خرابیوں کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ہمارے یہاں چونکہ ہر سطح پر سنجیدگی اور دوراندیشی کی بنیاد پر دیرپا منصوبہ بندی کا فقدان ہے، اس لیے ان گنت چھوٹے موٹے مسائل گمبھیر بحرانوں میں تبدیل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مقتدر اشرافیہ کے دہرے معیارات کے باعث مسائل الجھتے جارہے ہیں۔ ایڈہاک ازم نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور پر نیک نیتی سے عمل کرنے کے بجائے گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو مسلسل بیوقوف بنانا اپنا وطیرہ بنالیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان مرحوم سے بی بی مرحومہ تک ہر اعلیٰ شخصیت کا قتل سیاست اور سیاسی مفادات کی نذر ہوگیا ہے۔
محترمہ بینظیر کے قتل کے معاملے ہی کو لیجیے، جن کی دسویں برسی 27 دسمبر کو منائی گئی۔ حسب سابق اس برس بھی پارٹی نے ان کے مزار کے قریب ایک جلسہ کا اہتمام کیا۔ گزشتہ چند برسوںسے پارٹی قیادت نے سابق صدر پرویز مشرف پر محترمہ کے قتل کا الزام عائد کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ غالباً سندھ سمیت پاکستانی عوام کی توجہ ان مسائل سے ہٹانے کی کوشش ہے، جو وہ گزشتہ دس برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ مگر یہ عمل عوام کو مطمئن کرنے کے بجائے ان کے ذہنوں میں مزید الجھنیں اور نئے سوالات پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔
لوگ یہ سوالات کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت اگر نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھتی ہے کہ پرویز مشرف بی بی کے قتل کے اصل محرک اور ذمے دار ہیں، تو اپنے پانچ سالہ دور میں انھیں قتل کی FIR میں نامزد کیوں نہ کیا؟ قتل کی شفاف تحقیق کے لیے ایک وسیع البنیاد تفتیشی کمیشن تشکیل کیوں نہیں دیا؟ پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر ایوان صدر سے کیوں رخصت کیا؟ جس مسلم لیگ (ق) کو قاتل لیگ کہا، اس کے اہم رہنما پرویزالٰہی کو نائب وزیراعظم کیوں بنایا؟ پھر عدالت کے ایما پر جب پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا، تو اس وقت محترمہ شہید کے قتل کا مقدمہ اس میں شامل کرانے کی استدعا کیوں نہیں کی؟ اب جب کہ وہ ملک سے باہر جاچکے ہیں اور ان کے واپس آنے کے امکانات کم سے کم ہوتے جارہے ہیں، تو ان کے خلاف شدومد سے قتل کا الزام کیوں عائد کیا جارہا ہے؟ کیا یہ طرز عمل عوام کو گمراہ کرنے کا باعث نہیں ہے؟
اس کے برعکس غیر جانبدار صحافی اور تجزیہ نگار اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ 2006 میں پیپلز پارٹی اور جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے (NRO) میں امریکا اور برطانیہ سمیت کئی بیرونی قوتوں کا ہاتھ تھا۔ جن کے خیال میں پاکستان میں ایک ایسی حکومت کا قیام ناگزیر ہوچکا تھا، جس میں سول اور ملٹری توازن قائم ہو۔ اس مقصد کے لیے مشرف کے ساتھ ایک لبرل سیاسی جماعت کو حکومت میں شامل کیا جائے۔ جس میں اندرون ملک تمام معاملات سیاسی جماعت چلائے، جب کہ خطے کے تزویراتی معاملات میں جنرل پرویز مشرف کا کلیدی کردار ہو۔ مغربی منصوبہ سازوں کی نظر میں پیپلز پارٹی ملک کی وہ واحد سیاسی جماعت تھی، جو لبرل ہونے کے ساتھ چاروں صوبوں میں قبولیت رکھتی تھی۔ چنانچہ طویل مذاکرات کے بعد اس منصوبے کو حتمی شکل دیدی گئی۔ یہ کھیل محترمہ کی شہادت کے باعث بگڑ گیا۔
اس صورتحال کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ معاہدہ طے کرتے وقت فریقین اور ثالثوں نے افغانستان میں برسرپیکار طالبان اور القاعدہ کے علاوہ پاکستانی اداروں میں شدت پسند عناصر (جن کی طرف پرویز مشرف نے اشارہ کیا ہے) اور مذہبی جماعتوں کے ردعمل کو نظر انداز کردیا تھا۔ اسی طرح صحافیوں کے اس مخصوص گروہ کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا، جو روس کے خلاف جنگ میں امریکا کے لیے رطب اللسان تھا، لیکن 9/11 کے بعد اس کا مخالف ہوگیا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی یہ معاہدہ منظر عام پر آیا، متذکرہ بالا گروپس اسے سبوتاژ کرنے کے لیے متحرک ہوگئے۔
