جمہوری فسانے رہ گئے

ایک طویل عرصے تک پاکستان کے لوگوں کو علم ہی نہ تھا کہ اس عظیم شخصیت نے اپنی اتنی دولت کا کیا کیا؟

ایک جمہوری حکومت کے پانچ سال ختم ہو گئے اور وہ چلی گئی، یہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی جمہوری حکومت تھی جس نے اپنے پورے حکومتی دورانیے کو مکمل کیا، لیکن کس انداز سے کیا نہ پوچھیے۔ یہ وہی حکومت تھی جسے تخت پر آنسوؤں اور سسکیوں کے ساتھ بٹھایا گیا اور اس کا سارا کریڈٹ بے نظیر بھٹو مرحومہ کو جاتا ہے، لیکن ان آنسوؤں اور سسکیوں کو ختم نہ کیا گیا، پورے پانچ برس عوام اسی طرح روتے رہے، دہشت گردی، مہنگائی، کرپشن نے سب کو خوب رلایا، جب کہ لوٹنے والے دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے۔

اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی کا نام تبدیل کرنے کے لیے لوگ زور لگاتے رہے کہ ان کی نظر میں قائد اعظم کی شخصیت ان کی وضع داری ان کی دریا دلی اور سیاست کا مقام شاید دھندلا سا تھا، یہ وہی قائد اعظم ہیں جنھوں نے اپنی ساری دولت اپنے عوام کے نام کر دی تھی جو پیشے کے اعتبار سے بیرسٹر تھے اور اپنے کام کا معاوضہ اپنی بہترین وکالت اور تجربے کے مطابق ہرگز کم نہ لیتے تھے، اس مہنگے ترین بیرسٹر نے بہت نام اور پیسہ کمایا اور جب پاکستان بنا تو اسی عظیم شخصیت نے اسمبلی میں چائے کی پیالی پینی بھی ممنوع قرار دیدی کہ اس سے قومی خزانے پر اثر پڑے گا اور اپنی تمام دولت اپنے عوام کے نام ٹرسٹ بنا کر وقف کردی۔

ایک طویل عرصے تک پاکستان کے لوگوں کو علم ہی نہ تھا کہ اس عظیم شخصیت نے اپنی اتنی دولت کا کیا کیا؟ یا شاید اس کی پہلو تہی بھی کسی پالیسی کا حصہ تھی۔ خیر اس ملک کو لوٹنے والوں نے تو شروع سے ہی اسے لوٹا، کچھ کمی نہ چھوڑی، البتہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان جیسے قومی محبت کے نمایندے ان کی آنکھوں میں خوب کھٹکتے تھے، ایک تو ویسے ہی اپنی بیماری سے آدھا ہو چکا تھا پھر بھی اس کمزور ناتواں شخص کی محبت، اس کا جذبہ تلوار کی کاٹ کی طرح کاٹتا رہا۔

یہاں تک کہ اس عظیم آدمی نے اپنی جان دے دی اور ایک عوام کے سامنے پاکستان کی حفاظت کی دعا کرتا شہادت کے درجے پر فائز ہو گیا۔ ایک نواب ہو کر اس عظیم شخصیت کا کوٹ اندرونی جانب سے پھٹا ہوا تھا اور ان کے اپنے اکاؤنٹ خزانے سے خالی اور لوگوں کی محبتوں سے بھرے تھے۔ یہ تھے وہ عظیم لوگ جو آج بھی ہم سے بھلائے نہیں بھولتے۔ پاکستان کی سیاست کی تاریخ میں کون ہے ایسا جگر رکھنے والے جو اپنا سب کچھ اپنے ملک پر وار دے؟

مارچ کا یہ مہینہ بہت سی کہانیوں کو یاد کراتا ہے لیکن ہم بھول جانے کے عادی ہیں، ہم بھول گئے کہ ہماری قوم جس نے بڑی مشکلوں، اذیتوں اور کٹھن راہوں پر چل کر ہزاروں لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر یہ ملک حاصل کیا ہے، اس کی بنیادیں کمزور ہو رہی ہیں، دیواریں مخدوش ہیں کیونکہ ان دیواروں پر قرضوں کے بوجھ سوار ہیں لیکن جاتے جاتے سرکار نے اس کے خزانوں پر نقب لگانے سے ہرگز احتراز نہ برتا۔


راجہ جی نے تو بہت سے لوگوں کی توقعات سے بڑھ کر کام کر دکھایا، راجہ جی کا بس چلتا تو ایک دن کے بادشاہ کی حکومت کی طرح سرکاری خزانوں کا منہ کھول دیتے لیکن عوام کے لیے نہیں بلکہ اپنے دوست و احباب کے لیے، یہاں تک کہ اپنے اور اپنی فیملی کے لیے امریکا کے ویزے کے لیے بھی انھوں نے جس ندیدے پن کا مظاہرہ کیا کہ شرم سے عوام کی آنکھیں زمین میں گڑ گئیں، ویسے تو ہماری پوری قوم اپنے قومی نمایندوں کے رویوں سے بار بار اس گڑنے کے عمل سے گزر چکی ہے اور اب تو عادت سی ہو گئی ہے۔

