ذوالفقار علی بھٹو ایک جہدِ مسلسل
آج بھی اگر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے تو یہ ذوالفقار علی بھٹو کی کاوشوں، کوششوں اور قربانیوں کا ثمرہے۔
NEW YORK:
یوں تو پاکستان میں موروثی سیاست اور موروثی سیاسی خاندانوں کی کمی نہیں، مگر سندھ کا بھٹو خاندان وہ خاندان ہے جس کے سر پر حکومت کا تاج قیام پاکستان سے بھی قبل سے ہے۔ اس خاندان کے سب سے پہلے وزیر اعظم کا اعزاز ذوالفقار علی بھٹو کے والد اور بینظیر بھٹو کے دا دا سر شاہنواز بھٹو کو حاصل ہے جو کہ قیام پاکستان سے قبل گجرات کے دیوان اور وزیر اعظم رہے۔ انہی کے گھر میں 5 جنوری 1928 کو ذوالفقار علی بھٹو کی پیدائش ہوئی۔ ذوالفقار نے لنکنز ان سے بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی، وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل اور پروفیسر بھی رہے۔ ملک کے اندر جب ایوب خان کی حکومت قائم ہوئی تو بھٹو کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے انہیں وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔ غالباً یہ 1963 کا سال تھا، پھر تاشقند کے معاہدے کے دوران ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے جدا ہو کر اپنی علیحدہ سیاست شروع کر دی۔
بھٹو نے 1967 میں عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور اپنی سیاسی جماعت ''پاکستان پیپلز پارٹی'' کی بنیاد رکھ دی۔ کچھ ہی سالوں بعد 1970 میں ہونے والے انتخابات میں ان کی جماعت نے بھاری اکثریت حاصل کرلی جس کے بعد بھٹو نے وزیراعظم پاکستان کا منصب سنبھال لیا۔ بھٹو نے غریب عوام کے حقوق کی جنگ شروع کی جس سے مزدوروں، کسانوں اور طلبا کو نا صرف طاقت ملی بلکہ ملک کے اندر خوشحالی کے نئے سفر کا آغاز ہوا۔
1971 میں بھارت سے ہونے والی جنگ جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا اور ہمارے 93 ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے، ان قیدیوں کو واپس لانا اور بھارت کے قبضے میں چلی جانے والی 5 ہزار اسکوائر میل زمین کو واگذار کرانا ان کا قابل قدر کارنامہ تھا جسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس، اسلامی بینک کا قیام، پاکستان اسٹیل مل، معاشی پالیسی اور مزدور کسان پالیسی وغیرہ ان کے بہترین کارناموں میں شامل ہیں جس کے سبب انہیں عوام میں بھرپور مقبولیت حاصل ہوئی۔ مگر اسی کے ساتھ ساتھ بھٹو کے خلاف سازشوں کا بھی آغاز ہوا اور 1977 میں جب ایک بار پھرانتخابات ہوئے تو مذہبی جماعتوں نے پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت سے کامیابی کے باوجود ان کیخلاف احتجاجی تحریک شروع کردی جس کی بنیاد پر 5 جولائی1977 کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء نے آئین پر شب خون مار کر ملک کے اندر مارشل لاء کا نفاذ کر دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ پھر اس وقت کی عدالتوں نے انہیں احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد قصوری کے قتل کے الزام پر 4 اپریل 1979 کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔
پیپلز پارٹی کو صفہ ہستی سے مٹانے کےلیے اس کے کارکنان کو پھانسی کے پھندے پر لٹکانے، کوڑے مارنے اور انہیں پابندِ سلاسل کرنے کی سخت سزائیں سنائیں گئیں، مگر چونکہ حق حکمرانی اسی خاندان کی قسمت میں لکھا تھا لہٰذا بیگم نصرت بھٹواور محترمہ بینظیر بھٹو کی طویل جمہوری جدوجہد کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو 2 بار بینظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے اور پھر آصف علی زرداری کی صدارت کی صورت میں حکمرانی کا تاج ملا۔ اور آج بھی اگر سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے تو یہ ذوالفقار علی بھٹو کی کاوشوں، کوششوں اور قربانیوں کا ثمرہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یوں تو پاکستان میں موروثی سیاست اور موروثی سیاسی خاندانوں کی کمی نہیں، مگر سندھ کا بھٹو خاندان وہ خاندان ہے جس کے سر پر حکومت کا تاج قیام پاکستان سے بھی قبل سے ہے۔ اس خاندان کے سب سے پہلے وزیر اعظم کا اعزاز ذوالفقار علی بھٹو کے والد اور بینظیر بھٹو کے دا دا سر شاہنواز بھٹو کو حاصل ہے جو کہ قیام پاکستان سے قبل گجرات کے دیوان اور وزیر اعظم رہے۔ انہی کے گھر میں 5 جنوری 1928 کو ذوالفقار علی بھٹو کی پیدائش ہوئی۔ ذوالفقار نے لنکنز ان سے بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی، وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل اور پروفیسر بھی رہے۔ ملک کے اندر جب ایوب خان کی حکومت قائم ہوئی تو بھٹو کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے انہیں وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔ غالباً یہ 1963 کا سال تھا، پھر تاشقند کے معاہدے کے دوران ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے جدا ہو کر اپنی علیحدہ سیاست شروع کر دی۔
بھٹو نے 1967 میں عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور اپنی سیاسی جماعت ''پاکستان پیپلز پارٹی'' کی بنیاد رکھ دی۔ کچھ ہی سالوں بعد 1970 میں ہونے والے انتخابات میں ان کی جماعت نے بھاری اکثریت حاصل کرلی جس کے بعد بھٹو نے وزیراعظم پاکستان کا منصب سنبھال لیا۔ بھٹو نے غریب عوام کے حقوق کی جنگ شروع کی جس سے مزدوروں، کسانوں اور طلبا کو نا صرف طاقت ملی بلکہ ملک کے اندر خوشحالی کے نئے سفر کا آغاز ہوا۔
1971 میں بھارت سے ہونے والی جنگ جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا اور ہمارے 93 ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے، ان قیدیوں کو واپس لانا اور بھارت کے قبضے میں چلی جانے والی 5 ہزار اسکوائر میل زمین کو واگذار کرانا ان کا قابل قدر کارنامہ تھا جسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس، اسلامی بینک کا قیام، پاکستان اسٹیل مل، معاشی پالیسی اور مزدور کسان پالیسی وغیرہ ان کے بہترین کارناموں میں شامل ہیں جس کے سبب انہیں عوام میں بھرپور مقبولیت حاصل ہوئی۔ مگر اسی کے ساتھ ساتھ بھٹو کے خلاف سازشوں کا بھی آغاز ہوا اور 1977 میں جب ایک بار پھرانتخابات ہوئے تو مذہبی جماعتوں نے پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت سے کامیابی کے باوجود ان کیخلاف احتجاجی تحریک شروع کردی جس کی بنیاد پر 5 جولائی1977 کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء نے آئین پر شب خون مار کر ملک کے اندر مارشل لاء کا نفاذ کر دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ پھر اس وقت کی عدالتوں نے انہیں احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد قصوری کے قتل کے الزام پر 4 اپریل 1979 کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔
پیپلز پارٹی کو صفہ ہستی سے مٹانے کےلیے اس کے کارکنان کو پھانسی کے پھندے پر لٹکانے، کوڑے مارنے اور انہیں پابندِ سلاسل کرنے کی سخت سزائیں سنائیں گئیں، مگر چونکہ حق حکمرانی اسی خاندان کی قسمت میں لکھا تھا لہٰذا بیگم نصرت بھٹواور محترمہ بینظیر بھٹو کی طویل جمہوری جدوجہد کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو 2 بار بینظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے اور پھر آصف علی زرداری کی صدارت کی صورت میں حکمرانی کا تاج ملا۔ اور آج بھی اگر سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے تو یہ ذوالفقار علی بھٹو کی کاوشوں، کوششوں اور قربانیوں کا ثمرہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