آمریت کا ہیٹ
یہاں تک کہ آہستہ آہستہ اس کا سر برتن کے اندر چلا گیا اور برتن اس کی ناک پر آ کر اٹک گیا۔
یہ کہانی آج سے صدیوں پرانی ہے اور اس کا تعلق کیوٹو کی عبادت گاہ کِنّا۔ جی سے ہے۔ اس زمانے میں کیو ٹو جاپان کا دارالحکومت ہوتا تھا اورکِنّا۔ جی یہاں کا مشہور معبد تھا۔ اس معبد میں بہت سے راہب تھے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہاں بہت سے زیر تربیت ایسے لڑکے بھی تھے جن کو آگے چل کر راہب بننا تھا۔ یہ سب معبد کے راہبو ں کی زیر نگرانی تعلیم و تریبت حاصل کر رہے تھے۔
ایک بار ہوا یہ کہ ایک لڑکے کی تعلیم و تربیت مکمل ہو گئی اور اسے راہب کے منصب پر فا ئز کر دیا گیا۔ جب وہ راہب مقرر ہوا تو عبادت گاہ کے تمام لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ''ہمیں نئے راہب کی خوشی میں کوئی تقریب منعقد کر نی چاہیے'' اس بات سے سب ہی نے اتفا ق کیا اور طے یہ پایا کہ ''اس کے اعزا ز میں ایک شان دار دعوت کا اہتمام کیا جائے۔''
دعوت شروع تھی اور تمام لوگ خوب کھا پی رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ باتیں بھی ہو رہی تھیں اور ہنسی مذاق بھی ہو رہا تھا۔ نیا راہب کچھ تو اپنی طبعیت کی وجہ سے اور کچھ خوشی اور زیادہ ''ساکے'' پی جانے کی وجہ سے بہت چہک رہا تھا۔ وہ بات بات پر ہنسی مذاق کر رہا تھا۔ باتوں باتوں میں نہ جانے اس کے جی میں کیا آئی کہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ناچنے لگا۔ پھر خوشی میں ناچتے ناچتے اس نے قریب ہی رکھا ہوا لو ہے کا ایک پتیلا قسم کا برتن اٹھایا اسے الٹا کر کے اپنے سر پر رکھ لیا اور پھر ناچنے لگا۔ اس کی حرکات کی وجہ سے لوہے کا برتن سِرکتا چلا گیا۔
یہاں تک کہ آہستہ آہستہ اس کا سر برتن کے اندر چلا گیا اور برتن اس کی ناک پر آ کر اٹک گیا۔ پھر اور سر ک گیا اور تھوڑی تک اس کا پورا چہر ہ برتن کے اندر چھپ گیا۔ راہب چونکہ اس وقت انتہائی طور پر خوش تھا اور ادھر ادھر ناچ کود کر رہا تھا اس لیے اس بات کا احساس نہ ہو سکا۔ دعوت میں موجود لوگ اور اس کے ساتھی بھی اس کی حرکتوں سے خو ش ہو رہے تھے۔ اس کا سر برتن کے اندر تھا اور اس وقت وہ بغیر دیکھے تیزی سے نا چ رہا تھا۔ اس کی یہ مضحکہ خیز صورت اور حرکت دیکھ کر سارے لوگ لطف اندوز ہو رہے تھے۔
آخر دعوت کا یہ ہلا گلا ختم ہوا اور نیا راہب بھی تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ اب اس نے دونوں ہاتھوں سے برتن میں سے اپنا سر نکالنے کی کوشش کی تو اس کا سر بر ی طرح پھنس چکا تھا۔ وہ برتن کو اوپر کی طرف کھینچنے لگا تو اسے یوں محسوس ہوا جسے اس کے کان اور ناک کٹ رہے ہوں۔ پہلے تو اس نے اس بات کو سنجید گی سے نہیں لیا تھا اب اسے بڑی فکر ہوئی۔ اس نے پھر قدرے زیادہ زور لگا کر برتن نکالنا چاہا تو درد سے بلبلا اٹھا اور چیخؒ چیخ کر پکارنے لگا '' ارے میرا سر پھنس گیا۔ میرا سر برتن سے نکالو'' جوں ہی اس نے زور زور سے یہ کہا سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ کیونکہ اس کا پورا چہر ہ برتن میں پھنسا ہوا تھا۔ اچانک اس کے دو ایک ساتھی آگے بڑھے اور برتن کھینچ کر اس کا سر باہر نکالنے لگے۔
