حکومت کے 5 سال جمہوریت کی مضبوطی مگر کارکردگی مایوس کن
اس جمہوری دور کا اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس دور میں گڈ گورننس کا شدید فقدان رہا۔
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب جمہوری حکومت کی5سالہ مدت کی تکمیل کو جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کیلئے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔
پارلیمان کی آئینی مدت کی تکمیل کو پارلیمانی نظام کی مضبوطی سے تعبیر کیاجارہاہے۔65 سالہ مکمل تاریخ میں بار بار جمہوریت پر شب خون ماراگیا اور ہر بار اسمبلیاں قبل از وقت توڑنے کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ پہلی پارلیمنٹ ہے جس نے آئینی مدت بغیر ڈکٹیٹر کی چھتری کے پوری کی ہے۔ گزشتہ 5 سالہ جمہوری دورحکومت میں کئی اہم نشیب وفراز آئے، ریاستی اداروں کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کا ماحول جاری رہا۔ اکثر مواقعوں پر ایسے حالات پیدا ہوگئے جب ریاستی اداروں کے درمیان خوفناک تصادم کے قوی امکانات تھے۔
اس کشیدگی اور کشمکش کی وجہ سے جمہوری نظام کے لپیٹ دینے کی قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔ عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے حکومت کی طرف سے لیت ولعل کے باعث کئی بار ملک میں عدم استحکام کی فضاء پیدا ہوئی تاہم تمام ترقیاس آرائیاں بے بنیاد ثابت ہوئیں۔
اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے جہاں سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوریت کو پٹڑی سے نہ اترنے دیا،وہاں عسکری قیادت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ فوج نے اپنے آپ کو پیشہ وارانہ معاملات تک محدود رکھا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے فوج کی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے ہر بار جمہوریت کا ساتھ دینے کا عزم کو دہرایا۔ عسکری قیادت کے اس اقدام کو سیاسی قوتوں نے بہت سراہا ہے۔ غیر جانبدار حلقے افواج پاکستان کی طرف سے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرنے کو بھی لائق تحسین قراردیتے ہیں۔
اس جمہوری دور کا اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس دور میں گڈ گورننس کا شدید فقدان رہا۔ کرپشن کے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے، ادارے زبوں حالی کا شکار ہوگئے۔ اقرباء پروری، رشوت ستانی،بدانتظامی ،بیروزگاری ، مہنگائی اور دہشت گردی کا دور دورہ رہا۔ مجموعی طور پر حکومتی کارکردگی ہر سطح پر تمام تر دعوئوں کے باوجود مایوس کن رہی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کو آئینی محاذ پر یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس حکومت کے دور میں آئین کو بحال کرنے کے لئے اہم نوعیت کی قانون سازی کی گئی۔
آئین پاکستان کو 18ویں ترمیم کے ذریعے بحال کیا گیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مکمل بااختیار بنانے کے لئے پارلیمنٹ نے 19ویں ترمیم کی منظوری دی۔ پہلی بار سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے ایک غیر جانبدار شخصیت جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا۔آئندہ عام انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ بنانے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی خودمختاری اور آزادی ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب جبکہ قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ 5سالہ مدت کی تکمیل پر تحلیل ہوچکی ہے۔
نگران وزیراعظم کی نامزدگی کے معاملے پر ڈیڈ لاک کی کیفیت جاری ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کی طرف سے دیئے گئے نگران وزیراعظم کے لئے مجوزہ ناموں کو قائدحزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے مسترد کردیا ہے جبکہ دوسری طرف حکومت نے اپوزیشن کے تجویزکردہ نام بھی مسترد کردیئے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تاحال تمام تر کوششوں کے باوجود نگران وزیراعظم کے معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہوا ہے۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار 20ویں ترمیم کے ذریعے غیرجانبدار نگران سیٹ اپ کا قیام عمل میں لانے کے لئے قائدایوان اور قائدحزب اختلاف کو یہ اختیارتفویض کیا گیا کہ وہ مشاورت کرکے نگران وزیراعظم کے لئے نام دیں گے۔
نگران وزیراعظم کے لئے 20 ترمیم کے تحت یہ آئینی طریقہ کار ہرلحاظ سے خوش آئند ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اور قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کے درمیان مجوزہ ناموں پر اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث یہ معاملہ اب پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلاگیا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کے لئے حکومت نے چار ارکان کے ناموں کا اعلان کردیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں آئندہ نگران وزیراعظم کی نامزدگی کے لئے سیاسی سرگرمیاں نقطہ عروج پر ہیں۔ ان سطور کی اشاعت تک غالب امکان ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کا پہلا اجلاس طلب کیا جاچکا ہوگا۔
مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے سرکردہ قائدین پس پردہ یہ کوشش کررہے ہیں کہ نگران وزیراعظم کے معاملہ پر پارلیمانی کمیٹی کے اندر اتفاق رائے ہوجائے اور یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان تک بھیجنے کی نوبت نہ آئے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ مجوزہ تمام نام واپس لے کر ایک متفقہ نیا نام نگران وزیراعظم کے لئے دینے پر اعلیٰ ترین سطح پر غور کیاجارہا ہے۔قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کی طرف سے جسٹس(ر) شاکر اللہ جان کا نام نگران وزیراعظم کی فہرست سے نکالنے پر مولانافضل الرحمن اور آفتاب احمد خان شیرپاؤنے شدید تحفظات کا اظہا کردیا ہے۔ مولانافضل الرحمن نے بغیرمشاورت کے یہ نام واپس لینے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے پر جسٹس(ر) شاکر اللہ جان کا نام دوبارہ شامل کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ نگران وزیراعظم کے معاملے پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جاری سیاسی محاذ آرائی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے نگران وزیراعظم کے لئے تجویزکردہ ناموں سابق وزیرخزانہ ڈاکٹرحفیظ شیخ اور سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹرعشرت حسین کے ناموں پر اپوزیشن کے شدید تحفظات سامنے آگئے ہیں اور قائدحزب اختلاف نے اپنے چیمبر میں صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ اب بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اشارے پر کسی شخص کو نگران وزیراعظم کے لئے ہرگزنامزد نہیں کیاجائے گا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ اپوزیشن کے شدید تحفظات کے بعد وزیراعظم کی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں،تاہم پیپلزپارٹی کے بعض قائدین تاحال بھی یہ دعوے کررہے ہیں کہ ابھی تک ڈاکٹرحفیظ شیخ نگران وزیراعظم کے لئے مضبوط امیدوار ہیں۔ باخبر حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ مجوزہ پارلیمانی کمیٹی کے اندر بھی نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان نگران وزیراعلیٰ اور نگران وزیراعظم کی نامزدگی پر بارگیننگ ہورہی ہے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نگران وزیراعلیٰ کے نام پر اتفاق رائے سے نگران وزیراعظم کی نامزدگی مشروط ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف چوہدری نثارعلی خان کے ساتھ کئی بار رابطے کر چکے ہیں۔ فریقین کے درمیان نگران سیٹ اپ پر اتفاق رائے سے سیاسی پختگی اور ہم آہنگی کا پیغام اقوام عالم میں جاسکتا ہے۔ سیاسی قوتوں کو اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ موقع ہرگز ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
پارلیمان کی آئینی مدت کی تکمیل کو پارلیمانی نظام کی مضبوطی سے تعبیر کیاجارہاہے۔65 سالہ مکمل تاریخ میں بار بار جمہوریت پر شب خون ماراگیا اور ہر بار اسمبلیاں قبل از وقت توڑنے کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ پہلی پارلیمنٹ ہے جس نے آئینی مدت بغیر ڈکٹیٹر کی چھتری کے پوری کی ہے۔ گزشتہ 5 سالہ جمہوری دورحکومت میں کئی اہم نشیب وفراز آئے، ریاستی اداروں کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کا ماحول جاری رہا۔ اکثر مواقعوں پر ایسے حالات پیدا ہوگئے جب ریاستی اداروں کے درمیان خوفناک تصادم کے قوی امکانات تھے۔
اس کشیدگی اور کشمکش کی وجہ سے جمہوری نظام کے لپیٹ دینے کی قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔ عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے حکومت کی طرف سے لیت ولعل کے باعث کئی بار ملک میں عدم استحکام کی فضاء پیدا ہوئی تاہم تمام ترقیاس آرائیاں بے بنیاد ثابت ہوئیں۔
اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے جہاں سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوریت کو پٹڑی سے نہ اترنے دیا،وہاں عسکری قیادت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ فوج نے اپنے آپ کو پیشہ وارانہ معاملات تک محدود رکھا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے فوج کی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے ہر بار جمہوریت کا ساتھ دینے کا عزم کو دہرایا۔ عسکری قیادت کے اس اقدام کو سیاسی قوتوں نے بہت سراہا ہے۔ غیر جانبدار حلقے افواج پاکستان کی طرف سے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرنے کو بھی لائق تحسین قراردیتے ہیں۔
اس جمہوری دور کا اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس دور میں گڈ گورننس کا شدید فقدان رہا۔ کرپشن کے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے، ادارے زبوں حالی کا شکار ہوگئے۔ اقرباء پروری، رشوت ستانی،بدانتظامی ،بیروزگاری ، مہنگائی اور دہشت گردی کا دور دورہ رہا۔ مجموعی طور پر حکومتی کارکردگی ہر سطح پر تمام تر دعوئوں کے باوجود مایوس کن رہی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کو آئینی محاذ پر یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس حکومت کے دور میں آئین کو بحال کرنے کے لئے اہم نوعیت کی قانون سازی کی گئی۔