پرویز مشرف نے ایک سے زائد مرتبہ اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بی بی انتخابات سے قبل پاکستان آئیں۔ مگر بی بی معاہدے کے بعد پاکستان آنے پر بضد تھیں۔ ان کی وجہ سے میاں نواز شریف کو بھی پاکستان آنے کی اجازت دینا پڑی۔ حالانکہ اب وہ معاہدہ بھی منظر عام پر آگیا ہے، جس کی رو سے میاں صاحب اور ان کے خاندان کو دس برس تک ملک سے باہر اور سیاست سے دور رہنا تھا۔ بی بی کے پاکستان آتے ہی 18 اکتوبر کو ان پر کراچی میں کارساز کے قریب حملہ کیا گیا۔ یہ پاکستان میں لبرل جمہوریت اور افغانستان میں امریکی موجودگی کی مخالف قوتوں کی جانب سے اشارہ تھا کہ وہ اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
چنانچہ اصل ذمے داروں سے صرف نظر کرتے ہوئے، محض اس شخص کو ذمے دار ٹھہرانا، جو معاہدے کا فریق اور خود Beneficiary ہو، اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ دعویٰ بھی درست ہوسکتا ہے کہ پرویز مشرف کی حکومت نے بی بی کی سیکیورٹی کے حوالے سے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہو۔ لیکن جہاں تک ان کے قتل میں براہ راست ملوث ہونے کا تعلق ہے، تو یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیونکہ جس معاہدے کی رو سے انھیں اگلے پانچ برس تک کے لیے صدر رہنے کی ضمانت فراہم کی گئی ہو اور یہ بھی اندازہ ہو کہ محترمہ کے قتل کے بعد ان کے اقتدار میں رہنے کا جواز ختم ہوسکتا ہے، وہ اسے اپنے ہاتھوں کیوں کر سبوتاژ کرتے۔ ہم سب نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ یعنی 2008 کے عام انتخابات کے بعد ان کے لیے صدر رہنا ممکن نہیں رہا اور وہ مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئے۔
اس مسئلے کا باریک بینی اور غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قتل کرنے والی قوتوں نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ ایک طرف پرویز مشرف، جنھیں وہ افغانستان کے نام نہاد جہاد کا مخالف اور امریکا کا مضبوط حلیف سمجھتی تھیں، اقتدار سے بے دخل کرادیا۔ دوسری طرف بی بی کو شہید کرکے پیپلز پارٹی کے سیاسی تشخص کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ کیونکہ یہ بات اب واضح ہوکر سامنے آچکی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی جو محترمہ کی زندگی میں وفاق کی علامت اور لبرل سیاست کی امین ہوا کرتی تھی، آج اپنے اصل اہداف سے ہٹ جانے کی وجہ سے صرف دیہی سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
یہاں معاملہ کسی آمرکی بے جا وکالت نہیں، بلکہ تاریخ کے صفحات کی درستی ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں کے جذباتی بیانات کے نتیجے میں حقائق مسخ ہوجانا لازمی امر ہے۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کی قیادت سے درخواست ہے کہ وہ بے شک جنرل پرویز مشرف کے اقدامات پر بحیثیت ایک آمر تنقید کریں، لیکن محترمہ شہید کے قتل کے حوالے سے عوام کو گمراہ کرنے سے گریز کریں۔ اصل حقائق تک پہنچنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے ریٹائرڈ افسران پر مشتمل ایک کمیشن قائم کرکے آج بھی نجی سطح پر تفتیش کرائی جاسکتی ہے۔ برائے مہربانی بی بی کے قتل کو تاشقند کی وہ بلی نہ بنائیں جو 50 برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک تھیلے سے باہر نہیں آسکی ہے۔
