آئی جی کو ہٹانے کیلیے سندھ حکومت کی کوشش پھر ناکام ہونے کا امکان
5 دن گزرگئے،کراچی آپریشن کرنیوالے اداروں سے کلیئرنس نہ ملنے پروٖفاق نے جواب نہیں دیا
صوبائی حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ اے ڈ ی خواجہ کوہٹانے کی کوشش ایک بار پھرناکام ہونے کا امکان ہے۔
کراچی آپریشن میں اہم کردارادا کرنیوالے اداروں کی جانب سے اے ڈ ی خواجہ کوہٹانے کے لیے کلیئرنس نہ ملنے کے باعث 5 دن گزرنے کے باجود وٖفاقی حکومت نے سندھ حکومت کے خط کا جواب نہیں دیا، سندھ حکومت نے اس دفعہ بھی ناکامی کی صورت میں18 ویں ترمیم کے تحت اپنے اختیارات کے لیے قانونی جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومت کے قانونی معاملات سے باخبرذمے دارذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے پرایکسپریس کو بتایا کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کے لیے اس وقت تک صوبائی حکومت کی جانب سے جو بھی کوششیں کی گئی ہے وہ ناصرف18ویں ترمیم کے بعد کے قانون کو نظر میں رکھتے ہوئے کی گئی بلکہ مختلف مواقع پر پولیس سے متعلق آنے والے عدالتی فیصلوں کی روشنی میں کی گئی تھیں۔
18ویں ترمیم کے تحت صوبائی حکومت امن وامان اور پولیس کے معاملے میں بااختیار ہے اس لیے وہ اپنی مرضی سے آئی جی مقرر کرسکتی ہے جبکہ اس سے قبل سابق اے آئی جی کراچی شاہد حیات کے خلاف اس وقت اے ڈی خواجہ کی جانب سے عدالت میں داخل کی گئی پٹیشن پر آنے والے فیصلے کی روشنی میں بھی اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی کیونکہ اس دوران سردار عبدالمجید دستی 22 گریڈ میں ترقی پاچکے تھے اور وہ اے ڈی خواجہ سے زیادہ آئی جی کی پوسٹ کے لیے اہل ہے مگر ان معاملات پر ہائی کورٹ کا فیصلہ آگیا اور خصوصی طور پر اے ڈی خواجہ کو اختیارات دیکر پولیس رولز میں تبدیلی کے لیے کہا گیا جس کے تحت صوبائی حکومت کے وہ اختیار بھی آئی جی سندھ کے پاس چلے گئے جس کے تحت وہ 16گریڈ سے اوپر کے افسران کی تقرری اور تبدیلی کرتی تھی جبکہ افسران کے کسی پوسٹ پر تقرری کی مدت مقررہ سے متعلق رولز بھی مخصوص کرکے صوبائی حکومت کو بے اختیار کیا گیا۔
عدالتی احکام کی روشنی میں آئی جی سندھ پولیس نے پولیس رولز تیارکرکے جو صوبائی حکومت کو پیش کیے اس پر صوبائی حکومت نے کابینہ کے فیصلے کے روشنی میں پولیس رولز میں دوبارہ تبدیلی کرکے مسودہ پیش کرنے کے لیے واپس آئی جی سندھ کو ارسال کردیا جس میں سفارشات بھی شامل تھی مگرکابینہ اجلاس کے موقع پرآئی جی سندھ کی جانب سے وہی مسودہ دوبارہ صوبائی حکومت کو دیاگیا جس کے باؑعث کابینہ اجلاس میں پولیس رولز کے حوالے سے ایجنڈا نہیں رکھا گیا،اب آئی جی سندھ نے عدالتی احکام کے فیصلے کے تحت پولیس رولز اوراصلاحات کے حوالے سے کام مکمل کرلیاہے توصوبائی حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے پر کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیئے لیکن اس کے باجود وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ کو ہٹانے کے حوالے سے 30دسمبر 2017 کو لکھے جانے والے خط کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
ذرائع کہتے ہے کہ اس باربھی صوبائی حکومت کو مثبت جواب نہیں ملا تو صوبے کے حق کے لیے اعلی سطح پر قانونی جنگ کی جائے گی جس میں صوبائی حکومت کے اختیارات کو محدود کرنے والے عدالتی فیصلوں اور وفاقی حکومت کے اقدامات کے خلاف قانونی موقف اختیار کیا جائے گا، ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے نہ صرف اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ اس کی جانب سے تیار کیے جانیوالے پولیس رولز کے مسودے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے تحت آئی جی سندھ کو ایک بار پھر پرانے رولز کے مطابق گریڈ 16کے افسران کے تقرری اور تبادلوں کے اختیارات تک محدود کردیا جائے گا جبکہ 16گریڈ سے بالا افسران کے اختیارات صوبائی حکومت کو واپس کردیے جائینگے، آئی جی کے نہ ہٹنے کی صورت میں پولیس رولز میں تبدیلی کا معاملہ بھی تعطل کا شکار ہوجائے گا۔
دوسری جانب سندھ پولیس کے افسران کا کہنا ہے کہ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے میں وفاقی ادارے خصوصا کراچی آپریشن میں اہم کردار ادا کرنے والے ادارے نا خوش ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اے ڈی خواجہ کو تبدیل کیا جائے یہی سبب ہے کہ 30دسمبر کو صوبائی حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت کو لکھے جانیوالے خط کا جواب نہیں دیا۔
