ماریہ طور میں عالمی چیمپئن بننے کی پوری صلاحیت ہے جوناتھن پاور
پاکستانی اسکواش کی’’چنگیز خان‘‘ کینیڈا میں زیرتربیت،4 برس میں بال کاٹ کر بھائی کے کپڑے پہن لیے، خصوصی رپورٹ
22 سالہ ماریہ طور پکے پاکستان میں اسکواش کی بہترین خواتین کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔
ان دنوں وہ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں سابق عالمی چیمپئن جوناتھن پاور کی اکیڈمی میں زیر تربیت ہیں، پاور کا کہنا ہے کہ ماریہ میں عالمی چیمپئن بننے کی پوری صلاحیت ہے اور جلد ہی وہ یہ مقام حاصل کر سکتی ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقے سے ٹورنٹو تک کا یہ سفر ماریہ کے لیے آسان نہیں رہا،لڑکیوں کا کھیلنا تو دور ان کے علاقے میں گھر کے کسی مرد کے بغیر باہر نکلنا بھی بُرا سمجھا جاتا ہے لیکن ماریہ بچپن سے ہی اپنے بھائیوں کی طرح باہر گھومنا اور کھیلنا چاہتی تھیں۔
ایک دن جب ان کے والدین گھر پر نہیں تھے تو ماریہ نے اپنے بال کاٹ لیے اور بھائی کے کپڑے پہن کر زنانہ ملبوسات کو آگ لگا دی،اس وقت ان کی عمر محض چار سال تھی، گھر واپسی پر یہ حالت دیکھ کر ان کے والد ہنسنے لگے اور اس دن ماریہ کو ایک نیا نام ''چنگیز خان'' ملا، پھر تو کسی نہ کسی لڑکے سے لڑ کر آنا ماریہ کا روز کا معمول بن گیا، وہ گھر جاتیں تو ان کے ہاتھ پاؤں چھلے ہوئے ہوتے اور آنکھ اور چہرے پر چوٹیں لگی ہوتیں۔
ماریہ کے والد شمس القیوم کا خاندان قبائلی علاقے سے پشاور میں منتقل ہوگیا لیکن ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ایسے میں جب ماریہ نے اسکواش میں دلچسپی ظاہر کی تو والد ایک ایسی اکیڈمی لے گئے جس کا انتظام پاکستانی فضائیہ کرتی تھی، یہاں بھی شمس نے ماریہ کو اپنے بیٹے کے طور پر ہی متعارف کرایا لیکن جب پیدائش کا سرٹیفکیٹ طلب کیا گیا تو مجبوراً حقیقت بتانی پڑی، اکیڈمی کے ڈائریکٹر یہ جان کر بہت خوش ہوئے،پہلی بار لڑکی کے طور پر متعارف کرائے جانے سے ماریہ کو کوئی فرق نہیں پڑا،اسکواش اکیڈمی میں پہلے ماہ تو لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ ایک لڑکی ہیں لیکن اس کے بعد لڑکوں خاص طور پر ان سے ہارنے والوں کا رویہ بدل گیا۔
وہ قابل اعتراض زبان اور اشاروں سے انھیں پریشان کرنے لگے، ماریہ کہتی ہیں کہ ''اس وقت مجھے احساس ہواکہ میں ایک لڑکی ہوں''اس کے بعد انھوں نے اپنے بھائی کو اسکواش کی تربیت دینا شروع کی، وہ ٹریننگ میں ان کا ساتھی اور مسئلے سے نمٹنے کے لیے سہارا بن گیا۔ 2004 تک ماریہ پاکستان کی ٹاپ رینکنگ کھلاڑی بن چکی تھیں،2007 میں مصر میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں انھوں نے اچھی کارکردگی پیش کرتے ہوئے کئی بہتر درجہ بندی والے کھلاڑیوں کو شکست دی، یہ بڑھتی ہوئی شہرت ایک تیز تلوار تھی اور ان کے والد کو دھمکیاں ملنے لگیں۔
