خیبر پختونخوا کا آیندہ منظر نامہ
چھوٹے صوبوں کا کردار عموماً مخلوط حکومت کی تشکیل کے وقت نہایت اہم ہو جاتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں معاملہ حکومت کی تشکیل کا ہو تو فیصلہ کن کردار پنجاب ادا کرتا ہے، اور اس کی بڑی وجہ صوبے میں واقع قومی اسمبلی کے150حلقے ہیں جب کہ ملک میں ایسے حلقے جہاں ووٹرز براہ راست ووٹ کے ذریعے امیدوار کا انتخابات کرتے ہیں کی تعداد 272 ہے۔
یعنی نصف سے زائد ارکان اسمبلی پنجاب سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔70ء کے عام انتخابات میں پنجاب کا فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں تھا تو مرکز میں پی پی پی کی حکومت بنی ۔97ء میں مسلم لیگ ن سب صوبوں کی واحد اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی تو وزیر اعظم ہاؤس میں میاں نواز شریف براجمان ہوئے۔2002 میں پنجاب مسلم لیگ ق کے ساتھ تھا تو وفاق بھی چوہدر ی شجاعت کے ہاتھ میں تھا۔ جب کہ 2008 میں صوبے کی نشستیں مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق میں تقسیم ہوئیں تو سندھ میں اکثریت رکھنے والی جماعت پیپلز پارٹی کو وفاق میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔
چھوٹے صوبوں کا کردار عموماً مخلوط حکومت کی تشکیل کے وقت نہایت اہم ہو جاتا ہے۔ یوں بھی مرکز میں حکومت بنانے والی جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ صوبوں میں بھی ا س کی ورنہ اتحادی جماعتوں کی حکومت تو ضرور بنے۔ پیپلز پارٹی جو ایک زمانے میں چاروں صوبوں کی زنجیر کہلاتی تھی کا معاملہ اب یہ ہے کہ سندھ کے سوا وہ کسی بھی صوبے میں اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن بھی بڑی حد تک پنجاب میں محدود ہے گو دیگر صوبوں میں بھی اس کی نمایندگی موجود ہے۔ بلوچستان مسلم لیگ، جمعیت علمائے اسلام ف اور قوم پرست جماعتوں بشمول پی پی پی کے درمیان تقسیم ہے گویا کوئی بھی ایک جماعت صوبے میں تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اگر خیبر پختونخوا کی بات جائے تو عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی روایتی طور پر صوبے کی اہم جماعتیں رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن اور ق ہزارہ میں اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ 70 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے صوبے میں مخلوط حکومت بنائی تو مولانا فضل الرحمٰن کے والد مفتی محمو د وزیر اعلیٰ بنے تھے۔2002میں جب مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا تو قومی و صوبائی اسمبلی کی بیشتر نشستیں اسی اتحاد کے حصے میں آئیں۔
عام انتخابات2013 میں خیبر پختونخوا کی قومی اسمبلی کے لیے 35 اور صوبائی اسمبلی کی99 نشستوں پر سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ فروری دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے نتیجے میں اے این پی قومی اسمبلی کی10 اور صوبائی اسمبلی کی31 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تھی،، پیپلزپارٹی دوسرے، ایم ایم اے تیسرے اور مسلم لیگ ن نے چوتھے نمبر پر رہی تھی۔ صوبے کی سیاست میں ایک نیا عنصر تحریک انصاف کی صورت میں ابھرا ہے۔ آئی آر اے کے مطابق تحریک انصاف صوبے میں مقبولیت کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔
صوبے کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو اب مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کی بحالی کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں، جماعت اسلامی اپنے انتخابی نشان 'ترازو' پر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کا موقف ہے کہ جمعیت علمائے اسلام ف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔ جمعیت علمائے اسلام بھی مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی خواہاں ہے جب کہ یہ جماعت اے این پی کے ساتھ بھی رابطے میں ہے۔