ایسا معاشرہ جہاں جمہوریت کا شور و غوغا تو بہت ہو، مگر فکر اور ضمیر کی آزادی پہ قدغن لگے ہوں۔ وہاں عقیدے اور نسلی ولسانی عصبیتوں کا پروان چڑھنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوتی۔جہاں سیاسی جماعتیںجمہوری اقدار کے بجائے موروثیت کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہوں اور ذرایع ابلاغ عوام کی فکری تربیت کرنے کے بجائے گوئبلز طرز کے پروپیگنڈے کے ذریعے غلط کو صحیح ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہوں، وہاں سیاسی، سماجی اور انتظامی خرابیوں کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ہمارے یہاں چونکہ ہر سطح پر سنجیدگی اور دوراندیشی کی بنیاد پر دیرپا منصوبہ بندی کا فقدان ہے، اس لیے ان گنت چھوٹے موٹے مسائل گمبھیر بحرانوں میں تبدیل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مقتدر اشرافیہ کے دہرے معیارات کے باعث مسائل الجھتے جارہے ہیں۔ ایڈہاک ازم نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور پر نیک نیتی سے عمل کرنے کے بجائے گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو مسلسل بیوقوف بنانا اپنا وطیرہ بنالیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان مرحوم سے بی بی مرحومہ تک ہر اعلیٰ شخصیت کا قتل سیاست اور سیاسی مفادات کی نذر ہوگیا ہے۔
محترمہ بینظیر کے قتل کے معاملے ہی کو لیجیے، جن کی دسویں برسی 27 دسمبر کو منائی گئی۔ حسب سابق اس برس بھی پارٹی نے ان کے مزار کے قریب ایک جلسہ کا اہتمام کیا۔ گزشتہ چند برسوںسے پارٹی قیادت نے سابق صدر پرویز مشرف پر محترمہ کے قتل کا الزام عائد کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ غالباً سندھ سمیت پاکستانی عوام کی توجہ ان مسائل سے ہٹانے کی کوشش ہے، جو وہ گزشتہ دس برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ مگر یہ عمل عوام کو مطمئن کرنے کے بجائے ان کے ذہنوں میں مزید الجھنیں اور نئے سوالات پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔
لوگ یہ سوالات کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت اگر نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھتی ہے کہ پرویز مشرف بی بی کے قتل کے اصل محرک اور ذمے دار ہیں، تو اپنے پانچ سالہ دور میں انھیں قتل کی FIR میں نامزد کیوں نہ کیا؟ قتل کی شفاف تحقیق کے لیے ایک وسیع البنیاد تفتیشی کمیشن تشکیل کیوں نہیں دیا؟ پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر ایوان صدر سے کیوں رخصت کیا؟ جس مسلم لیگ (ق) کو قاتل لیگ کہا، اس کے اہم رہنما پرویزالٰہی کو نائب وزیراعظم کیوں بنایا؟ پھر عدالت کے ایما پر جب پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا، تو اس وقت محترمہ شہید کے قتل کا مقدمہ اس میں شامل کرانے کی استدعا کیوں نہیں کی؟ اب جب کہ وہ ملک سے باہر جاچکے ہیں اور ان کے واپس آنے کے امکانات کم سے کم ہوتے جارہے ہیں، تو ان کے خلاف شدومد سے قتل کا الزام کیوں عائد کیا جارہا ہے؟ کیا یہ طرز عمل عوام کو گمراہ کرنے کا باعث نہیں ہے؟
اس کے برعکس غیر جانبدار صحافی اور تجزیہ نگار اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ 2006 میں پیپلز پارٹی اور جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے (NRO) میں امریکا اور برطانیہ سمیت کئی بیرونی قوتوں کا ہاتھ تھا۔ جن کے خیال میں پاکستان میں ایک ایسی حکومت کا قیام ناگزیر ہوچکا تھا، جس میں سول اور ملٹری توازن قائم ہو۔ اس مقصد کے لیے مشرف کے ساتھ ایک لبرل سیاسی جماعت کو حکومت میں شامل کیا جائے۔ جس میں اندرون ملک تمام معاملات سیاسی جماعت چلائے، جب کہ خطے کے تزویراتی معاملات میں جنرل پرویز مشرف کا کلیدی کردار ہو۔ مغربی منصوبہ سازوں کی نظر میں پیپلز پارٹی ملک کی وہ واحد سیاسی جماعت تھی، جو لبرل ہونے کے ساتھ چاروں صوبوں میں قبولیت رکھتی تھی۔ چنانچہ طویل مذاکرات کے بعد اس منصوبے کو حتمی شکل دیدی گئی۔ یہ کھیل محترمہ کی شہادت کے باعث بگڑ گیا۔