شمس القیوم کہتے ہیں کہ ''میری کار کے شیشے پر ایک خط چپکا ہوا ملا جس میں کہا گیا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو اسکواش کھیلنے سے روکوں کیونکہ یہ غیر اسلامی ہے، مجھے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی گئی'' اس کے بعد ماریہ گھر پر رہ کر ہی مشق کرنے لگیں، پاکستانی اسکواش فیڈریشن نے یہ معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے اٹھایا اور ماریہ کو حکومت نے سیکیورٹی فراہم کی، اس کے باوجود بھی ان کا ڈر ختم نہ ہوا۔کھیل کے لیے بیٹی کی لگن دیکھ کر شمس القیوم نے کہا کہ ''اگر تم اسکواش کھیلنا چاہتی ہو تو ملک چھوڑ دو یہی ایک راستہ ہے''۔
اس کے بعد تقریباً ساڑھے تین سال تک ماریہ نے کسی مغربی ملک میں تربیت حاصل کرنے کی خواہش کے تحت ہزاروں ای میلز کیں،انہوں نے تمام اسکواش اکیڈمیز، کالجز، یونیورسٹیز، کلبز، اسکولز سمیت ہر اس جگہ ای میل بھیجی جہاں اسکواش کورٹ تھا،ان میں سے ایک ای میل اسکواش کے سابق عالمی چیمپئن جوناتھن پاور تک بھی پہنچی، انھوں نے کہا کہ ماریہ نے لکھا تھا کہ وہ کن مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کھیل رہی ہے اور دنیا کی سب سے اچھی کھلاڑی بننا چاہتی ہے، جوناتھن کے مطابق خود وہ جہانگیر خان جیسے پاکستانی کھلاڑیوں سے بہت متاثر تھے لیکن انھیں یقین نہیں تھا کہ وہاں سے کوئی خاتون کھلاڑی بھی آ سکتی ہے۔
ان کی ساتھی نے بتایا کہ ماریہ ایک اچھی کھلاڑی ہیں اور ورلڈ اسکواش چیمپئن شپ میں تیسری پوزیشن پر رہی تھی، جوناتھن نے ماریہ کو کینیڈا بلوانے کا فیصلہ کیا لیکن یقین دلانے کے لیے کہ وہ مذاق نہیں کر رہے انھیں تین مرتبہ ای میل کرنی پڑی، خاندان کو چھوڑ کر اکیلے اتنی دور جانا آسان نہیں تھا اور وہ بھی ایسی جگہ جہاں وہ کسی کو جانتی بھی نہیں تھیں، شمس القیوم کے ایک دوست امریکا میں رہتے تھے، انہوں نے ماریہ کو پہلے نارتھ کیرولائنا میں اپنے گھر آنے کی دعوت دی، وہاں پہنچ کر ماریہ نے جوناتھن کو ای میل کی اور کینیڈا کا رخ کیا جہاں ہوائی اڈے پر خود وہی استقبال کے لیے موجود تھے، ماریہ نے کہاکہ اس کامیابی کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ ان کے والد کا ہے۔
شمس کہتے ہیں کہ میں نے کبھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں کوئی فرق نہیں کیا، میں چاہتا ہوں کہ ہر قبائلی لڑکی کو یہ موقع ملے، مجھے اپنی بیٹی پر بہت فخر ہے، پاکستان اور تمام مسلم دنیا کو اس پر فخر ہونا چاہیے''۔ جوناتھن کے خیال میں ماریہ میں بہترین کھلاڑی بننے کی پوری صلاحیت ہے،اب اس کے آس پاس بہت سے اچھے کھلاڑی ہیں اور جلد ہی وہ ٹاپ کھلاڑیوں میں شامل ہو سکتی ہے۔ ماریہ کو امید ہے کہ وہ پاکستان میں لڑکیوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے سلسلے میں مثال بنیں گی اور ابھی سے ہی کچھ لوگ اپنی بیٹیوں کا نام ان کے نام پر رکھنے لگے ہیں۔
