اردو کے منفرد ادیب و مفکر شیخ فرید

شیخ فرید نے اس معاشرے کے کرب کو محسوس کرتے ہوئے حرف تاباں کی صورت ہمارے سامنے پیش کردیا ہے۔

شیخ فرید نے اس معاشرے کے کرب کو محسوس کرتے ہوئے حرف تاباں کی صورت ہمارے سامنے پیش کردیا ہے۔ (فوٹو: مصنف)

صبح صبح جب سورج کی کرنیں ان پہاڑوں پر پڑتی ہیں تو ان کی خوبصورتی میں مزید نکھار آجاتا ہے۔ کوئٹہ میں سرمئی بادلوں کی آمد ہے، درختوں کے پتے سردی کی شدت سے جھڑ رہے ہیں۔ پہاڑوں پر برفباری کا امکان بھی ہے؛ گویا پورا کوئٹہ اس وقت شدید سردی کی لپیٹ میں ہے۔ مگر چند مہربان ادب دوست ان دشواریوں کے باوجود بھی علم وادب کی ترقی اور اس کی نشو ونما میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔

جس طرح کسی بھی شے کو جاننے کےلیے اس کو اچھی طرح سے دیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے بالکل ویسے ہی کسی بھی ادیب کی ادبی خدمات یا کسی کتاب پر اپنی رائے دینے کےلیے اس کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے۔
زندہ و جاوداں
دل پہ رقم ہیں
حرف تاباں

یہ ہائیکو بلوچستان کے اس نامور ادیب کی ہے جس کا نام اردو ادب کے افق پر روشن ستارے کی طرح عیاں ہے۔

شیخ فرید صرف ''حرفِ تاباں'' کے مصنف ہی نہیں بلکہ یہ ایک مفکر، دانشور اور اس دور جدید کے ان ادیبوں میں سے ایک ہیں جن کی کاوشوں سے نوجوان قلم کاروں کی ایک بڑی کھیپ منظرعام پر آئی ہے۔ جہاں جہاں ان کے تخلیقی پھول کھلے وہاں خوشبو کی مانند پورے معاشرے کو معطر کردیا۔

شیخ فرید 20 مارچ 1963 کو بلوچستان کے شہر کولپور میں پیدا ہوئے۔ اردو فاضل (علوم شرقیہ السنہ)، بیچلر آف ایجوکیشن، ایم اے ابلاغیات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس وتدریس سے منسلک ہیں۔ صحافت کے شعبے کی بھی معلومات رکھتے ہیں۔ ان کی دو کتابوں ''ہنہ اداس ہے'' اور ''حرف تاباں'' کو ادبی حلقوں میں بےحد پذیرائی ملی جبکہ مزید تین کتابیں ''پانی پہ جلتا دیا،'' ''برف کی کلیاں'' اور ''چاند و چکور'' قریب الاشاعت ہیں۔

ڈاکٹر عرفان احمد لکھتے ہیں، ''شیخ فرید کے تمام مضامین میں ان کی فکری انفرادیت جھلکتی ہے۔ مثبت انداز میں لکھنا آج کے زمانے میں ایک بہت مشکل نیک عمل ہے، شیخ فرید 27 برسوں سے اسی مشکل کام میں مصروف عمل ہیں۔ ان کی کاوشوں کی پذیرائی بلوچستان میں ان کا نام زندہ رہنے کےلیےکافی ہے۔ ان کی کتاب اس اعتبار سے بھی بہتر ہے کہ اس کے مطالعے کے بعد قاری کو احساس ہوتا ہے کہ اس کا وقت ایک اچھے مقصد میں صرف ہوا۔ شیخ فرید کا انداز اور اسلوب ادب میں ان کی انفرادی پہچان کرواتا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔''




''حرف تاباں'' شیخ فرید کے ادبی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں موجود تمام مضامین اس معاشرے میں پائی جانے والی بے چینیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے مضامین میں ادب اور معاشرتی سلجھاؤ، قومی زباں سے عناد کیوں، ادب کے فرغ میں انسانی کردار، ادب میں جدید ٹیکنالوجی کے اثرات، ادب اور آزادی، اور ادب ادیب اور معاشرہ کے علاوہ ان کے دیگر مضامین بھی حقیقت کے رنگ پیش کرتے ہیں۔

فکر و فن کی پختگی لفظوں کو پر کشش بنانے کے ساتھ ساتھ حرف تاباں میں موجود تمام مضامین شیخ فرید کے کمال فن کو ظاہر کرتے ہیں۔

اس معاشرے میں ہر شے کا کسی نہ کسی کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے۔ اسی طرح قلم، ادب اور ادیب کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ادیب اس معاشرے کی الجھنوں کو اپنے قلم کے ذریعے لفظوں کی صورت میں جوڑ کر اس معاشرے کے مختلف طبقہ ہائے فکر کے سامنے پیش کرتا ہے کہ شاید کہیں سے ان کے غموں کا مداوا ہوسکے۔

پروفیسر شمیم اختر اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ شیخ فرید ''ایسے لکھاری ہیں جو ماحول اور معاشرے پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ مشاہدے کے ذریعے اپنے تصور کو زبان دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قاری کی زبان بن جاتا ہے۔ اس کے پانچوں مجموعے مختلف مزاجوں کے عکاس ہیں۔ شعری مجموعہ، افسانوی اور پھر بچوں کےلیے اور ساتھ ساتھ اخباری کالموں پر بھی قلم اٹھاتا ہے لیکن اس بار ''حرفِ تاباں'' ادبی زاویوں کا ایسا مرقع ہے جو ادبی افق پر نئے پر کھولے گا۔''

شیخ فرید کی حرف تاباں میں تمام مضامین عام فہم اور سبق آموز ہیں۔ انہوں نے سلیس انداز میں تمام مضامین کو سپرد قلم کرکے بامقصد ادب تخلیق کیا ہے۔ شیخ فرید نے اس معاشرے کے کرب کو محسوس کرتے ہوئے حرف تاباں کی صورت ہمارے سامنے پیش کردیا ہے۔

ہماری دعا ہے کہ قلم زندہ رہے، علم کا بول بالا ہو اور شیخ فرید جیسے مخلص دانشور اور محقق ہمیشہ تابندہ رہیں، آمین۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story