اس صورتحال کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ معاہدہ طے کرتے وقت فریقین اور ثالثوں نے افغانستان میں برسرپیکار طالبان اور القاعدہ کے علاوہ پاکستانی اداروں میں شدت پسند عناصر (جن کی طرف پرویز مشرف نے اشارہ کیا ہے) اور مذہبی جماعتوں کے ردعمل کو نظر انداز کردیا تھا۔ اسی طرح صحافیوں کے اس مخصوص گروہ کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا، جو روس کے خلاف جنگ میں امریکا کے لیے رطب اللسان تھا، لیکن 9/11 کے بعد اس کا مخالف ہوگیا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی یہ معاہدہ منظر عام پر آیا، متذکرہ بالا گروپس اسے سبوتاژ کرنے کے لیے متحرک ہوگئے۔
پرویز مشرف نے ایک سے زائد مرتبہ اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بی بی انتخابات سے قبل پاکستان آئیں۔ مگر بی بی معاہدے کے بعد پاکستان آنے پر بضد تھیں۔ ان کی وجہ سے میاں نواز شریف کو بھی پاکستان آنے کی اجازت دینا پڑی۔ حالانکہ اب وہ معاہدہ بھی منظر عام پر آگیا ہے، جس کی رو سے میاں صاحب اور ان کے خاندان کو دس برس تک ملک سے باہر اور سیاست سے دور رہنا تھا۔ بی بی کے پاکستان آتے ہی 18 اکتوبر کو ان پر کراچی میں کارساز کے قریب حملہ کیا گیا۔ یہ پاکستان میں لبرل جمہوریت اور افغانستان میں امریکی موجودگی کی مخالف قوتوں کی جانب سے اشارہ تھا کہ وہ اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
چنانچہ اصل ذمے داروں سے صرف نظر کرتے ہوئے، محض اس شخص کو ذمے دار ٹھہرانا، جو معاہدے کا فریق اور خود Beneficiary ہو، اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ دعویٰ بھی درست ہوسکتا ہے کہ پرویز مشرف کی حکومت نے بی بی کی سیکیورٹی کے حوالے سے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہو۔ لیکن جہاں تک ان کے قتل میں براہ راست ملوث ہونے کا تعلق ہے، تو یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیونکہ جس معاہدے کی رو سے انھیں اگلے پانچ برس تک کے لیے صدر رہنے کی ضمانت فراہم کی گئی ہو اور یہ بھی اندازہ ہو کہ محترمہ کے قتل کے بعد ان کے اقتدار میں رہنے کا جواز ختم ہوسکتا ہے، وہ اسے اپنے ہاتھوں کیوں کر سبوتاژ کرتے۔ ہم سب نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ یعنی 2008 کے عام انتخابات کے بعد ان کے لیے صدر رہنا ممکن نہیں رہا اور وہ مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئے۔
اس مسئلے کا باریک بینی اور غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قتل کرنے والی قوتوں نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ ایک طرف پرویز مشرف، جنھیں وہ افغانستان کے نام نہاد جہاد کا مخالف اور امریکا کا مضبوط حلیف سمجھتی تھیں، اقتدار سے بے دخل کرادیا۔ دوسری طرف بی بی کو شہید کرکے پیپلز پارٹی کے سیاسی تشخص کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ کیونکہ یہ بات اب واضح ہوکر سامنے آچکی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی جو محترمہ کی زندگی میں وفاق کی علامت اور لبرل سیاست کی امین ہوا کرتی تھی، آج اپنے اصل اہداف سے ہٹ جانے کی وجہ سے صرف دیہی سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
یہاں معاملہ کسی آمرکی بے جا وکالت نہیں، بلکہ تاریخ کے صفحات کی درستی ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں کے جذباتی بیانات کے نتیجے میں حقائق مسخ ہوجانا لازمی امر ہے۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کی قیادت سے درخواست ہے کہ وہ بے شک جنرل پرویز مشرف کے اقدامات پر بحیثیت ایک آمر تنقید کریں، لیکن محترمہ شہید کے قتل کے حوالے سے عوام کو گمراہ کرنے سے گریز کریں۔ اصل حقائق تک پہنچنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے ریٹائرڈ افسران پر مشتمل ایک کمیشن قائم کرکے آج بھی نجی سطح پر تفتیش کرائی جاسکتی ہے۔ برائے مہربانی بی بی کے قتل کو تاشقند کی وہ بلی نہ بنائیں جو 50 برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک تھیلے سے باہر نہیں آسکی ہے۔