آئین پاکستان کو 18ویں ترمیم کے ذریعے بحال کیا گیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مکمل بااختیار بنانے کے لئے پارلیمنٹ نے 19ویں ترمیم کی منظوری دی۔ پہلی بار سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے ایک غیر جانبدار شخصیت جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا۔آئندہ عام انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ بنانے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی خودمختاری اور آزادی ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب جبکہ قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ 5سالہ مدت کی تکمیل پر تحلیل ہوچکی ہے۔
نگران وزیراعظم کی نامزدگی کے معاملے پر ڈیڈ لاک کی کیفیت جاری ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کی طرف سے دیئے گئے نگران وزیراعظم کے لئے مجوزہ ناموں کو قائدحزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے مسترد کردیا ہے جبکہ دوسری طرف حکومت نے اپوزیشن کے تجویزکردہ نام بھی مسترد کردیئے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تاحال تمام تر کوششوں کے باوجود نگران وزیراعظم کے معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہوا ہے۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار 20ویں ترمیم کے ذریعے غیرجانبدار نگران سیٹ اپ کا قیام عمل میں لانے کے لئے قائدایوان اور قائدحزب اختلاف کو یہ اختیارتفویض کیا گیا کہ وہ مشاورت کرکے نگران وزیراعظم کے لئے نام دیں گے۔
نگران وزیراعظم کے لئے 20 ترمیم کے تحت یہ آئینی طریقہ کار ہرلحاظ سے خوش آئند ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اور قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کے درمیان مجوزہ ناموں پر اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث یہ معاملہ اب پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلاگیا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کے لئے حکومت نے چار ارکان کے ناموں کا اعلان کردیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں آئندہ نگران وزیراعظم کی نامزدگی کے لئے سیاسی سرگرمیاں نقطہ عروج پر ہیں۔ ان سطور کی اشاعت تک غالب امکان ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کا پہلا اجلاس طلب کیا جاچکا ہوگا۔
مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے سرکردہ قائدین پس پردہ یہ کوشش کررہے ہیں کہ نگران وزیراعظم کے معاملہ پر پارلیمانی کمیٹی کے اندر اتفاق رائے ہوجائے اور یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان تک بھیجنے کی نوبت نہ آئے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ مجوزہ تمام نام واپس لے کر ایک متفقہ نیا نام نگران وزیراعظم کے لئے دینے پر اعلیٰ ترین سطح پر غور کیاجارہا ہے۔قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کی طرف سے جسٹس(ر) شاکر اللہ جان کا نام نگران وزیراعظم کی فہرست سے نکالنے پر مولانافضل الرحمن اور آفتاب احمد خان شیرپاؤنے شدید تحفظات کا اظہا کردیا ہے۔ مولانافضل الرحمن نے بغیرمشاورت کے یہ نام واپس لینے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے پر جسٹس(ر) شاکر اللہ جان کا نام دوبارہ شامل کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ نگران وزیراعظم کے معاملے پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جاری سیاسی محاذ آرائی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے نگران وزیراعظم کے لئے تجویزکردہ ناموں سابق وزیرخزانہ ڈاکٹرحفیظ شیخ اور سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹرعشرت حسین کے ناموں پر اپوزیشن کے شدید تحفظات سامنے آگئے ہیں اور قائدحزب اختلاف نے اپنے چیمبر میں صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ اب بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اشارے پر کسی شخص کو نگران وزیراعظم کے لئے ہرگزنامزد نہیں کیاجائے گا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ اپوزیشن کے شدید تحفظات کے بعد وزیراعظم کی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں،تاہم پیپلزپارٹی کے بعض قائدین تاحال بھی یہ دعوے کررہے ہیں کہ ابھی تک ڈاکٹرحفیظ شیخ نگران وزیراعظم کے لئے مضبوط امیدوار ہیں۔ باخبر حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ مجوزہ پارلیمانی کمیٹی کے اندر بھی نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان نگران وزیراعلیٰ اور نگران وزیراعظم کی نامزدگی پر بارگیننگ ہورہی ہے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نگران وزیراعلیٰ کے نام پر اتفاق رائے سے نگران وزیراعظم کی نامزدگی مشروط ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف چوہدری نثارعلی خان کے ساتھ کئی بار رابطے کر چکے ہیں۔ فریقین کے درمیان نگران سیٹ اپ پر اتفاق رائے سے سیاسی پختگی اور ہم آہنگی کا پیغام اقوام عالم میں جاسکتا ہے۔ سیاسی قوتوں کو اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ موقع ہرگز ضائع نہیں کرنا چاہیے۔