ان کا زور لگا نا تھا کہ راہب بری طرح چیخنے لگا، ''اوہ میں مر گیا۔ اوہ میرے کا ن۔ میری ناک کٹ رہی ہے! مجھے اس مصیبت سے نجا ت دلائو''، جب اس نے زیادہ شور کیا تو جو لوگ برتن کھینچ کر اس کا سر با ہر نکال رہے تھے وہ رک گئے اور آپس میں سوچنے لگے کہ ''کیا کرنا چاہیے۔ اس کا سر کیسے باہر نکالیں؟'' ادھر نیا راہب تھا کہ بری طرح تلملا تلملا کر کہہ رہا تھا۔ ''خدا کے لیے میری مدد کرو اور جلدی برتن سے میرا سر نکا لو!'' یہ دیکھ کر لوگوں نے اور زیادہ زور لگا کر برتن کو کھینچنے کی کوشش کی لیکن برتن تو بری طرح پھنسا ہوا تھا اور انھیں یقین تھا کہ اگر اس طرح کھینچا گیا تو راہب کے کان اور ناک باقی نہیں رہیں گے۔
یہ دیکھ کر وہ سب آپس میں مشورے کر نے لگے۔ ''ہمیں پوری طاقت سے برتن کو کھینچنا چاہیے؟'' کسی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا ۔ ''اس طرح راہب کے کانوں اور ناک کی خیر نہیں!'' کوئی دوسرا بول پڑا۔ ''مگر اور کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ بہر صورت برتن سے سر کو تو نکالنا ہی ہے اور اس کا یہی ایک طریقہ ہے!۔ ''تیسرے نے اپنی رائے پیش کی۔ اس طرح سب لوگ اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے کہ اچانک ان میں سے ایک بو ل پڑا '' میرے ذہن میں ایک تجویز آئی ہے۔'' ''وہ کیا۔ جلد ی بتائو تا کہ راہب کو نجا ت دلائی جا سکے؟'' لوگوں نے بے تاب ہو کر اس شخص سے پو چھا۔ اس پر وہ آدمی کہنے لگا۔ ''ہمیں برتن کو تو ڑ کر سر کو باہر نکالنا چاہیے۔''
''مگر یہ تو لوہے کا ہے۔ بڑا مضبوط ہو گا؟'' ''جیسا بھی ہو ۔ اس کو توڑنا ضروری ہے۔'' اس کے ساتھ ہی اس آدمی نے ہتھو ڑا پکڑ کر برتن پر ما رنا شروع کر دیا اس سے برتن تو کیا ٹوٹتا البتہ راہب کی حالت غیر ہو گئی۔ اس کے سر پر ہتھوڑے کی چوٹیں لگیں تو وہ اور زیادہ چیخنے لگا۔ یہ دیکھ کر اس آدمی نے ہتھوڑے سے چو ٹیں مارنا بند کر دیں اور ایک دوسرے سے کہنے لگے '' اسے کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلنا چاہیے۔'' اس بات پر سب نے اتفاق کیا لہذا وہ سب راہب کو اٹھا کر ایک ایسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے جو جراحی میں بھی ماہر تھا۔ جیسے ہی ڈاکٹر نے اسے دیکھا، وہ حیران ہو کر بولا ۔ ''یہ تو عجیب و غریب مریض ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں آج تک کوئی ایسا مریض نہیں دیکھا'' اس نے چند لمحوں تک اس کا جائز ہ لیا اور پھر کہنے لگا۔ ''میں آپ لوگوں کی مدد کر نے سے معذور ہوں۔'' جب ڈاکٹر نے بھی ا ن کی مدد کر نے سے انکا ر کر دیا تو وہ راہب کو اٹھا کر واپس عبادت گاہ میں لے گئے اور اسے ایک چارپائی پر لٹا دیا۔ اب یہ عالم تھا کہ وہ چارپائی پر پڑا ہوا تھا اور اس کے عزیز اور رشتے دار پاس پریشان کھڑے تھے۔ اس کی ماں بے چاری تو بری طرح رو رہی تھی۔