ان دنوں وہ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں سابق عالمی چیمپئن جوناتھن پاور کی اکیڈمی میں زیر تربیت ہیں، پاور کا کہنا ہے کہ ماریہ میں عالمی چیمپئن بننے کی پوری صلاحیت ہے اور جلد ہی وہ یہ مقام حاصل کر سکتی ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقے سے ٹورنٹو تک کا یہ سفر ماریہ کے لیے آسان نہیں رہا،لڑکیوں کا کھیلنا تو دور ان کے علاقے میں گھر کے کسی مرد کے بغیر باہر نکلنا بھی بُرا سمجھا جاتا ہے لیکن ماریہ بچپن سے ہی اپنے بھائیوں کی طرح باہر گھومنا اور کھیلنا چاہتی تھیں۔
ایک دن جب ان کے والدین گھر پر نہیں تھے تو ماریہ نے اپنے بال کاٹ لیے اور بھائی کے کپڑے پہن کر زنانہ ملبوسات کو آگ لگا دی،اس وقت ان کی عمر محض چار سال تھی، گھر واپسی پر یہ حالت دیکھ کر ان کے والد ہنسنے لگے اور اس دن ماریہ کو ایک نیا نام ''چنگیز خان'' ملا، پھر تو کسی نہ کسی لڑکے سے لڑ کر آنا ماریہ کا روز کا معمول بن گیا، وہ گھر جاتیں تو ان کے ہاتھ پاؤں چھلے ہوئے ہوتے اور آنکھ اور چہرے پر چوٹیں لگی ہوتیں۔
ماریہ کے والد شمس القیوم کا خاندان قبائلی علاقے سے پشاور میں منتقل ہوگیا لیکن ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ایسے میں جب ماریہ نے اسکواش میں دلچسپی ظاہر کی تو والد ایک ایسی اکیڈمی لے گئے جس کا انتظام پاکستانی فضائیہ کرتی تھی، یہاں بھی شمس نے ماریہ کو اپنے بیٹے کے طور پر ہی متعارف کرایا لیکن جب پیدائش کا سرٹیفکیٹ طلب کیا گیا تو مجبوراً حقیقت بتانی پڑی، اکیڈمی کے ڈائریکٹر یہ جان کر بہت خوش ہوئے،پہلی بار لڑکی کے طور پر متعارف کرائے جانے سے ماریہ کو کوئی فرق نہیں پڑا،اسکواش اکیڈمی میں پہلے ماہ تو لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ ایک لڑکی ہیں لیکن اس کے بعد لڑکوں خاص طور پر ان سے ہارنے والوں کا رویہ بدل گیا۔
وہ قابل اعتراض زبان اور اشاروں سے انھیں پریشان کرنے لگے، ماریہ کہتی ہیں کہ ''اس وقت مجھے احساس ہواکہ میں ایک لڑکی ہوں''اس کے بعد انھوں نے اپنے بھائی کو اسکواش کی تربیت دینا شروع کی، وہ ٹریننگ میں ان کا ساتھی اور مسئلے سے نمٹنے کے لیے سہارا بن گیا۔ 2004 تک ماریہ پاکستان کی ٹاپ رینکنگ کھلاڑی بن چکی تھیں،2007 میں مصر میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں انھوں نے اچھی کارکردگی پیش کرتے ہوئے کئی بہتر درجہ بندی والے کھلاڑیوں کو شکست دی، یہ بڑھتی ہوئی شہرت ایک تیز تلوار تھی اور ان کے والد کو دھمکیاں ملنے لگیں۔
