سندھ حکومت کے بعض وزراء پارٹی پالیسی سے متصادم
مرکز اور سندھ میں جہاں پیپلزپارٹی نے کئی کامیابیاں حاصل کیں وہیں، اس کے حصے میں کچھ ایسی چیزیں بھی آئیں جن کی وجہ۔۔۔
پیپلز پارٹی کی حکومت 5 سال پورے کرکے مرکز سے رخصت ہوچکی ہے اور سندھ اسمبلی بھی تحلیل کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ گورنر سندھ کو ایڈوائس بھی چکے ہیں۔
مرکز اور سندھ میں جہاں پیپلزپارٹی نے کئی کامیابیاں حاصل کیں وہیں، اس کے حصے میں کچھ ایسی چیزیں بھی آئیں جن کی وجہ سے اس پر مخالفین کو انگلیاں اٹھانے کے مواقع ملے۔ جاتے جاتے بھی سندھ حکومت کو ایک ایسے ہی واقعہ کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب صوبائی وزیر بلدیات آغا سراج درانی پر سیکرٹری لوکل گورنمنٹ بورڈ شوکت جوکھیو نے یہ الزام عائد کیا کہ صوبائی وزیر اپنے مسلح گارڈز کے ہمراہ ان کے دفتر سندھ سیکرٹری تغلق ہائوس آئے اور ان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ پچھلی تاریخوں میں بھرتیوں کے ڈیڑھ سو آرڈرز پر فوری دستخط کردیں مگر انکار کرنے پر ان پر شدید تشدد کیا گیا ۔
شوکت جوکھیو جب اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے تھانے پہنچے تو پولیس نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی مگر جب یہ خبریں میڈیا پر نشر کی جانے لگیں تو پھر پولیس پر بھی دبائو بڑھا مگر انھوں نے شوکت جوکھیو کی درخواست پر مقدمہ درج کرنے سے قبل ان کے خلاف بھی مقدمہ درج کرلیا۔ وزیر بلدیات آغا سراج درانی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ شوکت جوکھیو کا اس عہدے سے تبادلہ ہوچکا تھا اور انھوں نے غیر قانونی طور پر دفتر کا تالہ توڑ کرسرکاری کاغذات اپنے قبضے میں لیے۔
مجھے اگر بھرتیوں کے آرڈرز پر دستخط کرانا ہوتے تو میں شوکت جوکھیو سے کیوں کہتا میں تو اس بارے میں سیکرٹری محکمہ بلدیات سے کہتا۔ اسی لیے دفتر کا تالہ توڑنے اور سرکاری دستاویزات چرانے پر شوکت جوکھیو کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی ہے''۔ شوکت جوکھیو کے الزام یا وزیر بلدیات کی تردید میں کتنی صداقت ہے اس کا تو انکوائری کے بعد ہی پتہ چلے گا، تاہم ایسے افسوسناک واقعہ سے سندھ حکومت کے متعلق عوام کو اچھا پیغام نہیں گیاجبکہ حکومت کے اختتام پر عوام میں اپنا امیج بہتر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر بلدیات خود گریڈ 18کے ایک افسر کے دفتر میں درجنوں گارڈز کے ساتھ کیوں گئے ۔ اگر شوکت جوکھیو نے دفتر کا تالہ توڑا تھا تو وزیر بلدیات کو چاہیے تھا کہ وہ سیکرٹری بلدیات کو حکم دیتے کہ دفتر خالی کرایا جائے اور شوکت جوکھیوکے خلاف قانونی کارروائی کی جائے ۔ آغا سراج درانی کی پہلے بھی کسئی افسروں سے کشیدگی رہی ہے اور کئی افسروں نے ان کے خلاف بغاوت بھی کی ہے ۔ ان افسروں میں سابق مینجنگ ڈائریکٹر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سجاد عباسی اور سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) محمد حسین سید خاص طور پر قابل ذکرہیں ۔