گزشتہ دنوں ہونے والی پیش رفت کے بعد اس بات کے امکانات خاصے قوی ہیں کہ جے یو آئی ف، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیں گے۔ ایک مرحلے پر مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف کے درمیان معاملات تقریباً طے ہوتے دکھائی دے رہے تھے، اگر نگران وزیر اعظم کے نام کے معاملے پر دونوں جماعتوں کے درمیان تلخی نے زیادہ سنجیدہ صورت اختیار نہ کی تو پھر معاملات حتمی طور پر طے پا جائیں گے بصورت دیگر مولانا فضل الرحمٰن اے این پی اور پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے گریز نہیں کریں گے۔
قومی اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہوتی ہے ایک پیشرفت یہ بھی ہوئی کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق کرتے ہوئے جائزہ کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، جب کہ مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے درمیان بھی رابطے برقرار ہیں اور دونوں جانب سے کمیٹیاں تشکیل دی جا چکی ہیں۔
تحریک انصاف واضح کر چکی ہے کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی سے کسی صورت اتحاد نہیں ہو گا، جب کہ مولانا اور عمران خان کے درمیان ہونے والے تلخ بیانات کے تبادلے کے بعد اس بات کا امکان بھی کم ہی کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی ف کسی فارمولے پر متفق ہوں۔ یوں تحریک انصاف جسے رائے عامہ کے جائزے صوبے کی مقبول ترین جماعت قرار دے رہے ہیں کہ پاس صرف دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سولو فلائٹ کرے، اس صورت میں اسے جے یو آئی، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن کی متحدہ قوت سے مقابلہ کرنا ہو گا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے پر اتفاق کر لیا جائے اور تحریک انصاف اس کے لیے تیار رہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی پوزیشن صوبے میں خاصی کمزور دکھائی دے رہی ہے، اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ انتخابی مہم چلانا ہے، دوسری جانب پانچ سالہ دور میں صوبائی حکومت کی کارکردگی بھی متاثر کن نہیں رہی ہے، اے این پی واضح کر چکی ہے کہ وہ پی پی پی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔ دراصل، پشتون قوم پرست جماعت مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی خواہاں ہے۔ یہ دونوں جماعتیں اے این پی کی جانب سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں بھی شریک تھیں۔ جب کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اس کا بائیکاٹ کیا تھا۔
یعنی نصف سے زائد ارکان اسمبلی پنجاب سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔70ء کے عام انتخابات میں پنجاب کا فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں تھا تو مرکز میں پی پی پی کی حکومت بنی ۔97ء میں مسلم لیگ ن سب صوبوں کی واحد اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی تو وزیر اعظم ہاؤس میں میاں نواز شریف براجمان ہوئے۔2002 میں پنجاب مسلم لیگ ق کے ساتھ تھا تو وفاق بھی چوہدر ی شجاعت کے ہاتھ میں تھا۔ جب کہ 2008 میں صوبے کی نشستیں مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق میں تقسیم ہوئیں تو سندھ میں اکثریت رکھنے والی جماعت پیپلز پارٹی کو وفاق میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔
چھوٹے صوبوں کا کردار عموماً مخلوط حکومت کی تشکیل کے وقت نہایت اہم ہو جاتا ہے۔ یوں بھی مرکز میں حکومت بنانے والی جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ صوبوں میں بھی ا س کی ورنہ اتحادی جماعتوں کی حکومت تو ضرور بنے۔ پیپلز پارٹی جو ایک زمانے میں چاروں صوبوں کی زنجیر کہلاتی تھی کا معاملہ اب یہ ہے کہ سندھ کے سوا وہ کسی بھی صوبے میں اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن بھی بڑی حد تک پنجاب میں محدود ہے گو دیگر صوبوں میں بھی اس کی نمایندگی موجود ہے۔ بلوچستان مسلم لیگ، جمعیت علمائے اسلام ف اور قوم پرست جماعتوں بشمول پی پی پی کے درمیان تقسیم ہے گویا کوئی بھی ایک جماعت صوبے میں تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اگر خیبر پختونخوا کی بات جائے تو عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی روایتی طور پر صوبے کی اہم جماعتیں رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن اور ق ہزارہ میں اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ 70 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے صوبے میں مخلوط حکومت بنائی تو مولانا فضل الرحمٰن کے والد مفتی محمو د وزیر اعلیٰ بنے تھے۔2002میں جب مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا تو قومی و صوبائی اسمبلی کی بیشتر نشستیں اسی اتحاد کے حصے میں آئیں۔
