متنازع ٹیکس اقدامات پر ایف بی آر او صنعتکاروں کے مذاکرات ناکام

ممبر آئی آر کے کراچی چیمبر میں مذاکرات، صنعتی نمائندوں کا ایس آر او 212، 140، 154 اور 98 واپس لینے کا مطالبہ۔

ویونگ سائزنگ وپروسسینگ سیکٹرز پر آج سے 2 فیصد سیلز ٹیکس ختم، ایف بی آر کی ریفنڈ نظام آسان وشفاف بنانے کیلیے اسٹیک ہولڈرز کو مشاورت کی پیشکش۔ فوٹو: فائل

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو پانچ زیروریٹڈ صنعتی شعبوں اور تاجروں و صنعتکاروں کی جانب سے اپنے حالیہ ٹیکس اقدامات پر زبردست مزاحمت کا سامنا رہا۔

ممبران لینڈ ریونیو ایف بی آر رضا باقر نے فیصل آباد سمیت ملک کے دیگر صنعتی شہروں کا دورہ کرنے کے بعد منگل کو کراچی کے تاجروصنعتکاروں سے ملاقاتیں کرکے انہیں ایف بی آر کے نئے ٹیکس اقدامات کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا لیکن ان ملاقاتوں میں وہ تاجروں و صنعت کاربرادری کے نمائندوں کے تیزوتند سوالات کے جوابات نہیں دے سکے جس کے نتیجے میں ممبر ایف بی آر کے کراچی کے تاجروں و صنعت کاروں کے ساتھ ہونے والے دونوں اجلاس کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئے۔

ان اجلاسوں میں 5 زیروریٹڈسیکٹر کے نمائندوں نے ایف بی آر پر واضح کیا کہ وہ مقامی صنعت و تجارت کی بقا کو مدنظر رکھتے ہوئے ان پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن تھوپنے کے بجائے ایک سہولت کنندہ ادارے کے طور پر کردار ادا کرے جبکہ کوئی بھی نیا ٹیکس عائد کرنے سے قبل صرف منظور نظر تنظیم سے مشاورت کے بجائے پوری انڈسٹری کے نمائندوں اور کراچی چیمبرآف کامرس کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ منگل کی شام کراچی چیمبر میں منعقدہ اجلاس میں بھی تمام تاجروں و صنعت کاروں نے ایف بی آر کے حالیہ اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے فی الفور چاروں متنازع ایس آراوز 212 ، 140 ،154 اورایس آراو98 واپس لینے کا مطالبہ دہرایا۔

کراچی چیمبر کے صدر ہارون اگر کا کہنا تھا کہ ایف بی آر تجارت وصنعت کے بحران اور اضطراب سے بچانے کے لیے تمام متنازع اقدامات واپس لے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی چیمبر کے اجلاس میں ممبرآئی آر ایس ایف بی آر رضا باقر کے جوابات اورطرزعمل سے تاجربرادری کوبخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ ان کے پاس ان متنازع ایس آراوز میں ترامیم یا انہیں واپس لینے کا کوئی اختیارنہیں ہے کیونکہ ایف بی آر کا ایک سینئرافسر جب معاملات کے حل کو اگلی نگراں دورحکومت کے اقدامات سے مشروط کرے تو اس طرزبیان سے بے اختیاری کی کھل کرغمازی ہوتی ہے لہٰذا بے اختیار بیوروکریٹ سے تاجروں و صنعت کاروں کے مذاکرات وقت کا ضیاع ثابت ہوا ہے۔