اس نے لوگوں سے درخواست کرتے ہوئے کہا '' کچھ بھی کرو مگر میرے بیٹے کا سر برتن سے نکال دو!'' اس وقت اردگرد کھڑے دوسرے لوگ بھی یہی کہہ رہے تھے۔ ''اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہمیں زور لگا کر برتن کو الگ کرنا چاہیے۔ اس کی زندگی بچانے کا صرف یہی طریقہ ہو سکتا ہے۔ ورنہ یہ اسی طرح جان دے دے گا۔ چنانچہ دو چار طاقت ور آدمیوں نے اپنی پوری طاقت صرف کر کے برتن کو اوپر کی طرف کھینچنا شروع کر دیا راہب چیختا رہا مگر انھوں نے اس کی پرواہ نہ کی۔ آخر تھوڑی دیر کی کوشش کے بعد برتن میں سے راہب کا سر نکل آیا مگر اس طرح کہ اس کا چہرہ بر ی طرح چھل گیا تھا اور کان اور ناک لہولہان ہو رہے تھے۔
پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں 40 سال سے زائد عرصے تک 18 کروڑ عوام پر آمریت کا ہیٹ پھنسا رہا جس کی وجہ سے پاکستان کا چہرہ لہو لہان ہو گیا مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، جہالت، عدم استحکام یہ سب اسی آمریت کے ہیٹ کی ہی فخریہ پیشکش ہیں۔ آزادی کے بعد نو آبادیاتی دور کی جو سب سے خطرناک اور جان لیوا بیماری پاکستان کے حصے میں آئی جسے پاکستان کی مقتدر ہستیوں نے اپنے پلو سے باندھ لیا وہ بالواسطہ حکمرانی کا اصول تھا یعنی جاگیرداروں، سرداروں، چوہدریوں کے ذریعے حکومت و انتظامی امور کو چلانا جو کہ نو آبادی دور کا خاصہ تھا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے آمریت کے ہیٹ کو قوم سے نکالنے میں بڑی جدوجہد کی ہے۔ اس بات کا کریڈٹ تمام سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو اور زیادہ پولیٹیکل میچورٹی دکھانی چاہیے روا داری۔ برداشت کے کلچر کو فروغ دیے بغیر ملک کو بحرانوں سے نہیں نکالا جا سکتا، پاکستان کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف جمہوریت، برداشت اور رواداری کے کلچر کو فروغ دے کر ہی ممکن ہے باقی تمام راستے دوبارہ آمریت کے ہیٹ کی واپسی کی جانب جاتے ہیں۔
ایک بار ہوا یہ کہ ایک لڑکے کی تعلیم و تربیت مکمل ہو گئی اور اسے راہب کے منصب پر فا ئز کر دیا گیا۔ جب وہ راہب مقرر ہوا تو عبادت گاہ کے تمام لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ''ہمیں نئے راہب کی خوشی میں کوئی تقریب منعقد کر نی چاہیے'' اس بات سے سب ہی نے اتفا ق کیا اور طے یہ پایا کہ ''اس کے اعزا ز میں ایک شان دار دعوت کا اہتمام کیا جائے۔''
دعوت شروع تھی اور تمام لوگ خوب کھا پی رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ باتیں بھی ہو رہی تھیں اور ہنسی مذاق بھی ہو رہا تھا۔ نیا راہب کچھ تو اپنی طبعیت کی وجہ سے اور کچھ خوشی اور زیادہ ''ساکے'' پی جانے کی وجہ سے بہت چہک رہا تھا۔ وہ بات بات پر ہنسی مذاق کر رہا تھا۔ باتوں باتوں میں نہ جانے اس کے جی میں کیا آئی کہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ناچنے لگا۔ پھر خوشی میں ناچتے ناچتے اس نے قریب ہی رکھا ہوا لو ہے کا ایک پتیلا قسم کا برتن اٹھایا اسے الٹا کر کے اپنے سر پر رکھ لیا اور پھر ناچنے لگا۔ اس کی حرکات کی وجہ سے لوہے کا برتن سِرکتا چلا گیا۔