عام انتخابات2013 میں خیبر پختونخوا کی قومی اسمبلی کے لیے 35 اور صوبائی اسمبلی کی99 نشستوں پر سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ فروری دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے نتیجے میں اے این پی قومی اسمبلی کی10 اور صوبائی اسمبلی کی31 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تھی،، پیپلزپارٹی دوسرے، ایم ایم اے تیسرے اور مسلم لیگ ن نے چوتھے نمبر پر رہی تھی۔ صوبے کی سیاست میں ایک نیا عنصر تحریک انصاف کی صورت میں ابھرا ہے۔ آئی آر اے کے مطابق تحریک انصاف صوبے میں مقبولیت کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔
صوبے کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو اب مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کی بحالی کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں، جماعت اسلامی اپنے انتخابی نشان 'ترازو' پر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کا موقف ہے کہ جمعیت علمائے اسلام ف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔ جمعیت علمائے اسلام بھی مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی خواہاں ہے جب کہ یہ جماعت اے این پی کے ساتھ بھی رابطے میں ہے۔
گزشتہ دنوں ہونے والی پیش رفت کے بعد اس بات کے امکانات خاصے قوی ہیں کہ جے یو آئی ف، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیں گے۔ ایک مرحلے پر مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف کے درمیان معاملات تقریباً طے ہوتے دکھائی دے رہے تھے، اگر نگران وزیر اعظم کے نام کے معاملے پر دونوں جماعتوں کے درمیان تلخی نے زیادہ سنجیدہ صورت اختیار نہ کی تو پھر معاملات حتمی طور پر طے پا جائیں گے بصورت دیگر مولانا فضل الرحمٰن اے این پی اور پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے گریز نہیں کریں گے۔
قومی اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہوتی ہے ایک پیشرفت یہ بھی ہوئی کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق کرتے ہوئے جائزہ کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، جب کہ مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے درمیان بھی رابطے برقرار ہیں اور دونوں جانب سے کمیٹیاں تشکیل دی جا چکی ہیں۔
تحریک انصاف واضح کر چکی ہے کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی سے کسی صورت اتحاد نہیں ہو گا، جب کہ مولانا اور عمران خان کے درمیان ہونے والے تلخ بیانات کے تبادلے کے بعد اس بات کا امکان بھی کم ہی کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی ف کسی فارمولے پر متفق ہوں۔ یوں تحریک انصاف جسے رائے عامہ کے جائزے صوبے کی مقبول ترین جماعت قرار دے رہے ہیں کہ پاس صرف دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سولو فلائٹ کرے، اس صورت میں اسے جے یو آئی، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن کی متحدہ قوت سے مقابلہ کرنا ہو گا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے پر اتفاق کر لیا جائے اور تحریک انصاف اس کے لیے تیار رہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی پوزیشن صوبے میں خاصی کمزور دکھائی دے رہی ہے، اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ انتخابی مہم چلانا ہے، دوسری جانب پانچ سالہ دور میں صوبائی حکومت کی کارکردگی بھی متاثر کن نہیں رہی ہے، اے این پی واضح کر چکی ہے کہ وہ پی پی پی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔ دراصل، پشتون قوم پرست جماعت مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی خواہاں ہے۔ یہ دونوں جماعتیں اے این پی کی جانب سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں بھی شریک تھیں۔ جب کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اس کا بائیکاٹ کیا تھا۔