ان پچھلے پانچ برسوں میں ہمارے ملک کا گراف بہت سے حوالوں سے خاصا بلند ہو چکا ہے مثلاً دہشت گردی کی وارداتوں کے حوالے سے یہ ملک تو پہلے ہی سر فہرست ہے، صحافیوں کے قتل کیے حوالے سے، کرپشن کے حوالے سے، خط غربت سے بھی نیچے گزر بسر کرنے والے اور نہ جانے کیا کچھ، البتہ اس تمام عرصے میں اگر کچھ ابھر کر سامنے آیا ہے تو وہ ہے عدلیہ کا کردار، اور محسوس یہ ہونے لگا تھا کہ جیسے حکومت سے زیادہ عدلیہ عوام کی مشکلات اور حکومتی کردار پر نظر رکھتی ہے، عوام کو کوئی بھی مسئلہ ہوتا وہ پکارتا چیف جسٹس کو، یہاں تک کہ ملک میں بم بلاسٹ کے حادثات پر بھی عدلیہ ہی حرکت میں آتی، بہر حال سابقہ حکومت نے عوام کو کیا دیا اور عوام سے کیا لیا اس پر روتے روتے عوام کی آنکھیں نجانے کب خشک ہوں گی۔ جمہوری حکومت جا چکی، اس کے فسانے رہ گئے۔

جاتے جاتے جو چونا سندھ اسمبلی میں کچھ بلوں کی منظوری کے بعد عوام کو سابقہ حکومت نے لگایا کہ اس سے عوام بلبلا ہی اٹھے، یعنی حد سے گزرے اور ایسے کہ نہ پوچھیے۔ شاید انھیں یقین مستحکم ہے کہ اب کی بار الیکشن میں تو دال گلنے والی ہے نہیں لہٰذا جاتے جاتے ایسا کام کر جائیے کہ کرسی کے بغیر ہی کرسی کے مزے کو انجوائے کرتے رہیے۔ مثلاً ایک بل جو اپنی وسعت کے اعتبار سے خاصا صحت مند ہے۔

''سندھ اسمبلی استحقاق ایکٹ 2013'' کے نام سے اور عوامی اعتبار سے جگا ٹیکس بل ہے جس میں موجودہ وزرا اور ان کے معاونین خصوصی، ارکان اسمبلی اور اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہوں اور الاؤنسز و مراعات میں اضافہ اس طرح کیا گیا کہ عوام تک اس بل کی رسائی ہو سکے تو وہ کانوں کو ہاتھ لگائیں۔ تنخواہوں کا اضافہ چالیس فیصد گویا اب وزرا کی تنخواہ ستر ہزار کے بجائے ایک لاکھ نو ہزار بیس روپے ماہانہ مقرر کی گئی، نجانے یہ بیس روپے وہ کس مد میں وصول کریں گے۔ ذرا دوسری مراعات کے بارے میں ملاحظہ فرمائیے جو تاحیات وہ صاحبان وصول کریں گے اور گھبرائیے نہیں ذرا حوصلے سے کہ انتظام خوب کر رکھا ہے کہ اگر وصول کرنے والا مر گیا تو ان کی بیگم صاحبہ اور اگر صاحبہ مر گئی تو صاحب تاحیات وصول کریں گے۔

شکر کریں پوتا پوتی تک یہ بات نہیں پہنچی، تمام وہ سرکاری گیسٹ ہاؤس جو کوئی بھی سرکاری ملازم جس ریٹ پر حاصل کرتا ہے یہ صاحبان غیر سرکاری ہونے کے بعد بھی اسی ریٹ پر حاصل کر سکیں گے یہی نہیں تمام ایئر پورٹس پر وی آئی پی لاؤنج کا استعمال، اسلحہ و دیگر لائسنس و پاسپورٹ کے اجراء و تجدید کے علاوہ موبائل فون، لینڈ لائن فون، ڈرائیور، مالی، باورچی، سینیٹری ورکر کے علاوہ ایک سترہ گریڈ کا افسر بطور پرائیویٹ سیکریٹری کے بھی حکومت سندھ مہیا کرے گی، اس کے علاوہ پولیس سیکیورٹی الگ، یعنی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔

روس میں ایک ارب پتی صنعت کار نے اپنی آدھی دولت خیرات کرنے کا اعلان کیا اسی طرح یوکرائن کے ایک امیر آدمی نے بھی اعلان کیا، اس کا کہنا تھا کہ وہ امریکا کے ارب پتی بل گیٹس اور میکسیکو کے وارن بوفے سے متاثر ہو کر یہ اعلان کر رہے ہیں، انھوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ باقی امیر لوگ بھی ان کی تقلید کریں گے۔ بالکل ہماری سابقہ حکومت سندھ نے یہ تقلید کی، یہ حکومت کھرب پتی تھی اور اس نے اپنی جائیداد اپنے ہی حواریوں کے نام کر دی، ان کی دریا دلی کا گراف بس یہیں آ کر ختم ہوتا ہے، حکومت سندھ جس طرح بھی تقلید کرتی ہے البتہ ہم روس کے اس ارب پتی سے خاصے متاثر ہوئے اور اعلان کرتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس بھی کچھ اسی طرح کی دولت آئی تو ہم اسے ان بڑے دل والے انسانوں کی طرح خیرات کر دیں گے کم از کم ہم اعلان تو کر سکتے ہیں۔
Load Next Story