ضرورت اس امر کی ہے کہ چیئرمین ایف بی آر کو بھی مذکورہ متنازع ایس آراوز کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو استعمال میں لانا چاہیے۔ ادھر ایف بی آر کے ممبران لینڈ ریونیواور ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل سمیت کارپٹ، لیدرگارمنٹس سیکٹر کے درمیان بھی مذاکرات ناکام ہو گئے، مذاکرات کے دوران ممبر ان لینڈ ریونیو رضا باقر نے واضح کیا کہ آئی ایم ایف کی ایما پر وفاقی حکومت نے 5 زیروریٹڈ سیکٹرز پر2 فیصد سیلزٹیکس نافذ کیا ہے جسے واپس لینا ممکن نہیں البتہ سیلزٹیکس ریفنڈ کے طریقہ کار کو شفاف وسہل بنانے کے لیے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے موثر میکنزم بنایا جاسکتا ہے۔

تاہم ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل، لیدراورکارپٹ سیکٹرکے نمائندوں نے2 فیصد سیلزٹیکس کوناقابل قبول قراردیتے ہوئے ایف بی آر سے استفسار کیا کہ وہ اپنے اس اقدام کے ذریعے صرف20 فیصد ٹیکس نیٹ سے باہر شعبے کو نیٹ میں لانے کے لیے سیلزٹیکس میں باقاعدہ رجسٹرڈ 80 فیصد برآمدکنندگان پرٹیکسوں کا بوجھ کیوں لاد رہا ہے جو پہلے ہی نامساعد کاروباری حالات، زائد پیداواری لاگت اوردیگر متعدد چیلنجز کے باوجوداپنی پیداواری وبرآمدی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کمارہے ہیں۔

اجلاس کے دوران ممبر آئی آر ایس ایف بی آر رضا باقر نے کہا کہ زیروریٹڈ کا مفہوم سیلزٹیکس ایکٹ مجریہ1990 سے اخذ کیا جائے۔ انہوں نے اس تاثرکو غلط قراردیا کہ ایف بی آر نے یکطرفہ طورپر2 فیصدسیلز ٹیکس نافذ کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکس ریفارمز کمیٹی سے مشاورت کے بعد ایف بی آر نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پانچ شعبوں کو زیروریٹنگ کی سہولت دینے کے مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے بلکہ ایف بی آر کو سیلزٹیکس کی مد میں وصول شدہ ریونیو سے زائد مالیت کے ریفنڈز جاری کرنے پڑے ہیں اور اسی تناظر میں حکومت نے 5 زیروریٹڈ سیکٹر پر2 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا ہے۔

تاہم 2 فیصد سیلزٹیکس ویونگ سائزنگ اور پروسسینگ سیکٹر پرباقاعدہ نوٹیفکیشن کے ذریعے بدھ20 مارچ سے ختم کردیا جائیگا۔ رضا باقر نے بتایا کہ حکومت سیلز ٹیکس کے دائرہ کار کو مقامی طور پر فروخت ہونے والی ٹیکسٹائل مصنوعات تک توسیع دینے کی خواہاں ہے۔ سیلز ٹیکس ریفنڈکے مسائل سے اتفاق کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف بی آر اسٹیک ہولڈرز کی باہمی مشاورت کے ساتھ سیلزٹیکس ریفنڈز کا قابل قبول میکنزم مرتب کرنے کا خواہشمند ہے لہٰذا تمام برآمدی ایسوسی ایشنزتیز رفتار اور شفاف ریفنڈ سسٹم کیلیے سفارشات دیں۔

پی ایچ ایم اے کے چیئرمین جاوید بلوانی نے کہا کہ جعلی سیلزٹیکس ریفنڈ حاصل کرنے والوں کے نام اور ان کے شعبوں کی نشاندہی کی جائے تاکہ حقیقت سامنے آ سکے۔اجلاس سے مہتاب الدین چاؤلہ،فواد اعجاز خان، رفیق گوڈیل ، زبیرموتی والا، ذوالفقار چوہدری، مسعود نقی، نقی باڑی، خواجہ عثمان، دانش خان، محمد شفیع، جبار غازیانی، سلیم پاریکھ، جنید ماکڈا، عامربٹ ودیگر نے بھی خطاب کیا۔
Load Next Story