بغاوت کرنے والے شوکت جوکھیو پہلے افسر نہیں ہیں اس سارے واقعے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اس کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ثنااﷲ عباسی کو انکوائری افسر مقرر کردیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ثنااﷲ عباسی ایک طاقت ور وزیرکے اثرو رسوخ میں آئے بغیر شوکت جوکھیو پر ہونے والے تشددکی کیا رپورٹ مرتب کرتے ہیں ؟ ، سیاسی اور سنجیدہ حلقوں کاکہنا ہے کہ بطور وزیر آغا سراج درانی کو اپنے منصب کا خیال رکھنا چاہیے تھا ۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ حکومت سندھ کے ایک مشیر نے صدر زرداری کو سندھ کے بعض وزرا کے محکموں میں ہونے والی کرپشن کی خفیہ رپورٹ دی تھی جس کا ان وزراکو پتہ چل گیا تھا، اس کے بعد مذکورہ مشیر کو برطرف کردیا گیا تھا ، صدر آصف علی زرداری کی پالیسیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی سندھ میں سیاسی پوزیشن مضبوط ہوگئی ہے لیکن کچھ وزراکی کارکردگی کے باعث مجموعی طور پر حکومت سندھ کی کارکردگی کے بارے میں سوالات کیے جارہے ہیں۔
لوگوں کو پنجاب کا ایک واقعہ یاد ہے جس میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے داماد نے ایک بیکری والے پر تشدد کیا تھا اور وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے داماد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ آغا سراج درانی والے واقعے پر کیا کارروائی کرتے ہیں۔
سندھ اسمبلی کی تحلیل اور سندھ حکومت کے خاتمے کی خبر وزرا اور دیگر حکمرانوں کو پہلے سے مل گئی تھی۔ اس لیے پیر کو رات گئے تک سندھ سیکریٹریٹ میں دفاتر کھلے رہے اور وزرا اور مشیروں کے احکامات کے مطابق کام ہوتے رہے ۔ سندھ سیکرٹریٹ کے اردگرد سڑکوں ، سیکریٹریٹ کے ہر بلاک کے کوریڈرز میں اس قدر رش تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی ۔ مختلف محکموں میں کہیں افسران کام کر رہے تھے اور کہیں انکار کر رہے تھے لیکن کسی جگہ پر اس طرح کا واقعہ رونما نہیں ہوا جس طرح کا واقعہ محکمہ بلدیات میں رونما ہوا ۔
جو کام آخری دنوں میں کیے گئے، یہ پہلے بھی قانونی طریقے سے کرائے جاسکتے تھے۔ بہرحال سندھ حکومت اپنی مدت پوری کرکے اب عوام کی عدالت میں جا رہی ہے ۔ بہتر فیصلہ کرنے والے عوام ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ سندھ خصوصاً کراچی میں گزشتہ پانچ سال کے دوران امن قائم نہیں ہوسکا ہے ۔ نگراں حکومت کو ورثے میں بدامنی کا ایک ایسا چیلنج ملا ہے جس سے نمٹنا کوئی آسان نہیں ہوگا ۔
صدر زرداری کی پالیسیوں سے سندھ کے کسانوں کو بہت فائدہ پہنچا ہے، ہاری خواتین کو مفت زمینیں الاٹ کی گئیں ، کسانوں کو ٹریکٹرز فراہم کیے گئے ، کھاد اور بیج کی سبسڈی دی گئی ، کسانوں کی معاشی زندگی میں بہتری آئی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریبوں کی براہ راست مدد کی گئی ، یوتھ ڈیویلپمنٹ پروگرام کے تحت نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں تربیت دی گئی لیکن ان تمام اچھے کاموں کو بعض وزراء کی کارکردگی نے شدید متاثر کردیا ۔ بعض وزراء کی کرپشن پوری پیپلز پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے یا پھر صرف مخصوص وزراء کے لیے اس کا فیصلہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں عوام ہی کریں گے ۔
سندھ کے عوام تعلیم ، بلدیات ، صحت ، آبپاشی کے محکموں سے نالاں ہیں ۔ نجی محفلوں میں بعض وزراء نے اپنے دیگر وزراکے نام لیتے ہوئے خود موقف اختیار کیا کہ تبادلوں و تقرریوں کا آکشن ہوا ہے جس نے زیادہ پیسے دیے ان کے آرڈرز جاری کردیے گئے ، یہ سلسلہ آخری دنوں تک نہیں رکا ۔ صدر آصف علی زرداری نے پارٹی کو منظم کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں لیکن بعض وزراء نے ان کی قربانیوں کی قدر نہیں کی ، جھوٹ پر مبنی رپورٹ صدر زرداری کو فراہم کرکے اپنے نمبر بناتے رہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی ، فنکشنل لیگ سے اختلافات پیدا کرنے میں بھی ان وزراء کا ہی اہم کردار تھا جو پیپلز پارٹی کو مضبوط دیکھنا نہیں چاہتے تاکہ ان کی اہمیت بدستور قائم رہے ۔
