سال گزشتہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ
ملک کے سب سے زیادہ شورش زدہ علاقے بلوچستان میں ابتری برقرار رہی
دہشت گردوں نے 2017 میں بھی پاکستان میں امن کو سبوتاژ کیے رکھا، تشویشناک امر یہ ہے کہ باوجود دہشت گردوں کے خلاف موثر آپریشنز کے دہشت گردانہ حملوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ملک میں ضرب العضب کے بعد آپریشن ردالفساد بھی جاری ہے، ہمارے ملک کے جوان قوم کی سلامتی اور قیام امن کے لیے اپنی زندگیاں نچھاور کررہے ہیں لیکن ابھی شرپسندوں کی باقیات کا مکمل خاتمہ ہونا باقی ہے۔
سال کے آخری روز بھی ژوب کے علاقے گل کچھ میں آپریشن رد الفساد کے دوران دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں سیکیورٹی فورسز کے 2 اہلکار شہید ہوگئے۔ اس سے قبل جنوبی وزیرستان میں سڑک کنارے نصب ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں امن کمیٹی کے سربراہ سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے۔ ملک کی سلامتی کے درپے دہشت گرد عناصر جہاں موقع ملتا ہے زک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
سال کے پہلے دن بھی چمن میں مال روڈ پر پولیس ناکے کے قریب یکے بعد دیگرے ہونے والے 2 دھماکوں میں پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے۔ ذرایع کے مطابق پہلا دھماکا اسپیل برانچ کے دفتر کے قریب ہوا جب کہ دوسرا دھماکا پولیس ناکے پر کیا گیا، زخمیوں میں پولیس اور لیویز کے 3اہلکار بھی شامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کو متحرک کیا جائے اور دہشت گردوں کو ان کی مذموم کارروائیوں سے پہلے پکڑا جائے۔
سال گزشتہ ملک میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں بھی تشویشناک ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پکس) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 2017 میں ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں بڑھی ہیں اور مجموعی طور پر 23 خودکش حملے ہوئے، جب کہ تقابل میں 2015 میں 18 اور 2016 میں 17خودکش حملے ہوئے تھے۔ شرپسندوں کی ان وارداتوں میں گزشتہ برس 585 شہری اور 247 اہلکار شہید جب کہ جوابی کارروائیوں میں 555 جنگجو ہلاک ہوئے۔
ملک کے سب سے زیادہ شورش زدہ علاقے بلوچستان میں ابتری برقرار رہی، بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کے پیچھے پڑوسی ملک کا ہاتھ ثابت ہوچکا ہے، اس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، بلوچستان کے عوام کے تحفظات دور اور شرپسندوں کی قلع قمع کرکے حالات بہتر بنائے جاسکتے ہیں۔
فاٹا میں بھی اغوا کے واقعات بڑھ گئے ہیں، خیبرپختونخوا میں صورتحال بہتر رہی لیکن دہشت گرد گروہوں کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔ سیکیورٹی اداروں اور پوری قوم کو مل کر شرپسند عناصر کے خلاف محاذ قائم کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
سال کے آخری روز بھی ژوب کے علاقے گل کچھ میں آپریشن رد الفساد کے دوران دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں سیکیورٹی فورسز کے 2 اہلکار شہید ہوگئے۔ اس سے قبل جنوبی وزیرستان میں سڑک کنارے نصب ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں امن کمیٹی کے سربراہ سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے۔ ملک کی سلامتی کے درپے دہشت گرد عناصر جہاں موقع ملتا ہے زک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
سال کے پہلے دن بھی چمن میں مال روڈ پر پولیس ناکے کے قریب یکے بعد دیگرے ہونے والے 2 دھماکوں میں پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے۔ ذرایع کے مطابق پہلا دھماکا اسپیل برانچ کے دفتر کے قریب ہوا جب کہ دوسرا دھماکا پولیس ناکے پر کیا گیا، زخمیوں میں پولیس اور لیویز کے 3اہلکار بھی شامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کو متحرک کیا جائے اور دہشت گردوں کو ان کی مذموم کارروائیوں سے پہلے پکڑا جائے۔
سال گزشتہ ملک میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں بھی تشویشناک ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پکس) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 2017 میں ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں بڑھی ہیں اور مجموعی طور پر 23 خودکش حملے ہوئے، جب کہ تقابل میں 2015 میں 18 اور 2016 میں 17خودکش حملے ہوئے تھے۔ شرپسندوں کی ان وارداتوں میں گزشتہ برس 585 شہری اور 247 اہلکار شہید جب کہ جوابی کارروائیوں میں 555 جنگجو ہلاک ہوئے۔
ملک کے سب سے زیادہ شورش زدہ علاقے بلوچستان میں ابتری برقرار رہی، بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کے پیچھے پڑوسی ملک کا ہاتھ ثابت ہوچکا ہے، اس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، بلوچستان کے عوام کے تحفظات دور اور شرپسندوں کی قلع قمع کرکے حالات بہتر بنائے جاسکتے ہیں۔
فاٹا میں بھی اغوا کے واقعات بڑھ گئے ہیں، خیبرپختونخوا میں صورتحال بہتر رہی لیکن دہشت گرد گروہوں کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔ سیکیورٹی اداروں اور پوری قوم کو مل کر شرپسند عناصر کے خلاف محاذ قائم کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