شمس القیوم کہتے ہیں کہ ''میری کار کے شیشے پر ایک خط چپکا ہوا ملا جس میں کہا گیا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو اسکواش کھیلنے سے روکوں کیونکہ یہ غیر اسلامی ہے، مجھے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی گئی'' اس کے بعد ماریہ گھر پر رہ کر ہی مشق کرنے لگیں، پاکستانی اسکواش فیڈریشن نے یہ معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے اٹھایا اور ماریہ کو حکومت نے سیکیورٹی فراہم کی، اس کے باوجود بھی ان کا ڈر ختم نہ ہوا۔کھیل کے لیے بیٹی کی لگن دیکھ کر شمس القیوم نے کہا کہ ''اگر تم اسکواش کھیلنا چاہتی ہو تو ملک چھوڑ دو یہی ایک راستہ ہے''۔
اس کے بعد تقریباً ساڑھے تین سال تک ماریہ نے کسی مغربی ملک میں تربیت حاصل کرنے کی خواہش کے تحت ہزاروں ای میلز کیں،انہوں نے تمام اسکواش اکیڈمیز، کالجز، یونیورسٹیز، کلبز، اسکولز سمیت ہر اس جگہ ای میل بھیجی جہاں اسکواش کورٹ تھا،ان میں سے ایک ای میل اسکواش کے سابق عالمی چیمپئن جوناتھن پاور تک بھی پہنچی، انھوں نے کہا کہ ماریہ نے لکھا تھا کہ وہ کن مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کھیل رہی ہے اور دنیا کی سب سے اچھی کھلاڑی بننا چاہتی ہے، جوناتھن کے مطابق خود وہ جہانگیر خان جیسے پاکستانی کھلاڑیوں سے بہت متاثر تھے لیکن انھیں یقین نہیں تھا کہ وہاں سے کوئی خاتون کھلاڑی بھی آ سکتی ہے۔
ان کی ساتھی نے بتایا کہ ماریہ ایک اچھی کھلاڑی ہیں اور ورلڈ اسکواش چیمپئن شپ میں تیسری پوزیشن پر رہی تھی، جوناتھن نے ماریہ کو کینیڈا بلوانے کا فیصلہ کیا لیکن یقین دلانے کے لیے کہ وہ مذاق نہیں کر رہے انھیں تین مرتبہ ای میل کرنی پڑی، خاندان کو چھوڑ کر اکیلے اتنی دور جانا آسان نہیں تھا اور وہ بھی ایسی جگہ جہاں وہ کسی کو جانتی بھی نہیں تھیں، شمس القیوم کے ایک دوست امریکا میں رہتے تھے، انہوں نے ماریہ کو پہلے نارتھ کیرولائنا میں اپنے گھر آنے کی دعوت دی، وہاں پہنچ کر ماریہ نے جوناتھن کو ای میل کی اور کینیڈا کا رخ کیا جہاں ہوائی اڈے پر خود وہی استقبال کے لیے موجود تھے، ماریہ نے کہاکہ اس کامیابی کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ ان کے والد کا ہے۔
شمس کہتے ہیں کہ میں نے کبھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں کوئی فرق نہیں کیا، میں چاہتا ہوں کہ ہر قبائلی لڑکی کو یہ موقع ملے، مجھے اپنی بیٹی پر بہت فخر ہے، پاکستان اور تمام مسلم دنیا کو اس پر فخر ہونا چاہیے''۔ جوناتھن کے خیال میں ماریہ میں بہترین کھلاڑی بننے کی پوری صلاحیت ہے،اب اس کے آس پاس بہت سے اچھے کھلاڑی ہیں اور جلد ہی وہ ٹاپ کھلاڑیوں میں شامل ہو سکتی ہے۔ ماریہ کو امید ہے کہ وہ پاکستان میں لڑکیوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے سلسلے میں مثال بنیں گی اور ابھی سے ہی کچھ لوگ اپنی بیٹیوں کا نام ان کے نام پر رکھنے لگے ہیں۔