یہاں تک کہ آہستہ آہستہ اس کا سر برتن کے اندر چلا گیا اور برتن اس کی ناک پر آ کر اٹک گیا۔ پھر اور سر ک گیا اور تھوڑی تک اس کا پورا چہر ہ برتن کے اندر چھپ گیا۔ راہب چونکہ اس وقت انتہائی طور پر خوش تھا اور ادھر ادھر ناچ کود کر رہا تھا اس لیے اس بات کا احساس نہ ہو سکا۔ دعوت میں موجود لوگ اور اس کے ساتھی بھی اس کی حرکتوں سے خو ش ہو رہے تھے۔ اس کا سر برتن کے اندر تھا اور اس وقت وہ بغیر دیکھے تیزی سے نا چ رہا تھا۔ اس کی یہ مضحکہ خیز صورت اور حرکت دیکھ کر سارے لوگ لطف اندوز ہو رہے تھے۔
آخر دعوت کا یہ ہلا گلا ختم ہوا اور نیا راہب بھی تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ اب اس نے دونوں ہاتھوں سے برتن میں سے اپنا سر نکالنے کی کوشش کی تو اس کا سر بر ی طرح پھنس چکا تھا۔ وہ برتن کو اوپر کی طرف کھینچنے لگا تو اسے یوں محسوس ہوا جسے اس کے کان اور ناک کٹ رہے ہوں۔ پہلے تو اس نے اس بات کو سنجید گی سے نہیں لیا تھا اب اسے بڑی فکر ہوئی۔ اس نے پھر قدرے زیادہ زور لگا کر برتن نکالنا چاہا تو درد سے بلبلا اٹھا اور چیخؒ چیخ کر پکارنے لگا '' ارے میرا سر پھنس گیا۔ میرا سر برتن سے نکالو'' جوں ہی اس نے زور زور سے یہ کہا سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ کیونکہ اس کا پورا چہر ہ برتن میں پھنسا ہوا تھا۔ اچانک اس کے دو ایک ساتھی آگے بڑھے اور برتن کھینچ کر اس کا سر باہر نکالنے لگے۔
ان کا زور لگا نا تھا کہ راہب بری طرح چیخنے لگا، ''اوہ میں مر گیا۔ اوہ میرے کا ن۔ میری ناک کٹ رہی ہے! مجھے اس مصیبت سے نجا ت دلائو''، جب اس نے زیادہ شور کیا تو جو لوگ برتن کھینچ کر اس کا سر با ہر نکال رہے تھے وہ رک گئے اور آپس میں سوچنے لگے کہ ''کیا کرنا چاہیے۔ اس کا سر کیسے باہر نکالیں؟'' ادھر نیا راہب تھا کہ بری طرح تلملا تلملا کر کہہ رہا تھا۔ ''خدا کے لیے میری مدد کرو اور جلدی برتن سے میرا سر نکا لو!'' یہ دیکھ کر لوگوں نے اور زیادہ زور لگا کر برتن کو کھینچنے کی کوشش کی لیکن برتن تو بری طرح پھنسا ہوا تھا اور انھیں یقین تھا کہ اگر اس طرح کھینچا گیا تو راہب کے کان اور ناک باقی نہیں رہیں گے۔
یہ دیکھ کر وہ سب آپس میں مشورے کر نے لگے۔ ''ہمیں پوری طاقت سے برتن کو کھینچنا چاہیے؟'' کسی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا ۔ ''اس طرح راہب کے کانوں اور ناک کی خیر نہیں!'' کوئی دوسرا بول پڑا۔ ''مگر اور کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ بہر صورت برتن سے سر کو تو نکالنا ہی ہے اور اس کا یہی ایک طریقہ ہے!۔ ''تیسرے نے اپنی رائے پیش کی۔ اس طرح سب لوگ اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے کہ اچانک ان میں سے ایک بو ل پڑا '' میرے ذہن میں ایک تجویز آئی ہے۔'' ''وہ کیا۔ جلد ی بتائو تا کہ راہب کو نجا ت دلائی جا سکے؟'' لوگوں نے بے تاب ہو کر اس شخص سے پو چھا۔ اس پر وہ آدمی کہنے لگا۔ ''ہمیں برتن کو تو ڑ کر سر کو باہر نکالنا چاہیے۔''