کراچی آپریشن میں اہم کردارادا کرنیوالے اداروں کی جانب سے اے ڈ ی خواجہ کوہٹانے کے لیے کلیئرنس نہ ملنے کے باعث 5 دن گزرنے کے باجود وٖفاقی حکومت نے سندھ حکومت کے خط کا جواب نہیں دیا، سندھ حکومت نے اس دفعہ بھی ناکامی کی صورت میں18 ویں ترمیم کے تحت اپنے اختیارات کے لیے قانونی جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومت کے قانونی معاملات سے باخبرذمے دارذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے پرایکسپریس کو بتایا کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کے لیے اس وقت تک صوبائی حکومت کی جانب سے جو بھی کوششیں کی گئی ہے وہ ناصرف18ویں ترمیم کے بعد کے قانون کو نظر میں رکھتے ہوئے کی گئی بلکہ مختلف مواقع پر پولیس سے متعلق آنے والے عدالتی فیصلوں کی روشنی میں کی گئی تھیں۔
18ویں ترمیم کے تحت صوبائی حکومت امن وامان اور پولیس کے معاملے میں بااختیار ہے اس لیے وہ اپنی مرضی سے آئی جی مقرر کرسکتی ہے جبکہ اس سے قبل سابق اے آئی جی کراچی شاہد حیات کے خلاف اس وقت اے ڈی خواجہ کی جانب سے عدالت میں داخل کی گئی پٹیشن پر آنے والے فیصلے کی روشنی میں بھی اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی کیونکہ اس دوران سردار عبدالمجید دستی 22 گریڈ میں ترقی پاچکے تھے اور وہ اے ڈی خواجہ سے زیادہ آئی جی کی پوسٹ کے لیے اہل ہے مگر ان معاملات پر ہائی کورٹ کا فیصلہ آگیا اور خصوصی طور پر اے ڈی خواجہ کو اختیارات دیکر پولیس رولز میں تبدیلی کے لیے کہا گیا جس کے تحت صوبائی حکومت کے وہ اختیار بھی آئی جی سندھ کے پاس چلے گئے جس کے تحت وہ 16گریڈ سے اوپر کے افسران کی تقرری اور تبدیلی کرتی تھی جبکہ افسران کے کسی پوسٹ پر تقرری کی مدت مقررہ سے متعلق رولز بھی مخصوص کرکے صوبائی حکومت کو بے اختیار کیا گیا۔
عدالتی احکام کی روشنی میں آئی جی سندھ پولیس نے پولیس رولز تیارکرکے جو صوبائی حکومت کو پیش کیے اس پر صوبائی حکومت نے کابینہ کے فیصلے کے روشنی میں پولیس رولز میں دوبارہ تبدیلی کرکے مسودہ پیش کرنے کے لیے واپس آئی جی سندھ کو ارسال کردیا جس میں سفارشات بھی شامل تھی مگرکابینہ اجلاس کے موقع پرآئی جی سندھ کی جانب سے وہی مسودہ دوبارہ صوبائی حکومت کو دیاگیا جس کے باؑعث کابینہ اجلاس میں پولیس رولز کے حوالے سے ایجنڈا نہیں رکھا گیا،اب آئی جی سندھ نے عدالتی احکام کے فیصلے کے تحت پولیس رولز اوراصلاحات کے حوالے سے کام مکمل کرلیاہے توصوبائی حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے پر کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیئے لیکن اس کے باجود وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ کو ہٹانے کے حوالے سے 30دسمبر 2017 کو لکھے جانے والے خط کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
ذرائع کہتے ہے کہ اس باربھی صوبائی حکومت کو مثبت جواب نہیں ملا تو صوبے کے حق کے لیے اعلی سطح پر قانونی جنگ کی جائے گی جس میں صوبائی حکومت کے اختیارات کو محدود کرنے والے عدالتی فیصلوں اور وفاقی حکومت کے اقدامات کے خلاف قانونی موقف اختیار کیا جائے گا، ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے نہ صرف اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ اس کی جانب سے تیار کیے جانیوالے پولیس رولز کے مسودے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے تحت آئی جی سندھ کو ایک بار پھر پرانے رولز کے مطابق گریڈ 16کے افسران کے تقرری اور تبادلوں کے اختیارات تک محدود کردیا جائے گا جبکہ 16گریڈ سے بالا افسران کے اختیارات صوبائی حکومت کو واپس کردیے جائینگے، آئی جی کے نہ ہٹنے کی صورت میں پولیس رولز میں تبدیلی کا معاملہ بھی تعطل کا شکار ہوجائے گا۔
دوسری جانب سندھ پولیس کے افسران کا کہنا ہے کہ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے میں وفاقی ادارے خصوصا کراچی آپریشن میں اہم کردار ادا کرنے والے ادارے نا خوش ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اے ڈی خواجہ کو تبدیل کیا جائے یہی سبب ہے کہ 30دسمبر کو صوبائی حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت کو لکھے جانیوالے خط کا جواب نہیں دیا۔