کیا آلو مفید غذا ہے

پاکستانیوں کے من پسند کھاجے کی مفید معلومات

موٹاپا پیدا کرنے کی وجہ سے ہی کئی مرد و زن آلو کے قریب نہیں پھٹکتے۔ فوٹو؛ فائل

وطن عزیز کے طول و عرض میں آلو مختلف طریقوں سے پکا کر کھایا جاتا ہے۔ یہ ہم وطنوں میں مقبول سبزی ہے۔ تاہم بہت سے لوگ آلو کو غیر صحت بخش غذا سمجھتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آلو دیگر سبزیوں کے مقابلے میں بلند ''گلائی سیمک انڈکس'' (Glycemic index) رکھتا ہے۔

عام الفاظ میں مطلب یہ کہ جب آلو کھایا جائے تو وہ جسم کے اندر پہنچتے ہی بہت جلد گھل کر شکر(شوگر) میں بدل جاتا ہے۔ جب جسم میں شکر بڑھ جائے تو ہمارا لبلبہ انسولین ہارمون خارج کرتا ہے تاکہ وہ شکر کو کنٹرول کرسکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جیسے ہی شکر کم ہو، انسان کو پھر بھوک لگ جاتی ہے حالانکہ ابھی اس نے کھانے میں آلو کھائے ہیں۔ چناں چہ وہ اور کھانا کھاتا اور یوں اپنا وزن بڑھانے لگتا ہے۔

موٹاپا پیدا کرنے کی وجہ سے ہی کئی مرد و زن آلو کے قریب نہیں پھٹکتے مگر ماہرین کی رو سے یہ غلط روش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آلو اعتدال سے کھایا جائے تو یہ موٹاپا پیدا نہیں کرتا بلکہ انسانی صحت کو فائدہ پہنچاتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ اگر ایک درمیانہ آلو چھلکے سمیت ابال کر کھایا جائے تو وہ 160 کیلوریز فراہم کرتا ہے۔ یہ کیلوریز 4 گرام فائبر اور 4 گرام پروٹین مل کر فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا تین چار آلو کھا کر ہی انسان کا پیٹ بھرسکتا ہے۔ پھر یہ سبزی چکنائی اور کولیسٹرول سے بھی پاک ہے۔ لہٰذا کسی کو پیٹ بھرنے کے ساتھ توانائی درکار ہے، تو وہ تین چار آلو ابال کر معتدل نمک مرچ کے ساتھ کھا لے۔ اسے صحت بخش غذا مل جائے گی۔

آلو میں پوٹاشیم معدن کافی مقدار میں ہوتا ہے۔ یہ معدن انسان کو ہائی بلڈ پریشر جیسے موذی مرض سے محفوظ رکھتا ہے۔ نیز وٹامن بی6، وٹامن سی اور فولاد جیسے اہم غذائی عناصر بھی آلو میں پائے جاتے ہیں۔غرض آلو ایک مفید سبزی ہے، مگر اسے اعتدال سے قدرتی حالت میں استعمال کیا جائے تبھی وہ فائدہ دیتی ہے۔ آلو کو چپس کی صورت تیل میں خوب تل کر کیچپ اپ کے ساتھ کھایا جائے، تب بھی اس غذا کا حد سے زیادہ استعمال انسان کو فربہ کرسکتا ہے۔ اگر ابلے آلو کے چپس کھائے جائیں تو وہ زیادہ صحت بخش ہیں۔


اللہ تعالیٰ کی نعمت، آلو ایک حیرت انگیز کرشمہ بھی رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ جب آلو ابال کر ٹھنڈا ہوجائے، تو وہ نشاستے کی ایک قسم ''مزاحمتی نشانے'' (Resistant Starch) میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یہ مزاحمتی نشاستہ دراصل کاربوہائیڈریٹ کی ایک خاص قسم ہے۔ کاربوہائیڈریٹ تو باآسانی جسم میں جذب ہوکر اس کا ایندھن بن جاتا ہے۔ لیکن مزاحمتی نشاستہ فائبر (ریشے) کی طرح انسانی بدن میں جذب نہیں ہوتا۔

یہی وجہ ہے، جب آلو مزاحمتی نشاستے کی صورت آنتوں میں پہنچے، تو ہمارا جسم اسے خمیر میں بدلنے لگتا ہے۔ اس عمل میں انسانی بدن کاربوہائیڈریٹ نہیں چربی گھلا کر توانائی حاصل کرتا ہے۔ گویا جو فربہ انسان روزانہ اعتدال سے ابلے آلو کھائے وہ چند ہفتوں میں اپنی اچھی خاصی چربی سے نجات پاسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ آلو زیادہ سے زیادہ قدرتی حالت میں اور معتدل طریقے سے استعمال کیا جائے۔ آخر میں آلو سے متعلق آئرلینڈ کی ایک خوبصورت کہاوت پیش ہے:

''جہاں پیار محبت ہو، وہاں آلو بڑی آسانی سے دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔''

 
Load Next Story