''مگر یہ تو لوہے کا ہے۔ بڑا مضبوط ہو گا؟'' ''جیسا بھی ہو ۔ اس کو توڑنا ضروری ہے۔'' اس کے ساتھ ہی اس آدمی نے ہتھو ڑا پکڑ کر برتن پر ما رنا شروع کر دیا اس سے برتن تو کیا ٹوٹتا البتہ راہب کی حالت غیر ہو گئی۔ اس کے سر پر ہتھوڑے کی چوٹیں لگیں تو وہ اور زیادہ چیخنے لگا۔ یہ دیکھ کر اس آدمی نے ہتھوڑے سے چو ٹیں مارنا بند کر دیں اور ایک دوسرے سے کہنے لگے '' اسے کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلنا چاہیے۔'' اس بات پر سب نے اتفاق کیا لہذا وہ سب راہب کو اٹھا کر ایک ایسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے جو جراحی میں بھی ماہر تھا۔ جیسے ہی ڈاکٹر نے اسے دیکھا، وہ حیران ہو کر بولا ۔ ''یہ تو عجیب و غریب مریض ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں آج تک کوئی ایسا مریض نہیں دیکھا'' اس نے چند لمحوں تک اس کا جائز ہ لیا اور پھر کہنے لگا۔ ''میں آپ لوگوں کی مدد کر نے سے معذور ہوں۔'' جب ڈاکٹر نے بھی ا ن کی مدد کر نے سے انکا ر کر دیا تو وہ راہب کو اٹھا کر واپس عبادت گاہ میں لے گئے اور اسے ایک چارپائی پر لٹا دیا۔ اب یہ عالم تھا کہ وہ چارپائی پر پڑا ہوا تھا اور اس کے عزیز اور رشتے دار پاس پریشان کھڑے تھے۔ اس کی ماں بے چاری تو بری طرح رو رہی تھی۔
اس نے لوگوں سے درخواست کرتے ہوئے کہا '' کچھ بھی کرو مگر میرے بیٹے کا سر برتن سے نکال دو!'' اس وقت اردگرد کھڑے دوسرے لوگ بھی یہی کہہ رہے تھے۔ ''اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہمیں زور لگا کر برتن کو الگ کرنا چاہیے۔ اس کی زندگی بچانے کا صرف یہی طریقہ ہو سکتا ہے۔ ورنہ یہ اسی طرح جان دے دے گا۔ چنانچہ دو چار طاقت ور آدمیوں نے اپنی پوری طاقت صرف کر کے برتن کو اوپر کی طرف کھینچنا شروع کر دیا راہب چیختا رہا مگر انھوں نے اس کی پرواہ نہ کی۔ آخر تھوڑی دیر کی کوشش کے بعد برتن میں سے راہب کا سر نکل آیا مگر اس طرح کہ اس کا چہرہ بر ی طرح چھل گیا تھا اور کان اور ناک لہولہان ہو رہے تھے۔
پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں 40 سال سے زائد عرصے تک 18 کروڑ عوام پر آمریت کا ہیٹ پھنسا رہا جس کی وجہ سے پاکستان کا چہرہ لہو لہان ہو گیا مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، جہالت، عدم استحکام یہ سب اسی آمریت کے ہیٹ کی ہی فخریہ پیشکش ہیں۔ آزادی کے بعد نو آبادیاتی دور کی جو سب سے خطرناک اور جان لیوا بیماری پاکستان کے حصے میں آئی جسے پاکستان کی مقتدر ہستیوں نے اپنے پلو سے باندھ لیا وہ بالواسطہ حکمرانی کا اصول تھا یعنی جاگیرداروں، سرداروں، چوہدریوں کے ذریعے حکومت و انتظامی امور کو چلانا جو کہ نو آبادی دور کا خاصہ تھا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے آمریت کے ہیٹ کو قوم سے نکالنے میں بڑی جدوجہد کی ہے۔ اس بات کا کریڈٹ تمام سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو اور زیادہ پولیٹیکل میچورٹی دکھانی چاہیے روا داری۔ برداشت کے کلچر کو فروغ دیے بغیر ملک کو بحرانوں سے نہیں نکالا جا سکتا، پاکستان کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف جمہوریت، برداشت اور رواداری کے کلچر کو فروغ دے کر ہی ممکن ہے باقی تمام راستے دوبارہ آمریت کے ہیٹ کی واپسی کی جانب جاتے ہیں۔