قومی سیاست کا محور

مسلم لیگ ن کو ماضی میں دو مرتبہ اقتدار ملا لیکن وہ عوام کے اعتماد پر کسی طور پر پورا نہ اتر سکی

mjgoher@yahoo.com

KARACHI:
یہ امر یقیناً خوش آیند ہے کہ ہزارہا مشکلات، چیلنجوں اور آزمائشوں کے باوجود ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آمریت کے آمیزے سے پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت نے اپنے اقتدار کی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر لی جس سے ملک میں جمہوریت کو استحکام ملا، 16 مارچ کی رات 12 بجے اسمبلی تحلیل کر دی گئی، نگراں حکومت کے قیام اور الیکشن کی حتمی تاریخ کے اعلان کے بعد ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کی انتخابی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی، جلسے، جلوس، ریلیاں اور پرجوش انتخابی نعرے انتخابی گہما گہمی کو مہمیز کریں گے۔

الیکشن ذرایع کے مطابق 100 سے زائد چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں 2013کے عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، ملک کی دو اہم اور بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ ن نے اپنے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کر دیا ہے، اگرچہ دیگر سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، اے این پی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جے یو آئی وغیرہ بھی انتخابی معرکے میں موجود ہیں، تاہم اصل مقابلہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہی ہو گا اور ان ہی دو میں سے ایک جماعت اکثریت حاصل کرے گی، اغلب یہی ہے کہ پی پی پی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے پارٹی منشور کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت الیکشن میں کامیابی کے بعد ملک و قوم کی ترقی کے لیے بھرپور عزم کے ساتھ کام کرے گی، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے گا، مزدوروں کی کم سے کم تنخواہ 15000 روپے ہو گی اور عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کیے جائیں گے، میاں صاحب نے ماضی کی غلطیوں کی نشاندہی اور متاثرین کی شکایات کے ازالے کے لیے ایک Truth and reconciliation commission قائم کرنے کا بھی اعلان کیا۔ مسلم لیگ ن اپنے منشور پر کس قدر سنجیدگی اور اخلاص سے عمل درآمد کرے گی اس کا اندازہ تو اس کے اقتدار میں آنے اور پالیسیوں کے نفاذ کے بعد ہی ہو سکے گا۔

مسلم لیگ ن کو ماضی میں دو مرتبہ اقتدار ملا لیکن وہ عوام کے اعتماد پر کسی طور پر پورا نہ اتر سکی اور اس کی دونوں حکومتیں آئینی مدت سے قبل ہی ختم کر دی گئیں، تاہم اس مرتبہ ن لیگ کو پنجاب میں بلا شرکت غیرے کام کرنے کے بھر پور مواقع ملے لیکن خادم اعلیٰ شہباز شریف عوام کو کوئی قابل ذکر ''ریلیف'' فراہم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے، انھوں نے اپنی توانائیاں لیپ ٹاپ اسکیم جیسے محدود منصوبوں میں صرف کر دیں، آیندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے سخت تگ و دو کرنا پڑے گی، کیونکہ اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی جیسی مقبول اور عوام دوست سیاسی جماعت ہے جسے ملک کے چاروں صوبوں میں عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے، پی پی پی نے بھی آیندہ الیکشن کے حوالے سے اپنے 7 نکاتی منشور کا اعلان کر دیا ہے۔

روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی پی پی پی کا پہلا وعدہ ہے، مزدوروں کو قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نمایندگی ملے گی، جب کہ عام مزدور کی کم سے کم تنخواہ 18000 روپے ہو گی، لازمی پرائمری تعلیم اور ملک سے پولیو جیسے موذی مرض کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے گا، 50 لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا، حکومتی قرضوں اور بجٹ خسارے میں کمی کی جائے گی، نئے منصوبے کے قیام کو آئین کے تحت یقینی بنایا جائے گا، اسی طرح تمام شہریوں بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کو آئینی طور پر بااختیار بنایا جائے گا، بے روزگاری کے خاتمے کے لیے پیپلز ایمپلائمنٹ پروگرام بھی شروع ہو گا اور روزگار کے نئے مواقعے پیدا کرنے کے لیے اقتصادی زون بھی تعمیر کیے جائیں گے۔