مرکز اور سندھ میں جہاں پیپلزپارٹی نے کئی کامیابیاں حاصل کیں وہیں، اس کے حصے میں کچھ ایسی چیزیں بھی آئیں جن کی وجہ سے اس پر مخالفین کو انگلیاں اٹھانے کے مواقع ملے۔ جاتے جاتے بھی سندھ حکومت کو ایک ایسے ہی واقعہ کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب صوبائی وزیر بلدیات آغا سراج درانی پر سیکرٹری لوکل گورنمنٹ بورڈ شوکت جوکھیو نے یہ الزام عائد کیا کہ صوبائی وزیر اپنے مسلح گارڈز کے ہمراہ ان کے دفتر سندھ سیکرٹری تغلق ہائوس آئے اور ان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ پچھلی تاریخوں میں بھرتیوں کے ڈیڑھ سو آرڈرز پر فوری دستخط کردیں مگر انکار کرنے پر ان پر شدید تشدد کیا گیا ۔
شوکت جوکھیو جب اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے تھانے پہنچے تو پولیس نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی مگر جب یہ خبریں میڈیا پر نشر کی جانے لگیں تو پھر پولیس پر بھی دبائو بڑھا مگر انھوں نے شوکت جوکھیو کی درخواست پر مقدمہ درج کرنے سے قبل ان کے خلاف بھی مقدمہ درج کرلیا۔ وزیر بلدیات آغا سراج درانی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ شوکت جوکھیو کا اس عہدے سے تبادلہ ہوچکا تھا اور انھوں نے غیر قانونی طور پر دفتر کا تالہ توڑ کرسرکاری کاغذات اپنے قبضے میں لیے۔
مجھے اگر بھرتیوں کے آرڈرز پر دستخط کرانا ہوتے تو میں شوکت جوکھیو سے کیوں کہتا میں تو اس بارے میں سیکرٹری محکمہ بلدیات سے کہتا۔ اسی لیے دفتر کا تالہ توڑنے اور سرکاری دستاویزات چرانے پر شوکت جوکھیو کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی ہے''۔ شوکت جوکھیو کے الزام یا وزیر بلدیات کی تردید میں کتنی صداقت ہے اس کا تو انکوائری کے بعد ہی پتہ چلے گا، تاہم ایسے افسوسناک واقعہ سے سندھ حکومت کے متعلق عوام کو اچھا پیغام نہیں گیاجبکہ حکومت کے اختتام پر عوام میں اپنا امیج بہتر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر بلدیات خود گریڈ 18کے ایک افسر کے دفتر میں درجنوں گارڈز کے ساتھ کیوں گئے ۔ اگر شوکت جوکھیو نے دفتر کا تالہ توڑا تھا تو وزیر بلدیات کو چاہیے تھا کہ وہ سیکرٹری بلدیات کو حکم دیتے کہ دفتر خالی کرایا جائے اور شوکت جوکھیوکے خلاف قانونی کارروائی کی جائے ۔ آغا سراج درانی کی پہلے بھی کسئی افسروں سے کشیدگی رہی ہے اور کئی افسروں نے ان کے خلاف بغاوت بھی کی ہے ۔ ان افسروں میں سابق مینجنگ ڈائریکٹر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سجاد عباسی اور سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) محمد حسین سید خاص طور پر قابل ذکرہیں ۔
بغاوت کرنے والے شوکت جوکھیو پہلے افسر نہیں ہیں اس سارے واقعے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اس کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ثنااﷲ عباسی کو انکوائری افسر مقرر کردیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ثنااﷲ عباسی ایک طاقت ور وزیرکے اثرو رسوخ میں آئے بغیر شوکت جوکھیو پر ہونے والے تشددکی کیا رپورٹ مرتب کرتے ہیں ؟ ، سیاسی اور سنجیدہ حلقوں کاکہنا ہے کہ بطور وزیر آغا سراج درانی کو اپنے منصب کا خیال رکھنا چاہیے تھا ۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ حکومت سندھ کے ایک مشیر نے صدر زرداری کو سندھ کے بعض وزرا کے محکموں میں ہونے والی کرپشن کی خفیہ رپورٹ دی تھی جس کا ان وزراکو پتہ چل گیا تھا، اس کے بعد مذکورہ مشیر کو برطرف کردیا گیا تھا ، صدر آصف علی زرداری کی پالیسیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی سندھ میں سیاسی پوزیشن مضبوط ہوگئی ہے لیکن کچھ وزراکی کارکردگی کے باعث مجموعی طور پر حکومت سندھ کی کارکردگی کے بارے میں سوالات کیے جارہے ہیں۔