کسی بھی سیاسی جماعت کا منشور در حقیقت اس کی نظریاتی اساس کا عکاس ہوتا ہے۔ پی پی پی بنیادی طور پر ایک بڑی اور عوام دوست جماعت ہے، اس کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو شہید عوام کو طاقت کا سر چشمہ قرار دیتے تھے، وہ عوامی مزاج کے نباض مدبر سیاستدان تھے، وہ عوام کی بنیادی ضروریات اور مسائل سے پوری طرح آگاہ تھے، اسی باعث انھوں نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا جو چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی پارٹی کی اساس ہے، بے نظیر بھٹو شہید بھی عوام سے قربت اور ان کے مسائل حل کر کے دلی آسودگی محسوس کرتی تھیں۔

پی پی پی کے موجودہ قائد صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بھی عوام دوست سیاست کے نقیب ہیں، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بقول پی پی پی نے اپنے حالیہ پانچ سالہ دور اقتدار میں پارٹی منشور پر 85 فیصد عمل درآمد کیا اور بلا شبہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ 2008 کے الیکشن کے نتیجے میں پی پی پی کو جب اقتدار ملا تو پورا ملک آمریت کے گرداب میں گھرا ہوا تھا اور اس کے لگائے ہوئے زخم ناسور بن چکے تھے، دہشت گردی، بم دھماکے، خودکش حملے، بے روزگاری، غربت، مہنگائی جیسے عفریت نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔

اس پہ مستزاد ایوان انصاف کی جانب سے آنے والی سرد ہوائوں نے پیپلز پارٹی کو جم کر کام کرنے کے بھر پور مواقع نہ دیے اس کے باوجود صدر آصف علی زرداری کی مدبرانہ قیادت میں پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے درپیش چیلنجوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اور عدالتی فیصلے کے احترام میں ایک منتخب وزیر اعظم کو بھی قربان کر دیا۔ تمام تر مشکلات کے باوجود پی پی پی کی حکومت نے جو اچھے کام کیے ہیں ان کی بہر حال تحسین کی جانی چاہیے۔

وزیر اعظم کو اختیارات کی منتقلی، این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم، سابق صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی، آئینی ترامیم اور 1973کے آئین کی بحالی، معزول ججز کی بحالی، ملکی معیشت کے استحکام اور توانائی کے ملک گیر بحران پر قابو پانے کے لیے ایران سے گیس کی فراہمی کا معاہدہ اور گوادر پورٹ کی چین کو منتقلی جیسے اہم اور بڑے کام بھی پی پی پی کے کریڈٹ پر ہیں جن کی مخالفین بھی تعریف کرنے پر مجبور ہیں۔

پاکستانی سیاست اور عوامی رجحانات کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ قومی سیاست نظریات سے زیادہ شخصیات کے سحر میں جکڑی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت کسی بھی پارٹی کے منشور کے مندرجات میں دلچسپی نہیں لیتی بلکہ میلان پارٹی قائد کی شخصیت کی طرف ہوتا ہے۔ عوام پارٹی قائد کے کردار اور قول و قرار پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ جو بات اور وعدہ کرتا ہے اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ تقسیم ہند سے قبل قائد اعظم کی شخصیت نے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کو اپنے کردار کی مضبوطی اور قول و قرار کی سچائی سے سحر زدہ کر دیا تھا۔

انھوں نے جو کہا وہ کر دکھایا اور پاکستان عالم وجود میں آ گیا، بعینہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی شخصیت بھی قومی سیاست کا سب سے مضبوط اور طاقت ور کردار ہے۔ جس نے عام آدمی کے دکھ کو قریب سے محسوس کیا، کمزور طبقات کو قوت گویائی دی اور اپنے حقوق کے حصول کی جد وجہد سے آشنا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ کروڑوں عوام آج بھی بھٹو کے نام پر ووٹ دیتے ہیں، سیاسی پارٹیوں کے منشور اپنی جگہ لیکن یہ امر بہرحال مسلمہ ہے کہ نظریات کے مقابلے میں شخصیات ہماری قومی سیاست کا محور ہیں عوام انھی کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے اور ووٹ دیتے ہیں۔
Load Next Story