لوگوں کو پنجاب کا ایک واقعہ یاد ہے جس میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے داماد نے ایک بیکری والے پر تشدد کیا تھا اور وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے داماد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ آغا سراج درانی والے واقعے پر کیا کارروائی کرتے ہیں۔
سندھ اسمبلی کی تحلیل اور سندھ حکومت کے خاتمے کی خبر وزرا اور دیگر حکمرانوں کو پہلے سے مل گئی تھی۔ اس لیے پیر کو رات گئے تک سندھ سیکریٹریٹ میں دفاتر کھلے رہے اور وزرا اور مشیروں کے احکامات کے مطابق کام ہوتے رہے ۔ سندھ سیکرٹریٹ کے اردگرد سڑکوں ، سیکریٹریٹ کے ہر بلاک کے کوریڈرز میں اس قدر رش تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی ۔ مختلف محکموں میں کہیں افسران کام کر رہے تھے اور کہیں انکار کر رہے تھے لیکن کسی جگہ پر اس طرح کا واقعہ رونما نہیں ہوا جس طرح کا واقعہ محکمہ بلدیات میں رونما ہوا ۔
جو کام آخری دنوں میں کیے گئے، یہ پہلے بھی قانونی طریقے سے کرائے جاسکتے تھے۔ بہرحال سندھ حکومت اپنی مدت پوری کرکے اب عوام کی عدالت میں جا رہی ہے ۔ بہتر فیصلہ کرنے والے عوام ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ سندھ خصوصاً کراچی میں گزشتہ پانچ سال کے دوران امن قائم نہیں ہوسکا ہے ۔ نگراں حکومت کو ورثے میں بدامنی کا ایک ایسا چیلنج ملا ہے جس سے نمٹنا کوئی آسان نہیں ہوگا ۔
صدر زرداری کی پالیسیوں سے سندھ کے کسانوں کو بہت فائدہ پہنچا ہے، ہاری خواتین کو مفت زمینیں الاٹ کی گئیں ، کسانوں کو ٹریکٹرز فراہم کیے گئے ، کھاد اور بیج کی سبسڈی دی گئی ، کسانوں کی معاشی زندگی میں بہتری آئی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریبوں کی براہ راست مدد کی گئی ، یوتھ ڈیویلپمنٹ پروگرام کے تحت نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں تربیت دی گئی لیکن ان تمام اچھے کاموں کو بعض وزراء کی کارکردگی نے شدید متاثر کردیا ۔ بعض وزراء کی کرپشن پوری پیپلز پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے یا پھر صرف مخصوص وزراء کے لیے اس کا فیصلہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں عوام ہی کریں گے ۔
سندھ کے عوام تعلیم ، بلدیات ، صحت ، آبپاشی کے محکموں سے نالاں ہیں ۔ نجی محفلوں میں بعض وزراء نے اپنے دیگر وزراکے نام لیتے ہوئے خود موقف اختیار کیا کہ تبادلوں و تقرریوں کا آکشن ہوا ہے جس نے زیادہ پیسے دیے ان کے آرڈرز جاری کردیے گئے ، یہ سلسلہ آخری دنوں تک نہیں رکا ۔ صدر آصف علی زرداری نے پارٹی کو منظم کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں لیکن بعض وزراء نے ان کی قربانیوں کی قدر نہیں کی ، جھوٹ پر مبنی رپورٹ صدر زرداری کو فراہم کرکے اپنے نمبر بناتے رہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی ، فنکشنل لیگ سے اختلافات پیدا کرنے میں بھی ان وزراء کا ہی اہم کردار تھا جو پیپلز پارٹی کو مضبوط دیکھنا نہیں چاہتے تاکہ ان کی اہمیت بدستور قائم رہے ۔